ایک سادہ سا سوال ہے۔ کرنا یہ ہے کہ اس جملے کے آگے پیچھے کی کہانی بتانی ہے اپنے الفاظ میں۔
دل کے کئی گوشے اب بھی لہو لہو تھے
تم ہراس جذبوں پر دل کی راہ مت کھولو
یہ لہو کے ریشم سے سرخیاں چراتے ہیں
25
اگست 2024 کو صرف ایک دن میں اس مقابلہ بازی کے دوران ستر سے زائد افراد موت کی وادی میں چلے گئے، ہمارا رویہ یہ ہے ہم ٹریفک حادثات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے چاہے ایک حادثے میں چالیس افراد ہی کیوں ناں جاں بحق ہو جائیں، ہاں دہشت گردی کے واقعہ پر ہماری حکومت اور خود عوام کی سوئی ہوئی روح بیدار ہو جاتی ہے، حالانکہ دونوں میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے اور دونوں صورتوں میں ہمیں اس رجحان پر فوری توجہ دے کر اسے کم سے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، 25 اگست کو ٹریفک کے دو بڑے حادثات میں چالیس افراد لقمۂاجل بن گئے۔ کہوٹہ اور لسبیلہ میں زائرین کی دو بسیں حادثات کا شکار ہوئیں، دونوں ڈرائیوروں کی جلد بازی کے باعث بسیں کھائی میں جا گریں۔ لسبیلہ حادثے میں مرنے والے گیارہ افراد کا تعلق پنجاب سے تھا جبکہ کہوٹہ سے راولپنڈی آنے والی بد قسمت بس میں سوار 29
افراد کشمیری تھے جو سب موت کی وادی میں چلے گئے
اب اگر کوئی یہ رائے دیتا ہے کہ واقعہ اچانک ہوا ہے اور اتفاقی ہے تو اس کی ہٹ دھرمی بلکہ بے شرمی پر تین حرف بھیجنے کو جی چاہتا ہے۔
ایسے واقعات کی ذمہ داری مختلف گروپ قبول کر لیتے ہیں، ان کے خلاف موثر کارروائی ہوتی ہے اور نہ ایکشن لیا جاتا ہے۔
ان واقعات پر دل کے کئی گوشے تو کیا پورا دل لہو لہو ہے ۔۔۔
اور رہے گا کہ ہم کس حد تک گراوٹ کا شکار ہیں ۔۔۔
اس وقت ایک عام آدمی بھی اس عدم تحفظ کا شکار ہے کہ قانون کی عملداری کم ہو گئی ہے اور جان و مال کی حفاظت میں ریاستی ادارے نا کام ہو گئے ہیں۔