سازش کا جھوٹا بیانیہ، پھر راہ فرار، سول ملٹری قیادت کو نامناسب القاب دیئے، ہم نے ملکی مفاد میں حوصلے کا مظاہرہ کیا، صبر کی بھی حد ہے، آرمی چیف

جاسم محمد

محفلین
پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس میں پی ٹی آئی و ق لیگ حکمران جماعتیں ہیں۔ آپ تبدیلی لا کر دکھا دیں۔
حقیقی تبدیلی کیلئے حقیقی ریفارمز کی ضرورت ہے۔ اور جب تک ہر حکومت کے معاملات میں آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈرز، عدلیہ، مختلف طاقتور مافیاز مداخلت کر رہے ہیں، کوئی بھی بڑی تبدیلی لانا ناممکن ہے۔ آپ کو اچھی طرح یاد ہے جب عمرانی دور میں پنجاب میں قبضہ مافیاز کیخلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا تھا تو کس طرح عدلیہ نے ان بڑے بڑے مگر مچھوں کو بچانے کیلئے اسٹے آرڈر جاری کئے تھے۔ جب چینی کی فیکٹریوں کیخلاف کریک ڈاؤن ہوا تھا تو کیسے عدلیہ نے اس مافیا کی سہولت کاری کرتے ہوئے اسٹے دیا تھا۔ اسی طرح جب جنرل باجوہ کے سمدھی کے پارٹنر علیم خان کا کوئی زمینوں کا مسئلہ پھنسا ہوا تھا تو کس طرح جنرل باجوہ عمران خان کو بزدار کی جگہ علیم خان کو وزیر اعلی بنانے کیلئے دباؤ ڈالتا تھا۔ اور بھی بہت سارے معاملات ہیں جو آپ کو میرے سے بہتر معلوم ہیں۔ اگر حقیقی تبدیلی دیکھنی ہے تو پھر حکومت کو پورے اختیار بھی دینے پڑیں گے۔ حکومتی معاملات کے درمیان میں سے عدلیہ، ایجنسیز، اسٹیبلشمنٹ و مافیاز کی مداخلت کو باہر نکالیں پہلے۔
 

علی وقار

محفلین
حقیقی تبدیلی کیلئے حقیقی ریفارمز کی ضرورت ہے۔ اور جب تک ہر حکومت کے معاملات میں آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈرز، عدلیہ، مختلف طاقتور مافیاز مداخلت کر رہے ہیں، کوئی بھی بڑی تبدیلی لانا ناممکن ہے۔ آپ کو اچھی طرح یاد ہے جب عمرانی دور میں پنجاب میں قبضہ مافیاز کیخلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا تھا تو کس طرح عدلیہ نے ان بڑے بڑے مگر مچھوں کو بچانے کیلئے اسٹے آرڈر جاری کئے تھے۔ جب چینی کی فیکٹریوں کیخلاف کریک ڈاؤن ہوا تھا تو کیسے عدلیہ نے اس مافیا کی سہولت کاری کرتے ہوئے اسٹے دیا تھا۔ اسی طرح جب جنرل باجوہ کے سمدھی کے پارٹنر علیم خان کا کوئی زمینوں کا مسئلہ پھنسا ہوا تھا تو کس طرح جنرل باجوہ عمران خان کو بزدار کی جگہ علیم خان کو وزیر اعلی بنانے کیلئے دباؤ ڈالتا تھا۔ اور بھی بہت سارے معاملات ہیں جو آپ کو میرے سے بہتر معلوم ہیں۔ اگر حقیقی تبدیلی دیکھنی ہے تو پھر حکومت کو پورے اختیار بھی دینے پڑیں گے۔ درمیان میں عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ و مافیاز کی مداخلت کو باہر نکالیں
جب آپ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹوں عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کے کندھوں پر بیٹھ کر آئیں گے تو پھر تبدیلی کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ جب آپ نظریاتی کارکنوں کو پارٹی سے نکال دیں گے تو پھر حقیقی تبدیلی کا چورن بیچنا ترک کر دیں۔ حقیقی تبدیلی کے لیے شعور بیداری کی تحریک اہم ہوتی ہے۔ اس کے بغیر جو کچھ ہوتا ہے، وہ کھوکھلے نعرے اور تضاد بیانی ہوتی ہے۔ :) آپ نے اقتدار کے مزے لُوٹنے ہیں اور مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا ہے تو پھر انجام دوبارہ وہی ہو گا جو کہ ہو چکا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب آپ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹوں عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کے کندھوں پر بیٹھ کر آئیں گے تو پھر تبدیلی کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ جب آپ نظریاتی کارکنوں کو پارٹی سے نکال دیں گے تو پھر حقیقی تبدیلی کا چورن بیچنا ترک کر دیں۔ حقیقی تبدیلی کے لیے شعور بیداری کی تحریک اہم ہوتی ہے۔ اس کے بغیر جو کچھ ہوتا ہے، وہ کھوکھلے نعرے اور تضاد بیانی ہوتی ہے۔ :) آپ نے اقتدار کے مزے لُوٹنے ہیں اور مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا ہے تو پھر انجام دوبارہ وہی ہو گا جو کہ ہو چکا ہے۔
ہر اچھا کام پہلے چھوٹے پیمانہ سے شروع ہوتا ہے۔ ماڈل کالونی، ماڈل ٹاؤن، ماڈل سٹی، ماڈل ڈسٹرکٹ، ماڈل صوبہ اور پھر ماڈل ملک بنتا ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے پاکستان میں ایسا کوئی پائلٹ پراجیکٹ نہیں دیکھا جو کامیاب ہوا ہو اور پھر ملک کے دیگر حصوں میں کاپی کیا گیا ہو۔ پاکستانیوں نے ۱۹۴۷ سے لیکر اب تک زیادہ سے زیادہ ایک ماڈل شہر اسلام آباد بنا لیا۔ زیادہ سے زیادہ ایک ماڈل ڈیم تربیلا بنا لیا۔ ایک ماڈل سڑک موٹروے بنا لی۔ بس اس سے زیادہ کی چاہت نہیں یا اہلیت نہیں۔ جو وسائل تھے وہ نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں جھونک دیے بجائے صنعتیں لگانے کے۔ اب سب ملکر ملک دیوالیہ ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ۷۵ سال میں جو بویا وہ کاٹنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ 😔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ نے رمزیہ انداز میں بتا دیا کہ جن کا یہ ملک ہے۔ :) ابھی تک اُن کا ہی ہے۔ :)
عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر ان سے یہ ملک واپس لے سکتے ہیں۔ مگر اس کیلئے آنسو گیس و گولی کھانی پڑے گی بنگالیوں کی طرح۔ پھر شاید حالات بہت خراب ہونے پر کسی دوسرے ملک یا ممالک کی مداخلت ہوگی اور پاکستان بالآخر بوٹ مافیا کے قبضہ سے آزاد ہو جائے گا۔ اور اپنے حقیقی مالکوں یعنی عوام کی ملکیت میں چلا جائے گا
 

علی وقار

محفلین
ہر اچھا کام پہلے چھوٹے پیمانہ سے شروع ہوتا ہے۔ ماڈل کالونی، ماڈل ٹاؤن، ماڈل سٹی، ماڈل ڈسٹرکٹ، ماڈل صوبہ اور پھر ماڈل ملک بنتا ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے پاکستان میں ایسا کوئی پائلٹ پراجیکٹ نہیں دیکھا جو کامیاب ہوا ہو اور پھر ملک کے دیگر حصوں میں کاپی کیا گیا ہو۔ پاکستانیوں نے ۱۹۴۷ سے لیکر اب تک زیادہ سے زیادہ ایک ماڈل شہر اسلام آباد بنا لیا۔ زیادہ سے زیادہ ایک ماڈل ڈیم تربیلا بنا لیا۔ ایک ماڈل سڑک موٹروے بنا لی۔ بس اس سے زیادہ کی چاہت نہیں یا اہلیت نہیں۔ جو وسائل تھے وہ نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں جھونک دیے بجائے صنعتیں لگانے کے۔ اب سب ملکر ملک دیوالیہ ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ۷۵ سال میں جو بویا وہ کاٹنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ 😔
یہ نہایت بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ ملک چوہدری شجاعت حسین اور آصف زرداری کے فلسفے یعنی مٹی پاؤ پالیسی اور مفاہمتی رویوں سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ انتقامی رویے زہر قاتل ہیں۔ کرپشن اس ملک کا بڑا مسئلہ ہے مگر اس ملک کو کرپشن فری کرنے کے لیے پہلے مسلم لیگ نون اور پھر تحریک انصاف کو لانچ کیا گیا اور یہ بیانیہ زور زبردستی ان کی طرف سے چلوایا گیا جو خود سر تا پا کرپشن میں لتھڑے ہیں، تاکہ ان تک عوام کے ہاتھ نہ پہنچ پائیں اور سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے رہیں۔ اب بھی اُن تک ہاتھ نہیں پہنچ پائے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ کرپشن تو ختم ہو نہیں سکتی ہے سو کم از کم آپس میں مل جل کر رہنا سیکھ لیں اور مفاہمت کریں اور جو ہو گیا، اس پر مٹی ڈالیں اور آئندہ اچھے بچے بننے کی کوشش کریں۔ یہ باتیں انقلابی اذہان کو بری لگیں گی مگر اس وقت صورت حال یہی ہے کہ جو بھی کیسز جس جماعت نے مخالفین پر بنائے، وہ غلط ثابت ہوئے یا انہیں عدالت میں ثابت نہ کیا جا سکا جس کے باعث ملک میں ہیجانی صورت حال قائم ہوئی جس سے معیشت کا پہیہ رک گیا۔ مستقبل میں کرپشن کرنا مشکل ہوتا جائے گا اگر میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا سیاسی جماعتوں کی چاپلوسی یا مخالفت سے نکل کر سچ کو سچ کہنا سیکھے۔ ماضی میں جو کچھ ہوا، اس پر مٹی ڈالنا بہتر ہے کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کچھ حاصل وصول ہو گا۔
 

علی وقار

محفلین
عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر ان سے یہ ملک واپس لے سکتے ہیں۔ مگر اس کیلئے آنسو گیس و گولی کھانی پڑے گی بنگالیوں کی طرح۔ پھر شاید حالات بہت خراب ہونے پر کسی دوسرے ملک یا ممالک کی مداخلت ہوگی اور پاکستان بالآخر بوٹ مافیا کے قبضہ سے آزاد ہو جائے گا۔ اور اپنے حقیقی مالکوں یعنی عوام کی ملکیت میں چلا جائے گا
عوام کس کے پیچھے بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے گی؟ یہاں ایسا کوئی نہیں بشمول عمران خان۔ اگر عمران اقتدار میں نہ آیا ہوتا، نظریاتی کارکن ساتھ ہوتے نہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے سابقہ یا موجودہ ایجنٹ تو پھر، کارکنوں کے ساتھ عوام بھی شاید باہر نکل ہی آتی۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہم سیاست کی باتیں اس لیے نہیں کرتے کہ ان باتوں سے کوئی حل نکل آئے گا بلکہ اس لیے کرتے ہیں تاکہ باتیں اچھی طرح سے ہضم ہو سکیں بالکل اُسی طرح جیسے کوئی بھینس اپنے ہاضمے کے لیے بیٹھ کر جگالی کرتی رہتی ہے۔
عوام الناس کو تو سیاست کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ آدھی عوام تو مارشل لاء کی حکومتوں کے گُن گاتی ہے کہ ان کے ادوار میں مہنگائی کنٹرول میں رہتی ہے اور وہ سیاست دانوں کو جونکوں سے زیادہ کچھ تصور نہیں کرتے۔ باقی آدھی عوام تو اس قدر تقسیم ہے کہ اپنے سیاسی فرقے کے سوا کسی کو پاکستانی ہی تصور نہیں کرتے۔ پاکستان میں دو بڑی پارٹیاں ہیں جن کی ہمیشہ ٹکر رہتی ہے اور وہ مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف ہیں۔
انصافیوں کے نزدیک جیالے یا پٹواری (ن لیگی ورکر) انسان ہی نہیں ہیں۔ وہ تو ایک ایک پلیٹ بریانی میں بِک جاتے ہیں۔
ن لیگی ورکرز کے نزدیک انصافی (جن کے نام ایسے ایسے رکھے ہوئے ہیں جو شریف انسان اپنی زبان پر لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا) ایک یہودی ایجنٹ اور فتنہ خان کی پیروی سے ملک و ملت کو تباہ کیے جا رہے ہیں۔
اور ان پارٹیوں کی سوشل میڈیا بریگیڈ وہ گالم گلوچ کرتے ہیں۔الامان الحفیظ ۔ کسی کی ماں بہن پر بھی رعایت رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔
عوام الناس کس کے لیے "پاور ریسٹ" کا بٹن دبائیں۔ اور کیسے دبائیں۔ جب خود اس قدر تقسیم ہیں۔ کسی ایک موقع پر انہیں اکٹھا کر کے دکھائیں۔ سوائے کرکٹ کے 😊
عام آدمی بھی پروٹوکول کو بہت برا بھلا کہتا ہے۔ جب انہی عوام میں سے کسی کو کسی سرکاری آفس میں کسی واسطے سے لائنوں کو یا کسی ضابطہ کار کو بائی پاس کرنے کا موقع ملے تو ایک لمحے کے لیے باقی عوام الناس کا نہ سوچے۔ ایک تصویر سے اندازہ لگائیں کہ ہم کہاں کہاں تک جاتے ہیں۔
20221125-094638.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
کسی ایک موقع پر انہیں اکٹھا کر کے دکھائیں۔ سوائے کرکٹ کے
ویسے اگر عمران خان سیاست کی بجائے کرکٹ کے ذریعہ قوم کو متحد کرنے کی کوشش کرتا تو آج کوئی پٹواری ہوتا نا یوتھیا 😉
اس نے سیاست میں آکر بہت بڑی غلطی کر دی۔ پہلے کیا ن لیگ و پی پی کی لڑائی کم تھی جو یہ اپنی تحریک انصاف لیکر بیچ میں کود پڑا 😂
 

علی وقار

محفلین
ویسے اگر عمران خان سیاست کی بجائے کرکٹ کے ذریعہ قوم کو متحد کرنے کی کوشش کرتا تو آج کوئی پٹواری ہوتا نا یوتھیا 😉
اس نے سیاست میں آکر بہت بڑی غلطی کر دی۔ پہلے کیا ن لیگ و پی پی کی لڑائی کم تھی جو یہ اپنی تحریک انصاف لیکر بیچ میں کود پڑا 😂
جاسم، یہ تو کمال کی بات کی ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
یہ نہایت بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ ملک چوہدری شجاعت حسین اور آصف زرداری کے فلسفے یعنی مٹی پاؤ پالیسی اور مفاہمتی رویوں سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ انتقامی رویے زہر قاتل ہیں۔ کرپشن اس ملک کا بڑا مسئلہ ہے مگر اس ملک کو کرپشن فری کرنے کے لیے پہلے مسلم لیگ نون اور پھر تحریک انصاف کو لانچ کیا گیا اور یہ بیانیہ زور زبردستی ان کی طرف سے چلوایا گیا جو خود سر تا پا کرپشن میں لتھڑے ہیں، تاکہ ان تک عوام کے ہاتھ نہ پہنچ پائیں اور سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے رہیں۔ اب بھی اُن تک ہاتھ نہیں پہنچ پائے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ کرپشن تو ختم ہو نہیں سکتی ہے سو کم از کم آپس میں مل جل کر رہنا سیکھ لیں اور مفاہمت کریں اور جو ہو گیا، اس پر مٹی ڈالیں اور آئندہ اچھے بچے بننے کی کوشش کریں۔ یہ باتیں انقلابی اذہان کو بری لگیں گی مگر اس وقت صورت حال یہی ہے کہ جو بھی کیسز جس جماعت نے مخالفین پر بنائے، وہ غلط ثابت ہوئے یا انہیں عدالت میں ثابت نہ کیا جا سکا جس کے باعث ملک میں ہیجانی صورت حال قائم ہوئی جس سے معیشت کا پہیہ رک گیا۔ مستقبل میں کرپشن کرنا مشکل ہوتا جائے گا اگر میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا سیاسی جماعتوں کی چاپلوسی یا مخالفت سے نکل کر سچ کو سچ کہنا سیکھے۔ ماضی میں جو کچھ ہوا، اس پر مٹی ڈالنا بہتر ہے کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کچھ حاصل وصول ہو گا۔
آپ کی تمام باتیں بالکل ٹھیک ہیں۔ مشرف دور کے اختتام پر تمام سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت کر کے فوج کے کردار کو ختم کر دیا تھا۔ پھر معلوم نہیں کیوں کہاں جا کر ن لیگ و پی پی میں ایسے اختلافات پیدا ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ کو پھر سے سیاست میں اپنی اسپیس بنانے کا موقع مل گیا۔ اور یوں عمران خان تیسری آپشن یا تیسرا سیاسی تجربہ ون پیج کے نام سے لانچ کر دیا گیا۔ اب وہ ہی آئی ایس آئی کا تجربہ ۱۰ سال بعد سب کیلئے درد سر بن چکا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں میں تو کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہوں پر اب کمبل مجھے نہیں چھوڑتا 😂
محمد عبدالرؤوف
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آپ کی تمام باتیں بالکل ٹھیک ہیں۔ مشرف دور کے اختتام پر تمام سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت کر کے فوج کے کردار کو ختم کر دیا تھا۔ پھر معلوم نہیں کیوں کہاں جا کر ن لیگ و پی پی میں ایسے اختلافات پیدا ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ کو پھر سے سیاست میں اپنی اسپیس بنانے کا موقع مل گیا۔ اور عمران خان کو تیسری آپشن یا تیسرے تجربہ یعنی ون پیج کے نام سے لانچ کر دیا گیا۔ اب وہ ہی تجربہ ۱۰ سال بعد سب کیلئے درد سر بن چکا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں میں تو کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہوں پر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا 😂
محمد عبدالرؤوف
مجھے تو لگتا ہے میثاقِ جمہوریت کے ردعمل کے طور پر تحریکِ انصاف کو بھان متی کا کنبہ بنایا گیا۔ جیسا کہ پہلے نئے نئے پروڈکٹس کو لانچ کیا جاتا رہا تحریکِ انصاف کو بھی بعینہٖ اسی انداز میں لانچ کیا گیا۔
پیٹرن سیم ہے۔ کچھ بھی مختلف نہیں۔ کچھ ابن الوقت ہر وقت سیاست کی بساط لپیٹنے یا لپٹوانے کے لیے ہر وقت مستعد ہوتے ہیں۔
 

علی وقار

محفلین
آپ کی تمام باتیں بالکل ٹھیک ہیں۔ مشرف دور کے اختتام پر تمام سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت کر کے فوج کے کردار کو ختم کر دیا تھا۔ پھر معلوم نہیں کیوں کہاں جا کر ن لیگ و پی پی میں ایسے اختلافات پیدا ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ کو پھر سے سیاست میں اپنی اسپیس بنانے کا موقع مل گیا۔ اور عمران خان کو تیسری آپشن یا تیسرے تجربہ یعنی ون پیج کے نام سے لانچ کر دیا گیا۔ اب وہ ہی تجربہ ۱۰ سال بعد سب کیلئے درد سر بن چکا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں میں تو کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہوں پر اب کمبل مجھے نہیں چھوڑتا 😂
محمد عبدالرؤوف
اختلاف خاک ہونے تھے، وہ معاہدہ بھی دکھاوے کا ثابت ہوا تھا۔ دراصل کوئی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کے سہارے کے بغیر سیاست کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔یہ ایک مشکل سفر ہو گا مگر کوئی اس راہ پر چلنے پر تیار نہیں۔ اگر کوئی ایسا سیاست دان نظر بھی آئے تو انکشاف ہو گا کہ وہ بھی کسی کے اشارے پر چل رہا ہے یا چل رہی ہے۔
 

علی وقار

محفلین
مجھے تو لگتا ہے میثاقِ جمہوریت کے ردعمل کے طور پر تحریکِ انصاف کو بھان متی کا کنبہ بنایا گیا۔ جیسا کہ پہلے نئے نئے پروڈکٹس کو لانچ کیا جاتا رہا تحریکِ انصاف کو بھی بعینہٖ اسی انداز میں لانچ کیا گیا۔
پیٹرن سیم ہے۔ کچھ بھی مختلف نہیں۔ کچھ ابن الوقت ہر وقت سیاست کی بساط لپیٹنے یا لپٹوانے کے لیے ہر وقت مستعد ہوتے ہیں۔
ایسا کیا گیا ہو گا مگر تحریک انصاف کی انٹری ہوتے ہی میثاق جمہوریت والوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور اسٹیبلشمنٹ سے وفاداری کے لیے کسی کو کالا کوٹ پہننا پڑا اور کسی کو این آر او لینا پڑ گیا۔ پس ثابت ہوا کہ وہ جنگیں لڑ پائیں یا نہ لڑ پائیں، سیاست دانوں کو تگنی کا ناچ نچانا وہ بخوبی جانتے ہیں۔
 
Top