ہم سیاست کی باتیں اس لیے نہیں کرتے کہ ان باتوں سے کوئی حل نکل آئے گا بلکہ اس لیے کرتے ہیں تاکہ باتیں اچھی طرح سے ہضم ہو سکیں بالکل اُسی طرح جیسے کوئی بھینس اپنے ہاضمے کے لیے بیٹھ کر جگالی کرتی رہتی ہے۔
عوام الناس کو تو سیاست کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ آدھی عوام تو مارشل لاء کی حکومتوں کے گُن گاتی ہے کہ ان کے ادوار میں مہنگائی کنٹرول میں رہتی ہے اور وہ سیاست دانوں کو جونکوں سے زیادہ کچھ تصور نہیں کرتے۔ باقی آدھی عوام تو اس قدر تقسیم ہے کہ اپنے سیاسی فرقے کے سوا کسی کو پاکستانی ہی تصور نہیں کرتے۔ پاکستان میں دو بڑی پارٹیاں ہیں جن کی ہمیشہ ٹکر رہتی ہے اور وہ مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف ہیں۔
انصافیوں کے نزدیک جیالے یا پٹواری (ن لیگی ورکر) انسان ہی نہیں ہیں۔ وہ تو ایک ایک پلیٹ بریانی میں بِک جاتے ہیں۔
ن لیگی ورکرز کے نزدیک انصافی (جن کے نام ایسے ایسے رکھے ہوئے ہیں جو شریف انسان اپنی زبان پر لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا) ایک یہودی ایجنٹ اور فتنہ خان کی پیروی سے ملک و ملت کو تباہ کیے جا رہے ہیں۔
اور ان پارٹیوں کی سوشل میڈیا بریگیڈ وہ گالم گلوچ کرتے ہیں۔الامان الحفیظ ۔ کسی کی ماں بہن پر بھی رعایت رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔
عوام الناس کس کے لیے "پاور ریسٹ" کا بٹن دبائیں۔ اور کیسے دبائیں۔ جب خود اس قدر تقسیم ہیں۔ کسی ایک موقع پر انہیں اکٹھا کر کے دکھائیں۔ سوائے کرکٹ کے 😊
عام آدمی بھی پروٹوکول کو بہت برا بھلا کہتا ہے۔ جب انہی عوام میں سے کسی کو کسی سرکاری آفس میں کسی واسطے سے لائنوں کو یا کسی ضابطہ کار کو بائی پاس کرنے کا موقع ملے تو ایک لمحے کے لیے باقی عوام الناس کا نہ سوچے۔ ایک تصویر سے اندازہ لگائیں کہ ہم کہاں کہاں تک جاتے ہیں۔