عدم صاحب کہیں عدم سے اس لڑی میں تشریف لے آئے تو اداسی ختم ہو جانی ہے۔
محمد تابش صدیقی منتظم ستمبر 28، 2017 #81 عدم صاحب کہیں عدم سے اس لڑی میں تشریف لے آئے تو اداسی ختم ہو جانی ہے۔
سید شہزاد ناصر محفلین ستمبر 28، 2017 #82 محمد تابش صدیقی نے کہا: عدم صاحب کہیں عدم سے اس لڑی میں تشریف لے آئے تو اداسی ختم ہو جانی ہے۔ مزید نمائش کے لیے کلک کریں۔۔۔ او پاء جی ایتھے سگریٹ تے چاء ای کج گھٹ نیں اس رند خرابات نے تو آتے ہی پینا پلانا شروع کر دینا ہے جیسے رندان بلانوش مل بیٹھیں جو باہم میکدے میں سفر جام بپا رہتا تھا
محمد تابش صدیقی نے کہا: عدم صاحب کہیں عدم سے اس لڑی میں تشریف لے آئے تو اداسی ختم ہو جانی ہے۔ مزید نمائش کے لیے کلک کریں۔۔۔ او پاء جی ایتھے سگریٹ تے چاء ای کج گھٹ نیں اس رند خرابات نے تو آتے ہی پینا پلانا شروع کر دینا ہے جیسے رندان بلانوش مل بیٹھیں جو باہم میکدے میں سفر جام بپا رہتا تھا
محمد تابش صدیقی منتظم ستمبر 28، 2017 #83 سید شہزاد ناصر نے کہا: او پاء جی ایتھے سگریٹ تے چاء ای کج گھٹ نیں اس رند خرابات نے تو آتے ہی پینا پلانا شروع کر دینا ہے جیسے رندان بلانوش مل بیٹھیں جو باہم میکدے میں سفر جام بپا رہتا تھا مزید نمائش کے لیے کلک کریں۔۔۔ پھر انہوں نے ایک اور غزل لکھنی تھی ساقی شراب لا کہ طبیعت بحال ہے
سید شہزاد ناصر نے کہا: او پاء جی ایتھے سگریٹ تے چاء ای کج گھٹ نیں اس رند خرابات نے تو آتے ہی پینا پلانا شروع کر دینا ہے جیسے رندان بلانوش مل بیٹھیں جو باہم میکدے میں سفر جام بپا رہتا تھا مزید نمائش کے لیے کلک کریں۔۔۔ پھر انہوں نے ایک اور غزل لکھنی تھی ساقی شراب لا کہ طبیعت بحال ہے
فرخ منظور لائبریرین اپریل 11، 2019 #84 مکمل غزل ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے رک رک کے ساز چھیڑ کہ دل مطمئن نہیں تھم تھم کے مے پلا کہ طبیعت اداس ہے چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے مجھ سے نظر نہ پھیر کہ برہم ہے زندگی مجھ سے نظر ملا کہ طبیعت اداس ہے شاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے ہے حسن کا فسوں بھی علاجِ فسردگی رخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے میں نے کبھی یہ ضد تو نہیں کی پر آج شب اے مہ جبیں نہ جا کہ طبیعت اداس ہے امشب گریز و رم کا نہیں ہے کوئی محل آغوش میں در آ کہ طبیعت اداس ہے کیفیّتِ سکوت سے بڑھتا ہے اور غم قصہ کوئی سنا کہ طبیعت اداس ہے یوں ہی درست ہوگی طبیعت تری عدمؔ کمبخت بھول جا کہ طبیعت اداس ہے توبہ تو کر چکا ہوں مگر پھر بھی اے عدمؔ تھوڑا سا زہر لا کہ طبیعت اداس ہے (عبدالحمید عدمؔ)
مکمل غزل ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے رک رک کے ساز چھیڑ کہ دل مطمئن نہیں تھم تھم کے مے پلا کہ طبیعت اداس ہے چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے مجھ سے نظر نہ پھیر کہ برہم ہے زندگی مجھ سے نظر ملا کہ طبیعت اداس ہے شاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے ہے حسن کا فسوں بھی علاجِ فسردگی رخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے میں نے کبھی یہ ضد تو نہیں کی پر آج شب اے مہ جبیں نہ جا کہ طبیعت اداس ہے امشب گریز و رم کا نہیں ہے کوئی محل آغوش میں در آ کہ طبیعت اداس ہے کیفیّتِ سکوت سے بڑھتا ہے اور غم قصہ کوئی سنا کہ طبیعت اداس ہے یوں ہی درست ہوگی طبیعت تری عدمؔ کمبخت بھول جا کہ طبیعت اداس ہے توبہ تو کر چکا ہوں مگر پھر بھی اے عدمؔ تھوڑا سا زہر لا کہ طبیعت اداس ہے (عبدالحمید عدمؔ)