سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

فاتح

لائبریرین
ایک پائوں ماضی میں ہے ایک مستقبل میں ہے
کیاکہوں روزِ ازل سے کوئی کس مشکل میں ہے

سارے ہیں مدہوش زر کے میکدہ میں اہلِ حق
اور مرجانے کی جرات لشکرِ باطل میں ہے

ایک دریا کی ہوائے دلربا ہے اور میں
یاد کی آوازِ پا بھی نغمہ ء ساحل میں ہے

حوصلہ دینے مجھے ساری خدائی آ گئی
دیکھنے آئے تھے وہ کتنی تڑپ بسمل میں ہے

مانگتا ہے جاکے بیعت ہر گلی میں خود یزید
ان دنوں ظلِ الہ بھی آدمی کے ظل میں ہے

جھک رہے ہیں’ کہ‘ جبلت میں یہی رکھا گیا
خوف کا آسیب اپنے سینہ ء بزدل میں ہے

ڈھونڈھ لینا ہے کسی دن آخرش امکان نے
موت کا جو کوڈ اپنے جین کی فائل میں ہے

دیکھنا انگلی گھمانا دھیان سے ہر مرتبہ
صفر سے پہلے کا نمبر فون کے ڈائل میں ہے

کچھ نہیں تو پھوک ہی گنے کا دے جو جل مرے
زندگی اپنی ملازم تیری شوگر مل میں ہے

بنک بیلنس بے تحاشا اور بنگلے بے شمار
یہ کرامت وقت کے ہر مرشدِ کامل میں ہے

وہ کسی میرا کے پاکیزہ الاپوں میں نہیں
جو ترنم خیز چھن چھن یار کی پائل میں ہے

ویسے رنگ و نور کے انوار پیرس میں نہیں
روشنی جو اپنی شامِ سرمئی مائل میں ہے

بول پاکستان! تیری نکہتوں کی ریل کار
کونسی وادی میں ہے اب کونسی منزل میں ہے

دور سے آواز دیتا آ رہا ہے کوئی قیس
قافلے والو رکو میرا خدا محمل میں ہے

آخرش ہونی تو ہے اک دن رسائی اُس تلک
جو مکاں اپنا زمینِ غیر مستعمل میں ہے

ایسے تو میں ہر جگہ موجود ہو سکتا نہیں
یہ کرشمہ اسمِ اللہ ذات کے عامل میں ہے

سبز ہونی چاہئے اس کی نمو ہر حال میں
اک لکیر سرخ جو چلتی خطِ فاصل ہے

کھیل کوئی ہارنے کے واسطے منصور کھیل
لطف جو لاحاصلی میں وہ کہاں حاصل میں ہے
منصور بھائی، بلا شبہ ان اشعار پر جس قدر داد دی جائے اتنی ہی کم ہے۔ اس زمین میں اتنے تر و تازہ اشعار نکالنا آپ ہی کا خاصہ ہے۔ مجھے حسد محسوس ہو رہا ہے آپ سے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
واہ واہ منصور صاحب، کیا عمدہ اشعار کہے ہیں. لاجواب غزل ہے.
ایک پائوں ماضی میں ہے ایک مستقبل میں ہے
کیاکہوں روزِ ازل سے کوئی کس مشکل میں ہے

سارے ہیں مدہوش زر کے میکدہ میں اہلِ حق
اور مرجانے کی جرات لشکرِ باطل میں ہے

ایک دریا کی ہوائے دلربا ہے اور میں
یاد کی آوازِ پا بھی نغمہ ء ساحل میں ہے

حوصلہ دینے مجھے ساری خدائی آ گئی
دیکھنے آئے تھے وہ کتنی تڑپ بسمل میں ہے

مانگتا ہے جاکے بیعت ہر گلی میں خود یزید
ان دنوں ظلِ الہ بھی آدمی کے ظل میں ہے

جھک رہے ہیں’ کہ‘ جبلت میں یہی رکھا گیا
خوف کا آسیب اپنے سینہ ء بزدل میں ہے

ڈھونڈھ لینا ہے کسی دن آخرش امکان نے
موت کا جو کوڈ اپنے جین کی فائل میں ہے

دیکھنا انگلی گھمانی دھیان سے ہر مرتبہ
صفر سے پہلے کا نمبر فون کے ڈائل میں ہے

کچھ نہیں تو پھوک ہی گنے کا دے جو جل مرے
زندگی اپنی ملازم تیری شوگر مل میں ہے

بنک بیلنس بے تحاشا اور بنگلے بے شمار
یہ کرامت وقت کے ہر مرشدِ کامل میں ہے

وہ کسی میرا کے پاکیزہ الاپوں میں نہیں
جو ترنم خیز چھن چھن یار کی پائل میں ہے

ویسے رنگ و نور کے انوار پیرس میں نہیں
روشنی جو اپنی شامِ سرمئی مائل میں ہے

بول پاکستان! تیری نکہتوں کی ریل کار
کونسی وادی میں ہے اب کونسی منزل میں ہے

دور سے آواز دیتا آ رہا ہے کوئی قیس
قافلے والو رکو میرا خدا محمل میں ہے

آخرش ہونی تو ہے اک دن رسائی اُس تلک
جو مکاں اپنا زمینِ غیر مستعمل میں ہے

ایسے تو میں ہر جگہ موجود ہو سکتا نہیں
یہ کرشمہ اسمِ اللہ ذات کے عامل میں ہے

سبز ہونی چاہئے اس کی نمو ہر حال میں
اک لکیر سرخ جو چلتی خطِ فاصل ہے

کھیل کوئی ہارنے کے واسطے منصور کھیل
لطف جو لاحاصلی میں وہ کہاں حاصل میں ہے

اور خاص طور پر یہ اشعار بہت پسند آئے.
ایک دریا کی ہوائے دلربا ہے اور میں
یاد کی آوازِ پا بھی نغمہ ء ساحل میں ہے

حوصلہ دینے مجھے ساری خدائی آ گئی
دیکھنے آئے تھے وہ کتنی تڑپ بسمل میں ہے

جھک رہے ہیں’ کہ‘ جبلت میں یہی رکھا گیا
خوف کا آسیب اپنے سینہ ء بزدل میں ہے

کیا کہنے
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک پائوں ماضی میں ہے ایک مستقبل میں ہے
کیاکہوں روزِ ازل سے کوئی کس مشکل میں ہے

سارے ہیں مدہوش زر کے میکدہ میں اہلِ حق
اور مرجانے کی جرات لشکرِ باطل میں ہے

ایک دریا کی ہوائے دلربا ہے اور میں
یاد کی آوازِ پا بھی نغمہ ء ساحل میں ہے

حوصلہ دینے مجھے ساری خدائی آ گئی
دیکھنے آئے تھے وہ کتنی تڑپ بسمل میں ہے

مانگتا ہے جاکے بیعت ہر گلی میں خود یزید
ان دنوں ظلِ الہ بھی آدمی کے ظل میں ہے

جھک رہے ہیں’ کہ‘ جبلت میں یہی رکھا گیا
خوف کا آسیب اپنے سینہ ء بزدل میں ہے

ڈھونڈھ لینا ہے کسی دن آخرش امکان نے
موت کا جو کوڈ اپنے جین کی فائل میں ہے

دیکھنا انگلی گھمانا دھیان سے ہر مرتبہ
صفر سے پہلے کا نمبر فون کے ڈائل میں ہے

کچھ نہیں تو پھوک ہی گنے کا دے جو جل مرے
زندگی اپنی ملازم تیری شوگر مل میں ہے

بنک بیلنس بے تحاشا اور بنگلے بے شمار
یہ کرامت وقت کے ہر مرشدِ کامل میں ہے

وہ کسی میرا کے پاکیزہ الاپوں میں نہیں
جو ترنم خیز چھن چھن یار کی پائل میں ہے

ویسے رنگ و نور کے انوار پیرس میں نہیں
روشنی جو اپنی شامِ سرمئی مائل میں ہے

بول پاکستان! تیری نکہتوں کی ریل کار
کونسی وادی میں ہے اب کونسی منزل میں ہے

دور سے آواز دیتا آ رہا ہے کوئی قیس
قافلے والو رکو میرا خدا محمل میں ہے

آخرش ہونی تو ہے اک دن رسائی اُس تلک
جو مکاں اپنا زمینِ غیر مستعمل میں ہے

ایسے تو میں ہر جگہ موجود ہو سکتا نہیں
یہ کرشمہ اسمِ اللہ ذات کے عامل میں ہے

سبز ہونی چاہئے اس کی نمو ہر حال میں
اک لکیر سرخ جو چلتی خطِ فاصل ہے

کھیل کوئی ہارنے کے واسطے منصور کھیل
لطف جو لاحاصلی میں وہ کہاں حاصل میں ہے
کیا کہنے منصور صاحب محترم، انتہائی شاندار اور جاندار غزل ہے، سبھی اشعار کمال کے ہیں، بہت داد قبول کیجیے حضرت۔ لاجواب
 
مدیر کی آخری تدوین:

منیر انور

محفلین
ایک دریا کی ہوائے دلربا ہے اور میں
یاد کی آوازِ پا بھی نغمہ ء ساحل میں ہے

حوصلہ دینے مجھے ساری خدائی آ گئی
دیکھنے آئے تھے وہ کتنی تڑپ بسمل میں ہے

جھک رہے ہیں’ کہ‘ جبلت میں یہی رکھا گیا
خوف کا آسیب اپنے سینہ ء بزدل میں ہے


یہ تھے جناب منصور آفاق صاحب جو اپنے عمدہ اور منفرد کلام سے مشاعرہ کو مزین کر رہے تھے۔

مشاعرہ بالآخر اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ اب میں بلا تاخیر دعوت دینا چاہوں گا مشاعرہ کے مہمانِ خصوصی جناب منیر انور صاحب کو کہ وہ آئیں اور مشاعرہ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی فرمائیں اور اپنے خوبصورت کلام سے بھی قارئینِ مشاعرہ کے ذوق کی تسکین کا سامان کریں۔


ہمارا کیا ہے کہ ہم وہ ستم ظریف ہیں جو
یقین کرتے رہے ہیں گمان پر اکثر
لکیریں ہاتھ کی اکثر بگڑ گئیں انور
ستارے ٹوٹ گئے آسمان پر اکثر
٭
یہ اور بات کہ اب مصلحت شعار ہوئے
قریب میرے بھی ورنہ کبھی رہے ہو تم
کوئی رفیق نہ منزل نہ کوئی رخت سفر
یہ کس خمار میں ، کس سمت کو چلے ہو تم
فضائیں اس کی تمہیں اب بھی یاد کرتی ہیں
کہ جس دیار میں کچھ دن رہے بسے ہو تم
استقبال کیجئے

جناب منیر انور صاحب
ایک دریا کی ہوائے دلربا ہے اور میں
یاد کی آوازِ پا بھی نغمہ ء ساحل میں ہے

حوصلہ دینے مجھے ساری خدائی آ گئی
دیکھنے آئے تھے وہ کتنی تڑپ بسمل میں ہے

جھک رہے ہیں’ کہ‘ جبلت میں یہی رکھا گیا
خوف کا آسیب اپنے سینہ ء بزدل میں ہے


یہ تھے جناب منصور آفاق صاحب جو اپنے عمدہ اور منفرد کلام سے مشاعرہ کو مزین کر رہے تھے۔

مشاعرہ بالآخر اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ اب میں بلا تاخیر دعوت دینا چاہوں گا مشاعرہ کے مہمانِ خصوصی جناب منیر انور صاحب کو کہ وہ آئیں اور مشاعرہ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی فرمائیں اور اپنے خوبصورت کلام سے بھی قارئینِ مشاعرہ کے ذوق کی تسکین کا سامان کریں۔


ہمارا کیا ہے کہ ہم وہ ستم ظریف ہیں جو
یقین کرتے رہے ہیں گمان پر اکثر
لکیریں ہاتھ کی اکثر بگڑ گئیں انور
ستارے ٹوٹ گئے آسمان پر اکثر
٭
یہ اور بات کہ اب مصلحت شعار ہوئے
قریب میرے بھی ورنہ کبھی رہے ہو تم
کوئی رفیق نہ منزل نہ کوئی رخت سفر
یہ کس خمار میں ، کس سمت کو چلے ہو تم
فضائیں اس کی تمہیں اب بھی یاد کرتی ہیں
کہ جس دیار میں کچھ دن رہے بسے ہو تم
استقبال کیجئے

جناب منیر انور صاحب

بہت شکریہ اردو محفل۔ میں سب احباب کو اس کامیاب مشاعرہ کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اچھی چیزیں پڑھنے کو ملیں۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا اور مزید بہتری آئے گی۔ کچھ اشعار پیش کرتا ہوں۔سب سے پہلے حمد رب جلیل اس کے بعد نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پھر ایک غزل پیش کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بہت عمدہ کلام منیر صاحب۔ لاجواب۔

حضورِ ربِ دو عالم غلام حاضر ہے
سب اپنے نقش لئے نا تمام حاضر ہے

یہ تیرا بندہ ، یہ سائل ترا ، ترا انور
بصد خلوص بصد احترام حاضر ہے

فقط ہے تجھ ہی سے روشن یہ کائناتِ ضمیر
حضورِ نور یہ ظلمت کی شام حاضر ہے

طلب یہ ہے کہ ملے آگہی کا سوز دروں
لئے زباں پہ مقدس کلام حاضر ہے

ترے کرم کی امیدیں سجائے پلکوں پر
مقام والے ترا بے مقام حاضر ہے
سبحان اللہ

ترے کرم کی امیدیں سجائے پلکوں پر
مقام والے ترا بے مقام حاضر ہے

نعت رسول مقبول، خاتم النبین صلى الله عليه وسلم
۔۔
نہ مال و زر نہ کلاہ و قبا سے مطلب تھا
انہیں ہمیشہ خدا کی رضا سے مطلب تھا

کسی بھی شخص سے مطلوب کچھ نہ تھا ان کو
فقط کرم سے غرض تھی ، عطا سے مطلب تھا

کچھ اور چاہتے کب تھے خدا کے بندوں سے
خدا کی راہ میں ان کی وفا سے مطلب تھا

رسولِ پاک انہیں لائے راستی کی طرف
کہ جن کو ظلم سے، کذب و ریا سے مطلب تھا

وہ برگزیدہ پیمبر وہ منتخب بندے
انہیں کہاں کسی حرص و ہوا سے مطلب تھا

کیا معاف سبھی کو فقط خدا کے لئے
انہیں سزا کی بجائے ہُدیٰ سے مطلب تھا
سبحان اللہ کس خوبصورتی سے رحمۃ اللعالمینؐ کا مفہوم بیان کیا ہے۔

کیا معاف سبھی کو فقط خدا کے لئے
انہیں سزا کی بجائے ہُدیٰ سے مطلب تھا

حالات حاضرہ پر چند اشعار
۔۔۔
بغض دلوں میں بھرتے ہو کچھ شرم کرو
ڈالر، پونڈ پہ مرتے ہو کچھ شرم کرو

اپنے گھر پر، اپنے لوگوں پر لوگو
کیا کیا تہمت دھرتے ہو کچھ شرم کرو

جس تھالی میں کھاتے عمر گذاری ہے
چھید اسی میں کرتے ہو کچھ شرم کرو
بہت عمدہ حسبِ حال۔

آخر میں ایک غزل کے ساتھ اجازت چاہوں گا

تو اگر پیاس آشنا ہوتا
میرا صحرا ہرا بھرا ہوتا
خامشی باوقار ہے جیسے
معتبر تیرا بولنا ہوتا
اختلافی بیان سے پہلے
کاش تم نے مجھے سنا ہوتا
سوچ کر بولتے تو ممکن ہے
جو ہوا ہے نہیں ہوا ہوتا
حاسدوں کی کہاں کمی تھی ہمیں
تم نہ ہوتے تو دوسرا ہوتا
عمر بھر گھر جلائے ظالم نے
کسی دل کا سکوں رہا ہوتا
کم نسب دشمنوں سے مل بیٹھا
اس سے اچھا تھا مر گیا ہوتا
کائنات ضمیر زندہ ہے
ورنہ میں تیرا ہم نوا ہوتا
تیرے ہونٹوں پہ مہر ہوتی اگر
میرے ہاتھوں میں آئینہ ہوتا
در بہ در خاک چھاننے والے
مجھ سے پیمان کر لیا ہوتا
وہ میسر نہیں رہا ورنہ
میں اسے کب کا کھو چکا ہوتا
کس قدر سوچتے ہو تم انور
ارے اظہار کر دیا ہوتا
بہت عمدہ غزل۔ خاص طور پر یہ اشعار بہت پسند آئے۔

خامشی باوقار ہے جیسے
معتبر تیرا بولنا ہوتا

سوچ کر بولتے تو ممکن ہے
جو ہوا ہے نہیں ہوا ہوتا

تیرے ہونٹوں پہ مہر ہوتی اگر
میرے ہاتھوں میں آئینہ ہوتا
 

محمد وارث

لائبریرین
جناب صدر کی اجازت سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضورِ ربِ دو عالم غلام حاضر ہے
سب اپنے نقش لئے نا تمام حاضر ہے

یہ تیرا بندہ ، یہ سائل ترا ، ترا انور
بصد خلوص بصد احترام حاضر ہے

فقط ہے تجھ ہی سے روشن یہ کائناتِ ضمیر
حضورِ نور یہ ظلمت کی شام حاضر ہے

طلب یہ ہے کہ ملے آگہی کا سوز دروں
لئے زباں پہ مقدس کلام حاضر ہے

ترے کرم کی امیدیں سجائے پلکوں پر
مقام والے ترا بے مقام حاضر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت رسول مقبول، خاتم النبین صلى الله عليه وسلم
۔۔
نہ مال و زر نہ کلاہ و قبا سے مطلب تھا
انہیں ہمیشہ خدا کی رضا سے مطلب تھا

کسی بھی شخص سے مطلوب کچھ نہ تھا ان کو
فقط کرم سے غرض تھی ، عطا سے مطلب تھا

کچھ اور چاہتے کب تھے خدا کے بندوں سے
خدا کی راہ میں ان کی وفا سے مطلب تھا

رسولِ پاک انہیں لائے راستی کی طرف
کہ جن کو ظلم سے، کذب و ریا سے مطلب تھا

وہ برگزیدہ پیمبر وہ منتخب بندے
انہیں کہاں کسی حرص و ہوا سے مطلب تھا

کیا معاف سبھی کو فقط خدا کے لئے
انہیں سزا کی بجائے ہُدیٰ سے مطلب تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالات حاضرہ پر چند اشعار
۔۔۔
بغض دلوں میں بھرتے ہو کچھ شرم کرو
ڈالر، پونڈ پہ مرتے ہو کچھ شرم کرو

اپنے گھر پر، اپنے لوگوں پر لوگو
کیا کیا تہمت دھرتے ہو کچھ شرم کرو

جس تھالی میں کھاتے عمر گذاری ہے
چھید اسی میں کرتے ہو کچھ شرم کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں ایک غزل کے ساتھ اجازت چاہوں گا
۔۔۔

تو اگر پیاس آشنا ہوتا میرا صحرا ہرا بھرا ہوتا
خامشی باوقار ہے جیسے معتبر تیرا بولنا ہوتا
اختلافی بیان سے پہلے کاش تم نے مجھے سنا ہوتا
سوچ کر بولتے تو ممکن ہے جو ہوا ہے نہیں ہوا ہوتا
حاسدوں کی کہاں کمی تھی ہمیں تم نہ ہوتے تو دوسرا ہوتا
عمر بھر گھر جلائے ظالم نے کسی دل کا سکوں رہا ہوتا
کم نسب دشمنوں سے مل بیٹھا اس سے اچھا تھا مر گیا ہوتا
کائنات ضمیر زندہ ہے ورنہ میں تیرا ہم نوا ہوتا
تیرے ہونٹوں پہ مہر ہوتی اگر میرے ہاتھوں میں آئینہ ہوتا
در بہ در خاک چھاننے والے مجھ سے پیمان کر لیا ہوتا
وہ میسر نہیں رہا ورنہ میں اسے کب کا کھو چکا ہوتا
کس قدر سوچتے ہو تم انور ارے اظہار کر دیا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت شکریہ محفلین۔ اللہ حافظ

تو اگر پیاس آشنا ہوتا
میرا صحرا ہرا بھرا ہوتا

خامشی باوقار ہے جیسے
معتبر تیرا بولنا ہوتا

اختلافی بیان سے پہلے
کاش تم نے مجھے سنا ہوتا

سوچ کر بولتے تو ممکن ہے
جو ہوا ہے نہیں ہوا ہوتا

حاسدوں کی کہاں کمی تھی ہمیں
تم نہ ہوتے تو دوسرا ہوتا

عمر بھر گھر جلائے ظالم نے
کسی دل کا سکوں رہا ہوتا

کم نسب دشمنوں سے مل بیٹھا
اس سے اچھا تھا مر گیا ہوتا

کائنات ضمیر زندہ ہے
ورنہ میں تیرا ہم نوا ہوتا

تیرے ہونٹوں پہ مہر ہوتی اگر
میرے ہاتھوں میں آئینہ ہوتا

در بہ در خاک چھاننے والے
مجھ سے پیمان کر لیا ہوتا

وہ میسر نہیں رہا ورنہ
میں اسے کب کا کھو چکا ہوتا

کس قدر سوچتے ہو تم انور
ارے اظہار کر دیا ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ محفلین۔ اللہ حافظ

لاجواب کلام ہے منیر صاحب، نعتیں اور غزلیں دونوں ہی بہت خوب ہیں۔ بہت داد قبول کیجیے محترم۔
 

منیر انور

محفلین
بہت عمدہ کلام منیر صاحب۔ لاجواب۔


سبحان اللہ

ترے کرم کی امیدیں سجائے پلکوں پر
مقام والے ترا بے مقام حاضر ہے


سبحان اللہ کس خوبصورتی سے رحمۃ اللعالمینؐ کا مفہوم بیان کیا ہے۔

کیا معاف سبھی کو فقط خدا کے لئے
انہیں سزا کی بجائے ہُدیٰ سے مطلب تھا


بہت عمدہ حسبِ حال۔


بہت عمدہ غزل۔ خاص طور پر یہ اشعار بہت پسند آئے۔

خامشی باوقار ہے جیسے
معتبر تیرا بولنا ہوتا

سوچ کر بولتے تو ممکن ہے
جو ہوا ہے نہیں ہوا ہوتا

تیرے ہونٹوں پہ مہر ہوتی اگر
میرے ہاتھوں میں آئینہ ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ برادر
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک پائوں ماضی میں ہے ایک مستقبل میں ہے
کیاکہوں روزِ ازل سے کوئی کس مشکل میں ہے

سارے ہیں مدہوش زر کے میکدہ میں اہلِ حق
اور مرجانے کی جرات لشکرِ باطل میں ہے

ایک دریا کی ہوائے دلربا ہے اور میں
یاد کی آوازِ پا بھی نغمہ ء ساحل میں ہے

حوصلہ دینے مجھے ساری خدائی آ گئی
دیکھنے آئے تھے وہ کتنی تڑپ بسمل میں ہے

مانگتا ہے جاکے بیعت ہر گلی میں خود یزید
ان دنوں ظلِ الہ بھی آدمی کے ظل میں ہے

جھک رہے ہیں’ کہ‘ جبلت میں یہی رکھا گیا
خوف کا آسیب اپنے سینہ ء بزدل میں ہے

ڈھونڈھ لینا ہے کسی دن آخرش امکان نے
موت کا جو کوڈ اپنے جین کی فائل میں ہے

دیکھنا انگلی گھمانی دھیان سے ہر مرتبہ
صفر سے پہلے کا نمبر فون کے ڈائل میں ہے

کچھ نہیں تو پھوک ہی گنے کا دے جو جل مرے
زندگی اپنی ملازم تیری شوگر مل میں ہے

بنک بیلنس بے تحاشا اور بنگلے بے شمار
یہ کرامت وقت کے ہر مرشدِ کامل میں ہے

وہ کسی میرا کے پاکیزہ الاپوں میں نہیں
جو ترنم خیز چھن چھن یار کی پائل میں ہے

ویسے رنگ و نور کے انوار پیرس میں نہیں
روشنی جو اپنی شامِ سرمئی مائل میں ہے

بول پاکستان! تیری نکہتوں کی ریل کار
کونسی وادی میں ہے اب کونسی منزل میں ہے

دور سے آواز دیتا آ رہا ہے کوئی قیس
قافلے والو رکو میرا خدا محمل میں ہے

آخرش ہونی تو ہے اک دن رسائی اُس تلک
جو مکاں اپنا زمینِ غیر مستعمل میں ہے

ایسے تو میں ہر جگہ موجود ہو سکتا نہیں
یہ کرشمہ اسمِ اللہ ذات کے عامل میں ہے

سبز ہونی چاہئے اس کی نمو ہر حال میں
اک لکیر سرخ جو چلتی خطِ فاصل ہے

کھیل کوئی ہارنے کے واسطے منصور کھیل
لطف جو لاحاصلی میں وہ کہاں حاصل میں ہے
واہ! بہت خوب آفاق منصور صاحب! کیا اچھے اشعار ہیں !!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایسا
جناب صدر کی اجازت سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضورِ ربِ دو عالم غلام حاضر ہے
سب اپنے نقش لئے نا تمام حاضر ہے

یہ تیرا بندہ ، یہ سائل ترا ، ترا انور
بصد خلوص بصد احترام حاضر ہے

فقط ہے تجھ ہی سے روشن یہ کائناتِ ضمیر
حضورِ نور یہ ظلمت کی شام حاضر ہے

طلب یہ ہے کہ ملے آگہی کا سوز دروں
لئے زباں پہ مقدس کلام حاضر ہے

ترے کرم کی امیدیں سجائے پلکوں پر
مقام والے ترا بے مقام حاضر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت رسول مقبول، خاتم النبین صلى الله عليه وسلم
۔۔
نہ مال و زر نہ کلاہ و قبا سے مطلب تھا
انہیں ہمیشہ خدا کی رضا سے مطلب تھا

کسی بھی شخص سے مطلوب کچھ نہ تھا ان کو
فقط کرم سے غرض تھی ، عطا سے مطلب تھا

کچھ اور چاہتے کب تھے خدا کے بندوں سے
خدا کی راہ میں ان کی وفا سے مطلب تھا

رسولِ پاک انہیں لائے راستی کی طرف
کہ جن کو ظلم سے، کذب و ریا سے مطلب تھا

وہ برگزیدہ پیمبر وہ منتخب بندے
انہیں کہاں کسی حرص و ہوا سے مطلب تھا

کیا معاف سبھی کو فقط خدا کے لئے
انہیں سزا کی بجائے ہُدیٰ سے مطلب تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالات حاضرہ پر چند اشعار
۔۔۔
بغض دلوں میں بھرتے ہو کچھ شرم کرو
ڈالر، پونڈ پہ مرتے ہو کچھ شرم کرو

اپنے گھر پر، اپنے لوگوں پر لوگو
کیا کیا تہمت دھرتے ہو کچھ شرم کرو

جس تھالی میں کھاتے عمر گذاری ہے
چھید اسی میں کرتے ہو کچھ شرم کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تو اگر پیاس آشنا ہوتا
میرا صحرا ہرا بھرا ہوتا

خامشی باوقار ہے جیسے
معتبر تیرا بولنا ہوتا

اختلافی بیان سے پہلے
کاش تم نے مجھے سنا ہوتا

سوچ کر بولتے تو ممکن ہے
جو ہوا ہے نہیں ہوا ہوتا

حاسدوں کی کہاں کمی تھی ہمیں
تم نہ ہوتے تو دوسرا ہوتا

عمر بھر گھر جلائے ظالم نے
کسی دل کا سکوں رہا ہوتا

کم نسب دشمنوں سے مل بیٹھا
اس سے اچھا تھا مر گیا ہوتا

کائنات ضمیر زندہ ہے
ورنہ میں تیرا ہم نوا ہوتا

تیرے ہونٹوں پہ مہر ہوتی اگر
میرے ہاتھوں میں آئینہ ہوتا

در بہ در خاک چھاننے والے
مجھ سے پیمان کر لیا ہوتا

وہ میسر نہیں رہا ورنہ
میں اسے کب کا کھو چکا ہوتا

کس قدر سوچتے ہو تم انور
ارے اظہار کر دیا ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ محفلین۔ اللہ حافظ

واہ واہ! بہت خوب منیر انور صاحب !! بہت اعلیٰ!

اختلافی بیان سے پہلے
کاش تم نے مجھے سنا ہوتا

سوچ کر بولتے تو ممکن ہے
جو ہوا ہے نہیں ہوا ہوتا
کیا فکر انگیز اشعار ہیں !! واہ واہ!
خوبصورت کلام عطا کرنے کا بہت بہت شکریہ !!
 

فاتح

لائبریرین
جناب صدر کی اجازت سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضورِ ربِ دو عالم غلام حاضر ہے
سب اپنے نقش لئے نا تمام حاضر ہے

یہ تیرا بندہ ، یہ سائل ترا ، ترا انور
بصد خلوص بصد احترام حاضر ہے

فقط ہے تجھ ہی سے روشن یہ کائناتِ ضمیر
حضورِ نور یہ ظلمت کی شام حاضر ہے

طلب یہ ہے کہ ملے آگہی کا سوز دروں
لئے زباں پہ مقدس کلام حاضر ہے

ترے کرم کی امیدیں سجائے پلکوں پر
مقام والے ترا بے مقام حاضر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعت رسول مقبول، خاتم النبین صلى الله عليه وسلم
۔۔
نہ مال و زر نہ کلاہ و قبا سے مطلب تھا
انہیں ہمیشہ خدا کی رضا سے مطلب تھا

کسی بھی شخص سے مطلوب کچھ نہ تھا ان کو
فقط کرم سے غرض تھی ، عطا سے مطلب تھا

کچھ اور چاہتے کب تھے خدا کے بندوں سے
خدا کی راہ میں ان کی وفا سے مطلب تھا

رسولِ پاک انہیں لائے راستی کی طرف
کہ جن کو ظلم سے، کذب و ریا سے مطلب تھا

وہ برگزیدہ پیمبر وہ منتخب بندے
انہیں کہاں کسی حرص و ہوا سے مطلب تھا

کیا معاف سبھی کو فقط خدا کے لئے
انہیں سزا کی بجائے ہُدیٰ سے مطلب تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالات حاضرہ پر چند اشعار
۔۔۔
بغض دلوں میں بھرتے ہو کچھ شرم کرو
ڈالر، پونڈ پہ مرتے ہو کچھ شرم کرو

اپنے گھر پر، اپنے لوگوں پر لوگو
کیا کیا تہمت دھرتے ہو کچھ شرم کرو

جس تھالی میں کھاتے عمر گذاری ہے
چھید اسی میں کرتے ہو کچھ شرم کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں ایک غزل کے ساتھ اجازت چاہوں گا
۔۔۔

تو اگر پیاس آشنا ہوتا میرا صحرا ہرا بھرا ہوتا
خامشی باوقار ہے جیسے معتبر تیرا بولنا ہوتا
اختلافی بیان سے پہلے کاش تم نے مجھے سنا ہوتا
سوچ کر بولتے تو ممکن ہے جو ہوا ہے نہیں ہوا ہوتا
حاسدوں کی کہاں کمی تھی ہمیں تم نہ ہوتے تو دوسرا ہوتا
عمر بھر گھر جلائے ظالم نے کسی دل کا سکوں رہا ہوتا
کم نسب دشمنوں سے مل بیٹھا اس سے اچھا تھا مر گیا ہوتا
کائنات ضمیر زندہ ہے ورنہ میں تیرا ہم نوا ہوتا
تیرے ہونٹوں پہ مہر ہوتی اگر میرے ہاتھوں میں آئینہ ہوتا
در بہ در خاک چھاننے والے مجھ سے پیمان کر لیا ہوتا
وہ میسر نہیں رہا ورنہ میں اسے کب کا کھو چکا ہوتا
کس قدر سوچتے ہو تم انور ارے اظہار کر دیا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت شکریہ محفلین۔ اللہ حافظ
تو اگر پیاس آشنا ہوتا
میرا صحرا ہرا بھرا ہوتا

خامشی باوقار ہے جیسے
معتبر تیرا بولنا ہوتا

اختلافی بیان سے پہلے
کاش تم نے مجھے سنا ہوتا

سوچ کر بولتے تو ممکن ہے
جو ہوا ہے نہیں ہوا ہوتا

حاسدوں کی کہاں کمی تھی ہمیں
تم نہ ہوتے تو دوسرا ہوتا

عمر بھر گھر جلائے ظالم نے
کسی دل کا سکوں رہا ہوتا

کم نسب دشمنوں سے مل بیٹھا
اس سے اچھا تھا مر گیا ہوتا

کائنات ضمیر زندہ ہے
ورنہ میں تیرا ہم نوا ہوتا

تیرے ہونٹوں پہ مہر ہوتی اگر
میرے ہاتھوں میں آئینہ ہوتا

در بہ در خاک چھاننے والے
مجھ سے پیمان کر لیا ہوتا

وہ میسر نہیں رہا ورنہ
میں اسے کب کا کھو چکا ہوتا

کس قدر سوچتے ہو تم انور
ارے اظہار کر دیا ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ محفلین۔ اللہ حافظ
واہ واہ! تمام کے تمام ہی کیا ہی خوبصورت اشعار ہیں۔لطف آ گیا۔
 

منیر انور

محفلین
ایسا



واہ واہ! بہت خوب منیر انور صاحب !! بہت اعلیٰ!

اختلافی بیان سے پہلے
کاش تم نے مجھے سنا ہوتا

سوچ کر بولتے تو ممکن ہے
جو ہوا ہے نہیں ہوا ہوتا
کیا فکر انگیز اشعار ہیں !! واہ واہ!
خوبصورت کلام عطا کرنے کا بہت بہت شکریہ !!
بہت شکریہ برادر محترم
 
ہزار یادوں نے محفل یہاں سجائی۔۔۔ پر
جو نیند آتی ہے سولی پہ بھی، سو آئی ۔۔ پر

سلگتی ریت کو دو دن میں بھول جائیں نہ ہم
یہ ایک شعر ہے اپنی برہنہ پائی پر

میں فرشِ خاک پہ لیٹوں تو سوتا رہتا ہوں
ہزار خواب اترتے ہیں چار پائی پر

نہ جانے کب مری آنکھوں سے اشک چھن جائیں
بھروسہ اب نہیں کرتا ہے بھائی بھائی پر

عطا کرے مجھے اقلیمِ شعر کی شاہی
یہ شک نہیں ہے مجھے تیری کبریائی پر

اب کچھ تازہ اشعار ۔چار عدد تو یہ ہیں۔
عرض کیا ہے۔

اپنی دھرتی سے تکوں، عرش بریں سے دیکھوں
ایک ہی شکل نظر آئے، کہیں سے دیکھوں

آج یہ خواب جہاں ٹوٹا، جہاں چھوٹا ہے
کاش پھر سے نظر آئے، تو وہیں سے دیکھوں

ذرۂ خاک ہوں کیا اس کو دکھائی دوں گا
وہ ستارہ ہے، اسے اپنی زمیں سے دیکھوں

میرا اللہ مری آنکھوں سے اوجھل ہی سہی
اس کو سجدہ کروں، اور اپنی جبیں سے دیکھوں

مزید تازہ، یہ بھی چار عدد، لیکن یہ طے نہیں کہ ردیف قوافی کیا ہوں گے۔ دو غزلیں کہی جائیں، یا ’ایطا‘ کا اعتراف کر کے ایک ہی غزل میں شامل کر دوں۔

آبلے پھوٹ بہیں، چھاؤں گھنی ہو جائے
اور پھر جشنِ غریب الوطنی ہو جائے

ظلم ڈھا لے تو، کرم جان کے کر لوں گا قبول
یوں نہ ہو، تیری کہیں دل شکنی ہو جائے

زلف کی چھاؤں کہیں ہے تو کہیں سایۂ دار
کچھ بھی مل جائے، مری شب بسری ہو جائے

دل کی دل میں ہی رکھیں، ہونٹوں کو سی لیجے عبید
یہ خطا، کیا پتا، گردن زدنی ہو جائے

اور آخر میں ٹوٹے پھوٹے کچھ اشعار جو دی گئی طرح میں ممکن ہو سکے ہیں۔ صاف لگتا ہے کہ زبردستی کے ہیں!!

غالباً کچھ کہہ رہا ہے یہ سمندر کا سکوت
اب کہاں وہ اضطراب اس موجۂ ساحل میں ہے

ہاتھ بھی تھامے ہو، چھپ کر وار بھی کرتے ہو تم
یہ کہاں کی دوستی ہے جو تمہارے دل میں ہے

اور یہ نمکین شعر:
بھائی مجنوں، اپنی لیلیٰ کو تو ڈھونڈھو اور جا
یہ تو میری ہی محل ہے جو کہ اس محمل میں ہے
بہت عمدہ استادِ محترم۔ تمام کلام ہی لاجواب ہے۔ خاص طور پر یہ اشعار بہت پسند آئے۔
نہ جانے کب مری آنکھوں سے اشک چھن جائیں
بھروسہ اب نہیں کرتا ہے بھائی بھائی پر

ذرۂ خاک ہوں کیا اس کو دکھائی دوں گا
وہ ستارہ ہے، اسے اپنی زمیں سے دیکھوں

میرا اللہ مری آنکھوں سے اوجھل ہی سہی
اس کو سجدہ کروں، اور اپنی جبیں سے دیکھوں

ظلم ڈھا لے تو، کرم جان کے کر لوں گا قبول
یوں نہ ہو، تیری کہیں دل شکنی ہو جائے

ہاتھ بھی تھامے ہو، چھپ کر وار بھی کرتے ہو تم
یہ کہاں کی دوستی ہے جو تمہارے دل میں ہے

کیا کہنے سبحان اللہ
 
Top