فاتح
لائبریرین
منصور بھائی، بلا شبہ ان اشعار پر جس قدر داد دی جائے اتنی ہی کم ہے۔ اس زمین میں اتنے تر و تازہ اشعار نکالنا آپ ہی کا خاصہ ہے۔ مجھے حسد محسوس ہو رہا ہے آپ سے۔ایک پائوں ماضی میں ہے ایک مستقبل میں ہے
کیاکہوں روزِ ازل سے کوئی کس مشکل میں ہے
سارے ہیں مدہوش زر کے میکدہ میں اہلِ حق
اور مرجانے کی جرات لشکرِ باطل میں ہے
ایک دریا کی ہوائے دلربا ہے اور میں
یاد کی آوازِ پا بھی نغمہ ء ساحل میں ہے
حوصلہ دینے مجھے ساری خدائی آ گئی
دیکھنے آئے تھے وہ کتنی تڑپ بسمل میں ہے
مانگتا ہے جاکے بیعت ہر گلی میں خود یزید
ان دنوں ظلِ الہ بھی آدمی کے ظل میں ہے
جھک رہے ہیں’ کہ‘ جبلت میں یہی رکھا گیا
خوف کا آسیب اپنے سینہ ء بزدل میں ہے
ڈھونڈھ لینا ہے کسی دن آخرش امکان نے
موت کا جو کوڈ اپنے جین کی فائل میں ہے
دیکھنا انگلی گھمانا دھیان سے ہر مرتبہ
صفر سے پہلے کا نمبر فون کے ڈائل میں ہے
کچھ نہیں تو پھوک ہی گنے کا دے جو جل مرے
زندگی اپنی ملازم تیری شوگر مل میں ہے
بنک بیلنس بے تحاشا اور بنگلے بے شمار
یہ کرامت وقت کے ہر مرشدِ کامل میں ہے
وہ کسی میرا کے پاکیزہ الاپوں میں نہیں
جو ترنم خیز چھن چھن یار کی پائل میں ہے
ویسے رنگ و نور کے انوار پیرس میں نہیں
روشنی جو اپنی شامِ سرمئی مائل میں ہے
بول پاکستان! تیری نکہتوں کی ریل کار
کونسی وادی میں ہے اب کونسی منزل میں ہے
دور سے آواز دیتا آ رہا ہے کوئی قیس
قافلے والو رکو میرا خدا محمل میں ہے
آخرش ہونی تو ہے اک دن رسائی اُس تلک
جو مکاں اپنا زمینِ غیر مستعمل میں ہے
ایسے تو میں ہر جگہ موجود ہو سکتا نہیں
یہ کرشمہ اسمِ اللہ ذات کے عامل میں ہے
سبز ہونی چاہئے اس کی نمو ہر حال میں
اک لکیر سرخ جو چلتی خطِ فاصل ہے
کھیل کوئی ہارنے کے واسطے منصور کھیل
لطف جو لاحاصلی میں وہ کہاں حاصل میں ہے
مدیر کی آخری تدوین: