تمام محفلینس کو سلام عرض ہے۔
سب سے پہلے تو میں اس بات کی یاد دہانی کر دوں جو ممکن ہے کہ سب کے ذہن سےمحو ہو چکا ہو کہ یہ پیاری پیاری محفل اردو محفل کی گیارویں سالگرہ کی تقریب میں رکھی گئی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے تو میں بانیان محفل، اور ان میں مَیں بزعم خود، خود کو بھی شمار کرتا ہوں، کو مبارکباد دوں۔
نبیل جن کے ذہن میں پہلی بار یہ خیال آیا کہ اردو کی ترویج کے لیے ایسی ایک محفل شروع کی جائے، اور
زیک اور دوسرے بانیوں نے جو اب محفل میں فعال نہیں ہیں، اس پر لبیک کہا۔ تو نبیل اور زیک کو محفل کی سالگرہ ایک بار پھر بہت بہت مبارک ہو۔ اور ان کے بعد نئے منتظم
ابن سعید اور پھر تمام محفلینس ہی نہیں، تمام اردو دنیا کو بھی مبارک ہو۔
پہلی بار اس مشاعرے کا انعقاد اس پیمانے پر ہوا ہے کہ بہت سے اردو شاعری کے اہم ناموں نے محض اس محفل میں شرکت کے لئے اردو محفل کی رکنیت حاصل کی ہے۔ میں ان نئے ممبران کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ ادریس آزاد، یاور ماجد اور ایمان قیصرانی کے نام ذہن میں آ رہے ہیں۔ یہ خوش آئند ہے۔ اور اس کا تمام تر کریڈٹ منتظمین مشاعرہ کو جاتا ہے۔ میں @محمدخلیل الرحمن ،
محمد تابش صدیقی ،
مقدس حیات اور
محمد بلال اعظم کو مبارکباد دیتا ہوں۔
بزرگی کے اپنے فائدے اور نقصانات ہیں۔ ایک فائدہ تو یہی ہوتا ہے کہ سب ادبدا کر اس کو صدارت کی کرسی پر بٹھا دیتے ہیں۔ تو محض یہی وجہ ہے کہ میں یہاں صدارتی خطاب جھاڑنے کا شرف حاصل کر رہا ہوں۔ دوسرے بزرگوں کو بھی کبھی کبھی موقع دینا چاہیے۔ میں
محمد یعقوب آسی کی کمی بھی محسوس کر رہا ہوں جو نہ جانے کس بات پر ناراض ہیں۔بہر حال۔
مشاعرے میں شعرائے کرام نے واقعی بہت عمدہ کلام پیش کیا ۔ تمام کی خدمت میں داد تحسین پیش کرتا ہوں۔
میں خود کو تو آج کل ’سابق شاعر‘ کہنے لگا ہوں۔ آج کل خاموشی ہی ایسی طاری تھی۔ بہر حال اس مشاعرے کی وجہ سے کچھ جمود ٹوٹا ہے۔ جو آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
پہلے ایک پرانی غزل: جس کے ایک شعر سے اپنے ایک مجموعے کا نام بھی برآمد کیا تھا۔ شاید کچھ لوگوں نے اس مجموعے میں پڑھ لی ہو گی۔ اب دوبارہ سہی! تو عرض ہے:
ہزار یادوں نے محفل یہاں سجائی۔۔۔ پر
جو نیند آتی ہے سولی پہ بھی، سو آئی ۔۔ پر
سلگتی ریت کو دو دن میں بھول جائیں نہ ہم
یہ ایک شعر ہے اپنی برہنہ پائی پر
میں فرشِ خاک پہ لیٹوں تو سوتا رہتا ہوں
ہزار خواب اترتے ہیں چار پائی پر
نہ جانے کب مری آنکھوں سے اشک چھن جائیں
بھروسہ اب نہیں کرتا ہے بھائی بھائی پر
عطا کرے مجھے اقلیمِ شعر کی شاہی
یہ شک نہیں ہے مجھے تیری کبریائی پر
اب کچھ تازہ اشعار ۔چار عدد تو یہ ہیں۔
عرض کیا ہے۔
اپنی دھرتی سے تکوں، عرش بریں سے دیکھوں
ایک ہی شکل نظر آئے، کہیں سے دیکھوں
آج یہ خواب جہاں ٹوٹا، جہاں چھوٹا ہے
کاش پھر سے نظر آئے، تو وہیں سے دیکھوں
ذرۂ خاک ہوں کیا اس کو دکھائی دوں گا
وہ ستارہ ہے، اسے اپنی زمیں سے دیکھوں
میرا اللہ مری آنکھوں سے اوجھل ہی سہی
اس کو سجدہ کروں، اور اپنی جبیں سے دیکھوں
مزید تازہ، یہ بھی چار عدد، لیکن یہ طے نہیں کہ ردیف قوافی کیا ہوں گے۔ دو غزلیں کہی جائیں، یا ’ایطا‘ کا اعتراف کر کے ایک ہی غزل میں شامل کر دوں۔
آبلے پھوٹ بہیں، چھاؤں گھنی ہو جائے
اور پھر جشنِ غریب الوطنی ہو جائے
ظلم ڈھا لے تو، کرم جان کے کر لوں گا قبول
یوں نہ ہو، تیری کہیں دل شکنی ہو جائے
زلف کی چھاؤں کہیں ہے تو کہیں سایۂ دار
کچھ بھی مل جائے، مری شب بسری ہو جائے
دل کی دل میں ہی رکھیں، ہونٹوں کو سی لیجے عبید
یہ خطا، کیا پتا، گردن زدنی ہو جائے
اور آخر میں ٹوٹے پھوٹے کچھ اشعار جو دی گئی طرح میں ممکن ہو سکے ہیں۔ صاف لگتا ہے کہ زبردستی کے ہیں!!
غالباً کچھ کہہ رہا ہے یہ سمندر کا سکوت
اب کہاں وہ اضطراب اس موجۂ ساحل میں ہے
ہاتھ بھی تھامے ہو، چھپ کر وار بھی کرتے ہو تم
یہ کہاں کی دوستی ہے جو تمہارے دل میں ہے
اور یہ نمکین شعر:
بھائی مجنوں، اپنی لیلیٰ کو تو ڈھونڈھو اور جا
یہ تو میری ہی محل ہے جو کہ اس محمل میں ہے
اب اس خوش گوار محفل کو ختم کیا جائے۔اردو محفل اور تمام اراکین کے لئے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ اب اجازت۔