سالانہ عالمی اردو مشاعرہ 2016 تبصرے

جو کچھ بھی ملا ہے، ترےؐ صدقے میں ملا ہے
کافی یہی نسبت ہے میرے پیارے محمدﷺ
بے شک بے شک۔ سبحان اللہ

میری دریوزہ گری بھی مجھے اب راس نہیں
سو مرے کوزہ گرِ حرفِ دعا! جانے دے
واہ
یہی ہیں وہ، جنہیں زعمِ شناوری تھا بہت
کنارِ نیل جو پہنچے تو ناؤ چاہتے ہیں

یہ پارسا جو طریقت کی بات کرتے ہیں
یہ داغ داغ ہیں، اپنا بچاؤ چاہتے ہیں
کیا کہنے

ایک دنیا ہے مرے درپئے آزار جدا
پھر بھی ملتا نہیں مجھ کو کوئی غم خوار جدا

کچھ مرے عہد کی قسمیں بھی جدا ٹھہری ہیں
کچھ مرے دوست، ترا وعدۂ ایثار جدا

کرب کی خاک سے خلوت میں تراشے ہوئے جسم
خون تھوکیں سرِ بازار، سرِ دار جدا

کفِ قاتل کی شکن بھی تو الگ ہے سب سے
اور مقتول کی ٹوٹی ہوئی تلوار جدا

میری دستار پہ چھینٹے ہیں لہو کے میرے
اے فلک ناز مرے، ہے مری دستار جدا

یوں تو مسند پہ بھی اطوار نرالے تھے مگر
سرمدِ شعر کی سج دھج ہے سرِ دار جدا

تم نے اِس بار تخاطب ہی بدل ڈالا ہے
ورنہ یاروں سے ہوئے یار کئی بار جدا

ایک حلقہ سا کھنچا ہے مرے چاروں جانب
پھر بھی دیوار سے ہے سایۂ دیوار جدا

ہم نے ہر بار تمدن کو زمیں برد کیا
ہم نے رکھے ہیں ثقافت کے بھی معیار جدا
بہت ہی عمدہ بلال بھائی ۔ کیا کہنے۔
کیا منفرد ردیف نکالی ہے اور بہت خوب نبھائی ہے۔
بہت سی داد
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت شکریہ تابش بھائی
دعائیں
بہت ہی عمدہ بلال بھائی ۔ کیا کہنے۔
کیا منفرد ردیف نکالی ہے اور بہت خوب نبھائی ہے۔
بہت سی داد
تشکر
یہ پنجاب لیول پہ ہونے والے کالجز کے مقابلہ میں طرح پہ لکھی تھی دو سال پہلے لیکن بدقسمتی سے ہمارے کالج کی ٹیم سیکیورٹی ایشوز کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکی تھی۔
 
جب حشر کا دن ہو، تری قربت ہو میسر
کیا اتنی اجازت ہے مرے پیارے محمدﷺ

جو کچھ بھی ملا ہے، ترےؐ صدقے میں ملا ہے
کافی یہی نسبت ہے میرے پیارے محمدﷺ

یہ پارسا جو طریقت کی بات کرتے ہیں
یہ داغ داغ ہیں، اپنا بچاؤ چاہتے ہیں

ایک حلقہ سا کھنچا ہے مرے چاروں جانب
پھر بھی دیوار سے ہے سایۂ دیوار جدا

ہم نے ہر بار تمدن کو زمیں برد کیا
ہم نے رکھے ہیں ثقافت کے بھی معیار جدا

زبردست، کیا بات ہے بہت خوب بلال بھائی
 
جب حشر کا دن ہو، تری قربت ہو میسر
کیا اتنی اجازت ہے مرے پیارے محمدﷺ

جو کچھ بھی ملا ہے، ترےؐ صدقے میں ملا ہے
کافی یہی نسبت ہے میرے پیارے محمدﷺ

یہ پارسا جو طریقت کی بات کرتے ہیں
یہ داغ داغ ہیں، اپنا بچاؤ چاہتے ہیں

ایک حلقہ سا کھنچا ہے مرے چاروں جانب
پھر بھی دیوار سے ہے سایۂ دیوار جدا

ہم نے ہر بار تمدن کو زمیں برد کیا
ہم نے رکھے ہیں ثقافت کے بھی معیار جدا

زبردست، کیا بات ہے بہت خوب بلال بھائی
 
زمیں پہ نازشِ انساں محمد عربی
فلک پہ نور کا ساماں محمدِ عربی

دکھی دلوں کے لیے چارہ ساز ذکرِ نبی
ہر ایک درد کا درماں محمدِ عربی

تمہارے دم سے ہے ’’ تصویرِ کائینات میں رنگ‘‘
تمہی حیات کا عنواں محمدِ عربی

مٹے ہیں فاصلے کون و مکاں کے آج کی شب
ہیں آج عرش پہ مہماں محمدِ عربی

ہر امّتی کی شفاعت خدا کی مرضی سے
تمہاری شان کے شایاں محمدِ عربی

شفیعِ امّتِ مرحوم، ھادیئ برحق
گواہ آپ کا قرآں محمدِ عربی

تمہارے بعد نہ ہوگا کوئی خدا کا نبی
ہیں آپ ختمِ رسولاں محمدِ عربی

خلیل کو بھی دکھا دیجیے رخِ انور
اسے ہے بس یہی ارماں محمدِ عربی



اب عرض ہیں مصرع طرح پر دو شعر


غیر کے لب پر ہے اور شاید تمہارے دل میں ہے
"ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے"

اک نظر ہم پر پڑی اور نیم بسمل کردیا
زہر کی تاثیر کیسی اس سمِ قاتل میں ہے


ایک غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔

رات دن بس اِک تماشا چاہیے
دِل کے بہلانے کو کیا کیا چاہیے

اتفاقاً بھول جاتے ہیں تجھے
التزاماً یاد رکھنا چاہیے

کتنا زخمی آج انساں ہوگیا
اس کو اب کوئی مسیحا چاہیے

اجنبی ہیں راستے، تنہا سفر
شکل کوئی اب شناسا چاہیے

اِس بھری محفِل میں تنہا ہیں خلیل
آج تو بس کوئی اپنا چاہیے

حضرتِ داغ کی ضمین میں ایک غزل

’’حضرتِ دل آپ ہیں کِس دھیان میں‘‘
یوں بھی آتے ہیں کبھی میدان میں

وہ لجا کر کچھ اگر کہہ نہ سکے
کہہ دیا کِس نے ہماے کان میں

روکنے کا یوں بہانہ ہوگیا
ہم نے پیالہ رکھ دیا سامان میں

خلق اُن کے دیکھنا ہوں گر تمہیں
دیکھ لو بس جھانک کر قرآن میں

ہار کر بھی پالیا اُن کو خلیلؔ
فائدہ ہی فائدہ نقصان میں
سبحان اللہ، جزاک اللہ محمد خلیل الرحمٰن بھیا حضور
ﷺ کی خدمت میں کیا خوب نذرانہءعقیدت کے پھول نچھاور کیئے۔​
اور غزلیں بھی بہت اعلیٰ ارشاد فرمائی ہیں۔ مشاعرے کا بہت زبردست آغاز۔
 
جب حشر کا دن ہو، تری قربت ہو میسر
کیا اتنی اجازت ہے مرے پیارے محمدﷺ

جو کچھ بھی ملا ہے، ترےؐ صدقے میں ملا ہے
کافی یہی نسبت ہے میرے پیارے محمدﷺ

یہ پارسا جو طریقت کی بات کرتے ہیں
یہ داغ داغ ہیں، اپنا بچاؤ چاہتے ہیں

ایک حلقہ سا کھنچا ہے مرے چاروں جانب
پھر بھی دیوار سے ہے سایۂ دیوار جدا

ہم نے ہر بار تمدن کو زمیں برد کیا
ہم نے رکھے ہیں ثقافت کے بھی معیار جدا

زبردست، کیا بات ہے بہت خوب بلال بھائی
 
بہت بہت شکریہ سر جی۔
السلام علیکم۔
غزل
میرا اب درد کم نہیں ہوتا
پھر بھی چہرے پہ غم نہیں ہوتا
دل تو میرا اداس ہے لیکن
آنکھ میں میری نم نہیں ہوتا
درد سینے میں دفن رہتا ہے
ہاتھ میں جب قلم نہیں ہوتا
دل سے جو بات بھی نکلتی ہے
اثر اس کا عدم نہیں ہوتا
سلسلہ تیری آہ کا شاہین
اک ذرا بھی تو کم نہیں ہوتا
بہت خوب Abbas Swabian بھیا
 
اردو محفل اور تمام منتظمین کو گیارہویں سالگرہ کے موقع پر عالمی اردو مشاعرہ کے کامیاب انعقاد پر دلی مبارکباد

سب سے پہلے ایک نعت کے دو اشعار

جب حشر کا دن ہو، تری قربت ہو میسر
کیا اتنی اجازت ہے مرے پیارے محمدﷺ

جو کچھ بھی ملا ہے، ترےؐ صدقے میں ملا ہے
کافی یہی نسبت ہے میرے پیارے محمدﷺ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
کچھ متفرق اشعار پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا

پھر وہی شامِ غریباں کا دھواں آنکھوں میں
پھر وہی ہاتفِ غیبی کی صدا، جانے دے

میری دریوزہ گری بھی مجھے اب راس نہیں
سو مرے کوزہ گرِ حرفِ دعا! جانے دے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم چاند کی کرنوں کو سنبھالے ہوئے رکھو
وہ نور کی صورت سرِ محرابِ دعا آئے

لفظوں کا اجالا ہے جو تم دیکھ رہے ہو
خوشبو سی سماعت ہے، تمہیں کون بتائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہی ہیں وہ، جنہیں زعمِ شناوری تھا بہت
کنارِ نیل جو پہنچے تو ناؤ چاہتے ہیں

یہ پارسا جو طریقت کی بات کرتے ہیں
یہ داغ داغ ہیں، اپنا بچاؤ چاہتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آخر میں ایک غزل کے ساتھ اجازت چاہوں گا

ایک دنیا ہے مرے درپئے آزار جدا
پھر بھی ملتا نہیں مجھ کو کوئی غم خوار جدا

کچھ مرے عہد کی قسمیں بھی جدا ٹھہری ہیں
کچھ مرے دوست، ترا وعدۂ ایثار جدا

کرب کی خاک سے خلوت میں تراشے ہوئے جسم
خون تھوکیں سرِ بازار، سرِ دار جدا

کفِ قاتل کی شکن بھی تو الگ ہے سب سے
اور مقتول کی ٹوٹی ہوئی تلوار جدا

میری دستار پہ چھینٹے ہیں لہو کے میرے
اے فلک ناز مرے، ہے مری دستار جدا

یوں تو مسند پہ بھی اطوار نرالے تھے مگر
سرمدِ شعر کی سج دھج ہے سرِ دار جدا

تم نے اِس بار تخاطب ہی بدل ڈالا ہے
ورنہ یاروں سے ہوئے یار کئی بار جدا

ایک حلقہ سا کھنچا ہے مرے چاروں جانب
پھر بھی دیوار سے ہے سایۂ دیوار جدا

ہم نے ہر بار تمدن کو زمیں برد کیا
ہم نے رکھے ہیں ثقافت کے بھی معیار جدا

بہت خوب، بہت اعلیٰ محمد بلال اعظم بھیا
 
میری دستار پہ چھینٹے ہیں لہو کے میرے​
اے فلک ناز مرے، ہے مری دستار جدا

تم نے اِس بار تخاطب ہی بدل ڈالا ہے​
ورنہ یاروں سے ہوئے یار کئی بار جدا

ایک حلقہ سا کھنچا ہے مرے چاروں جانب​
پھر بھی دیوار سے ہے سایۂ دیوار جدا

ہم نے ہر بار تمدن کو زمیں برد کیا​
ہم نے رکھے ہیں ثقافت کے بھی معیار جدا
محمد بلال اعظم بھیا، کمال کر دیا۔ بہت خوب، بہت اعلیٰ
 
تشکر
عرصے بعد آپ سے ہم کلام ہو کر دلی خوشی ہوئی

کیسے ہیں آپ؟
یقین جانیئے مجھے بھی بہت خوشی ہوئی، اور اتنا عمدہ کلام پڑھ کر تو اور بھی زیادہ خوشی ہوئی، میں اس وقت سو جاتا ہوں، لیکن اس مشاعرے کا اتنی شدت سے انتظار تھا کہ سو نہیں پایا، اور شکر ہے سو کر اتنا عمدہ کلام سے محروم رہ جاتا تو بہت دکھ ہوتا۔
 
Top