محمداحمد
لائبریرین
اجلاس بلانے کی آخر اتنی اخیر کیا ہے۔۔۔۔
میں بھی اجلاس بلانا چاہ رہا ہوں لیکن سوچتا ہوں کہ اجلاس کا الف پہلے لکھوں یا کسرہ۔ پھر سوچنے کا بھی دل نہیں چاہتا۔
اجلاس بلانے کی آخر اتنی اخیر کیا ہے۔۔۔۔
اور ہماری طبعیت پھر اس اجلاس کے بلائے جانے کا سوچ کر ہی فوت ہو رہی ہے۔
میں بھی اجلاس بلانا چاہ رہا ہوں لیکن سوچتا ہوں کہ اجلاس کا الف پہلے لکھوں یا کسرہ۔ پھر سوچنے کا بھی دل نہیں چاہتا۔
یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں۔ شگفتہ کی یاد داشت واپس آ گئی؟
آپ کہاں گم ہو گئی تھیں شگفتہ؟ میں نے اتنا مس کیا ہے آپ کو۔ اس بار کراچی جا کر بھی رابطہ نہیں ہو پایا۔
انتہائی غیر حقیقی اور غیر معلوماتی تبصرہ۔
کیونکہ شگفتہ اور میں ہم ہمیشہ اصولی بات کرتے ہیں اور اسی لیے ہلہ شیری بھی دیتے ہیں۔
آپ کو کیسے پتہ چلا؟ میں تو پہلے ہی ایسا کر رہی ہوں۔
تصحیح: نگرانی کرنا نہیں نگرانی کروانا۔
اب ایسے بھی حالات نہیں کہ کام کیا جائے۔
جی جی۔۔۔ بالکل پنجاب پولیس والا رویہ ہے یہ۔۔۔۔
شکریہ شکریہ۔۔۔ آج تو آپ نے بوری بھر کر معلومات الٹا دی ہیں۔۔۔۔
اجلاس بلانے کی آخر اتنی اخیر کیا ہے۔۔۔۔
متفق
دو سو۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہااااا۔۔۔۔
تو خود چستی سے گریز کریں۔۔۔
یہ سب آپ کے انجمن برائے باہمی ہلہ شیری کے دوسرے رکن کا کیا دھرا ہے۔۔۔ وہی بار بار اس کو سامنے لا رہی ہیں۔۔۔
اس غیر متفق سے 200 فیصد متفقغیر متفق
کیوں نہ ہو. پنجاب پولیس نے مجھ سے ہی تو ٹیوشن لی ہے۔جی جی۔۔۔ بالکل پنجاب پولیس والا رویہ ہے یہ۔۔۔۔
کبھی کبھی dare to be different پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے نا۔شکریہ شکریہ۔۔۔ آج تو آپ نے بوری بھر کر معلومات الٹا دی ہیں۔۔۔۔
آپ کی رکنیت معطل کروانی ہے اس لیے۔اجلاس بلانے کی آخر اتنی اخیر کیا ہے۔۔۔۔
کس سے متفق اور کیوں؟
ابھی تو مروت میں ایک سو کم کر دیا تھا۔دو سو۔۔۔۔ ہاہاہاہاہاہااااا۔۔۔۔
کچھ 'کرنا' ہمارے اصولوں کے خلاف ہے چاہے وہ گریز ہی کیوں نہ ہو۔تو خود چستی سے گریز کریں۔۔۔
ان کے اس کیے دھرے کے صلے میں میں ان کو ڈانٹنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔یہ سب آپ کے انجمن برائے باہمی ہلہ شیری کے دوسرے رکن کا کیا دھرا ہے۔۔۔ وہی بار بار اس کو سامنے لا رہی ہیں۔۔۔
بالکل ٹھیک ہے۔ اس کی رپورٹ 2020 تک مکمل ہو جائے گی یا یہ بہت جلدی ہے؟جو لوگ کوچے میں اکثر وبیشتر نظر آتے ہیں اُن کی رکنیت معطل کر دی جانی چاہیے ماسوائے ہمارے کہ ہم نئے سستوں کی چستیوں کے خلاف تادیبی کاروائیوں کے سلسلے میں آج کل وہاں پائے جا رہے ہیں۔
ایک نشست میں تھوڑی لکھے تھے بھلا۔خدا کی پناہ!
اتنے طویل جملے۔
اتنا طویل و مفصل جواب۔ خدا کی پناہ!
میں بھی اجلاس بلانا چاہ رہا ہوں لیکن سوچتا ہوں کہ اجلاس کا الف پہلے لکھوں یا کسرہ۔ پھر سوچنے کا بھی دل نہیں چاہتا۔
Look who is talkingاور ہماری طبعیت پھر اس اجلاس کے بلائے جانے کا سوچ کر ہی فوت ہو رہی ہے۔
Look who is talking!بس کچھ دنوں کے لیے واپس آئی ہے یاد داشت، مجھے ایک انتہائی ضروری لڑائی لڑنی ہے، اپائنٹمنٹ پلیز
گم میں کہاں ہوتی ہوں، بھلا کبھی ایسا ہوا؟
میں خود بہت مس کرتی ہوں کب آنا ہوا تھا؟
تو اور کیا۔ہاں جی بالکل، اصول پسند ہی صرف ایسا کر سکتے ہیں۔
جناب!!!میری زوجہ محترمہ کو بزرگ کہہ کر نینے تو نے موت کے فرشتے کو ایک ایسے سکرپٹ کے ذریعے اجازت دی ہے کہ جس کو روکنا یا واپس بھیجنا اب ممکن نہیں۔ اور ذرا تو بتا کہ تجھے کیسے پتہ چلا کہ وہ مجھے اکثر و بیشتر یہی کہتی ہے کہ آپ کو سامنے دھری چیز نہیں نظر آتی چاہے وہ آپ کا والٹ ہو یا آپ کی جرابیں۔ اور یقین کر، میں ابھی مکمل طور پر اندھا نہیں ہوا۔ (جاری ہے)
نیرنگ خیال!!!!!بزرگ فرماتے ہیں کہ چھپی ہوئی تو سب ڈھونڈ لیتے ہیں۔ سامنے دھری اکثر نظر نہیں آتی۔ اس بات پر ہم بہت ہنسا کرتے تھے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی، "سامنے دھری نظر نہ آئے"، اندھے کو نظر نہ آتی ہو تو اور بات ہے۔ لیکن زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہم نے محسوس کیا کہ یہ بات کچھ ایسی بےمعنی نہیں۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ہم بےاختیار پکار اٹھتے۔ "اوہ! یہ پہلے کیوں نہ دیکھا۔ سامنے کی بات تھی۔" کبھی دل سے آواز آتی۔ "خاموش! اب سب کے سامنے اس بات کا تذکرہ کر کے خود کی عزت نہ کروا لینا۔ یہ تو کسی اندھے کو بھی نظر آجاتی۔" زندگی ایسے کتنے ہی واقعات سے عبارت ہوتی چلی گئی جس میں ہم نے سامنے دھری کو کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا اور بعد میں خود کو ہی ہلکی سے چپت لگا کر سرزنش کر لی۔ اور کبھی دائیں بائیں دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ کسی کو ہماری حماقت کا احساس تو نہیں ہوگیا۔ ایسے واقعات کے چند دن بعد تک ہمیں جو شخص مسکرا کر ملتا تو ہمارے دل سے بےاختیار آواز آتی۔ " لگتا ہے اس کو ہماری حماقت کا پتا چل گیا ہے۔ اسی لیے مسکرا رہا تھا۔ " اور کتنے ہی دن ہم اس مسکراہٹ میں طنز کا شائبہ ڈھونڈتے رہتے ۔ ایسے ہی لاتعداد واقعات میں سے ایک واقعہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
ملازمت کے دوران آٹو میٹڈ سسٹم میں ایک عجیب مسئلہ آگیا۔ دورانِ کوڈ کمپائلیشن اگر کوئی مسئلہ آجاتا تو ہمارے لکھے سکرپٹ ای میل کرنے کی بجائے اجازت نامے کا رقعہ ہاتھ میں تھامے اس وقت تک انتظار کرتے رہتے تھے جب تک ہم آکر ان پر ماؤس کلک رنجہ نہ فرما دیتے۔ اس مسئلے کی وجہ سے روزانہ کا کام متاثر ہو رہا تھا۔ ٹیسٹنگ ٹیم انتظار میں رہتی کہ کب ہم جناب دفتر میں قدم رکھیں اور اجازت نامے کو سرفراز فرمائیں۔ دفتر میں کچھ مصروفیات بھی ایسی تھیں کہ اس طرف مکمل توجہ کرنے سے قاصر تھے۔ نیٹ ورک ٹیم اور ٹیکنالوجی سپورٹ ٹیم کے لوگوں سے استدعا کی کہ کہ ہم نے اس سارے سسٹم میں مدتوں سے کوئی تبدیلی نہیں کی لہذا کسی ونڈوز اپگریڈ کی وجہ سے یہ مسئلہ آنا شروع ہوگیا ہے ۔ وہ بھی اپنے حصے کا سر پٹک چکے۔ سرور مشین ری سٹارٹ کر کر کے بھی معاملہ نہ سلجھا۔ وہ اطلاقیہ جس سے ہم ای میلز بھیجتے تھے۔ اس کی تنصیب کاری بھی دوبارہ کر لی لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔ ہم نے سرور کو اپڈیٹس والی فہرست سے نکلوا دیا۔ تاکہکوئی اپڈیٹ مزید معاملہ خراب نہ کردے اور اس مسئلے کو مصروفیات کے اختتام پذیر ہونے تک نہ کرنے والے کاموں کی فہرست کے حوالے کر دیا۔ متبادل حل کے طور پر کرنا یہ شروع کیا کہ بعد از نماز فجر گھر سے ہی مشین کنیکٹ کر کے دیکھ لیتے۔ اگر سکرپٹس اجازت نامے کے منتظر ہوتے تو ہم اجازت دے کر خود کو کوئی سرکاری افسر سمجھ لیتے۔ دن گزرتے رہے ہم نے اس مشق کو جاری رکھا۔ کمرشل ریلیز ہوجانے کے بعد جب ہماری مصروفیات میں خاطر خواہ کمی آگئی تو ہم نے سوچا کہ اب اس معاملے کو بھی سلجھا لینا چاہیے۔
ایک بار پھر نئے جذبے سے ہم نے آغاز کیا۔ سب سے پہلے گزشتہ مہینوں میں آنے والی تمام اپڈیٹس کی تفصیلات پڑھیں۔ اطلاقیہ دوبارہ انسٹال کیا۔ جب اس کو چلانے کی خاطر رن کرنے لگے تو ایکا ایکی خیال آیا کہ کیوں نہ "Elevated Privileges" کے ساتھ چلایا جائے۔ سو فوراً بطور ایڈمنسٹریٹر چلایا۔ مسئلہ سلجھ چکا تھا۔ اگرچہ ہم اس بھید سے بخوبی آشنا تھے کہ مائیکروسافٹ آپریٹنگ سسٹم بھی پاکستانی معاشرت کی طرح افسر شاہی کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود یہ سامنے دھری ہم کو مہینوں تک نظر نہ آئی۔
(جاری ہے)
بہت خوب۔ اچھی تحریر۔بزرگ فرماتے ہیں کہ چھپی ہوئی تو سب ڈھونڈ لیتے ہیں۔ سامنے دھری اکثر نظر نہیں آتی۔ اس بات پر ہم بہت ہنسا کرتے تھے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی، "سامنے دھری نظر نہ آئے"، اندھے کو نظر نہ آتی ہو تو اور بات ہے۔ لیکن زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہم نے محسوس کیا کہ یہ بات کچھ ایسی بےمعنی نہیں۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ہم بےاختیار پکار اٹھتے۔ "اوہ! یہ پہلے کیوں نہ دیکھا۔ سامنے کی بات تھی۔" کبھی دل سے آواز آتی۔ "خاموش! اب سب کے سامنے اس بات کا تذکرہ کر کے خود کی عزت نہ کروا لینا۔ یہ تو کسی اندھے کو بھی نظر آجاتی۔" زندگی ایسے کتنے ہی واقعات سے عبارت ہوتی چلی گئی جس میں ہم نے سامنے دھری کو کبھی درخور اعتنا نہ سمجھا اور بعد میں خود کو ہی ہلکی سے چپت لگا کر سرزنش کر لی۔ اور کبھی دائیں بائیں دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ کسی کو ہماری حماقت کا احساس تو نہیں ہوگیا۔ ایسے واقعات کے چند دن بعد تک ہمیں جو شخص مسکرا کر ملتا تو ہمارے دل سے بےاختیار آواز آتی۔ " لگتا ہے اس کو ہماری حماقت کا پتا چل گیا ہے۔ اسی لیے مسکرا رہا تھا۔ " اور کتنے ہی دن ہم اس مسکراہٹ میں طنز کا شائبہ ڈھونڈتے رہتے ۔ ایسے ہی لاتعداد واقعات میں سے ایک واقعہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
ملازمت کے دوران آٹو میٹڈ سسٹم میں ایک عجیب مسئلہ آگیا۔ دورانِ کوڈ کمپائلیشن اگر کوئی مسئلہ آجاتا تو ہمارے لکھے سکرپٹ ای میل کرنے کی بجائے اجازت نامے کا رقعہ ہاتھ میں تھامے اس وقت تک انتظار کرتے رہتے تھے جب تک ہم آکر ان پر ماؤس کلک رنجہ نہ فرما دیتے۔ اس مسئلے کی وجہ سے روزانہ کا کام متاثر ہو رہا تھا۔ ٹیسٹنگ ٹیم انتظار میں رہتی کہ کب ہم جناب دفتر میں قدم رکھیں اور اجازت نامے کو سرفراز فرمائیں۔ دفتر میں کچھ مصروفیات بھی ایسی تھیں کہ اس طرف مکمل توجہ کرنے سے قاصر تھے۔ نیٹ ورک ٹیم اور ٹیکنالوجی سپورٹ ٹیم کے لوگوں سے استدعا کی کہ کہ ہم نے اس سارے سسٹم میں مدتوں سے کوئی تبدیلی نہیں کی لہذا کسی ونڈوز اپگریڈ کی وجہ سے یہ مسئلہ آنا شروع ہوگیا ہے ۔ وہ بھی اپنے حصے کا سر پٹک چکے۔ سرور مشین ری سٹارٹ کر کر کے بھی معاملہ نہ سلجھا۔ وہ اطلاقیہ جس سے ہم ای میلز بھیجتے تھے۔ اس کی تنصیب کاری بھی دوبارہ کر لی لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔ ہم نے سرور کو اپڈیٹس والی فہرست سے نکلوا دیا۔ تاکہکوئی اپڈیٹ مزید معاملہ خراب نہ کردے اور اس مسئلے کو مصروفیات کے اختتام پذیر ہونے تک نہ کرنے والے کاموں کی فہرست کے حوالے کر دیا۔ متبادل حل کے طور پر کرنا یہ شروع کیا کہ بعد از نماز فجر گھر سے ہی مشین کنیکٹ کر کے دیکھ لیتے۔ اگر سکرپٹس اجازت نامے کے منتظر ہوتے تو ہم اجازت دے کر خود کو کوئی سرکاری افسر سمجھ لیتے۔ دن گزرتے رہے ہم نے اس مشق کو جاری رکھا۔ کمرشل ریلیز ہوجانے کے بعد جب ہماری مصروفیات میں خاطر خواہ کمی آگئی تو ہم نے سوچا کہ اب اس معاملے کو بھی سلجھا لینا چاہیے۔
ایک بار پھر نئے جذبے سے ہم نے آغاز کیا۔ سب سے پہلے گزشتہ مہینوں میں آنے والی تمام اپڈیٹس کی تفصیلات پڑھیں۔ اطلاقیہ دوبارہ انسٹال کیا۔ جب اس کو چلانے کی خاطر رن کرنے لگے تو ایکا ایکی خیال آیا کہ کیوں نہ "Elevated Privileges" کے ساتھ چلایا جائے۔ سو فوراً بطور ایڈمنسٹریٹر چلایا۔ مسئلہ سلجھ چکا تھا۔ اگرچہ ہم اس بھید سے بخوبی آشنا تھے کہ مائیکروسافٹ آپریٹنگ سسٹم بھی پاکستانی معاشرت کی طرح افسر شاہی کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود یہ سامنے دھری ہم کو مہینوں تک نظر نہ آئی۔