سانحہ چلاس کا آنکھوں دیکھا حال

خرم زکی

محفلین
2 اپریل کی رات 8 بجے باقی مسافروں کے ہمراہ میں بھی راولپنڈی سے سکردو کے لیے روانہ ہوا۔ راستہ بھر میں کنوائی کے نام پر گھنٹوں بسوں اور گاڑیوں کو روک کر رکھا گیا۔ ایک درجن سے زائد بسیں گلگت بلتستان جانے والی تھیں۔ راولپنڈی سے نکلتے وقت میرے ایک ہی عزیز کو علم تھا جبکہ باقی احباب سے میں نے خفیہ رکھا تھا، تاکہ دیر سویر کی صورت میں وہ پریشان نہ ہوں۔ راستہ بھر میری چَھٹی حس مجھے کسی دلسوز المیہ کا پتہ دے رہی تھی، لیکن میں برابر اسے وہم سمجھ کر ٹالتا رہا۔

اس دشوار سفر میں بار بار سانحہ کوہستان ذہن میں ابھرتا تھا، پھر میں دل ہی دل میں منصوبہ بندی کرتا رہا کہ اگر خدانخواستہ دہشتگرد بسوں میں آئے تو میں کسی ایک دہشتگرد کا اسلحہ چھین لوں گا اور باقی دہشتگردوں کو ماروں گا اور مسافروں کو محفوظ طریقے سے سکردو پہنچاوں گا۔ یہ سارے خیالات تھے، جو آپ سے شیئر کر رہا ہوں، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے جو مناظر دیکھے، خدا کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ راستہ بھر کے منصوبے خاک میں مل گئے۔ بے سروسامانی اور ہزاروں بپھرے قاتلوں کی بھیڑ میں جو کچھ ہوا، فی الحال وہ سب کچھ بیان کرنیکا حوصلہ نہیں۔

جیسے ہی ہم چلاس میں گونر فارم کے قریب پہنچے تو اردگرد ہزاروں لوگ موجود تھے۔ کئی درجن موٹر سائیکل سواروں نے ہمیں رکوایا۔ تقریباً وہ سب لوگ مسلح تھے۔ میں نے کھڑکی سے جھانکا تو قریب ہی پولیس تھانہ اور عوامی اجتماع کو دیکھ کر مطمئن ہوا۔ موٹر سائیکل سواروں نے بس کو رکوایا، ہوائی فائرنگ شروع ہوگئی، دائیں بائیں سے ہزاروں کی تعداد میں موجود بھیڑئے امڈ آئے اور بس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ اتنے میں دروازہ کھولنے کو کہا۔ میرے قریب چند خواتین اور ان کی گود میں چار سالہ بچہ بھی تھا۔ وہ خواتین دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔ بس کا دروازہ کھلوایا اور کہا ایک ایک کر کے نیچے اتریں۔ میں پیچھے تھا۔ پہلا مظلوم شخص شاید ان کا تعلق گلگت سے تھا وہ نیچے اتر ہی تھا کہ ایک کربناک آواز آئی۔ ابھی تک معلوم نہیں تھا کہ آواز کس کی ہے، دوسرا شخص بھی نیچے اترا۔ وہاں سے پوچھنے کی آواز آئی شناختی کارڈ دکھاؤ۔

تھوڑی دیر کے توقف کے بعد گولیوں کی آواز آئی اور ساتھ ہی شیعہ کافر کے نعرے بلند ہو گئے۔ بس سے مسافرین کانپتے، لرزتے قتل گاہ کی جانب بڑھ رہے تھے۔ سب کی زبان سے یااللہ مدد کا ورد جاری تھا۔ جب میری باری آئی میں نے اس معصوم بچے کو اٹھانے میں اس عورت کی مدد کی اور اس خاتون کو حوصلہ دیا اور کہا انشاءاللہ کچھ نہیں ہو گا، آپ بے فکر ہو جائیں، اس خاتون نے کہا کہ کچھ نہیں ہو رہا تو ان گولیوں کی آواز کیا ہے۔ میں باہر نکلا تو کئی لمبی لمبی داڑھی والے بوڑھے موجود تھے۔ انہوں نے میرے شناختی کارڈ کا پوچھا تو میں نے نفی میں سر ہلایا۔ انہوں نے میری قمیض اوپر کی اور پشت دیکھ کر کہا یہ شیعہ نہیں ہے زنجیر کی کوئی علامت نہیں۔ میں آگے بڑھ رہا تھا۔

ہمیں سائیڈ پر بلایا، لیکن میں کیا دیکھتا ہوں میرے ارد گرد 25،20 لاشیں پڑی تھیں۔ میں ان لاشوں سے گزر رہا تھا۔ میرے آگے والی بس سے بھی لوگوں کو اتار کر مار رہے تھے۔ میں نے قیامت کا وہ منظر دیکھا، جب ایک میاں بیوی یا شاید بہن بھائی ہوں، کو بس سے اتارا گیا۔ وہ دونوں شکل سے گلگت کے لگ رہے تھے۔ دہشتگردوں نے اس آدمی کے ہاتھ کو کھینچ کر دوسری طرف لے جانا چاہا تو اس خاتون نے چیختے چلاتے دوسرے ہاتھ کو دوسری طرف کھینچ لیا تو اس خاتون کے سامنے ہی گولی چلائی گئی۔ مجھ میں جرأت نہیں کہ اس خاتون کے سامنے اس کے عزیز کو تڑپتے سسکتے دیکھوں، لہٰذا میں نے اپنی نظریں پھیر لیں۔ کئی مرتبہ سوچا ان ظالموں پر حملہ کر دوں، لیکن ہزاروں درندوں میں اکیلا آدمی کیسے حملہ کرے۔؟

میری نظر دوسری طرف پھر گئی تو میں نے کیا دیکھا کہ سکردو کے ایک شخص کو پیچھے والی گاڑی سے نکال کر باہر لایا گیا۔ پتہ نہیں میری گناہگار آنکھوں نے یہ دلخراش منظر کیسے دیکھا، جب اس مظلوم پر پتھروں، ڈنڈوں اور ہر اس چیز سے جو ان کے ہاتھوں میں تھی حملہ شروع ہو گیا۔ میں نے کچھ دیر یہ منظر بھی دیکھا، لیکن اس وقت اس کی طرف نہیں دیکھ سکا، جب وہ حملوں کی تاب نہ لا کر زمین پر گر پڑا۔ وہ زور زور سے یاحسین ع کہہ رہا تھا۔ ایک ظالم نے پانچ سے دس کلو کا ایک بڑا پتھر اٹھا کر اس کے سر کی طرف پھینکا تو مجھ سے دیکھا نہیں گیا۔ اتنے میں میری نظریں ان ظالموں پر پڑیں جو چار پانچ بے گناہ شہیدوں کی لاشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر دریا برد کر رہے تھے۔

میری بائیں طرف پولیس کا تھانہ تھا، جہاں دہشتگرد داخل ہو رہے تھے اور مسلح ہو کر باہر نکل رہے تھے۔ وہاں کربلا کا منظر تھا۔ کسی پر چھری چل رہی ہے، کسی پر ڈنڈے برسائے جا رہے تھے، کسی کی چیخ، کسی کی پکار، ہر طرف خون، شیعہ کافر کے نعرے اور لاشوں کی بے حرمتی۔ کمسن دہشتگردوں کے ہاتھوں میں بھی اسلحہ، بھائی کا بہن کے سامنے تڑپنا، بھائی کا بھائی کی نظروں کے سامنے شہید ہو جانا، یہ سب وہ دلدوز مناظر ہیں جو میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ یہ وہ مناظر ہیں جن سے پہاڑوں کے دل دہل جائیں اور انسانیت کا سرشرم سے جھک جائے۔

ہاں ایک بات آپکو بتا دوں کہ میں نے ایک جرأت مند جوان کو دیکھا، جو خالی ہاتھ انسان نما درندوں سے لڑ رہا تھا۔ میں نے اسے اپنی بساط کے مطابق کسی پر مکا، کسی پر پتھر مارتے ہوئے دیکھا۔ اس پر گولیاں تو نہیں چلائی گئیں لیکن پانچ چھ درندہ صفت دہشتگرد اسے گھسیٹ کر بس کی دوسری طرف دریا کی سمت لے گئے۔ پھر نہیں معلوم انہیں کس بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔

جہاں تک کئی زندہ مسافروں کے دریا میں چھلانگ لگانے کا تعلق ہے تو وہ میں نے خود نہیں دیکھا البتہ جب ہمیں وہاں سے عورتوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ ’’تھلی چے‘‘ نامی مقام پر کسی کے گھر میں لے جایا گیا تو کئی لوگوں نے ذکر کیا کہ تین مسافروں نے دریا میں چھلانگ لگا دی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور نے کودنے کی کوشش کی تو اس پر برسٹ مارا گیا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں شہداء کی تعداد جس کو میڈیا سولہ بتا رہا ہے، وہ غلط ہے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے ہے۔ اس سانحہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد کم از کم 50 کے قریب ہے۔

ربط
 
انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔۔یہ ہے ان بدبخت فرقہ پرست ملّاوں کا اسلام۔۔۔خدا غارت کرے ان لوگوں کو جنہوں نے اس دیس کو جو اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا، ایک تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔
 

مہ جبین

محفلین
یہ مراسلہ پڑھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یا اللہ ہم پر رحم فرما ۔۔۔۔۔ہم کہاں جا رہے ہیں ؟؟؟؟؟ پتھر کے دور میں ؟؟؟ یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟؟؟
خرم بھائی اپنے دکھ ، اذیت اور تکلیف کو بیان کرنے کی تاب نہیں ہے ۔۔۔۔۔بس دعا ہے کہ اللہ ہم بھٹکے ہوؤں کو راہِ راست پر چلنا نصیب فرمائے آمین
 

شمشاد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

میرے خیال میں تو ایسا پتھر کے دور میں بھی نہیں ہوتا ہو گا اور نہ ہی زمانہ جاہلیت میں ہوتا ہو گا۔ یہ تو سب پر بازی لے گئے ہیں۔
 

خرم زکی

محفلین
میرا ایک جاننے والا زندہ بچ کر آنے میں کامیاب ہوا.۔۔وہ یہاں کراچی میں تعلیم کے لئے رہائش پذیر تھا اور یہیں اس کی دوست چلاس کے ایک سنی لڑکے سے ہوئی تھی. جب وہاں اس کو پکڑا گیا تو اسی سنی دوست نے گواہی دی کہ یہ لڑکا شیعہ نہیں ہے اور میں اس کو کراچی سے جانتا ہوں.۔۔اس سنی لڑکے کی مہربانی سے اس لڑکے کی جان بخشی ہو گئی.۔۔بعد میں اسی لڑکے نے اس کو پناہ دی اپنے گھر میں اور بعد میں روانہ کیا ۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون
انتہائی کربناک اور خون کے آنسو رلانے والا واقعہ ہے۔ خدا ایسے سفاک درندوں سے انسانیت کو بچائے۔ آمین!
 

سید ذیشان

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
نہایت ہی دلخراش واقعہ ہے- اس طرح کے واقعات قاتلوں کو قرار واقعی سزا نہ دینے کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ اگر قاتلوں کی پشت پناہی نہ کی جائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد کم از کم ہم اتنا عہد کریں کہ اپنے بچوں اور خاندان والوں کو حتی الامکان فرقہ واریت کے ناسور سے دور رکھیں گے اور انسانیت کا سبق دیں گے۔
 

مغزل

محفلین
کچھ لکھنا ممکن نہیں خرم زکی بھائی۔۔۔ آنکھ میں آنسو ہیں ۔۔۔
میں نے کبھی ’’ لعنت مجھ پر ‘‘ کی لڑی شروع کی تھی ۔۔
جی کرتا ہے پھر سے شروع کروں ۔۔۔
لعنت ت ت ت۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اللہ ہی ہمارے حال پر رحم کرے تو کرے ورنہ ہمارے اعمال تو ایسے نہیں ہیں۔
 

مغزل

محفلین
مذھب ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اور کیا کہوں اب اس سے آگے
کافر کافر کے نعرے جہالت نہیں مذہب لگوا رہا ہے بھائی جی ۔خونی مذہب

نہیں نہیں ۔۔ یہ بربریت ہے چنگیزیت ہے تعصب ہے ۔۔کوئی بھی مذہب نہ یہ تعلیم دیتا ہے اور نہ موردِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے ۔۔۔
یہ جہالت اور ذہنی خنّاس ہے ۔۔۔ جو اس طرح کے واقعے پے درپے ہوتے ہیں ۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
The 17th century philosopher and mathematician, Blaise Pascal, once observed that “men never do evil so completely and cheerfully as
"when they do it for religious conviction
اگرچہ مغرب کے تناظر میں یہ بات درست ہے لیکن پاکستان کی حد تک یہ ناسور ہم میں نہیں تھا۔ پچھلے دنوں کسی نے پوسٹ کی تھی کہ ضیاءالحق کو پھر سے آ جانا چاہیے۔ میں پوچھتا ہوں کہ وہ مرا کب تھا؟ یہ سب فرقہ واریت وغیرہ اسی کا شاخصانہ ہے۔​
 
Top