"کچھ ذکر محفلین کا " کے عنوان سے میرا مضمون آپ پڑھ چکے ہوں گے۔
اس میں میں نے ان محفلین کا ذکر کیا تھا جن سے میں مل چکا ہوں۔
کچھ محفلین کا ذکرخیال و قیاس کی بنیاد پر حاضر ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ اس سے اتفاق کیا جاتا ہے کہ نہیں
فرداً فرداً کچھ محفلین کا ذکر کروں گا پڑھئے اور اپنی آراء سے مطلع کیجئے۔
الف عین
علمیت کا یک بحرِ ذخارجو تہہ میں نہ جانے کتنے خزانے چھپائے کھوجنے والوں کا منتظر ہے۔
شوخی میں سنجیدگی اور سنجیدگی میں شوخی ۔انکا شمار ان سرپھروں میں ہوتا ہے جو اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے کسی قسم کی رکاوٹ کی پرواہ نہیں کرتے ستائیش و صلے کی پرواہ کئے بغیراسقدر گراں قدر کاموں کا بیڑا اٹھائے پھرتے ہیں جنہیں دوسرے بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ نو آموز شاعروں کی اصلاح اس طرح کرتے ہیں کہ نشتر بھی شہد میں ڈوبا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ نہایت کم آمیز مگر مختصر الفاظ میں یوں گہری بات کہ جاتے ہیں کہ ساری تشنگی مٹ جاتی ہے۔ ہم کبھی ان کے برخورداوں میں تھے آجکل ترقی پا کر تابعداروں میں ہیں۔
محمد خلیل الرحمٰن
ایک فسوں گرکی طرح حیرت کدے کا در وا کئے ہوئے۔ راہوں میں نظم و نثر کے پھول بکھیرے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔اور پڑھنے والا کسی سحر زدہ معمول کی طرح ان کے حلقہ ِ دام میں یوں گرفتار ہو جاتا ہے پھر تا عمر رہائی نصیب نہیں ہوتی منکسرمزاج خاموش طبع، مگر جب بولنے پر آئیں تو اگلی پچھلی ساری کسر نکال دیں،نثر ہو کہ نظم ،ترجمہ ہو سفرنامے ان کے شش جہت قلم کی روانی قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔ہمیں فخر ہے کہ
محمد خلیل الرحمٰن کے حلقہ ارادت میں شامل ہیں اور ان کی بلند اقبالی اور ترقی کے لئے دعاگو ہیں
فاتح
ان پر کچھ لکھنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ اردو ادب کے زرّیں لکھنوی دور کا کوئی فرد ٹائم مشین کے ذریعے ہمارے زمانے میں آ گیا ہو۔ کھوجتی ہوئی ساحر آنکھیں کھڑی ناک اس پر کسی خارپشت کے کانٹوں کی طرح سیاہ و سفید داڑھی۔ سوچ نگر کی وسعتوں کو کھوجتے ہوئے جب الفاظ کے موتیوں کو ایک لڑی میں پروتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ کسی شیش ناگ نے اپنا من اُگل دیا ہوپھر عالم حیرت میں منظر کچھ یوں ہو جاتا ہے
ذوق نظر تو ہے مگر تاب نظارہ ہے کسے
نظریں چُرا گیا ہے چاند،خیرہ ہے آفتاب بھی
محفل کی رکنیت کے ابتدائی دنوں کی بات ہے کسی غلط فہمی کی بنیاد پر ان سے جھڑپ ہو گئی مگر اب حسن التفات کا یہ عالم ہے کہ
رکاوٹ دل کی قاتل کے بوقتِ ذبح ظاہر تھی
کہ خنجر میری گردن پہ رُک رُک کر رواں ہوتا
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس ادبی قحط کے دور میں
فاتح الدین بشیر کی صحبت میسّر ہے
نایاب
شاد عظم آبادی کی مشہور زمانہ غزل کے اس مصرعے کی جیتی جاگتی تصویر
"ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم"
نایاب کے بارے میں اس مصرعے کی صداقت کی گواہی کے لئے میں اتنا ہی کہوں گا کہ محفل پر نایاب سا کوئی ہو نہ ہو کمیاب ضرور ہے،اگر مزکور بالا شعر مکمل کرنے کو کہا جائے تو دوسرا مصرع کچھ یوں ہو گا
"تعبیر ہے جسکی مسرتِ رم ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم"
اور رم بھی شرابِ سالخوردہ کی طرح دو آتشہ جس کا نشہ سر چڑھ کر بولے۔
اچھا دوست دولت ہوتا ہے اور نایاب بلاشبہ میرے خزانہِ دوستی کے چند گراں جواہرات میں سے ایک ہے
مغزل اور
غ۔ن۔غ
محفل کا ہردلعزیر جوڑا، ہر کسی کے لئے سراپا سپاس۔ جہاں خلوص و محبت کی سرحدیں آپس میں مدغم ہوتی ہیں یہ وہاں آپکو ھوا کے جھونکوں میں خوشبو کی صورت ملیں گے شیریں سخن،شیریں بیان۔ ایک بات کرے تو منہہ سے پھول جھڑیں دورا بولے تو باتوں سے گلوں کی خوشبو آئے۔
معرکہ عشق کی بازی جیت کر یک جان دو قالب ہیں گویا
طالب و مطلوب اور صاحب اولاد ہیں
یعنی اپنے حق میں خود ہی ستم ایجاد ہیں
خیر یہ تو جملہِ معترضہ تھا ورنہ محفل پر ان سے بڑھ کر مثالی جوڑا شاید ہی کوئی ہو۔
دعا ہے اللہ ان دونوں کو یوں ہی خوش و خرم اور ہنستا مسکراتا رکھے آمین
عسکری
عسکری ایک کاٹھے اخروٹ کی طرح ہے جسے دانتوں سے توڑنے کی کوشش میں آپ کے دانت ضرور ہل جائیں گے۔ بہت کھلنڈرا اور بے پرواہ نظر آنے والا حقیقت میں اس کے برعکس ہے۔ ایک سچا اور کھرا فوجی تصنع اور بناوٹ سے پاک بے لوث اور مخلص۔ پیار محبت سے رام کیا جا سکتا ہے مگر ذرا سی سختی پر کرونڈ یئے سانپ کی طرح ہتھے سے اکھڑ جانے والا۔
کرونڈ یئے سانپ کی مثال میں نے اس لئے دی ہے کہ جب اس کو چھیڑیں تو ایسی آواز نکالتا ہے جیسے تپتے ہوئے توئے پر کسی نے پانی کا چھینٹا مار دیا ہو۔ بیاطن میں کسی بچے کی طرح معصوم،محفل کے چند اراکین میں سے ایک جنہیں سمجھنا بہت مشکل ہے۔
جاری ہے