بھئی یہ تو اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی سی بات ہے، لیکن خیر پھر بھی آپ یاد کر رہے ہیں تو حاضر ہوں گو جانتا ہوں کہ پاس کچھ بھی نہیں
غزل
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مصحف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سلایا گیا مجھے
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یونہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
----------
آرزوئے بہار لاحاصل
عشقِ ناپائدار لاحاصل
قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصل
ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصل
دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار لاحاصل
شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے
کب رہا انتظار لاحاصل
------
بلا کشانِ محبت کی رسم جاری ہے
وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے
نگاہِ شوق نہیں، آہِ صبح و شام نہیں
عجب فسردہ دلی حیف مجھ پہ طاری ہے
نگہ میں آبِ رُخِ یار، ہاتھ میں تیشہ
زمیں کی مانگ اِسی جہد نے سنواری ہے
اسے بھی جھیل ہی جائے گی فطرتِ عشّاق
یہ مانا اب کے لگا ہے جو زخم، کاری ہے
یہی متاع ہے میری، یہی میرا حاصل
نہالِ غم کی لہو سے کی آبیاری ہے
------
اس جہاں میں ایسی کوئی بات ہو
جیت ہو اور نے کسی کی مات ہو
اس طرح پینے کو مے کب ملتی ہے
ناب ہو، تُو ساتھ ہو، برسات ہو
زخم دل کے چین سے رہنے نہ دیں
روزِ روشن ہو کہ کالی رات ہو
بس ہوس کے ہیں یہ سارے سلسلے
بابری مسجد ہو یا "سُمنات" ہو
برملا گوئی کا حاصل ہے اسد
اپنوں کی نظروں میں بھی کم ذات ہو
--------
رباعی
بکھرے ہوئے پھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندگانی سن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی سن لے
شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم