سخنورانِ محفل کے شعری فن پارے۔۔۔!

آپ کو یہ دھاگہ کیسا لگا۔۔۔؟


  • Total voters
    63

محمد بلال اعظم

لائبریرین
چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ مغزل بھائی، کاشف عمران بھائی، محمد یعقوب آسی صاحب، متلاشی بھائی اور دوسرے احباب۔
برائے اصلاح

ایک جگنو ہے کہ منزل کے حوالے مانگے
ایک تتلی ہے کہ جگنو سے اُجالے مانگے
ایک وہ حشر ہے جو دل میں بپا رہتا ہے
اور اک دل ہے، زباں پر بھی جو تالے مانگے
میری تصویر کے سب رنگ زوال آمادہ
اور مرا یار کہ شہکار نرالے مانگے
قیس کی آخرش اب دربدری ختم ہوئی
آج تو لیلیٰ نے بھی دیس نکالے مانگے
رسم کچھ ایسی چلی موسم گل میں کہ یہاں
سب نے مانگے بھی تو بس خون کے پیالے مانگے
جانے کس دور میں دھرتی پہ میں اترا ہوں بلال
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے
(محمد بلال اعظم)
 

متلاشی

محفلین
حضورِ والا تو بادشاہ ہیں، اور اپنی بادشاہت کا اعلان بھی فرما چکے۔ ہم فقیروں تک یہ اعلان حضرت علامہ سَرسَری کے ذریعے پہنچا تھا۔
تب ہم خاکساری اور فقیری کی آبرو کے بارے میں متفکر تھے اور اب بھی ہیں۔

بہت آداب۔
استاذ گرامی آپ مجھ سے مخاطب ہیں یا مکرمی کاشف عمران صاحب سے ؟
 

متلاشی

محفلین
چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ مغزل بھائی، کاشف عمران بھائی، محمد یعقوب آسی صاحب، متلاشی بھائی برائے اصلاح

ایک جگنو ہے کہ منزل کے حوالے مانگے
ایک تتلی ہے کہ جگنو سے اُجالے مانگے
ایک وہ حشر ہے جو دل میں بپا رہتا ہے
اور اک دل ہے، زباں پر بھی جو تالے مانگے
میری تصویر کے سب رنگ زوال آمادہ
اور مرا یار کہ شہکار نرالے مانگے
قیس کی آخرش اب دربدری ختم ہوئی
آج تو لیلیٰ نے بھی دیس نکالے مانگے
رسم کچھ ایسی چلی موسم گل میں کہ یہاں
سب نے مانگے بھی تو بس خون کے پیالے مانگے
جانے کس دور میں دھرتی پہ میں اترا ہوں بلال
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے
(محمد بلال اعظم)
زبردست غزل بلال بھائی ۔۔۔! لاجواب۔۔۔۔ !
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ایک جگنو ہے کہ منزل کے حوالے مانگے
ایک تتلی ہے کہ جگنو سے اُجالے مانگے
ایک وہ حشر ہے جو دل میں بپا رہتا ہے
اور اک دل ہے، زباں پر بھی جو تالے مانگے
میری تصویر کے سب رنگ زوال آمادہ
اور مرا یار کہ شہکار نرالے مانگے
قیس کی آخرش اب دربدری ختم ہوئی
آج تو لیلیٰ نے بھی دیس نکالے مانگے
رسم کچھ ایسی چلی موسم گل میں کہ یہاں
سب نے مانگے بھی تو بس خون کے پیالے مانگے
جانے کس دور میں دھرتی پہ میں اترا ہوں بلال
زندہ رہنے کے بھی انسان حوالے مانگے
(محمد بلال اعظم)

بہت اچھی غزل ہے۔ داد قبول کیجیے۔
 
کاشف عمران اور متلاشی بھائی میں تو کسی فہرست میں آتا ہی نہیں ہوں. اساتذہ محمد وارث , محمد یعقوب آسی اور دیگر اساتذہ کا انتظار تھا بس. باقی میری شاعری تو میرے مطابق شاعری ہی نہیں ہے. کیونکہ میں اپنے ہی مطابق شاعر ہی نہیں ہوں. بس تک سے تک ملانے والی بات ہے. اور یہ کام ہر انسان( غیر شاعر) اپنی زندگی میں کرتا ہی ہے. تو کوئی وجہ نہیں کہ میرا کلام سخنوران کے کلام کی فہرست میں داخل ہو سکے. بہر حال.. اپنی دو عدد تک بندیاں پیش کر رہا ہوں. اس امید کے ساتھ کہ میری ناتجربہ کاری کو در گزر فرمائینگے.


غزل١
وہ بے مثال اب بھی ہے جو بے مثال تھا
جب بھی کسی نے دیکھا سراپا جمال تھا

وہ امتزاجِ حسن و محبت کمال تھا
دونوں کو کچھ خبر نہیں کیا اپنا حال تھا

منزل پہ جاکے عشٖق کی میرا یہ حال تھا
کہتا تھا آسمان جسے رخ پے خال تھا

بر مہر رو دو چشم کا جھرنا کمال تھا
پانی کا عکس تھا کہ طلسمِ جمال تھا

حاجت دوا کی تھی نہیں وہ اپنا حال تھا
غیرت میں مر رہا تھا یوں اتنا نڈھال تھا

اب تک ہے یاد مجھ کو جو وقتِ وصال تھا
وہ ماہِ چار دہ تھا کہ سن چودہ سال تھا

اک شاہِ پر غرور کا انجام یہ ہوا
سر کاسہِ گدا تھا بدستِ سوال تھا

بسمل زبان کٹ گئی اس میکدے میں آج
معلوم جب ہوا مجھے ساغر میں بال تھا


غزل٢

یہی ہے بسمل مرا عقیدہ کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
وہ بحرِ الفت ہے میں کنارہ کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں

ہے منتخب یہ ازل سے رشتہ کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
نہ اسنے سوچا نہ میں نے سمجھا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں

ہوا ہے وہ امتزاج پیدا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
ہے دونوں قالب میں روح تنہا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں

تمام عالم کی جستجو ہے ہوئے ہیں دو ایک جان کیسے
یونہی ہے حیران چشمِ بینا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں

وہ مجھ میں کھویا میں اس میں کھویا جہان مین لاولد ہیں گویا
کرشمہ الفت نے یہ دکھایا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں

وہ میری پتلی میں ہے سراپا میں اسکی پتلی میں ہوں سراپا
خود اپنی آنکھوں میں آج دیکھا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
 
چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ​
مغزل​
بھائی،​
کاشف عمران​
بھائی،​
محمد یعقوب آسی​
صاحب،​
متلاشی​
بھائی اور دوسرے احباب۔​
برائے اصلاح​

جنابِ محمد بلال اعظم ۔ یہ تاگا تو اصلاح کا نہیں، یہاں تو برسایا جاتا ہے اور وہ بھی ڈونگروں کی صورت۔ برسیں گے بھی، اور برسائیں گے بھی!
آپ سمیت اتنے سارے دوستوں کی اتنی ساری شاندار شاعری جمع ہو گئی ہے۔ یوں حق ادا نہیں ہو گا، کسی وقت انہماک سے دیکھتا ہوں، پھر کچھ عرض کر سکوں گا۔
 
احبابِ گرامی! اتنی ساری پذیرائی پر آپ سب کا ممنون ہوں۔

ع: محبتوں کا قرض اور بڑھ گیا فقیر پر

ایک نظم اور پیش کروں گا، برداشت فرمائیے گا۔
 
پہلے سوچا تھا کہ اردو غزل اور نظم کو ایک ہی کتاب میں جمع کیا جائے، تب اس کا نام ’’حرفِ اَلِف‘‘ سوچا تھا۔
وہی نظم پیش ہے۔

حرفِ اَلِف

علی الاعلان، میں تسلیم کرتا ہوں
کہ میں تاجر ہوں لفظوں کا
قلم کو میں نے پابندِ سلاسل کر دیا ہے
حرمت و تقدیسِ الفاظ و معانی
میں نے بیچی ہے
جسے چاہو بتا دو اور جو چاہو سزا دے لو
مگر پہلے
خریدارانِ تقدیسِ قلم کے نام تو سن لو!

سبھی ناموں سے پہلا نام ہے
اس اول و آخر، خدا وندِ دو عالم کا
کہ ہر تقدیس، ہر تعریف، ہر تسبیح کے لائق
اسی کی ذاتِ اقدس ہے
اسی نے مجھ کو بخشی ہے یہ دولت
جس کے حق میں اس نے فرمایا
کہ ’’پڑھ،
تیرا خدا تکریم کے اعلیٰ تریں منصب پہ فائز ہے
وہ جس نے دولتِ تحریر بخشی اپنے بندوں کو
پھر اس سے علم کی قوت عطا کی ناتوانوں کو‘‘
اگر سارے قلم
قرنوں
لکھیں تسبیحِ ربانی
تو بھی ممکن نہیں
حرفِ الف کی شرح لکھ پائیں
عطا کر کے کتابِ معرفت
اس نے نوازا، عزت و توقیر سے
حرفوں کو، لفظوں کو
قلم بخشا، زباں بخشی
حیاتِ جاوداں بخشی

مرے لفظوں کی حرمت کے خریداروں میں شامل ہے
صدائے نغمہ ریز
ان بچیوں کی، جو یہ کہتی تھیں:
’’وہ دیکھو!
پار اُن ٹیلوں کے ہوتا ہے طلوعِ بدر
تم سارے دعا مانگو!
خدا کا شکر واجب ہے‘‘
وہ کہتی تھیں کہ ’’ہم ہیں
بیٹیاں نجار کے کنبے کی
باعث ہے مسرت کا
کہ انسانوں کا محسن
آدمیت کے تقدس کا پیمبر
ہو گا، ہمسایہ ہمارا،
تم دعا مانگو!‘‘
پیامِ انبساط و سرخوشی تھا
اہلِ یثرب کے لئے یہ گیت
جو، اَب ہے
مری عزت کا باعث
اور میرے حرف سارے
اس حبیبِ کبریا کے بابِ عزت پر
کھڑے ہیں
دست بستہ، بے زباں، بے جرأتِ اظہار
لرزاں!
کوئی گستاخی نہ ہو جائے!

جوانوں کے دلوں کی دھڑکنیں
دم ساز بوڑھوں کی
محبت کرنے والی بیبیاں
وہ سیپ ہیں
آغوش میں جن کی
گہر بنتے ہیں قطروں سے
جہاں کل کے مشاہیر اور دانشور
مفکر اور اہلِ علم و فن
قلقاریاں کرتے ہیں، اٹھلاتے ، مچلتے ہیں

مرے بچے، مری آنکھیں
مرے بھائی، مرے بازو
مری دھرتی کے سب آہن بدن مزدور،
دہقان اور کاری گر،
مری امید کے مرکز سے وابستہ
سبھی فنکار،
حرف و صوت،
رنگ و سنگ،
تحریر و قلم کی آبرو کے پاسباں سارے

مری ہستی، مری سوچیں،
قلم میرا، مری تحریر
ان سب کی امانت ہے
قلم، قرطاس، فکر و فہم
جو کچھ پاس ہے میرے
وہ ان سب کی عنایت ہے
میں لکھتا ہوں
انہی کے واسطے
مجھ کو چکانا ہے یہ سارا قرض
اور اپنے قلم کی حرمت و توقیر کا بھی پاس رکھناہے
مگر اک فکر لاحق ہے
بڑے مشکل مراحل ہیں
گزرگاہِ محبت میں
بڑی صبر آزما گھڑیاں
یہاں پیش آیا کرتی ہیں!
تو پھر ایسے میں
کیا حقِ قلم ہو گا ادا مجھ سے؟

یہی اک فکر دامن گیر ہے کب سے!
علی الاعلان، میں تسلیم کرتا ہوں!!



محمد یعقوب آسی ۔ 13۔ اگست 1986ء
 
متلاشی بھائی،
اس ناچیز کی تو ہمت بھی نہ ہوتی اس دھاگے پر ایک حرف بھی لکھنے کی۔۔۔ مگر آپنے ٹیگ کر کے مجبور کر دیا کہ ایک آدھ کاوش آپ کی نظر کر دوں۔ سلامت رہیے!
---------------------

اشک آنکھوں میں گر نہیں ہوتا​
سینے میں کیا جگر نہیں ہوتا!​
میرا ہمدرد ہے مرا ہم دم​
شامِ غم وہ مگر نہیں ہوتا​
قصۂ مختصر کہ دیر نہ کر​
اب اکیلے سفر نہیں ہوتا​
جان تم پر لٹائی ہے پھر بھی​
حالِ دل معتبر نہیں ہوتا​
ضبط اپنا شعار تھا لیکن​
کیا کریں اب اگر نہیں ہوتا​
تیری عزت عزیز تھی ورنہ​
ڈوبتے کو خطر نہیں ہوتا​
کوئی امید اب نہیں باقی​
دل کو رکنے کا ڈر نہیں ہوتا​
خاک چھانی ہے ریگزاروں کی​
قیس بھی اب اُدھر نہیں ہوتا​
اور شدت سے یاد آتے ہو​
پینا اب بے اثر نہیں ہوتا​
شب اندھیری تھی کٹ گئی اِجلؔال​
کیوں ظہورِ سحر نہیں ہوتا​
-------------------​


تم محبت سے کبھی مجھ کو منانے آتے
ورنہ دو چار نئے زخم لگانے آتے

تم کہ یادوں میں رلانے تو چلے آتے ہو
کاش خوابوں میں سہی، خوب ہنسانے آتے

گر یقیں تجھ پہ نہ ہوتا تو ستمگر ہم کیوں
تیرے کوچے کی طرف جان گنوانے آتے

تم مقدر سے ملے تھے مگر اے جان ِ وفا
ساتھ کیوں چھوڑ گئے، اتنا بتانے آتے

جبکہ قدرت ہےقلم پر، نہ ہے اندازِ بیاں
پھر کہاں سے ہیں یہ انمول خزانے آتے

بعدِ میت بھی نہ اِجلاؔل ہوا اُن سے کہ وہ
قبر پر میری ہی دو آنسو بہانے آتے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کاشف عمران اور متلاشی بھائی میں تو کسی فہرست میں آتا ہی نہیں ہوں. اساتذہ محمد وارث , محمد یعقوب آسی اور دیگر اساتذہ کا انتظار تھا بس. باقی میری شاعری تو میرے مطابق شاعری ہی نہیں ہے. کیونکہ میں اپنے ہی مطابق شاعر ہی نہیں ہوں. بس تک سے تک ملانے والی بات ہے. اور یہ کام ہر انسان( غیر شاعر) اپنی زندگی میں کرتا ہی ہے. تو کوئی وجہ نہیں کہ میرا کلام سخنوران کے کلام کی فہرست میں داخل ہو سکے. بہر حال.. اپنی دو عدد تک بندیاں پیش کر رہا ہوں. اس امید کے ساتھ کہ میری ناتجربہ کاری کو در گزر فرمائینگے.


غزل١
وہ بے مثال اب بھی ہے جو بے مثال تھا
جب بھی کسی نے دیکھا سراپا جمال تھا

وہ امتزاجِ حسن و محبت کمال تھا
دونوں کو کچھ خبر نہیں کیا اپنا حال تھا

منزل پہ جاکے عشٖق کی میرا یہ حال تھا
کہتا تھا آسمان جسے رخ پے خال تھا

بر مہر رو دو چشم کا جھرنا کمال تھا
پانی کا عکس تھا کہ طلسمِ جمال تھا

حاجت دوا کی تھی نہیں وہ اپنا حال تھا
غیرت میں مر رہا تھا یوں اتنا نڈھال تھا

اب تک ہے یاد مجھ کو جو وقتِ وصال تھا
وہ ماہِ چار دہ تھا کہ سن چودہ سال تھا

اک شاہِ پر غرور کا انجام یہ ہوا
سر کاسہِ گدا تھا بدستِ سوال تھا

بسمل زبان کٹ گئی اس میکدے میں آج
معلوم جب ہوا مجھے ساغر میں بال تھا


غزل٢

یہی ہے بسمل مرا عقیدہ کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
وہ بحرِ الفت ہے میں کنارہ کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں

ہے منتخب یہ ازل سے رشتہ کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
نہ اسنے سوچا نہ میں نے سمجھا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں

ہوا ہے وہ امتزاج پیدا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
ہے دونوں قالب میں روح تنہا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں

تمام عالم کی جستجو ہے ہوئے ہیں دو ایک جان کیسے
یونہی ہے حیران چشمِ بینا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں

وہ مجھ میں کھویا میں اس میں کھویا جہان مین لاولد ہیں گویا
کرشمہ الفت نے یہ دکھایا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں

وہ میری پتلی میں ہے سراپا میں اسکی پتلی میں ہوں سراپا
خود اپنی آنکھوں میں آج دیکھا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
واہ
کیا بات ہے مزمل بھائی۔
دونوں غزلیں ہی خوب ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
پہلے سوچا تھا کہ اردو غزل اور نظم کو ایک ہی کتاب میں جمع کیا جائے، تب اس کا نام ’’حرفِ اَلِف‘‘ سوچا تھا۔
وہی نظم پیش ہے۔

حرفِ اَلِف

علی الاعلان، میں تسلیم کرتا ہوں
کہ میں تاجر ہوں لفظوں کا
قلم کو میں نے پابندِ سلاسل کر دیا ہے
حرمت و تقدیسِ الفاظ و معانی
میں نے بیچی ہے
جسے چاہو بتا دو اور جو چاہو سزا دے لو
مگر پہلے
خریدارانِ تقدیسِ قلم کے نام تو سن لو!

سبھی ناموں سے پہلا نام ہے
اس اول و آخر، خدا وندِ دو عالم کا
کہ ہر تقدیس، ہر تعریف، ہر تسبیح کے لائق
اسی کی ذاتِ اقدس ہے
اسی نے مجھ کو بخشی ہے یہ دولت
جس کے حق میں اس نے فرمایا
کہ ’’پڑھ،
تیرا خدا تکریم کے اعلیٰ تریں منصب پہ فائز ہے
وہ جس نے دولتِ تحریر بخشی اپنے بندوں کو
پھر اس سے علم کی قوت عطا کی ناتوانوں کو‘‘
اگر سارے قلم
قرنوں
لکھیں تسبیحِ ربانی
تو بھی ممکن نہیں
حرفِ الف کی شرح لکھ پائیں
عطا کر کے کتابِ معرفت
اس نے نوازا، عزت و توقیر سے
حرفوں کو، لفظوں کو
قلم بخشا، زباں بخشی
حیاتِ جاوداں بخشی

مرے لفظوں کی حرمت کے خریداروں میں شامل ہے
صدائے نغمہ ریز
ان بچیوں کی، جو یہ کہتی تھیں:
’’وہ دیکھو!
پار اُن ٹیلوں کے ہوتا ہے طلوعِ بدر
تم سارے دعا مانگو!
خدا کا شکر واجب ہے‘‘
وہ کہتی تھیں کہ ’’ہم ہیں
بیٹیاں نجار کے کنبے کی
باعث ہے مسرت کا
کہ انسانوں کا محسن
آدمیت کے تقدس کا پیمبر
ہو گا، ہمسایہ ہمارا،
تم دعا مانگو!‘‘
پیامِ انبساط و سرخوشی تھا
اہلِ یثرب کے لئے یہ گیت
جو، اَب ہے
مری عزت کا باعث
اور میرے حرف سارے
اس حبیبِ کبریا کے بابِ عزت پر
کھڑے ہیں
دست بستہ، بے زباں، بے جرأتِ اظہار
لرزاں!
کوئی گستاخی نہ ہو جائے!

جوانوں کے دلوں کی دھڑکنیں
دم ساز بوڑھوں کی
محبت کرنے والی بیبیاں
وہ سیپ ہیں
آغوش میں جن کی
گہر بنتے ہیں قطروں سے
جہاں کل کے مشاہیر اور دانشور
مفکر اور اہلِ علم و فن
قلقاریاں کرتے ہیں، اٹھلاتے ، مچلتے ہیں

مرے بچے، مری آنکھیں
مرے بھائی، مرے بازو
مری دھرتی کے سب آہن بدن مزدور،
دہقان اور کاری گر،
مری امید کے مرکز سے وابستہ
سبھی فنکار،
حرف و صوت،
رنگ و سنگ،
تحریر و قلم کی آبرو کے پاسباں سارے

مری ہستی، مری سوچیں،
قلم میرا، مری تحریر
ان سب کی امانت ہے
قلم، قرطاس، فکر و فہم
جو کچھ پاس ہے میرے
وہ ان سب کی عنایت ہے
میں لکھتا ہوں
انہی کے واسطے
مجھ کو چکانا ہے یہ سارا قرض
اور اپنے قلم کی حرمت و توقیر کا بھی پاس رکھناہے
مگر اک فکر لاحق ہے
بڑے مشکل مراحل ہیں
گزرگاہِ محبت میں
بڑی صبر آزما گھڑیاں
یہاں پیش آیا کرتی ہیں!
تو پھر ایسے میں
کیا حقِ قلم ہو گا ادا مجھ سے؟

یہی اک فکر دامن گیر ہے کب سے!
علی الاعلان، میں تسلیم کرتا ہوں!!



محمد یعقوب آسی ۔ 13۔ اگست 1986ء
زبردست
بہت ہی اعلیٰ
 

مغزل

محفلین
احباب میری تازہ ترین غزل محفل میں موجود ہے سو یہاں دوبارہ پیش کر کے محض صفحے کا پیٹ بھرنے والی بات ہے ۔
خیال نہ کیجے تو بندہ ناچیز م۔م۔مغل کی پیش کردہ فروگذاشت ملاحظہ کیجے اور آراء سے ہمکنار کیجے ۔ طے تو آپ احباب نے کرنا ہے کیا اچھا ہے کیا برا ہے ہم تو بس آپ کی محبتوں کے اسیر ہیں ، متلاشی ذیشان اور بلال میاں کی دھمکیوں کا ایسا ہی جواب دیا جاسکتا تھا۔۔ :angel:
تازہ غزل ربط : شعر کہنا اگر سزا ہوجائے
اور یہ ہمارے ایامِ جاہلیت کی کارفرمائیاں :
سال کی کوکھ میں پلتے ہوئے دن - ( سال 2010 کی پہلی نظم)
آزاد نظم : "Compulsion
بہار کی وحشت ایک غزل
مکمل " غزل" اردو محفل میں پہلی بار (محفل میں ابتدا کے دن تھے آہ کیا دن تھے)
جشن آزادی پر غزل
طولانی نظم ۔ خواب سفر
مقدور بھر شعر
ایک مزید غزل
نظم ایک سوال
ناطقہ : عجلت میں کہی گئی نظم
مقدور بھر غزل
خون ہی خون۔۔
ہماری داستاں ۔۔۔
سورج کہاں اٹھانے لگا
بس بھائیو ؟؟ اب تو کراس نہیں دو گے ناں :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
یاد کرنے کا شکریہ متلاشی صاحب ۔ تمام دوستوں کا کلام بہت اعلیٰ ہے۔ لیکن ہم بھی کبھی خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہوئے تھے۔ سو اپنے دامن کی مشتِ خاکِ جگر آپ سب دوستوں کی نذر۔

میسّر اب قیادت ہو گئی ہے
خصومت ہی سیاست ہوگئی ہے

نشاطِ وصل کی جو آرزو تھی
اب اس سے بھی عداوت ہوگئی ہے

صنم ہم بھی کبھی پوجا کئے تھے
سمٹ کر اب یہ وحدت ہوگئی ہے

دعا دیتے تھے "عمر ِجاوداں ہو“
مبارک ہو! شہادت ہوگئی ہے

جسے رکھتا تھا اپنی جاں کا دشمن
اب اس سے بھی ارادت ہوگئی ہے

جسے سمجھے تھے سعئ رائیگاں ہم
وہی الفت، عبادت ہوگئی ہے

ترے کوچے کو ہی جاتے ہیں اب تو
مرے قدموں کو عادت ہوگئی ہے

تمنا شعر کہنے کی تھی فرّخ
غزل مجھکو، سعادت ہوگئی ہے

(فرخ منظور)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کے صحرا میں اب حباب کہاں
تشنگی دیکھے ہے سراب کہاں

جو کہا میں نے "ہے حجاب کہاں؟"
مجھ سے بولیں کہ "اب شباب کہاں"

اک نگہ میں ہی جو کرے گھائل
تیری تیغوں میں ایسی آب کہاں

جس کو دیکھوں تو چاہتا جاؤں
ایسا نکھرا مگرشباب کہاں

بے طلب ہم کو جو کرے سیراب
ایسا دریا کہاں، سحاب کہاں

مکتبِ عشق "مَیں" گیا ہی نہیں
تجھ سے ملنے کی مجھ میں تاب کہاں

جس کو پڑھ کر سبھی کو ہو ایقاں
میرے مولا ہے وہ کتاب کہاں

ماورا کردے دو جہاں سے مجھے
تیری آنکھوں میں‌ وہ شراب کہاں

یونہی ہم نے تھا ذکرِ یار کیا
چل دئیے روٹھ کر جناب کہاں

کیا بتاؤں کہ کتنے عشق کیے
میرے فرخ ابھی حساب کہاں​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حساب غرق ہوا، آفتاب غرق ہوا
وہ چاند نکلا تو اپنا عذاب غرق ہوا

کتابِ عشق سے نخچیر سازی سیکھے تھے
ملے ہیں تم سے تو سارا نصاب غرق ہوا

بیاں کریں نہ کریں اس سے ماجرائے عشق
ادھیڑ بُن میں ہمارا شباب غرق ہوا

رفاقتوں کے مہ و سال بن گئے لمحہ
وہ ایک لمحہ بھی بن کر حباب غرق ہوا

عبث ہے ڈھونڈنا امواجِ بحرِ عشق میں اب
وہ جس کا نام تھا فرّخ، جناب غرق ہوا

(فرخ منظور)​
 

متلاشی

محفلین
یاد کرنے کا شکریہ متلاشی صاحب ۔ تمام دوستوں کا کلام بہت اعلیٰ ہے۔ لیکن ہم بھی کبھی خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہوئے تھے۔ سو اپنے دامن کی مشتِ خاکِ جگر آپ سب دوستوں کی نذر۔

میسّر اب قیادت ہو گئی ہے
خصومت ہی سیاست ہوگئی ہے

نشاطِ وصل کی جو آرزو تھی
اب اس سے بھی عداوت ہوگئی ہے

صنم ہم بھی کبھی پوجا کئے تھے
سمٹ کر اب یہ وحدت ہوگئی ہے

دعا دیتے تھے "عمر ِجاوداں ہو“
مبارک ہو! شہادت ہوگئی ہے

جسے رکھتا تھا اپنی جاں کا دشمن
اب اس سے بھی ارادت ہوگئی ہے

جسے سمجھے تھے سعئ رائیگاں ہم
وہی الفت، عبادت ہوگئی ہے

ترے کوچے کو ہی جاتے ہیں اب تو
مرے قدموں کو عادت ہوگئی ہے

تمنا شعر کہنے کی تھی فرّخ
غزل مجھکو، سعادت ہوگئی ہے

(فرخ منظور)

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
دل کے صحرا میں اب حباب کہاں​
تشنگی دیکھے ہے سراب کہاں​
جو کہا میں نے "ہے حجاب کہاں؟"​
مجھ سے بولیں کہ "اب شباب کہاں"​
اک نگہ میں ہی جو کرے گھائل​
تیری تیغوں میں ایسی آب کہاں​
جس کو دیکھوں تو چاہتا جاؤں​
ایسا نکھرا مگرشباب کہاں​
بے طلب ہم کو جو کرے سیراب​
ایسا دریا کہاں، سحاب کہاں​
مکتبِ عشق "مَیں" گیا ہی نہیں​
تجھ سے ملنے کی مجھ میں تاب کہاں​
جس کو پڑھ کر سبھی کو ہو ایقاں​
میرے مولا ہے وہ کتاب کہاں​
ماورا کردے دو جہاں سے مجھے​
تیری آنکھوں میں‌ وہ شراب کہاں​
یونہی ہم نے تھا ذکرِ یار کیا​
چل دئیے روٹھ کر جناب کہاں​
کیا بتاؤں کہ کتنے عشق کیے​
میرے فرخ ابھی حساب کہاں​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
حساب غرق ہوا، آفتاب غرق ہوا​
وہ چاند نکلا تو اپنا عذاب غرق ہوا​
کتابِ عشق سے نخچیر سازی سیکھے تھے​
ملے ہیں تم سے تو سارا نصاب غرق ہوا​
بیاں کریں نہ کریں اس سے ماجرائے عشق​
ادھیڑ بُن میں ہمارا شباب غرق ہوا​
رفاقتوں کے مہ و سال بن گئے لمحہ​
وہ ایک لمحہ بھی بن کر حباب غرق ہوا​
عبث ہے ڈھونڈنا امواجِ بحرِ عشق میں اب​
وہ جس کا نام تھا فرّخ، جناب غرق ہوا​
بہت شکریہ جناب فرخ منظور صاحب آپ نے ہماری درخواست کو شرفِ قبولیت سے نوازتے ہوئے اتنی خوبصورتی شاعری شیئر کی ۔۔۔! بہت ہی عمدہ ۔۔۔ لاجواب ۔۔۔!
 
Top