یاد کرنے کا شکریہ
متلاشی صاحب ۔ تمام دوستوں کا کلام بہت اعلیٰ ہے۔ لیکن ہم بھی کبھی خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہوئے تھے۔ سو اپنے دامن کی مشتِ خاکِ جگر آپ سب دوستوں کی نذر۔
میسّر اب قیادت ہو گئی ہے
خصومت ہی سیاست ہوگئی ہے
نشاطِ وصل کی جو آرزو تھی
اب اس سے بھی عداوت ہوگئی ہے
صنم ہم بھی کبھی پوجا کئے تھے
سمٹ کر اب یہ وحدت ہوگئی ہے
دعا دیتے تھے "عمر ِجاوداں ہو“
مبارک ہو! شہادت ہوگئی ہے
جسے رکھتا تھا اپنی جاں کا دشمن
اب اس سے بھی ارادت ہوگئی ہے
جسے سمجھے تھے سعئ رائیگاں ہم
وہی الفت، عبادت ہوگئی ہے
ترے کوچے کو ہی جاتے ہیں اب تو
مرے قدموں کو عادت ہوگئی ہے
تمنا شعر کہنے کی تھی فرّخ
غزل مجھکو، سعادت ہوگئی ہے
(
فرخ منظور)
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
دل کے صحرا میں اب حباب کہاں
تشنگی دیکھے ہے سراب کہاں
جو کہا میں نے "ہے حجاب کہاں؟"
مجھ سے بولیں کہ "اب شباب کہاں"
اک نگہ میں ہی جو کرے گھائل
تیری تیغوں میں ایسی آب کہاں
جس کو دیکھوں تو چاہتا جاؤں
ایسا نکھرا مگرشباب کہاں
بے طلب ہم کو جو کرے سیراب
ایسا دریا کہاں، سحاب کہاں
مکتبِ عشق "مَیں" گیا ہی نہیں
تجھ سے ملنے کی مجھ میں تاب کہاں
جس کو پڑھ کر سبھی کو ہو ایقاں
میرے مولا ہے وہ کتاب کہاں
ماورا کردے دو جہاں سے مجھے
تیری آنکھوں میں وہ شراب کہاں
یونہی ہم نے تھا ذکرِ یار کیا
چل دئیے روٹھ کر جناب کہاں
کیا بتاؤں کہ کتنے عشق کیے
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
حساب غرق ہوا، آفتاب غرق ہوا
وہ چاند نکلا تو اپنا عذاب غرق ہوا
کتابِ عشق سے نخچیر سازی سیکھے تھے
ملے ہیں تم سے تو سارا نصاب غرق ہوا
بیاں کریں نہ کریں اس سے ماجرائے عشق
ادھیڑ بُن میں ہمارا شباب غرق ہوا
رفاقتوں کے مہ و سال بن گئے لمحہ
وہ ایک لمحہ بھی بن کر حباب غرق ہوا
عبث ہے ڈھونڈنا امواجِ بحرِ عشق میں اب
وہ جس کا نام تھا فرّخ، جناب غرق ہوا