سخنورانِ محفل کے شعری فن پارے۔۔۔!

آپ کو یہ دھاگہ کیسا لگا۔۔۔؟


  • Total voters
    63

متلاشی

محفلین
رہی بات شاعری کی، اور پھر اس پر شرط ’’بہترین‘‘ کی بھی۔ بہت مشکل ہے، بہت ہی مشکل ہے!

میری ساری شاعری (اردو : نظم اور غزل، پنجابی : نظم اور غزل) پہلے ہی محفل کے سارے احباب دیکھ چکے! ایک شعر ہے جو وہاں شامل نہیں ہے، سو عرض کئے دیتا ہوں:
عقلِ کم کوش کو موت کی گود میں جا کے نیند آ گئی​
عشق منہ زور تھا برزخوں کے سفر پر رہا حشر تک​

کوئی قافیہ سوجھ بھی گیا تو ردیف کہاں چلنے دے گی۔

جنابِ محمد وارث
استاذ گرامی ۔۔! آپ کو اپنی جو کاوشِ شعری سب سے زیادہ پسند ہو ۔۔۔ وہی ہمارے ساتھ شیئر کر دیجئے ۔۔۔۔!
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
محمد یعقوب آسی - مزمل شیخ بسمل اور مغزل صاحبان۔ بار بار خود کو خاکسار، فرش نشیں، اور فقیر وغیرہ لکھ کر آپ حضرات کچھ اور ثابت کریں نہ کریں، یہ ضرور ثابت کر رہے ہیں کہ ایک ڈھیٹ تو متلاشی صاحب ہیں، جنھوں نے دھڑلے سے نہ صرف دھاگا شروع کیا، بلکہ ایک غزل بھی چھاپ ماری اور دوسرا ڈھیٹ میں ہوں جس نے فوراً آدھا دیوان اپ لوڈ کر دیا۔

بھائیو، رحم کرو۔ اپنی "خاکساری" میں میری اور متلاشی صاحب کی پھرتیوں کا جنازہ تو نہ نکالو۔ اگر اپنی غزل پیش نہ کرنا "خاکساری" ہے، تو میں اور متلاشی کیا "بقلمِ خود تخت نشیں" ہیں؟؟؟
 
رہی بات شاعری کی، اور پھر اس پر شرط ’’بہترین‘‘ کی بھی۔ بہت مشکل ہے، بہت ہی مشکل ہے!

میری ساری شاعری (اردو : نظم اور غزل، پنجابی : نظم اور غزل) پہلے ہی محفل کے سارے احباب دیکھ چکے! ایک شعر ہے جو وہاں شامل نہیں ہے، سو عرض کئے دیتا ہوں:
عقلِ کم کوش کو موت کی گود میں جا کے نیند آ گئی​
عشق منہ زور تھا برزخوں کے سفر پر رہا حشر تک​

کوئی قافیہ سوجھ بھی گیا تو ردیف کہاں چلنے دے گی۔

جنابِ محمد وارث
واہ واہ
کیا ہی کہنے کیا غضب کا شعر ہے
بہت خوب
شاد و آباد رہیں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کیا مطلب بلال بھائی ؟۔۔۔ ۔
کیا محمود بھائی سے فرمائش کرنے پر کراس ملتا ہے ۔۔۔ ۔؟
اصل میں محمود بھائی نے کہا تھا کہ
شکریہ بھیا مگر میں اس قابل کہاں کہ شاعروں میں شمار کیا جاؤں :angel:
تو چونکہ مجھے اس بات سے کھلا تضاد تھا لہٰذا میں نے کہا کراس دوں آپ کو غیر متفق ہونے کی وجہ سے۔،​
 

متلاشی

محفلین
محمد یعقوب آسی - مزمل شیخ بسمل اور مغزل صاحبان۔ بار بار خود کو خاکسار، فرش نشیں، اور فقیر وغیرہ لکھ کر آپ حضرات کچھ اور ثابت کریں نہ کریں، یہ ضرور ثابت کر رہے ہیں کہ ایک ڈھیٹ تو متلاشی صاحب ہیں، جنھوں نے دھڑلے سے نہ صرف دھاگا شروع کیا، بلکہ ایک غزل بھی چھاپ ماری اور دوسرا ڈھیٹ میں ہوں جس نے فوراً آدھا دیوان اپ لوڈ کر دیا۔

بھائیو، رحم کرو۔ اپنی "خاکساری" میں میری اور متلاشی صاحب کی پھرتیوں کا جنازہ تو نہ نکالو۔ اگر اپنی غزل پیش نہ کرنا "خاکساری" ہے، تو میں اور متلاشی کیا "بقلمِ خود تخت نشیں" ہیں؟؟؟
200 پرسنٹ متفق ۔۔۔۔!
 
احباب کے ذوق کی نذر ۔۔ یہ نظم جس پر اس فقیر نے اپنی اردو نظموں کے مجموعے کا نام سوچا ہے۔


مجھے اک نظم کہنی تھی

مجھے اک نظم کہنی تھی
مجھے مدت کے پژمردہ تفکرکو لہو دینا تھا
صدیوں پر محیط اک عالمِ سکرات میں
مرتے ہوئے جذبوں کو
پھر سے زندگی کی ہاؤہو سے آشنا کرنا تھا
ہونٹوں پر لرزتے
گنگ لفظوں کو زباں دینی تھی
اشکوں کے اجالے سے
طلسمِ تیرگی کو توڑنا تھا
روشنی کو عام کرناتھا

رگِ احساس کو پھر سے جِلا دینی تھی
آنکھوں میں بصارت کا بصیرت کا
کہربا خیز اِک سُرمہ لگانا تھا
رگوں میں منجمد ہوتے لہو کو تاپ دینی تھی
سرِمو سے رگِ جاں تک
حیاتِ نو کی دھڑکن کو جگانا تھا
مشامِ جاں کو خوشبوئے حیاتِ جاوداں سے
آشنائی بھی دلانی تھی
ضمیرِ آدمیت کو
گرفتِ پنجۂ عفریتِ سیمیں سے
مہاجن کے تصرف سے
رہائی بھی دلانی تھی
مجھے اک نظم کہنی تھی!

مجھے
دیوار و در سے ماورا
عرشِ بریں کے سائے میں
اک گھر بنانا تھا
تب و تابِ تمنا کا اجالا اُس میں بھرنا تھا
مجھے داغِ تمنا بھی میسر تھا

مگر شمس الضحیٰ کے اور میرے درمیاں
صدیوں سے چھایا تھا غمامِ غم
نظر تھی میری ژولیدہ تو سوچیں تھیں پراگندہ
خمارِ خود فراموشی سے
خود بھی جاگنا تھا
دوسروں کو بھی جگانا تھا
نگاہِ آشنائے ظلمتِ شب کو
شناسائے تب و تابِ سحر
ہونے کی سختی بھی تو سہنی تھی
مجھے اک نظم کہنی تھی

مرے افکار کوتجسیم کی قوت ملی
تو اِک نگاہِ دور بیں کو
وقت کی تصویر میں پنہاں
بدلتی رُت نظر آئی
مری سوچوں سے
کالک دُھل گئی ساری
مجھے منزل دکھائی دے گئی
اُس گھر کی صورت جس کی دیواریں
اُسی عرشِ بریں کے سائے میں تعمیر ہونی تھیں
وہ جس کی چھت میں آویزاں
کئی شمس و قمر ہونے تھے
اُس کو آگہی کی عظمتوں کا
اِک درخشاں باب ہونا تھا

مرے جذبوں کو بازو مل گیا
دیبل کی مٹی سے
رگِ جاں میں لہو اِخلاص کا دوڑا
نگاہِ مردِ مومن نے ہوا کا رخ بدل ڈالا
فلک سے قدرکی شب میں
ہوئی نازل وہ برکت
جس پہ نازاں آدمیت تھی!

بنے گھر کو بسانا کتنا مشکل ہے!
مجھے معلوم ہی کب تھا!
مجھے شمس و قمر سے جگمگاتا گھر ملا جب تو
مری ظلمت پسند آنکھوں میں
پتھر پڑ گئے ایسے
کہ اپنے آپ کی پہچان تک باقی نہ رہ پائی
گئی آنکھوں سے بینائی

مجھے اب روشنی سے خوف سا آنے لگا ہے
میں پریشاں ہوں
گماں پرور سماعت کے اشاروں پر
شب دیجور کو صبحِ مبیں کا نام دیتا ہوں
مگربے چین رہتا ہوں
وہی مشکل جو پہلے تھی وہی پھر آ پڑی ہے
وقت کی منزل کڑی ہے
میں پریشاں ہوں

بنائے فکر میں لاوا سا کوئی کلبلاتا ہے
تو میرا وہ پہاڑ ایسا ارادہ ڈول جاتا ہے
مجھے
اک نظم کہنی تھی!؟

۔۔۔۔۔ محمد یعقوب آسی ۔ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۵ء​
 

متلاشی

محفلین
اصل میں محمود بھائی نے کہا تھا کہ
تو چونکہ مجھے اس بات سے کھلا تضاد تھا لہٰذا میں نے کہا کراس دوں آپ کو غیر متفق ہونے کی وجہ سے۔،​
شکریہ بلال بھائی ۔۔۔! پہلی نظر میں آپ کی دھمکی اپنے لیے سمجھا تھا۔۔۔ دوسری نظر میں پتہ چل گیا ۔۔۔ سو پیغام اپ ڈیٹ کر دیا۔۔۔!
اور ہاں جناب آپ کو بھی تو میں نے ٹیگ کیا تھا ۔۔۔ آپ کی شاعری کہاں ہے ؟
جلدی سے لگائیں ورنہ آپ کی دھمکیاں پر آپ پر ہی آزماؤں گا۔۔۔!
 
200 پرسنٹ متفق ۔۔۔ ۔!

حضورِ والا تو بادشاہ ہیں، اور اپنی بادشاہت کا اعلان بھی فرما چکے۔ ہم فقیروں تک یہ اعلان حضرت علامہ سَرسَری کے ذریعے پہنچا تھا۔
تب ہم خاکساری اور فقیری کی آبرو کے بارے میں متفکر تھے اور اب بھی ہیں۔

بہت آداب۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
شکریہ بلال بھائی ۔۔۔ ! پہلی نظر میں آپ کی دھمکی اپنے لیے سمجھا تھا۔۔۔ دوسری نظر میں پتہ چل گیا ۔۔۔ سو پیغام اپ ڈیٹ کر دیا۔۔۔ !
اور ہاں جناب آپ کو بھی تو میں نے ٹیگ کیا تھا ۔۔۔ آپ کی شاعری کہاں ہے ؟
جلدی سے لگائیں ورنہ آپ کی دھمکیاں پر آپ پر ہی آزماؤں گا۔۔۔ !

ہاہاہا
ہماری شاعری ذرا لنچ کرنے گئی ہوئی ہے:p
لگاتا ہوں کچھ نہ کچھ گو کہ تقریبا کافی سارے محفلین نے دیکھی ہو گی لیکن پھر بھی
رسمِ دھاگہ بھی ہے، دستور بھی ہے:LOL:
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سو سب سے پہلے اپنی سب سے بہترین کاوش(بزعمِ خود) پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔۔۔ ! آپ کی آراء و تبصرہ جات کا شدت سے انتظار رہے گا۔۔۔ !
دُعا​
الٰہی مجھ کو تو ذوقِ مسیحائی عطا کر دے​
جنوں کو تو مرے، مولا شکیبائی عطا کر دے​
بنوں رہبر دکھاؤں راہ میں گمراہ لوگوں کو​
مجھے وہ معرفت ، ایماں، وہ مولائی عطاکردے​
مری بے نام منزل کو نشانِ راہ دے دے تو​
مجھے تو ذات سے اپنی شناسائی عطا کر دے​
الٰہی سوچ سے میری ،ہو روشن اک جہانِ نو​
تخیل کو مرے تو ایسی گہرائی عطا کردے​
نگہ میری اٹھے جس سمت دنیا ہی بدل جائے​
مری بے نور آنکھوں کو ،وہ بینائی عطا کر دے​
معطر روح ہو جس سے ، مسخر قلب ہو جس سے​
زبان و نطق کو یارب ،وہ گویائی عطا کردے​
زَمن جس سے منور ہو، چمن جس سے معطر ہو​
مرے کردار کو مولا، وہ رعنائی عطا کر دے​
خیالوں کو ملے تصویر اور تعبیر خوابوں کو​
مرے وجدان کو یارب، وہ دانائی عطا کر دے​
اگر چہ عجز سے ہوں میں تہی دامن ، کرم سے تُو​
مرے بے ربط جملوں کو پذیرائی عطا کردے​
ترے در پر ندامت سے ،جھکی ہے پھر جبیں میری​
تمنائے حزیں کو اب، تو شنوائی عطا کر دے​
ترا ہی نام ہو لب پر ، نہ ہو پھر دوسرا کوئی​
نصرؔ کو اب تو وہ خلوت، وہ تنہائی عطا کردے​
محمد ذیشان نصر​
اپریل 2012​
ذیشان بھائی
بہت خوبصورت دعا۔
ڈھیروں داد قبول کریں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کسی ایک کے بارے میں خود فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ میں چار پانچ غزلیں چن رہا ہوں۔ ان میں سے آپ حضرات جسے چاہیں، رکھ لیں۔ باقی ڈیلیٹ کر دیں!!

اس زمین میں غالب کی بھی ایک غزل ہے (زمین عام سی ہے)۔ غالب کی غزل کے مطلع کا مصرعہ اولیٰ ہے: "ز بسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے"۔
میری جسارت ہی سمجھیے:
نظر بہ مہر و وفا از سرِ ندامت ہے​

وگرنہ ذوقِ ستم گستری سلامت ہے​


نگار خانۂ وہم و گماں کا ہر پیکر​

غزال چشم و گل اندام و سرو قامت ہے​


درازئِ شبِ ہجراں بہ چشمِ غیض نہ دیکھ​

کہ دل مقابلِ دعوائ استقامت ہے​


مکینِ کوچۂ جاناں ہوا ہے طالبِ خلد​

مقامِ سرزنش و مَوردِ ملامت ہے​


اگرچہ راندۂ درگاہ ہوں مگر پھر بھی​

خدا کا شکر ہے کاسہ ابھی سلامت ہے​


کیا ہے خونِ تمّنا یہ سوچ کر کاملؔ​

غمِ شکستِ تمنّا بھی اک قیا مت ہے​

-------------​


غالب ہی کی ایک اور غزل "شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا" کی زمیں میں میری ایک اور جسارت:​


گرچہ گلشن میں کھلا ہرسو گلابِ تازہ تھا​

حیف زندانِ الم کا بند ہر دروازہ تھا​


کیا بتاؤں خستگی ہمدم تنِ رنجور کی​

مشربِ خونِ جگر ہر بار زخمِ تازہ تھا​


تیری آمد پر کیا ہے منعِ خوش رویانِ شہر​

یہ دلِ حسن آشنا پہلے تو بے دروازہ تھا​


کون ہے مشّاطہءِ فطرت بہ ہنگامِ غروب​

ابرِ آتش رنگ روئے آسماں کا غازہ تھا​


جس گھڑی آیا بہ دستِ کاملِؔ رنگیں نوا​

زورِ رفتارِ قلم از بسکہ بے اندازہ تھا​

------------​


ایضاً لہُ


کیا چین سے بیٹھوں کہ سکوں دل کو نہیں ہے​

آنکھوں سے تری فتنۂ محشر بہ کمیں ہے​


یہ دل کہ ہے گُلچینِ سمن زارِ تمّنا​

خارِ المِ ہجر سے آگاہ نہیں ہے​


اے محوِ تغافل اثرِ خونِ جگر دیکھ​

جو اشک بہا سو ترے خاتم کا نگیں ہے​


آغازو سر انجامِ وفا محملِ لیلیٰ​

منزل گہِ مجنوں نہ فلک ہے نہ زمیں ہے​


وہ کیوں کرے اصنامِ خود آرا کی پرستش​

جوخاکِ درِ یار سے آلودہ جبیں ہے​


کاملؔ بہ خیالِ رخِ زیبائے دل آرا​

صحرا بھی مجھے غیرتِ فردوسِ بریں ہے​

------​


باقی کی غزلیں (غالباً!) میری اپنی زمینوں میں ہیں۔​


پاتے نہیں چراغِ تمنّا سے سود ہم​

لیتا ہے نور غیر سمیٹے ہیں دود ہم​


عاجز ہوئے بہ ساحتِ کون و مکاں، دریغ!​

گو چاہتے تھے کشفِ رموزِ وجود ہم​


دے کر ادھار ہجر کو سرمایۂِ حیات​

پاتے رہے بہ رنگِ غم و درد سود ہم​


خوش تھے بہت عدم میں،جہانِ خراب میں​

لائے گئے بہ سازشِ چرخِ کبود ہم​


نیرنگِ آرزو کو بعنوانِ بندگی​

ڈھالا کیے بہ شکلِ قیام و سجود ہم​


کاملؔ چلو لباسِ جنوں زیبِ تن کریں​

کب تک رہیں گے وقفِ غمِ ہست و بود ہم​

----------​


ایضاً لہُ


منفعل ہو کے برسنے کو نہ ٹھہرے بادل​

دیکھ لے گر تری زُلفوں کے سنہرے بادل​


گھیر لیتے ہیں مجھے آ کے سرِشامِ فراق​

چار جانب سے تری یاد کے گہرے بادل​


خوشبوئیں آتی ہیں مٹی سے، جو تم شہر میں ہو​

آسمانوں پہ دیا کرتے ہیں پہرے بادل​


دیکھ کر شام میں سورج کی بکھرتی کرنیں​

یاد آئے تری زلفوں کے سنہرے بادل​


ایک لمحے کو جھکائیں جو نگاہیں اس نے​

گردشِ چرخِ کہن رک گئی، ٹھہرے بادل​


گیسوی وچہرۂ جاناں کی وہ چھب ہے کامل ؔ​

گردِ مَہ جیسے اُمنڈ آ ئیں سنہرے بادل​

--------​
آپ تو آل راؤنڈر ہیں اس فیلڈ کے۔
زبردست
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بھئی یہ تو اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی سی بات ہے، لیکن خیر پھر بھی آپ یاد کر رہے ہیں تو حاضر ہوں گو جانتا ہوں کہ پاس کچھ بھی نہیں :)

غزل

تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے

میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے

سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مصحف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے

بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے

چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سلایا گیا مجھے

تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یونہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
----------

آرزوئے بہار لاحاصل
عشقِ ناپائدار لاحاصل

قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصل

ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصل

دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار لاحاصل

شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے
کب رہا انتظار لاحاصل
------

بلا کشانِ محبت کی رسم جاری ہے
وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے

نگاہِ شوق نہیں، آہِ صبح و شام نہیں
عجب فسردہ دلی حیف مجھ پہ طاری ہے

نگہ میں آبِ رُخِ یار، ہاتھ میں تیشہ
زمیں کی مانگ اِسی جہد نے سنواری ہے

اسے بھی جھیل ہی جائے گی فطرتِ عشّاق
یہ مانا اب کے لگا ہے جو زخم، کاری ہے

یہی متاع ہے میری، یہی میرا حاصل
نہالِ غم کی لہو سے کی آبیاری ہے
------

اس جہاں میں ایسی کوئی بات ہو
جیت ہو اور نے کسی کی مات ہو

اس طرح پینے کو مے کب ملتی ہے
ناب ہو، تُو ساتھ ہو، برسات ہو

زخم دل کے چین سے رہنے نہ دیں
روزِ روشن ہو کہ کالی رات ہو

بس ہوس کے ہیں یہ سارے سلسلے
بابری مسجد ہو یا "سُمنات" ہو

برملا گوئی کا حاصل ہے اسد
اپنوں کی نظروں میں بھی کم ذات ہو
--------

رباعی

بکھرے ہوئے پھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندگانی سن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی سن لے

شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم
لاجواب
بہت ہی خوبصورت اشعار

بلا کشانِ محبت کی رسم جاری ہے
وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے
یہ مطلع تو کئی جگہ پڑھا ہے لیکن آج پتہ لگا کہ یہ آپ کا ہے۔
بہت زبردست شعر ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
احباب کے ذوق کی نذر ۔۔ یہ نظم جس پر اس فقیر نے اپنی اردو نظموں کے مجموعے کا نام سوچا ہے۔


مجھے اک نظم کہنی تھی

مجھے اک نظم کہنی تھی
مجھے مدت کے پژمردہ تفکرکو لہو دینا تھا
صدیوں پر محیط اک عالمِ سکرات میں
مرتے ہوئے جذبوں کو
پھر سے زندگی کی ہاؤہو سے آشنا کرنا تھا
ہونٹوں پر لرزتے
گنگ لفظوں کو زباں دینی تھی
اشکوں کے اجالے سے
طلسمِ تیرگی کو توڑنا تھا
روشنی کو عام کرناتھا

رگِ احساس کو پھر سے جِلا دینی تھی
آنکھوں میں بصارت کا بصیرت کا
کہربا خیز اِک سُرمہ لگانا تھا
رگوں میں منجمد ہوتے لہو کو تاپ دینی تھی
سرِمو سے رگِ جاں تک
حیاتِ نو کی دھڑکن کو جگانا تھا
مشامِ جاں کو خوشبوئے حیاتِ جاوداں سے
آشنائی بھی دلانی تھی
ضمیرِ آدمیت کو
گرفتِ پنجۂ عفریتِ سیمیں سے
مہاجن کے تصرف سے
رہائی بھی دلانی تھی
مجھے اک نظم کہنی تھی!

مجھے
دیوار و در سے ماورا
عرشِ بریں کے سائے میں
اک گھر بنانا تھا
تب و تابِ تمنا کا اجالا اُس میں بھرنا تھا
مجھے داغِ تمنا بھی میسر تھا

مگر شمس الضحیٰ کے اور میرے درمیاں
صدیوں سے چھایا تھا غمامِ غم
نظر تھی میری ژولیدہ تو سوچیں تھیں پراگندہ
خمارِ خود فراموشی سے
خود بھی جاگنا تھا
دوسروں کو بھی جگانا تھا
نگاہِ آشنائے ظلمتِ شب کو
شناسائے تب و تابِ سحر
ہونے کی سختی بھی تو سہنی تھی
مجھے اک نظم کہنی تھی

مرے افکار کوتجسیم کی قوت ملی
تو اِک نگاہِ دور بیں کو
وقت کی تصویر میں پنہاں
بدلتی رُت نظر آئی
مری سوچوں سے
کالک دُھل گئی ساری
مجھے منزل دکھائی دے گئی
اُس گھر کی صورت جس کی دیواریں
اُسی عرشِ بریں کے سائے میں تعمیر ہونی تھیں
وہ جس کی چھت میں آویزاں
کئی شمس و قمر ہونے تھے
اُس کو آگہی کی عظمتوں کا
اِک درخشاں باب ہونا تھا

مرے جذبوں کو بازو مل گیا
دیبل کی مٹی سے
رگِ جاں میں لہو اِخلاص کا دوڑا
نگاہِ مردِ مومن نے ہوا کا رخ بدل ڈالا
فلک سے قدرکی شب میں
ہوئی نازل وہ برکت
جس پہ نازاں آدمیت تھی!

بنے گھر کو بسانا کتنا مشکل ہے!
مجھے معلوم ہی کب تھا!
مجھے شمس و قمر سے جگمگاتا گھر ملا جب تو
مری ظلمت پسند آنکھوں میں
پتھر پڑ گئے ایسے
کہ اپنے آپ کی پہچان تک باقی نہ رہ پائی
گئی آنکھوں سے بینائی

مجھے اب روشنی سے خوف سا آنے لگا ہے
میں پریشاں ہوں
گماں پرور سماعت کے اشاروں پر
شب دیجور کو صبحِ مبیں کا نام دیتا ہوں
مگربے چین رہتا ہوں
وہی مشکل جو پہلے تھی وہی پھر آ پڑی ہے
وقت کی منزل کڑی ہے
میں پریشاں ہوں

بنائے فکر میں لاوا سا کوئی کلبلاتا ہے
تو میرا وہ پہاڑ ایسا ارادہ ڈول جاتا ہے
مجھے
اک نظم کہنی تھی!؟

۔۔۔ ۔۔ محمد یعقوب آسی ۔ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۵ء​
بیحد خوبصورت نظم۔
خاص طور پہ یہ لائنز

مجھے اب روشنی سے خوف سا آنے لگا ہے
میں پریشاں ہوں
گماں پرور سماعت کے اشاروں پر
شب دیجور کو صبحِ مبیں کا نام دیتا ہوں
مگربے چین رہتا ہوں
وہی مشکل جو پہلے تھی وہی پھر آ پڑی ہے
وقت کی منزل کڑی ہے
میں پریشاں ہوں
 
Top