کلام حضرت شاہ حسینؒ
میں وی جانا، جھوک رانجھن دی
نال میرے کوئی چلے
میں نے بھی رانجھن کے گاؤں جانا ہے، کوئی تو میرے ساتھ چلے
صوفیا کی اصطلاح میں حسنِ مطلق اور محبوبِ حقیقی کیلئے "رانجھن" مستعمل ہے، جیسے کہ حضرت بابا بھلے شاہ سرکار ؒ نے بھی ایک مصرعے میں فرمایا ہے" میرا رانجھن ہن کوئی ہور نی سیو"(سہیلیو! اب میرا محبوب کوئی اور ہے)
اور رانجھن دی جھوک جانے سے یہاں حضرت شاہ حسینؒ کی مراد موت ہے، کیونکہ صوفیا اللہ اور روح کے درمیان رکاوٹ زندگی کو قرار دیتے ہیں ، اور موت کو وصال کا پیغام اور آزادی کا پروانہ سمجھا جاتا ہے۔
جیسے کسی صوفی شاعر سے کسی نے پوچھا:۔ "عید ہوسی کڈن؟" (عید کب ہوگی؟)
اس اللہ کے بندے نے جواب دیا:۔ "یار ملسی جڈن"(جب یار ملے گا)
دوبارہ سوال ہوا:۔ "یار ملسی کڈن" (یار کب ملے گا)
جواب ملا:۔ "موت آسی جڈن"(جب موت آئے گی)
لہذا سمجھا جا سکتا ہے کہ شاہ حسین ؒ نے ایک طرح سے اپنی دیدارِ یار کی خواہش کو بیان کیا ۔ اور ساتھ ہی انسانی فطرت کا ایک پہلو بھی بتا دیا ، کہ انسان اکیلے پن سے گھبراتا ہے ، اس لیے وہ کوئی ہم سفر ڈھونڈ رہے ہیں "نال میرے کوئی چلے" کہہ کر
پیریں پوندی، منتاں کردی،
جانڑاں تاں پیا کلھے
پاؤں بھی پڑتی رہی ، اور منتیں بھی کرتی رہی، مگر آخرکار مجھے اکیلے ہی جانا پڑا
یہاں بھی زندگی کی ایک کڑوی سچائی بیان ہوئی ہے ، کہ انسان چاہے کتنا ہی ہر دلعزیز یا پیارا کیوں نہ ہو، ہر کسی کو اپنی موت آپ مرنا پڑتا ہے ، کوئی کسی کی آئی نہیں مرتا، اور نہ ہی روح کے اس سفر میں کوئی کسی کا ساتھ دے سکتا ہے۔انسان ساری زندگی اسی تگ ودو میں لگا رہتا ہے ، جسے پاؤں پڑنے اور منتیں کرنے سے تشبیہ دی گئی ہے، اور میرے خیال میں اس سے خوبصورت اور موزوں تشبیہ کوئی اور نہیں ہو سکتی۔انسان کو پتا ہی نہیں کہ وہ خواہ مخواہ میں پاؤں پڑنے اور منتیں کرنے کے بے فائدہ اور لاحاصل عمل میں الجھ کر اپنے اصل مقصد سے دور ہوتا جاتا ہے
نیں وی ڈونگھی، تُلہ پرانا
شینہاں پتن ملے
دریا بھی بہت گہرا ہے ، اور تُلہ بھی پرانا ہے(یعنی ناقابلِ اعتبار ہے)
اور ببر شیر دریا کے دوسرے کنارے (پتن) پر گھات لگائے بیٹھے ہیں
نیں دراصل سرائیکی میں گہری ندی کو کہا جاتا ہے ، میرے خیال میں اس سے مراد قبر ہے
کیونکہ قبر چھ فٹ گہرائی سے شروع ہوتی ہے،
اس طرح اس کا مطلب بنے گا کہ قبر بہت گہری ہے ، اور انسانی جسم بہت ہی پرانا اور بوسیدہ ہے ، یعنی اس لحاظ سے ناقابلِ اعتبار ہے کہ نجانے یہ بوسیدہ جسم منزل تک پہنچنے کے سفر میں ساتھ دے پائے گا یا نہیں ۔اور ببر شیروں سے مراد منکر نکیر نامی دو فرشتے ہیں ، جو کہ قبر میں حساب کتاب کیلئے آتے ہیں اور احادیث شریف کے مطابق ان کی شکل انسان کے اعمال کے مطابق ہوگی ، یعنی نیک لوگوں کیلئے وہ خوبصورت پیکر میں آئیں گےاور برے لوگوں کیلئے ان کی صورت خوفناک اور دہشت ناک ہوگی۔
انسان ساری زندگی جسم پالنے میں لگا رہتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ جسم نے اسی دنیا میں رہ جانا ہے ، جبکہ اگلی دنیا کا سفر روح کو طے کرنا ہے، اور نادان بجائے روح کو مضبوط کرنے کے الٹا جسم کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ اور اس بات سے بھی بے پرواہ ہے کہ محشر میں تو حساب کتاب ہونا ہے مگر قبر میں بھی حساب ہوگا
جے کوئی متراں دی خبر لے آوے
ہتھ دے ڈیندی آں چھلے
اگر کوئی محبوب کی خیر خبر لے آئے ، تو میں اسے اپنے ہاتھ کے چھلے تک دینے کو تیار ہوں
یہ ایک اور نادر تشبیہ ہے، عورت کیلئے سب سے عزیز ترین متاع اس کا زیور ہوتا ہے ، اور یہاں اپنا زیور اسے دینے کی بات کی جارہی ہے جو محبوب کی خبر لا کر دے گا۔ یعنی کہ زیور سے بھی زیادہ اہم محبوب کا احوال اور اس کی خبر ہے۔
اس سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں ۔ ایک تو محبوب کی تلاش اور اس کی خیر خبر رکھنا کتنا لازمی ہے ، جس کیلئے اپنے ہاتھ میں پہنے چھلے تک دئیے جا سکتے ہیں
اور دوسری آپ خود سوچ سکتے ہیں ، میں نے لکھ دی تو مجھ پر لعن طعن شروع ہو جائے گی
رانجھن یار طبیب سُنیدا
مین تن درد ، اولے
ایک رانجھن نام کے طبیب کی مشہوری سنی ہے
میرے جسم میں بھی عجیب و غریب درد ہیں
اس شعر میں وہی بات ہوئی ہے جو غالبؔ نے" ڈبویا مجھ کو ہونے نے" میں بیان کی ہے
کہ عشق کے مریض کا علاج صرف ا ور صرف محبوب سے وصال ہے، جدائی اور دوری درد کو بڑھا دیتے ہیں
کہے حسین فقیر نمانا
سائیں سنیہوڑے گھلے
بے چارا حسینؒ فقیر عرض کرتا ہے ، کہ اب سائیں (مالک) بلاوا بھیجے
اس شعر میں بھی اسی خواہش کا اظہار ہوا ہے۔ کہ اب مالک ہمیں اپنے پاس بلا لے، کہ یہ جدائی کا درد سہنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے
اور اب مزید یہ درد سہنے کی طاقت نہیں رہی
یہ ترجمہ اور تشریح سراسرفدوی کی اپنی کاوش ہے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ کہیں ترجمے میں یا تشریح میں غلطی ہو گئی ہو
جس کیلئے خاکسار پیشگی معذرت خواہ ہے