ایک وہ وقت تھا کہ دریائے جمنا بھی لال قلعے کے چرن چھوئے بغیر آگے نہیں بڑھتا تھا۔ اب مغلوں کے زوال کے بعد وہ بھی پیچھے ہٹ گیا۔ گویا حالات سے سمجھوتہ کرکے منہ موڑ لیا ہو۔
ہم بھی منہ موڑ کر قلعہ سے باہر نکل آئے!!![/Q7UOTE]
بہت خوب!
آپ کو تو اللہ نے بہت اچھا لکھنے کی زبردست صلاحیت عطا فرمائی ہے۔
کیا زبردست نتیجہ نکالا ہے۔گاندھی کی سمادھی پر آگ جل رہی تھی۔
انڈیا گیٹ پر آگ۔۔۔
سمادھی پر آگ۔۔۔
مرتے وقت بھی آگ۔۔۔
مرنے کے بعد یاد رکھنے کے لیے بھی آگ۔۔۔
موت کے بعد کی آگ سے خدا کی پناہ۔۔۔
ربنا وَقِنا عذابَ النَّار!!!
یہاں پریشر کوکر کا ڈھکن کوکر کے منہ کی بنسبت چھوٹا ہوتا ہے۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ بھاپ کا پریشر زیادہ ہونے کی صورت میں ڈھکن کوکر کے اندر ہی گرجاتا ہے اور پھٹ کر باہر نہیں آتا۔ یوں نقصان کم ہوتا ہے۔ ہمیں یہ وزنی لگا اس لیے اسے چھوڑ دیا۔
ارے واہ، ان اشیائے کارآمد کی تصاویر بھی ہیں؟دوسری چیز دودھ اُبالنے کا برتن تھی۔ یہ اصل میں ڈبل بوائلر قسم کی چیز تھی۔ اس کی دو تہوں کے درمیان خالی جگہ ہوتی ہے اور باہر کی طرف اوپر ایک سوراخ ہوتا ہے۔ اس سوراخ کے ذریعہ بوائلر میں پانی بھر کر سوراخ کے منہ پر پریشر کوکر کی طرح سیٹی لگا دی جاتی ہے۔ جب پانی ابلتا ہے تو سیٹی بجنے لگتی ہے۔ یہ آپ کو اطلاع دیتی ہے کہ دودھ ابلنے والا ہے آکر چولہا بند کردیں۔ یوں دودھ ابل کر ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔
جی، لگادی ہیں!!!ارے واہ، ان اشیائے کارآمد کی تصاویر بھی ہیں؟
نہیں معلوم۔
مانا کہ میں انڈین ہوں پر دلی والی زبان ہمارے ہاں رائج نہیں۔
بالکل یہ بھی ہوسکتا ہے۔ دوسری ممکنہ وجہ سید صاحب کی شکل و صورت بھی ہوسکتی ہے۔ جس طرح کشمیریوں کو بھارت میں دور سے دیکھ کر ہی "کشمیری" کہا جاتا ہے۔ شاید دکاندار کو ایسے ہی سید صاحب بھی پاکستانی لگے ہوں۔ہو سکتا ہے دوکاندار نے لہجے سے پہچانا ہو۔
کافی سال پہلے کی بات ہے۔ میرا ایک دوست انڈیا جا رہا تھا۔ میری بیگم نے اس سے فرمائش کر دی کہ وہاں سے ساڑھی لیتے آنا۔ وہ ساڑھیوں کی ایک دکان پر گیا تو دکاندار نے اس سے پوچھا کہ خاتون کیا کرتی ہیں۔ پیشہ و تعلیم بتانے پر ساڑھی تجویز کی۔ہم ساڑھیوں کی ایک دوکان میں بیٹھے ہوئے تھے۔
دوکان دار نے پوچھا: ’’کس قسم کی ساڑھی دکھاؤں؟‘‘
’’ڈبل بارڈر والی۔‘‘ ہم نےآنٹی کے بولنے سے پہلے ہی خالہ کی پڑھائی پٹی سنادی۔
’’آپ پاکستان سے آئے ہیں؟‘‘ دوکاندار نے چھوٹتے ہی کہا۔
’’دیوبند سے آئے ہیں۔‘‘ ہمیں سرعام پاکستان کا نام لینے سے سختی سے منع کیا گیا تھا۔
’’نہیں، آپ پاکستانی ہیں، یہاں کے لوگ ایسے نہیں بولتے۔‘‘دوکاندار چپکو قسم کا آدمی تھا، کسی صورت اپنی پاکستان شناسی پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ ہوا۔
ہائے یہ خیال آپ کو محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی کی باری نہیں آیاہم نے سوچا محبت کی مٹی سے گندھے یہ لوگ ستانے پر بھی چاہنا نہیں چھوڑتے، توآج سے ہم انہیں ستانا چھوڑ دیتے ہیں!!!
چلیں رام پور کی یاترا میں وہاں کی لائبریری کا بھی کوئی تذکرہ سننے کو ملے گا۔دادی نے بتایا کہ رام پور گاؤں سے دعوت آئی ہے
اس طرح اس ملٹی ٹاسکنگ سے انہوں نے کھانا تیار کر ہی لیا۔
کتنی سچی بات کی ہے آپ نےاف خدا۔۔۔ کس قدر مشقت آمیز ہوتی ہے ان عورتوں کی زندگی۔ بچوں کی خاطر، شوہر کی خاطر، گھر والوں کے راحت و سکون کی خاطر اپنا تن من مار کے، اپنی خوشیوں کو، اپنی خواہشات کو دور کسی موت کی دادی میں اتار کر یہ مائیں کس قدر اخلاص اور لگن سے دوسروں کی زندگی کی گاڑیاں کھینچتی ہیں۔
آمین ثم آمینخدا ہماری ماؤں کی زندگیوں میں برکت دے اور آخرت کی گھاٹیاں طے کرنے میں سہولت۔۔۔
خدا بچائے اس خیال سے!!!ہائے یہ خیال آپ کو محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی کی باری نہیں آیا
کچھ مصروفیت، کچھ طبیعت کی سستی!!!اس کے بعد؟