سرحد کے اس پار * تبصرہ جات

جاسمن

لائبریرین
تہہ کرنا
س قدر مشقت آمیز ہوتی ہے ان عورتوں کی زندگی۔ بچوں کی خاطر، شوہر کی خاطر، گھر والوں کے راحت و سکون کی خاطر اپنا تن من مار کے، اپنی خوشیوں کو، اپنی خواہشات کو دور کسی موت کی دادی میں اتار کر یہ مائیں کس قدر اخلاص اور لگن سے دوسروں کی زندگی کی گاڑیاں کھینچتی ہیں۔
بالکل
ہم نے غور کرنا شروع کیا،سب ماؤں کا یہی حال ہوتا ہے۔ نہ دن اپنا نہ رات اپنی۔ سب کچھ دوسروں کا۔ جنہیں یہ اپنے سے بڑھ کر چاہتی ہیں۔ ۔۔
حق بات
خدا ہماری ماؤں کی زندگیوں میں برکت دے اور آخرت کی گھاٹیاں طے کرنے میں سہولت۔۔۔
آمین!
کیوں کہ ساری گھاٹیاں تو یہ یہیں طے کررہی ہوتی ہیں!!!
واقعی
چی کچن سے گول سا چولہا اٹھا لائی تھیں۔ سلینڈر نما اس چولہے میں سامنے کی جانب نیچے کی طرف ایک سوراخ تھا جبکہ اوپر سے کھلا ہوا تھا۔ انہوں نے سوراخ میں ایک موٹی سی لکڑی ڈالی اور اوپر بھی بالکل بیچ میں ایک موٹی سی لکڑی کھڑی کرکے لگائی۔ اب چولہے میں اوپر کی جانب سے لکڑی کا باریک برادہ ڈالا اور اسے زور سے دبا دبا کر ہموار کیا۔
یہ انگیٹھی ہے۔ یہ لوہے کی تیار کردہ بھی ملتی ہے۔ ہماری امی جی استعمال کرتی تھیں۔ ٹال سے بُورا منگوایا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کبھی کبھی ہم بھی بُوری میں لایا کرتے تھے جو بعد میں ٹین کے خالی کنستر میں رکھا جاتا تھا۔ ٹال کی وہ سُرنگ سی بھی مجھے یاد ہے جہاں اوپر لکڑیاں چیرنے کے بعد برادہ نیچے پڑا رہ جاتا تھا۔ پھر امی جی مصالحہ کوٹنے والے گول ڈنڈے کو اس کے اندر رکھتیں ۔ سائڈ کے سوراخ میں اس کا ڈھکن رکھتیں اور برادہ بھرنا شروع کرتیں۔ کبھی ہم بھی یہ کام کر لیتے تھے۔ برادہ میں تھوڑا سا پانی ڈال کے اسے ہلکا سا گیلا کیا جاتا تھا تاکہ خوب جم جائے۔ اوپر سے کوٹ کوٹ کے تہہ بٹھائی جاتی۔ پھر لکڑی سائیڈ والے سوراخ سے لگائی جاتی اور جلایا جاتا۔ اس پہ روٹی بہت مہکتی ہوئی پکتی تھی۔ عموماََ اُلٹا توا استعمال ہوتا۔ تاکہ آنچ خوب جائے توے تک۔
میں نے بھی اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے۔ اس کے دونوں ڈھکن تو غائب ہو چکے ہیں۔ اب کوئی برادہ بھی نہیں لاتا۔ البتہ جب گیس بھی نہ ہو، سلنڈر بھی ختم ہو تو ایمرجینسی میں کام آجاتا ہے۔ بلکہ ابھی ڈیڑھ دو ماہ پہلے ہمارے ملازم کی لاپرواہی سے سلنڈر کے چولہے میں آگ لگ گئی۔ خاصا مسلۂ ہوا۔ بچے گھر میں اکیلے تھے۔ بہرحال اللہ کا کرم ہوا۔ اس کے نتیجہ میں ابھی تک سلنڈر نہیں بھروایا۔ گیس چلی جائے تو کبھی لکڑی اور لکڑی نہ ہو تو کاغذ گتے جلا کر چائے بنائی جاتی ہے بس۔
آج چولہا بننے کے لیے دیا ہے۔ اب سلنڈر پھر سے آئے گا۔ ان شاءاللہ۔
 
محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی آپ بتائیں یہ تو یہی کہیں گے۔
فلسفی جی ! ہم نے دوران ملاقات بھیا سے درخواست کی تھی کہ سفرنامہ مکمل کریں ۔اب کسی سے زبردستی تو ہم کوئی کام کروانے سے رہے ، ہاں ایک طریقے رہے گیا ہے ان سے لکھوانے کا ،ہم نے چاہتے کہ اس کی نوبت آئے لیکن لگتا ہے کہ لاتوں کے بھوتوں باتوں سے نہیں مانتے ۔
:beating: :beating: :beating:
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
حیرت ہے ،
آپ تو محفل پر اکثر ہماری خصوصیات بیان کرتے رہتے ہیں ، تو یہ بھی آپ ہی بتائیں نا !
ہمیں تو آپ کی صرف وعدہ ٹہلائی کی صفت یاد ہے۔۔۔
لگ بھگ سات ماہ ہوگئے۔۔۔
دعوت دینے کے باوجود ابھی تک ایک پیالی چائے نہ پلائی گئی۔۔۔
اس پر عرض کیا ہے۔۔۔

قسم جب اس نے کھائی ہم نے اعتبار کرلیا
ذرا سی دیر زندگی کو خوشگوار کرلیا

لیکن جب قسموں سے اعتبار اٹھ گیا تو کہنا پڑا۔۔۔

آپ کے لب پہ اور وفا کی قسم
کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم

اور۔۔۔

یہاں تک ان کے وعدے جھوٹے نکلے
قسم کو بھی ہوئی حاجت قسم کی

اور آخر میں مجبور ہوکر کہنا پڑا۔۔۔

وعدے جھوٹے قسمیں جھوٹی
دنیا کی سب باتیں جھوٹی

یہاں ہر کوئی بآسانی دنیا سے عدنان بھائی مراد لے سکتا ہے!!!
 
ہمیں تو آپ کی صرف وعدہ ٹہلائی کی صفت یاد ہے۔۔۔
لگ بھگ سات ماہ ہوگئے۔۔۔
دعوت دینے کے باوجود ابھی تک ایک پیالی چائے نہ پلائی گئی۔۔۔
اس پر عرض کیا ہے۔۔۔

قسم جب اس نے کھائی ہم نے اعتبار کرلیا
ذرا سی دیر زندگی کو خوشگوار کرلیا

لیکن جب قسموں سے اعتبار اٹھ گیا تو کہنا پڑا۔۔۔

آپ کے لب پہ اور وفا کی قسم
کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم

اور۔۔۔

یہاں تک ان کے وعدے جھوٹے نکلے
قسم کو بھی ہوئی حاجت قسم کی

اور آخر میں مجبور ہوکر کہنا پڑا۔۔۔

وعدے جھوٹے قسمیں جھوٹی
دنیا کی سب باتیں جھوٹی

یہاں ہر کوئی بآسانی دنیا سے عدنان بھائی مراد لے سکتا ہے!!!
واہ واہ ،
کیا خوب کلام ارشاد فرمائیں ہے حضور ۔:p
 

سید عمران

محفلین
Top