سید عمران

محفلین
احاطہ مولسری۔ دائیں بائیں مولسری کے درخت!!!
018.jpg
 

سید عمران

محفلین
شام کو معین کے ساتھ باہر نکلے۔ اس نے دو سائیکلوں کا بندوبست کرلیا تھا، ان پر بیٹھ کر ڈرتے لرزتے گِدھوں والی سڑک پر ہولیے، گِدھ نظر آتے ہی ہول لیے اور اتنی تیز سائیکل چلائی کہ معین سے بھی آگے نکل لیے۔ بار بار پیچھے مڑ کر گِدھوں کو دیکھتے مگر وہ آنکھ اٹھا کر بھی ہمیں نہ دیکھتے۔ پہلی بار کسی کا نو لفٹ کرانا اچھا لگا۔ بعد میں ہم ایسے رواں ہوئے کہ گِدھوں والی سڑک پر آتے جاتے اور ان کی طرٖف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے۔
گِدھوں والی سڑک پر تھوڑا آگے جائیں تو دائیں ہاتھ پر کچھ مکانات نظر آتے ہیں۔
’’اس محلہ کا نام خانقاہ ہے۔‘‘ معین نے بتایا۔
مزید آگے جائیں تو ہری بھری گھاس سے بھرا بڑا سا میدان آتا ہے، قبلہ کی رُخ پر دیوار اور محراب بنی ہے۔
’’ یہ عیدگاہ ہے۔‘‘ ظاہر ہے معین نے ہی بتایا۔
مغرب کے وقت چاروں طرف اندھیرا چھانے لگا تو گھر پہنچے۔ چائے تیار تھی۔ سب نے ساتھ بیٹھ کر چائے پی۔

ہم اپنی ایک چھوٹی سی کزن کو دیکھتے تھے، گوری چٹی، ہر وقت نک سک سی تیار ہوئی، ذرا الگ ہی ایکشن تھے۔ ابھی بھی تیار ہوکر ہاتھ میں آئینہ پکڑے کاجل لگارہی تھی۔ ہم چائے پیتے ہوئے دلچسپی سے اس کی تیاریاں دیکھ رہے تھے۔ تبھی چچی نے مسکراتے ہوئے آہستہ سے کہا:
’’یہ شگفتہ ہیں۔ انہیں اپنی بیوٹی پہ بڑا ناز ہے۔ کسی نے کہہ دیا کہ نرگس سے شکل ملتی ہے، اس کے بعد سے تو مزاج ہی نہیں ملتے۔ نخرے ذرا زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں۔‘‘
’’کوئی بات نہیں، بندے کو ڈی گریڈ کرنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ اب دیکھیے نرگس کیسے شگفتہ بنتی ہے۔‘‘ ظاہر ہے ہم ہی نے کہا تھا۔
شگفتہ تیار ہوکر اک ناز سے آکر ہم لوگوں کے پاس بیٹھی تو ہم نے چچی سے پوچھا:
’’یہ کون ہے؟‘‘
’’شگفتہ۔‘‘
’’اس کے پاس پہننے کو اچھے کپڑے نہیں ہیں؟‘‘ ہم نے اچھے بھلے کپڑوں کا ستیاناس کرتے ہوئے پوچھا۔
چچی مسکراہٹ دباتے ہوئے کچھ کہنے ہی والی تھیں کہ ہم نے کہا:
’’لگتا ہے اسکول سے آکر صابن سے منہ بھی نہیں دھویا، اور یہ آنکھوں میں کیا کالک سی لگالی۔اُونہہ ہوں!!!‘‘ ہم نے ضرورت سے زیادہ برا منہ بنالیا۔ مستقبل کی نرگس کا منہ لٹک گیا۔
’’پہلی ڈوز ہلکی ہونی چاہیے۔ آتے ہی زیادہ دشمن بنانا نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘ ہم نے آج کےلیے اتنی ہی خوراک تجویز کی۔
چچی رات کے کھانے کی تیاری کے لیے اٹھی ہی تھیں کہ سر پہ برقع رکھے دادی آگئیں۔
’’چلو رشتے داروں سے ملواتی ہوں۔‘‘
’’چلیں۔‘‘ ہم نے کون سی تیاری کرنی تھی، اٹھ کھڑے ہوئے۔
دو گلیوں بعد ہی ان کا گھر آگیا۔ نہ جانے دور پرے کی کیا رشتہ داری تھی یاد نہیں، پر ان کا جھنجھلاہٹ بھرا ایک جملہ یاد رہ گیا۔ بیت الخلاء کا پرانا کُھڈی سسٹم ختم ہونے پر ناراض تھے۔ نیا فلش سسٹم ایک آنکھ نہیں بھارہا تھا۔
’’یہ کیا کہ جمعداروں کے کرنے کا کام بھی خود اپنے ہاتھ سے کرو۔‘‘یہ صاحب کسی زمانے میں بڑے زمیں دار تھے۔ نوکروں چاکروں کی ریل پیل تھی۔ آزادی کے بعد ہند سرکار نے بڑے بڑے زمیں داروں کی زمینیں ضبط کرکے زمیندارہ سسٹم ختم کردیا تھا۔اس کے بعد سے زمیں داروں کی شاہانہ زندگی یاد ماضی بن کررہ گئی تھی۔
کُھڈی سسٹم پر آگے چل کر تذکرہ کریں گے۔

آج ہندوستان کے پہلے میزبان سے شرف ملاقات کے بعد گھر پہنچے۔ صحن میں دائیں برآمدے کے ساتھ چارپائیاں بچھ چکی تھیں۔ ہم چارپائی پر ستون سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ چہرہ کے سامنے سے ایک کیڑا اڑتا ہوا گزرا اور ستون پر بیٹھ گیا۔ یہ عام کیڑا نہیں تھا۔ ہم حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔ ستون پر بیٹھا کبھی پر پھیلاتا کبھی سکیڑتا۔ پر پھیلاتا تو دُم زرد زرد روشنی سے چمکنے لگتی۔
’’ جگنو؟؟؟‘‘ ہم نے برابر والی چارپائی پر بیٹھی شائستہ سے زور دار آواز میں پوچھا۔ ہماری حیرت دیدنی تھی، آواز جوش سے لرز رہی تھی۔
’’ہاں، تو؟‘‘ شائستہ نے بے حد عام سے لہجے میں کہا اور سوالیہ نظروں سے ہماری حیرت کو دیکھنے لگی۔ اسے کیا معلوم کہ ہم زندگی میں پہلی بار جگنو دیکھ رہے تھے۔ ہم نے آہستہ سے جگنو کو چٹکی میں بھرا اور ہتھیلی پر رکھ لیا۔ اقبال اور پروین کے جگنو ذہن میں جگنو بن کر چمکنے لگے۔ ذرا سا کیڑا جسے ہم دن میں نہیں رات میں پرکھ رہے تھے۔ یہاں رات کو جگنو جابجا اس طرح اڑتے پھرتے تھے جیسے ہمارے یہاں مچھر۔ رات کے وقت بس کا سفر ہو اور سڑک کے دائیں بائیں کھیت ہوں تو کھیتوں سے نکل کر آنے والے جگنوؤں سے سڑک بھر جاتی تھی۔کھیتوں اور سڑک پر اڑتے چمکتے جگنوؤں کا منظر دیدنی ہوتا تھا۔

’’کل دوپہر اقبال کے یہاں تمہاری دعوت ہے۔‘‘ دادی کی آواز ہمیں خیالوں کی دنیا سے واپس لے آئی۔
’’اقبال کون؟‘‘ہم نے سوالیہ چہرہ بنایا۔
’’تمہاری امی کے خالہ زاد بھائی۔‘‘
یہ اماں کی ان ہی خالہ کے بیٹے ہیں جن کی بیٹی سے ہم نے فون پر ویزے کا پوچھا تھا اور انہوں نے بچہ سمجھ کر ہمیں ٹہلادیا تھا۔ اقبال ماموں کے بیٹے ہلال بھائی کراچی آتے رہتے تھے۔ ان سے خوب سلام دعا تھی۔

اگلی دوپہر اقبال ماموں کے گھر پہنچے۔ اپنی بہن کی طرح پتلے دبلے لمبے اور ہنس مکھ۔ ممانی البتہ سنجیدہ مگر مہمان نواز، مستقل گھر کے کاموں میں لگی رہیں۔ ہلال اپنی ملازمت کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔اقبال ماموں کے پاس بیٹھ کر عمر کا فرق محسوس نہیں ہوا۔ ہم بعد میں بھی ان کے گھر بے تکلفی سے خوب آتے جاتے رہتے تھے۔

یہاں کھانے سے فارغ ہوکر تھوڑا آگے چلے اور ایک گھر کے سامنے رک گئے۔
’’اس گھر میں تمہارے دادا کے بڑے بھائی کی اولاد رہتی ہے۔ تھوڑی دیر یہاں بھی بیٹھتے ہیں۔‘‘ دادی نے انفارمیشن دی۔

گھر کے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک برآمدے کو دیوار سے بند کرکے کمرہ سا بنایا گیا تھا، یہاں ڈائننگ ٹیبل اور کرسیاں تھیں۔ اس قصبہ میں پہلی اور آخری بار نسبتاً جدید طرز کا لِوِنگ کم ڈائننگ روم دیکھ رہے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہاں آکر زمین پر دسترخوان بچھا کے ساتھ ساتھ بیٹھ کر کھانے اور ہنسے بولنے میں جو لطف آیا وو ڈائننگ ٹیبل پر الگ الگ قدرے دور دور بیٹھ کر کھانے میں نہیں آتا تھا۔ یہاں چائے پانی سے فارغ ہو کر گھر پہنچے تو عصر کی اذانیں ہورہی تھیں۔

کزنز ہمارے انتظار میں بیٹھے بور ہو رہے تھے۔ آنٹی کل سے اپنے سسرال میں ٹھہری ہوئی تھیں، ادھر ہم بھی نہیں تھے، بھرے پرے گھر میں ایک دم سناٹا چھاگیا تھا، کزنز زیادہ محسوس کر رہے تھے۔ ہم صحن میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ سارے کزنز اردگرد جمع تھے۔ تبھی ہم نے نوٹ کیا شگفتہ شائستہ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہی ہے۔
’’شگفتہ تمہارے پیچھے کیوں چھپ رہی ہے؟ آج بھی اچھے کپڑے نہیں پہنے؟‘‘ ہم نے شائستہ سے پوچھا۔
’’جناب آج انہوں نے اپنے سب سے پسندیدہ کپڑے پہنے ہیں۔‘‘ شائستہ اس کے سامنے سے ہٹتے ہوئے بولی۔
ہم نے دیکھا کہ اچھا بھلا معقول لباس پہن رکھا تھا، لیکن فی الحال اسے سراہنا ہمارے مشن میں شامل نہیں تھا۔
’’ہیں، سب سے اچھے کپڑے اتنے خراب ہیں۔ خراب کپڑے نہ جانے کتنےخراب ہوں گے۔‘‘ ہم اس کے اچھے بھلے کپڑوں کو خاطر میں نہ لائے تو برا سا منہ بنا کر بیٹھ گئی۔ کہا کچھ بھی نہیں۔ ویسے ہی کم بولتی تھی، اپنی آرائش و زیبائش میں زیادہ مگن رہتی تھی، اب ہم سے تو اور زیادہ بدکنے لگی تھی!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
صبح ناشتہ صحن میں بچھی چار پائیوں پر بیٹھ کر اوپن ائیر کے مزے کے ساتھ کیا۔ ناشتے کے بعد بھی وہیں بیٹھے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک عورت اندر داخل ہوئی۔ اتنا لمبا گھونگھٹ نکال رکھا تھا کہ چہرہ نظر نہیں آتا تھا۔ ایک ہاتھ میں بڑی سی ٹوکری جسے پکڑ کر پہلو سے ٹکا رکھا تھا، دوسرے ہاتھ میں جھاڑو۔ یہ یہاں کی بھنگن تھی۔ باتھ روم صاف کرنے آتی تھی۔انہیں یہاں بہو کہاجاتا تھا اور ان کے کام کو ’’کمانا۔‘‘ جب وہ اندر داخل ہوتی تو آواز لگاتی:’’ بہو آئی ہے کمانے۔‘‘ان کا تعلق ہندو برادری کی ایک قوم سے تھا۔

یہاں پرانے وقتوں سے بیت الخلاء میں کُھڈی سسٹم رائج تھا۔ نکاسی کا کوئی انتظام نہ ہوتا تھا۔ صرف صبح کے وقت صفائی کے لیے بہو آتی تھی۔بعد میں فلش سسٹم کا انتظام کرلیا گیا تھا۔ یہاں فلش سسٹم کا طریقہ یہ تھا کہ واش روم سے نکاسی کے لیے پائپ لگا کر باہر کسی کھلی جگہ تک لے جایا جاتا، وہاں دائرے کی شکل میں قریباً پانچ چھ فیٹ قطر اور آٹھ دس فیٹ گہرا گڑھا کھود کر ا س کی دیواروں میں لال اینٹیں لگائی جاتیں، پھر اوپر سیمنٹ کی سلیبیں رکھ کر بند کردیا جاتا تھا۔

ہم روز ایک بچے کو دیکھتے تھے۔ سفید کرتا پاجامہ پہنے اور سفید ٹوپی اوڑھے قاعدہ سینے سے لگائے صبح کے وقت ناک پونچھتا ہوا باہر جاتا اور دوپہر کے وقت اسی طرح واپس لوٹتا۔ ابھی بھی اسے جاتا دیکھ رہے تھے۔
’’یہ بابر ہے۔ قرآن پاک پڑھ رہا ہے۔ حفظ کروانے کا ارادہ ہے۔‘‘ چچا نے اسے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
یہ بابر سے پہلا باقاعدہ تعارف تھا۔

’’چلو، آج تمہارے دادا کے چھوٹے بھائی کے یہاں چلتے ہیں۔ بھابھی کئی مرتبہ تمہارے بارے میں پوچھوا چکی ہیں ۔‘‘ دادی پاس آکر بیٹھ گئیں:
’’تیار ہوجاؤ ۔ ان کی خیر خیریت پوچھ آتے ہیں۔‘‘
’’چلیں؟‘‘ ہم تیار ہوکر باہر آئے تو دادی تیار بیٹھی تھیں۔ ان کے ہمراہ والد کے چچا کے یہاں پہنچے۔چچا کا انتقال ہوچکا تھا۔ چچی موجود تھیں۔ اولاد کوئی نہیں تھی۔ سارا دن بچیوں کو قرآن پاک پڑھاتی تھیں۔ اس کی برکت تھی کہ گھر ہر وقت بچیوں سے بھرا رہتا تھا۔چچی دمہ کی مریضہ تھیں، سانس مشکل سے لے رہی تھیں۔ ہمیں دیکھ کے بہت خوش ہوئیں۔ فوراً ایک بچی کو بھیجا:
’’جا بیٹا،بھاگ کے مہمانوں کے لیے برف والی فیرنی لے آ۔‘‘
ہم سمجھے یہ برفانی فیرنی اسی طرح کی ہوگی جیسے ہمارے یہاں فالسے والا آواز لگاتا ہے:’’کالے کالے فالسے، ٹھنڈے میٹھے فالسے۔‘‘ جو نہ کالے ہوتے ہیں، نہ ٹھنڈے میٹھے۔
تھوڑی دیر بعد بچی سلیقے سے طشتریوں میں چمچے کے ساتھ فیرنی لے آئی۔ ہم نے دیکھا کہ فیرنی کے ساتھ برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھے۔ چوں کہ فریج عام نہیں تھا لہٰذا ٹھنڈی چیزوں کو ٹھنڈا ٹھنڈا کھانے کے لیے یہ فارمولا اپنایا گیا تھا۔ برف کے ساتھ فیرنی کھانے کا یہ فارمولا نہایت مزے دار لگا۔

’’دوپہر کو اشتیاق صاحب نے سارے گھر والوں کو کھانے پر بلایا ہے۔‘‘دادی نے بتایا۔ آنٹی بھی اپنی سسرال سے آگئی تھیں۔
’’ اشتیاق صاحب کون ہیں ؟ کس عمر کے ہیں؟‘‘ دادی سے پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ہم نے معین کے کان میں کھسر پھسر کی۔
’’بہت بوڑھے ہیں،مگر آپ کے جیسے دو کے برابر ہیں۔‘‘ معین کی آنکھیں اور چمکیں۔ ہم دہل گئے۔ شرارت بھری آنکھوں کی چمک کا مطلب ہے کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہوگی، یعنی بڑے میاں اکھڑ اور خشک مزاج ہیں، ہمیں خوب بور کریں گے۔
سب لوگ تیار ہوئے تو ہمیں ساتھ لینے کے لیے رُک گئے۔
’’آپ لوگ چلیں، ہم ٹھہر کر آتے ہیں۔‘‘ ہم نے بہانہ تراشا تاکہ دیر سے جائیں اور جلدی آئیں۔ بور ہونے کا زیادہ موقع نہ ملے۔
سب لوگ چلے گئے معین ٹھہر گیا۔
’’عمران بھائی جلدی چلتے، سچ بڑا مزا آتا۔‘‘ ہم سمجھ گئے یہ ہمیں پھنسانے کا مکمل ارادہ رکھتا ہے۔
اپنے تئیں خوب دیر کرکے گھر سے نکلے۔ راستہ بتانے کے لیے معین ساتھ تھا۔ ان کے گھر میں داخل ہوئے تو صحن سے ایک پتلا لمبا زینہ اوپر جارہا تھا۔ اوپر پہنچے تو زینے کی طرح پتلے لمبے ستّر سال کی عمر کے بزرگوار نے استقبال کیا۔ اپنے کمرے میں لے گئے۔ ان کے بستر کے ساتھ دیوار میں ریک بنا تھا۔ اس میں لائن سے کتابیں رکھی تھیں۔
سلام دعا کے تھوڑی دیر بعد انہوں نے پوچھا:
’’ابن صفی کی کتابیں پڑھتے ہو؟‘‘
ہم سمجھ گئے یہ سوال ہماری بے راہروی کی تصدیق کرنے کے لیے پوچھا گیا ہے۔ اب جاسوسی ناولوں سمیت ہر قسم کے ناولوں کی خرابی پر لیکچر دیا جائے گا۔
’’جی تھوڑی بہت پڑھی ہیں۔‘‘ ہم نے ایسا گول مول جواب دینے کی کوشش کی جس سے ہماری اخلاق باختگی کا واضح ثبوت ہاتھ نہ آسکے۔
’’ارے پھر تو تم اپنے ہی یار نکلے۔‘‘ انہوں نے سارے تکلفات برطرف کرکے ہمیں سینے سے لگالیا۔
’’یہ دیکھو، سارے ابن صفی کے ناول رکھے ہیں ، جہاں سے ملتے ہیں میں منگوا لیتا ہوں۔‘‘ انہوں نے ریک پر لائن سے رکھی کتابوں کی طرف اشارہ کیا۔
’’تمہیں جب پڑھنا ہو آجایا کرو۔ کوئی تکلف نہیں۔‘‘
اشتیاق صاحب اتنے بے تکلف ہوکر ملے کہ عمر کا واضح فرق آڑے نہ ہوتا تو ہم تو ابے تبے کی بے تکلفی پر اتر آتے۔
اب ہمیں سمجھ میں آیا جو معین کہہ رہا تھا کہ آپ کے جیسے دو کے برابر ہیں یعنی ہنسنے بولنے میں۔ ہم سمجھے طنزاً کہہ رہا ہے۔ اور بے چاروں کو اکھڑ مزاج سمجھ بیٹھے۔ معین کی آنکھوں کی شرارتی چمک ہمیشہ خطرے کا نشان نہیں ہوتی۔ آج ہمیں یہ بات بھی سمجھ میں آگئی تھی۔

چھوٹے شہروں میں اب بھی اخلاص اور بے تکلفی پائی جاتی ہے، رشتے دار وں سے محبت کی جاتی ہے۔ مہمانوں کا گھر میں آنا خوشی کا باعث اور رحمت تصور کی جاتی ہے۔ جبکہ بڑے شہروں میں معاملہ اس کے برعکس ہوگیا ہے۔
بعد میں بھی اشتیاق صاحب کے یہاں ہمارا بے تکلفی سے خوب آنا جانا رہا۔

اس شام معین نے ہندی زبان کا پہلا قاعدہ ہمارے ہاتھ میں تھمادیا،اسے ورن مالا کہتے ہیں۔ یوں ہم نے ہندی اب پ سیکھنی شروع کردی۔ ہمارے اساتذہ میں سر معین اور مس شائستہ مستقل طور پر شامل تھے جبکہ مس شگفتہ بھی چلتے پھرتے ہماری کسی اٹکن اور الجھن کو سلجھادیتی تھیَں۔ تھوڑی شُدھ بُدھ حاصل ہونے کے بعد ہم دوکانوں پر لگے سائن بورڈ چلتے پھرتے پڑھنے کی کوشش کرتے۔ ایک مرتبہ بازار سے گزرتے ہوئے ایک ٹھیلے والے کا سائن بورڈ پڑھنے کے لیے رُک گئے۔ معین آگے نکل گیا، پھر پلٹ کر آیا۔ پوچھا:
’’کیا ہوا، رُک کیوں گئے؟‘‘
’’یہ کیا لکھا ہے؟ گھ ہے یا دھ یا جھ؟‘‘ ہم نے ٹھیلے پر لگے بورڈ کی طرف اشارہ کیا۔
’’چھولے لکھا ہے عمران بھائی۔‘‘ معین ہمارا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گیا۔
اچھا تو یہ ’’چھ‘‘ تھا جس سے ہم اُلجھ رہے تھے۔ یوں ’’چھ‘‘ ذہن میں بیٹھ گیا۔ آگے بڑھے، معین دوکان سے کچھ لینے لگا، ہم ساتھ والے سائن بورڈ سے اُلجھنے لگے۔ یہ کیا ہے؟ ہم پہلے لفظ پر ہی اٹک گئے۔اگر ’’رے‘‘ اور ’’الف‘‘ ’’ را‘‘ ہے تو کیا لفظ بنا ’’رانک؟‘‘ نہیں نہیں، یہ تو کوئی لفظ نہیں ہوتا۔ پھر کیا ہے؟ اگر سین ہے تو کیا بنا ’’سنک؟‘‘ ارے بھلا کوئی اپنی سنک کی بھی اشتہار بازی کرتا ہے۔ ہم نے سنک کو بھی ذہن سے جھٹک دیا۔
’’عمران بھائی عینک لکھا ہے۔‘‘ معین نے کندھا پکڑ کر جھنجھوڑا۔
’’اچھا تو یہ لفظ ’’اے‘‘ ہے۔‘‘ ہم نے یہ لفظ بھی سیکھ لیا۔
اسی مٹر گشت کے دوران معین نے پوچھا: ’’دہی بڑے کھائیں گے؟‘‘
’’کیوں نہیں۔‘‘ اس قسم کی آفر کا جواب کبھی نہ میں نہ ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا ذاتی فارمولا ہے۔
ایک ٹھیلے کے پاس رک کر دہی بڑے کھائے۔ یہاں لوگ دہی بڑے میٹھے پسند کرتے ہیں۔ ہم نے چاٹ مصالحہ ڈلوا کر زبردستی چٹ پٹے کیے۔ مزہ آگیا۔

جمعہ کا دن تھا۔ ہم نے شور مچایا:’’ کپڑوں کے لیے استری چاہیے۔‘‘
’’ہی ہی ہی ۔ کس کی چاہیے؟‘‘ شائستہ کے دانت ہی اندر نہیں ہورہے تھے۔
’’عمران بھائی بڑے موڈ میں ہو۔ صبح صبح استری کی کیا ضرورت پڑ گئی؟‘‘ معین کی آنکھیں پھر چمکیں۔
ہمیں سمجھ میں نہیں آیا کہ ہماری اس بات کا مذاق کیوں بن رہا ہے۔
’’ تمہاری ذاتی استری چاہیے اور کیا پڑوسیوں سے مانگ کر لاؤ گے۔‘‘
ہماری اس بات پر تو سب نے اچھل اچھل کر شور مچانا شروع کردیا۔
’’یہاں تو کوئی اپنی استری نہیں دے گا، پڑوسیوں سے کہا تو جان کو آجائیں گے۔‘‘
’’پھر کپڑوں کے لیے استری کہاں سے ملے گی؟‘‘ہماری ہر پریشانی پر بلند بانگ قہقہے لگتے۔ شگفتہ چچی کو لے آئی کہ عمران بھائی کو استری چاہیے۔ چچی نے آتے ہی پہلے تو ان کو ڈانٹ کر چپ کرایا:
’’چپ ہوجاؤ سب، کیا بدتمیزی لگا رکھی ہے۔‘‘
پھر ہم سےمخاطب ہوئیں:’’یہاں استری بیوی کو کہتے ہیں، کپڑوں پر استری کرنے کو پریس کہا جاتا ہے۔‘‘
بات یہیں ختم نہیں ہوگئی تھی۔ آخر تک ہماری استری کا مذاق اڑتا رہا!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
رات کھانے پر چچا آئے تو مسکر ارہے تھے۔کھانے کے بعد خود ہی بولے:
’’کل ایک سرکاری کام سے دلّی جانا ہے ۔ تم بھی چلو، دلّی کی سیر ہوجائے گی۔ صبح سویرے نکلنا ہے۔ جلدی تیار ہوجانا۔‘‘
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں اور ہم کیا چاہیں دلّی کی سیر۔
ہم صبح سویرے چچا سے پہلے تیار ہوکر بیٹھ گئے۔ دلّی جانے سے پہلے تھانے گئے، وہاں اینٹری کروائی کہ ہم دلّی جارہے ہیں۔انڈیا پہنچ کر شہر سے باہر آتے جاتے تھانے میں اطلاع کرنی پڑتی ہے کہ اب ہم جارہے ہیں اور اب ہم واپس آگئے ہیں۔ یہاں سے فارغ ہوکر چچا کے ساتھ دلّی جانے والی بس پکڑی اور چار گھنٹوں میں دلّی پہنچ گئے۔

چچا سب سے پہلے سرکاری دفتر پہنچے۔ پیلے رنگ کے پرانے طرز کے ایک منزلہ کوارٹر ٹائپ کمروں پر مبنی دفاتر تھے۔ باہر کچی زمین پر جابجا گھاس اور کائی جمی تھی، بڑے بڑے سایہ دار گھنے درخت تھے اور ان درختوں سے کودتے پھاندتے بندر۔ دھڑلے سے اِدھر اُدھر چھلانگیں لگاتے آجارہے تھے، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، نہ یہ کسی سے ڈرنے والے لگتے تھے۔ کسی کمرے میں گھسنے کی کوشش کرتے تو ہش ہش کے بھگا دیا جاتا اور بس۔ ہماری دلچسپی کے لیے یہ منظر کافی تھا۔ہم نے آج تک بندر کا تماشہ دکھانے والے کے علاوہ بندر نہیں دیکھے تھے۔دلچسپی کے اس عالم میں وقت گزرنے کا پتا نہ چلا اور چچا اپنا کام نمٹا کر آگئے۔
’’یہ بندر کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے؟‘‘ ہم نے چچا سے آتے ہی پوچھا۔
’’کیوں نہیں، جہاں موقع ملے کام خراب کردیتے ہیں۔ چیزیں اٹھا کر لےجاتے ہیں ۔بعض اوقات تو حملہ بھی کردیتے ہیں۔‘‘
’’ ان کے خاتمے کے لیے کتا مار مہم کی طرح کوئی مہم نہیں چلائی جاتی؟‘‘
’’یہاں بندر دیوتا کا درجہ رکھتے ہیں، ان کے بت بنا کر ان کی پوجا کی جاتی ہے،انہیں ہنومان جی کہہ کر ان کے آگے ہاتھ جوڑتے ہیں۔ ان کے دھرم میں بندر کو مارنا گھور پاپ ہے۔ بندر بھی ان کی یہ نفسیات سمجھتے ہیں۔ جانتے ہیں ہمیں کوئی کچھ نہیں کہتا جبھی ڈھٹائی سے دندناتے پھرتے ہیں۔‘‘

ہمیں یاد آیا ہم نے دیوبند میں ایک ہندو کو اپنی دوکان کھولنے سے قبل شٹر کے تالے کے پاس اگربتی جلاتے اور دوکان کی دہلیز کو چھو کر نمستے کے انداز میں ہاتھ جوڑے کافی دیر تک پوجا کرتے دیکھا تھا۔
’’کیا یہ دوکان کی بھی پوجا کرتے ہیں؟‘‘ ہم نے چچا سے یہ واقعہ بیان کرکےپوچھا۔
‘‘جس سے انہیں نفع یا نقصان کی امید ہو ان سب کو بڑا سمجھ کر ان کی پوجا کرتے ہیں۔ مثلاً دوکان سے نفع کی امید ہوتی ہے اور سانپ سے نقصان کی۔ اس لیے سانپ کو بھی پوجتے ہیں اور دوکان کو بھی۔‘‘ہماری معلومات میں اضافہ ہورہا تھا۔

ہم ایک رکشہ میں بیٹھ گئے جسے یہاں آٹو کہتے ہیں۔اس وقت ہماری منزل تھی بادشاہی مسجد دلّی۔ یہ ہماری فرمائش تھی۔ ہم نے چچا سے کہا تھا کہ سب سے پہلے بادشاہی مسجد چلیں، ہمیں کرنسی تبدیل کروانی ہے۔ اور اس وقت ہم بادشاہی مسجد کے علاقے میں کھڑے تھے۔مشہور زمانہ چاندنی چوک یہیں واقع ہے اور اصلی اردو بازار بھی یہاں کی ایک گلی ہے۔ مسجد سے پہلے گنجان آباد علاقہ آیا۔ فٹ پاتھوں پر بھی مختلف ٹھیلے، خوانچے، زمین پر کاروبار پھیلائے لوگ بیٹھے تھے۔ اندر گئے تو کپڑے کے بینرز پر اردو میں لکھا تھا، یہاں پاکستانی کرنسی تبدیل کی جاتی ہے۔ اتنے عرصے میں پہلی بار بڑی بڑی اردو لکھی دیکھ کر اچھا لگا۔ ایک جگہ جاکر کرنسی بدلوائی پھر دوپہر کا کھانا کھایا اور بادشاہی مسجد کے مشرقی دروازے سے اندر داخل ہوگئے کہ بادشاہوں کی گزرگاہ یہی دروازہ تھا۔

چوں کہ لاہور کی مسجد دیکھی ہوئی تھی اس لیے تقابل کرنا آسان تھا۔ لاہور کی مسجد میں سرخ رنگ غالب تھا اور دہلی کی مسجد میں سفید۔ دیکھنے میں لاہور کی مسجد زیادہ پُرشکوہ ہے، صفائی ستھرائی اور مینٹننس کا خیال بھی لاہور کی مسجد میں بہت زیادہ رکھا گیا ہے۔ لاہور کی مسجد سے دور دور تک آبادی نہیں ہے، خوب کھلا کھلا وسیع علاقہ ہے اس لیے باہر بھی وسعت کا احساس ہوتا ہے۔ جبکہ دلی کی مسجد کے باہر انتہائی گنجان آباد بازار ہے، بے انتہاء رش ہے، کھوے سے کھوا چھلتا ہے، حکومت کی عدم توجہی سے صفائی ستھرائی اور مینٹننس کا وہ معیار نہیں ہے جو لاہور کی مسجد کو حاصل ہے۔ دورِ رفتہ کی یاس زدہ عظمتوں کو سلام کر کے نیچے اتر آئے۔

اگلی منزل حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا مزار تھا۔ بڑی سڑک پر اتر کر ایک تنگ گلی میں داخل ہوئے۔ نیچے پختہ زمین اور اوپر چَھپی ہوئی پیچ در پیچ گھومتی ہوئی گلی، دونوں طرف گلاب کے پھولوں، اگر بتیوں، مصلوں، تسبیحوں اور ٹوپیوں کی دوکانیں۔ اچانک ہی مزار کا گیٹ آگیا۔ اندر داخل ہوئے تو سامنے حضرت کا مزار تھا ۔ پاکستان کے برعکس مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہاں ہندو بھی آتے ہیں، باقاعدہ قبر کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کرتے ہیں اور موقع مل جائے تو سجدہ بھی کرلیتے ہیں (معاذ اللہ)۔
فاتحہ پڑھ کر ساتھ بنی مسجد جماعت خانہ میں داخل ہوئے۔ خاموشی اور سکون کا راج تھا۔ ہم نے اس پرسکون ماحول کی فضاؤں کو گہرے سانسوں کے ذریعے جسم و جاں کا حصہ بنایا اور باہر آگئے۔
مسجد کے دروازے پر باہر کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں تو بائیں طرف حضرت نظام الدین اولیاء کا مزار ہے اور دائیں جانب ان کے چہیتے شاگرد اور مرید خواجہ امیر خسرو کا۔ اپنے شیخ کے انتقال کے بعد امیر خسرو زیادہ نہ جی سکے اور محض چھ ماہ بعد اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ بعض لوگوں کا معاملہ عجیب ہوتا ہے ساتھ جیتے ہیں، ساتھ مرتے ہیں اور ساتھ دفن ہوکر ہمیشہ کا ساتھ نبھاتے ہیں!!!

کئی دن بعد نئی دہلی کی بڑی بڑی کشادہ سڑکیں دیکھ کر کراچی کی یاد تازہ ہورہی تھی، بہت اچھا لگ رہا تھا۔

یہاں ہم نے ایک عجیب منظر دیکھا جو پاکستان میں دیکھنے کو نہیں ملتا، جوان جہان لڑکیاں سڑکوں پر دھڑلے سے سائیکلیں چلاتی پھر رہی تھیں اور نسبتاً پختہ عمر کی عورتیں ویسپا ٹائپ کی اسکوٹی۔ ساڑھی باندھے ماتھے پر لال بندیا لگائے اسکوٹی کے ایک ہینڈل پر ٹفن باکس لٹکائے بھاگی جارہی ہیں۔
’’یہ کہاں جارہی ہیں۔‘‘ ہم نے چچا سے پوچھا۔
’’یا تو اپنے دفتر جارہی ہیں یا اپنے پتی کے لیے کھانا لے کر جارہی ہیں۔‘‘
’’ہمارے یہاں لڑکیاں سائیکلیں لے کر سڑکوں پر نکل آئیں تو سارا شہر بند ہوجائے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ چچا کو بڑی حیرت ہوئی۔
’’سارا شہر آخر تک ان کا پیچھا کرے گا۔‘‘چچا کو ہنسی آگئی۔

آخر میں باہر باہر سے صدارتی محل ’’راشٹر پتی بھون‘‘، پارلیمنٹ اور انڈیا گیٹ دکھائے۔ انڈیا گیٹ تو ہم بعد میں آگئے تھے۔ لیکن افسوس ہند سرکار کی قسمت پر، ہماری قدر نہ کی اور صدارتی محل میں ہمارا میزبان بننے سے محروم رہ گئی!!!
 
آخری تدوین:
Top