شام کو معین کے ساتھ باہر نکلے۔ اس نے دو سائیکلوں کا بندوبست کرلیا تھا، ان پر بیٹھ کر ڈرتے لرزتے گِدھوں والی سڑک پر ہولیے، گِدھ نظر آتے ہی ہول لیے اور اتنی تیز سائیکل چلائی کہ معین سے بھی آگے نکل لیے۔ بار بار پیچھے مڑ کر گِدھوں کو دیکھتے مگر وہ آنکھ اٹھا کر بھی ہمیں نہ دیکھتے۔ پہلی بار کسی کا نو لفٹ کرانا اچھا لگا۔ بعد میں ہم ایسے رواں ہوئے کہ گِدھوں والی سڑک پر آتے جاتے اور ان کی طرٖف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے۔
گِدھوں والی سڑک پر تھوڑا آگے جائیں تو دائیں ہاتھ پر کچھ مکانات نظر آتے ہیں۔
’’اس محلہ کا نام خانقاہ ہے۔‘‘ معین نے بتایا۔
مزید آگے جائیں تو ہری بھری گھاس سے بھرا بڑا سا میدان آتا ہے، قبلہ کی رُخ پر دیوار اور محراب بنی ہے۔
’’ یہ عیدگاہ ہے۔‘‘ ظاہر ہے معین نے ہی بتایا۔
مغرب کے وقت چاروں طرف اندھیرا چھانے لگا تو گھر پہنچے۔ چائے تیار تھی۔ سب نے ساتھ بیٹھ کر چائے پی۔
ہم اپنی ایک چھوٹی سی کزن کو دیکھتے تھے، گوری چٹی، ہر وقت نک سک سی تیار ہوئی، ذرا الگ ہی ایکشن تھے۔ ابھی بھی تیار ہوکر ہاتھ میں آئینہ پکڑے کاجل لگارہی تھی۔ ہم چائے پیتے ہوئے دلچسپی سے اس کی تیاریاں دیکھ رہے تھے۔ تبھی چچی نے مسکراتے ہوئے آہستہ سے کہا:
’’یہ شگفتہ ہیں۔ انہیں اپنی بیوٹی پہ بڑا ناز ہے۔ کسی نے کہہ دیا کہ نرگس سے شکل ملتی ہے، اس کے بعد سے تو مزاج ہی نہیں ملتے۔ نخرے ذرا زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں۔‘‘
’’کوئی بات نہیں، بندے کو ڈی گریڈ کرنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ اب دیکھیے نرگس کیسے شگفتہ بنتی ہے۔‘‘ ظاہر ہے ہم ہی نے کہا تھا۔
شگفتہ تیار ہوکر اک ناز سے آکر ہم لوگوں کے پاس بیٹھی تو ہم نے چچی سے پوچھا:
’’یہ کون ہے؟‘‘
’’شگفتہ۔‘‘
’’اس کے پاس پہننے کو اچھے کپڑے نہیں ہیں؟‘‘ ہم نے اچھے بھلے کپڑوں کا ستیاناس کرتے ہوئے پوچھا۔
چچی مسکراہٹ دباتے ہوئے کچھ کہنے ہی والی تھیں کہ ہم نے کہا:
’’لگتا ہے اسکول سے آکر صابن سے منہ بھی نہیں دھویا، اور یہ آنکھوں میں کیا کالک سی لگالی۔اُونہہ ہوں!!!‘‘ ہم نے ضرورت سے زیادہ برا منہ بنالیا۔ مستقبل کی نرگس کا منہ لٹک گیا۔
’’پہلی ڈوز ہلکی ہونی چاہیے۔ آتے ہی زیادہ دشمن بنانا نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘ ہم نے آج کےلیے اتنی ہی خوراک تجویز کی۔
چچی رات کے کھانے کی تیاری کے لیے اٹھی ہی تھیں کہ سر پہ برقع رکھے دادی آگئیں۔
’’چلو رشتے داروں سے ملواتی ہوں۔‘‘
’’چلیں۔‘‘ ہم نے کون سی تیاری کرنی تھی، اٹھ کھڑے ہوئے۔
دو گلیوں بعد ہی ان کا گھر آگیا۔ نہ جانے دور پرے کی کیا رشتہ داری تھی یاد نہیں، پر ان کا جھنجھلاہٹ بھرا ایک جملہ یاد رہ گیا۔ بیت الخلاء کا پرانا کُھڈی سسٹم ختم ہونے پر ناراض تھے۔ نیا فلش سسٹم ایک آنکھ نہیں بھارہا تھا۔
’’یہ کیا کہ جمعداروں کے کرنے کا کام بھی خود اپنے ہاتھ سے کرو۔‘‘یہ صاحب کسی زمانے میں بڑے زمیں دار تھے۔ نوکروں چاکروں کی ریل پیل تھی۔ آزادی کے بعد ہند سرکار نے بڑے بڑے زمیں داروں کی زمینیں ضبط کرکے زمیندارہ سسٹم ختم کردیا تھا۔اس کے بعد سے زمیں داروں کی شاہانہ زندگی یاد ماضی بن کررہ گئی تھی۔
کُھڈی سسٹم پر آگے چل کر تذکرہ کریں گے۔
آج ہندوستان کے پہلے میزبان سے شرف ملاقات کے بعد گھر پہنچے۔ صحن میں دائیں برآمدے کے ساتھ چارپائیاں بچھ چکی تھیں۔ ہم چارپائی پر ستون سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ چہرہ کے سامنے سے ایک کیڑا اڑتا ہوا گزرا اور ستون پر بیٹھ گیا۔ یہ عام کیڑا نہیں تھا۔ ہم حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔ ستون پر بیٹھا کبھی پر پھیلاتا کبھی سکیڑتا۔ پر پھیلاتا تو دُم زرد زرد روشنی سے چمکنے لگتی۔
’’ جگنو؟؟؟‘‘ ہم نے برابر والی چارپائی پر بیٹھی شائستہ سے زور دار آواز میں پوچھا۔ ہماری حیرت دیدنی تھی، آواز جوش سے لرز رہی تھی۔
’’ہاں، تو؟‘‘ شائستہ نے بے حد عام سے لہجے میں کہا اور سوالیہ نظروں سے ہماری حیرت کو دیکھنے لگی۔ اسے کیا معلوم کہ ہم زندگی میں پہلی بار جگنو دیکھ رہے تھے۔ ہم نے آہستہ سے جگنو کو چٹکی میں بھرا اور ہتھیلی پر رکھ لیا۔ اقبال اور پروین کے جگنو ذہن میں جگنو بن کر چمکنے لگے۔ ذرا سا کیڑا جسے ہم دن میں نہیں رات میں پرکھ رہے تھے۔ یہاں رات کو جگنو جابجا اس طرح اڑتے پھرتے تھے جیسے ہمارے یہاں مچھر۔ رات کے وقت بس کا سفر ہو اور سڑک کے دائیں بائیں کھیت ہوں تو کھیتوں سے نکل کر آنے والے جگنوؤں سے سڑک بھر جاتی تھی۔کھیتوں اور سڑک پر اڑتے چمکتے جگنوؤں کا منظر دیدنی ہوتا تھا۔
’’کل دوپہر اقبال کے یہاں تمہاری دعوت ہے۔‘‘ دادی کی آواز ہمیں خیالوں کی دنیا سے واپس لے آئی۔
’’اقبال کون؟‘‘ہم نے سوالیہ چہرہ بنایا۔
’’تمہاری امی کے خالہ زاد بھائی۔‘‘
یہ اماں کی ان ہی خالہ کے بیٹے ہیں جن کی بیٹی سے ہم نے فون پر ویزے کا پوچھا تھا اور انہوں نے بچہ سمجھ کر ہمیں ٹہلادیا تھا۔ اقبال ماموں کے بیٹے ہلال بھائی کراچی آتے رہتے تھے۔ ان سے خوب سلام دعا تھی۔
اگلی دوپہر اقبال ماموں کے گھر پہنچے۔ اپنی بہن کی طرح پتلے دبلے لمبے اور ہنس مکھ۔ ممانی البتہ سنجیدہ مگر مہمان نواز، مستقل گھر کے کاموں میں لگی رہیں۔ ہلال اپنی ملازمت کے سلسلے میں دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔اقبال ماموں کے پاس بیٹھ کر عمر کا فرق محسوس نہیں ہوا۔ ہم بعد میں بھی ان کے گھر بے تکلفی سے خوب آتے جاتے رہتے تھے۔
یہاں کھانے سے فارغ ہوکر تھوڑا آگے چلے اور ایک گھر کے سامنے رک گئے۔
’’اس گھر میں تمہارے دادا کے بڑے بھائی کی اولاد رہتی ہے۔ تھوڑی دیر یہاں بھی بیٹھتے ہیں۔‘‘ دادی نے انفارمیشن دی۔
گھر کے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک برآمدے کو دیوار سے بند کرکے کمرہ سا بنایا گیا تھا، یہاں ڈائننگ ٹیبل اور کرسیاں تھیں۔ اس قصبہ میں پہلی اور آخری بار نسبتاً جدید طرز کا لِوِنگ کم ڈائننگ روم دیکھ رہے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہاں آکر زمین پر دسترخوان بچھا کے ساتھ ساتھ بیٹھ کر کھانے اور ہنسے بولنے میں جو لطف آیا وو ڈائننگ ٹیبل پر الگ الگ قدرے دور دور بیٹھ کر کھانے میں نہیں آتا تھا۔ یہاں چائے پانی سے فارغ ہو کر گھر پہنچے تو عصر کی اذانیں ہورہی تھیں۔
کزنز ہمارے انتظار میں بیٹھے بور ہو رہے تھے۔ آنٹی کل سے اپنے سسرال میں ٹھہری ہوئی تھیں، ادھر ہم بھی نہیں تھے، بھرے پرے گھر میں ایک دم سناٹا چھاگیا تھا، کزنز زیادہ محسوس کر رہے تھے۔ ہم صحن میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ سارے کزنز اردگرد جمع تھے۔ تبھی ہم نے نوٹ کیا شگفتہ شائستہ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہی ہے۔
’’شگفتہ تمہارے پیچھے کیوں چھپ رہی ہے؟ آج بھی اچھے کپڑے نہیں پہنے؟‘‘ ہم نے شائستہ سے پوچھا۔
’’جناب آج انہوں نے اپنے سب سے پسندیدہ کپڑے پہنے ہیں۔‘‘ شائستہ اس کے سامنے سے ہٹتے ہوئے بولی۔
ہم نے دیکھا کہ اچھا بھلا معقول لباس پہن رکھا تھا، لیکن فی الحال اسے سراہنا ہمارے مشن میں شامل نہیں تھا۔
’’ہیں، سب سے اچھے کپڑے اتنے خراب ہیں۔ خراب کپڑے نہ جانے کتنےخراب ہوں گے۔‘‘ ہم اس کے اچھے بھلے کپڑوں کو خاطر میں نہ لائے تو برا سا منہ بنا کر بیٹھ گئی۔ کہا کچھ بھی نہیں۔ ویسے ہی کم بولتی تھی، اپنی آرائش و زیبائش میں زیادہ مگن رہتی تھی، اب ہم سے تو اور زیادہ بدکنے لگی تھی!!!