سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
انٹر کا امتحان اور اس کے بعدطویل تعطیلات۔۔۔
بے کیف اور اکتاہٹ بھرے شب و روز۔۔۔
اکتا اکتا کر تھک جاتے تو کتابیں پڑھتے۔۔۔
کتابیں پڑھ پڑھ کے تھک جاتے تو اکتانے لگتے۔۔۔
تب ہی اچانک زندگی میں ہلچل مچ گئی۔۔۔
ہماری آنٹی نما پھوپھی یا پھوپھی نما آنٹی نے اعلان کیا ۔’’ہم لوگ ہندوستان جارہے ہیں، ویزہ آگیا ہے۔‘‘
ہم ان کے گھر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ چہکتی ہوئی آواز آئی۔
’’یہ کیا مذاق ہے؟‘‘ ہم جھنجھلا گئے۔
’’ اتنا بھی خیال نہ آیا کہ چہیتا بھتیجا بور ہو ہو کر بور ہوگیا ہے، اسے بھی ساتھ لے لوں۔‘‘
ہمارا موڈ آف دیکھا تو تھوڑے رسان بھرے لہجے میں کہا ۔’’ابھی ہمارے جانے میں پندرہ دن ہیں تم ویزہ لگوا لو ساتھ چلتے ہیں۔‘‘
’’کیا؟؟؟ ‘‘ہم نے حسب ضرورت آنکھیں پھاڑیں۔
’’ویزہ کیا ہمارا تو شناختی کارڈ بھی نہیں بنا۔‘‘
’’اُف!!! ‘‘انہوں نے سر پکڑ لیا۔ ہم سے پیچھا چھڑانا آسان نہ تھا۔
’’اب کیا کریں؟؟؟ چلو سب ادھر آؤ۔ ‘‘انہوں نے آواز دے کر سارا گھر جمع کرلیا۔
’’کوئی ترکیب سوچو کہ یہ ہمارے ساتھ جاسکے۔ ‘‘
فوراً بھانت بھانت کی بولیاں شروع ہوگئیں۔ مگر کیا مجال کسی نے سنجیدہ مشورہ دیا ہو۔ ایک گھنٹے بعد ہم نے اعلان کردیا۔’’بس، بہت سن لیا۔ اب ہمیں سمجھ میں آگیا۔‘‘
’’کیا؟؟؟‘‘ سب نے پُرشوق لہجہ میں پوچھا۔ شاید یہی سمجھا کہ ان کے منہ سے بے دھیانی میں دھیان گیان کی کوئی بات نکل گئی ہے۔
’’یہی کہ یہ کام آپ لوگوں کے بس کا نہیں، ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
سب کے منہ لٹک گئے۔
انہیں لٹکے ہوئے مونہوں کے ساتھ چھوڑ کر ہم گھر لوٹ آئے۔
دل میں ارادہ رچ بس گیا تھا کہ انڈیا جانا ہے، ضرور جانا ہے۔ یہ تو معلوم کرلیا تھا کہ ویزہ لگنے کے کیا مراحل ہیں۔ سب سے پہلے شناختی کارڈ بنوانا تھا۔ چناں چہ اسی رات شناختی کارڈ سے متعلق ضروری اور غیر ضروری دستاویزات کی فوٹو کاپیاں کروائیں، اماں سے پیسے اینٹھے اور صبح ہونے کے انتظار میں رات بھر میٹھے سپنے دیکھتے رہے۔
صبح اٹھے تو دیکھا گھپ اندھیرا ہے اور موسلا دھار بارش ۔۔۔
ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اماں سارے گھر میں خوشی چھپائے پھر رہی تھیں۔ ویسے بھی انہیں امید تھی کہ ہوگا کچھ نہیں، بچے کو شوق پورا کرنے دو، نہ شناختی کارڈ ہے نہ پاسپورٹ۔ ایسے میں کون جائے گا دلّی۔ یعنی دلّی کافی سے بھی زیادہ دور است!!!
’’او بھائی کدھر؟؟؟‘‘ ہم دروازہ کھول کر باہر نکل رہے تھے تبھی اماں پیچھے سے دھاڑیں ۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر۔‘‘ ہم نے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
کسی ڈرامے کا سین ہوتا تو یقیناً اماں کو بے ہوش ہوکر گرتے ہوئے دکھایا جاتا یا گر کر بے ہوش ہوتے۔ ویسے بھی نہ یہ ڈرامہ تھا نہ اماں ایکٹنگ کررہی تھیں۔ خیر اماں ڈرامے تو خوب کرتی ہیں مگر افسوس وہ نشر نہیں ہوپاتے۔
باہر موسلادھار بارش، تند و تیز ہوائیں اور بجلیاں تڑپاتے گرج دار بادل تھے۔ادھر ہمارے دل کی تڑپ کہ ایک ایک دن قیمتی ہے، ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں۔
گلیاں ویران تھیں اور سڑکیں سنسان۔ دوکانیں کھلی تھیں مگر گاہک اکا دُکا۔ نہ جانے کون لوگ ہوتے ہیں جو ہر صورت حال میں نظر آتے ہیں۔ کیا مجال کبھی سڑکوں پر کوئی بھی نظر نہ آئے، ہر وقت کوئی نہ کوئی موجود رہتا ہے۔ اور جسے موجود ہونا چاہیے وہ غیر حاضر یعنی رکشا ٹیکسی۔
کافی انتظار کے بعد ایک کھٹارہ ٹیکسی ہارن بجاتی، چولیں ہلاتی، وائپر چلاتی نظر آئی۔ اس وقت وہ ہمیں ہزار مرسڈیز سے زیادہ قیمتی لگی۔ ہم نے فوراً ہاتھ دے کر روکا، اور وہ رک بھی گئی، جھٹ دروازہ کھولا اور اندر گھس کر بیٹھ گئے۔
’’او بھئی کدر جائے گا؟؟؟‘‘ ٹیکسی ڈرائیور نے بے زاری سے پوچھا۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر جائے گا۔‘‘
’’اتنا برسات میں ہم صرف اپنے گھر جائے گا۔‘‘ ٹیکسی والے بابا نے صاف انکار کردیا۔
’’دیکھو بابا ام کو بہت جلدی انڈیا جانا ہے، اس کے لیے جلدی میں بوت جلدی شناختی کارڈ بنوانا ہے ورنہ امارا آنٹی ام کو چوڑ کے چلاجائے گا۔‘‘ بس ہمارے رونے کی کسر رہ گئی تھی کہ ٹیکسی والے بابا کا دل پسیج گیا اور وہ ہمارے لارے لپے میں آگیا۔ ٹیکسی خراماں خراماں، گاہ گڑھوں سے بچتی گاہ پھنستی کھڑکھڑاتی ہوئی جانب منزل چلی، یہاں تک کہ شناختی کارڈ کے دفتر جا اتارا۔وہاں لوگ اپنا کام چھوڑ کے ہمیں دیکھنے لگے، کون اس برسات میں آسمان سے برس گیا۔ خیر برستی برسات میں وہی لوگ تھے جو بارش سے پہلے آگئے تھے۔ اب ہمارا کام آسان ہوگیا تھا۔ دفتری بابوؤں کے اللے تللے برداشت کیے، کئی فارموں کی خانہ پری کی، ان کے کہے پر جگہ جگہ قیمتی آٹو گراف دئیے اور ارجنٹ کا آرڈر دے کر فاتحانہ انداز میں باہر نکل آئے۔ گویا لال قلعے پر ہرا جھنڈا لہرا ہی دیا ہو!!!
اس سارے ہنگامے میں صبح سے دوپہر ہوچکی تھی، فضاؤں میں ظہر کی اذان کی آواز تھی اور ہمارے دل میں خوشیوں کا طوفان۔ خدا خدا کرکے ایک مرحلہ طے ہوا۔ اب ہفتہ دس دن کے لیے راوی آرام ہی آرام لکھ رہا ہے۔۔۔
آپ بھی کل تک کے لیے تھوڑا آرام کرلیں، کیوں کہ آگے بہت کام کرنا ہے۔۔۔
ہمارا سفرنامہ پڑھنے کا!!!
سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
انٹر کا امتحان اور اس کے بعدطویل تعطیلات۔۔۔
بے کیف اور اکتاہٹ بھرے شب و روز۔۔۔
اکتا اکتا کر تھک جاتے تو کتابیں پڑھتے۔۔۔
کتابیں پڑھ پڑھ کے تھک جاتے تو اکتانے لگتے۔۔۔
تب ہی اچانک زندگی میں ہلچل مچ گئی۔۔۔
ہماری آنٹی نما پھوپھی یا پھوپھی نما آنٹی نے اعلان کیا ۔’’ہم لوگ ہندوستان جارہے ہیں، ویزہ آگیا ہے۔‘‘
ہم ان کے گھر میں داخل ہی ہوئے تھے کہ چہکتی ہوئی آواز آئی۔
’’یہ کیا مذاق ہے؟‘‘ ہم جھنجھلا گئے۔
’’ اتنا بھی خیال نہ آیا کہ چہیتا بھتیجا بور ہو ہو کر بور ہوگیا ہے، اسے بھی ساتھ لے لوں۔‘‘
ہمارا موڈ آف دیکھا تو تھوڑے رسان بھرے لہجے میں کہا ۔’’ابھی ہمارے جانے میں پندرہ دن ہیں تم ویزہ لگوا لو ساتھ چلتے ہیں۔‘‘
’’کیا؟؟؟ ‘‘ہم نے حسب ضرورت آنکھیں پھاڑیں۔
’’ویزہ کیا ہمارا تو شناختی کارڈ بھی نہیں بنا۔‘‘
’’اُف!!! ‘‘انہوں نے سر پکڑ لیا۔ ہم سے پیچھا چھڑانا آسان نہ تھا۔
’’اب کیا کریں؟؟؟ چلو سب ادھر آؤ۔ ‘‘انہوں نے آواز دے کر سارا گھر جمع کرلیا۔
’’کوئی ترکیب سوچو کہ یہ ہمارے ساتھ جاسکے۔ ‘‘
فوراً بھانت بھانت کی بولیاں شروع ہوگئیں۔ مگر کیا مجال کسی نے سنجیدہ مشورہ دیا ہو۔ ایک گھنٹے بعد ہم نے اعلان کردیا۔’’بس، بہت سن لیا۔ اب ہمیں سمجھ میں آگیا۔‘‘
’’کیا؟؟؟‘‘ سب نے پُرشوق لہجہ میں پوچھا۔ شاید یہی سمجھا کہ ان کے منہ سے بے دھیانی میں دھیان گیان کی کوئی بات نکل گئی ہے۔
’’یہی کہ یہ کام آپ لوگوں کے بس کا نہیں، ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔‘‘
سب کے منہ لٹک گئے۔
انہیں لٹکے ہوئے مونہوں کے ساتھ چھوڑ کر ہم گھر لوٹ آئے۔
دل میں ارادہ رچ بس گیا تھا کہ انڈیا جانا ہے، ضرور جانا ہے۔ یہ تو معلوم کرلیا تھا کہ ویزہ لگنے کے کیا مراحل ہیں۔ سب سے پہلے شناختی کارڈ بنوانا تھا۔ چناں چہ اسی رات شناختی کارڈ سے متعلق ضروری اور غیر ضروری دستاویزات کی فوٹو کاپیاں کروائیں، اماں سے پیسے اینٹھے اور صبح ہونے کے انتظار میں رات بھر میٹھے سپنے دیکھتے رہے۔
صبح اٹھے تو دیکھا گھپ اندھیرا ہے اور موسلا دھار بارش ۔۔۔
ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اماں سارے گھر میں خوشی چھپائے پھر رہی تھیں۔ ویسے بھی انہیں امید تھی کہ ہوگا کچھ نہیں، بچے کو شوق پورا کرنے دو، نہ شناختی کارڈ ہے نہ پاسپورٹ۔ ایسے میں کون جائے گا دلّی۔ یعنی دلّی کافی سے بھی زیادہ دور است!!!
’’او بھائی کدھر؟؟؟‘‘ ہم دروازہ کھول کر باہر نکل رہے تھے تبھی اماں پیچھے سے دھاڑیں ۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر۔‘‘ ہم نے اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
کسی ڈرامے کا سین ہوتا تو یقیناً اماں کو بے ہوش ہوکر گرتے ہوئے دکھایا جاتا یا گر کر بے ہوش ہوتے۔ ویسے بھی نہ یہ ڈرامہ تھا نہ اماں ایکٹنگ کررہی تھیں۔ خیر اماں ڈرامے تو خوب کرتی ہیں مگر افسوس وہ نشر نہیں ہوپاتے۔
باہر موسلادھار بارش، تند و تیز ہوائیں اور بجلیاں تڑپاتے گرج دار بادل تھے۔ادھر ہمارے دل کی تڑپ کہ ایک ایک دن قیمتی ہے، ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں۔
گلیاں ویران تھیں اور سڑکیں سنسان۔ دوکانیں کھلی تھیں مگر گاہک اکا دُکا۔ نہ جانے کون لوگ ہوتے ہیں جو ہر صورت حال میں نظر آتے ہیں۔ کیا مجال کبھی سڑکوں پر کوئی بھی نظر نہ آئے، ہر وقت کوئی نہ کوئی موجود رہتا ہے۔ اور جسے موجود ہونا چاہیے وہ غیر حاضر یعنی رکشا ٹیکسی۔
کافی انتظار کے بعد ایک کھٹارہ ٹیکسی ہارن بجاتی، چولیں ہلاتی، وائپر چلاتی نظر آئی۔ اس وقت وہ ہمیں ہزار مرسڈیز سے زیادہ قیمتی لگی۔ ہم نے فوراً ہاتھ دے کر روکا، اور وہ رک بھی گئی، جھٹ دروازہ کھولا اور اندر گھس کر بیٹھ گئے۔
’’او بھئی کدر جائے گا؟؟؟‘‘ ٹیکسی ڈرائیور نے بے زاری سے پوچھا۔
’’شناختی کارڈ کے دفتر جائے گا۔‘‘
’’اتنا برسات میں ہم صرف اپنے گھر جائے گا۔‘‘ ٹیکسی والے بابا نے صاف انکار کردیا۔
’’دیکھو بابا ام کو بہت جلدی انڈیا جانا ہے، اس کے لیے جلدی میں بوت جلدی شناختی کارڈ بنوانا ہے ورنہ امارا آنٹی ام کو چوڑ کے چلاجائے گا۔‘‘ بس ہمارے رونے کی کسر رہ گئی تھی کہ ٹیکسی والے بابا کا دل پسیج گیا اور وہ ہمارے لارے لپے میں آگیا۔ ٹیکسی خراماں خراماں، گاہ گڑھوں سے بچتی گاہ پھنستی کھڑکھڑاتی ہوئی جانب منزل چلی، یہاں تک کہ شناختی کارڈ کے دفتر جا اتارا۔وہاں لوگ اپنا کام چھوڑ کے ہمیں دیکھنے لگے، کون اس برسات میں آسمان سے برس گیا۔ خیر برستی برسات میں وہی لوگ تھے جو بارش سے پہلے آگئے تھے۔ اب ہمارا کام آسان ہوگیا تھا۔ دفتری بابوؤں کے اللے تللے برداشت کیے، کئی فارموں کی خانہ پری کی، ان کے کہے پر جگہ جگہ قیمتی آٹو گراف دئیے اور ارجنٹ کا آرڈر دے کر فاتحانہ انداز میں باہر نکل آئے۔ گویا لال قلعے پر ہرا جھنڈا لہرا ہی دیا ہو!!!
اس سارے ہنگامے میں صبح سے دوپہر ہوچکی تھی، فضاؤں میں ظہر کی اذان کی آواز تھی اور ہمارے دل میں خوشیوں کا طوفان۔ خدا خدا کرکے ایک مرحلہ طے ہوا۔ اب ہفتہ دس دن کے لیے راوی آرام ہی آرام لکھ رہا ہے۔۔۔
آپ بھی کل تک کے لیے تھوڑا آرام کرلیں، کیوں کہ آگے بہت کام کرنا ہے۔۔۔
ہمارا سفرنامہ پڑھنے کا!!!
سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
شناختی کارڈ کے انتظار میں دس دن گزارے نہیں گزر رہے تھے، ہر دن سو سو برس جتنا گراں تھا۔ بالآخر وہ دن آگیا جب ہمارے ہاتھ میں پہلا شناختی کارڈ تھا۔ بندوبست پہلے سے تھا لہٰذا شناختی کارڈ لے کر سیدھا پاسپورٹ آفس پہنچے، چوں کہ یہاں نئے نویلے تھے، کچھ معلوم نہیں تھا کیا کرنا ہے لہٰذا وہاں آنے والے پرانے پاپیوں سے پوچھ پوچھ کر سارے مراحل طے کیے، بینک میں فیس جمع کروائی، ٹوکن لیا، طویل قطاروں میں لگے، کتنے فارم بھرے، کئی میزوں کا چکر لگایا اور دفتر والوں کو ارجنٹ پاسپورٹ بنانے کی تاکیدکر کے گھر لوٹ آئے۔
پاسپورٹ دس دن بعد ملنا تھا۔ ابھی پاسپورٹ ملنے میں پانچ دن بعد باقی تھے کہ آنٹی کا فون آگیا:’’تیاری کہاں تک پہنچی؟‘‘
’’پانچ دن بعد پاسپورٹ ملے گا۔‘‘ ہم خوش تھے کہ منزل قریب تھی۔
’’لیکن ہماری تو کل روانگی ہے۔‘‘آنٹی نے بتایا۔
یہ سن کر ہاتھوں پیروں سے گویا جان نکل گئی۔
’’اب ہمارا کیا ہوگا؟‘‘ ہم نے تھکے تھکے انداز میں مریل ہاتھوں سے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
پندرہ دن ہوچکے تھے۔ کل آنٹی اپنی چھوٹی بیٹی صبا اور اپنے سسرال والوں کے ساتھ جارہی تھیں۔ ہم اپنی طرف سے جان جوکھوں میں ڈال کر ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے تھے، لیکن تدبیر پر تقدیر غالب آگئی۔ پندرہ دن پورے ہونے کے بعد آنٹی عازم سفر ہوئیں اور اماں کے دل کی کلیاں کِھل اٹھیں۔ لیکن ہم افسردہ تھے، انڈیا یاترا کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ ادھر اماں کی خوشیاں دیدنی تھیں۔
’’کوئی بات نہیں، پاسپورٹ بننا اچھی بات ہے، ہوسکتا ہے کسی اور وقت کام آجائے۔‘‘ اماں جلتی پر تیل ڈال کر کچن میں توے پر تیل ڈالنے چلی گئیں۔ ہمارے رہے سہے جذبات بھی سرد ہوگئے!!!
اب ہمیں پاسپورٹ ملنے کا انتظار تھا نہ اس کے ملنے کی خوشی۔ پاسپورٹ لے کر گھر آئے، بے زاری سے الماری میں پھینکا اور خود کو بستر پر۔ جیسے بھرے پُرے گھر سے ہنستے بولتے مہمان رخصت ہوجائیں تو جو سناٹا چھاتا ہے وہ ہمارے دل پر چھایا ہوا تھا۔ بالکل ناامید تھے، جن کے ساتھ جانا تھا وہ ہی ساتھ چھوڑ گئیں، اب کس کے ساتھ جاتے۔
چند دن بعد آنٹی کا فون آیا۔ ’’ویزہ لگا یا نہیں؟‘‘
’’اب کیا فائدہ؟‘‘ کئی دن گزرنے کے بعد ہم جذباتی کیفیت سے نکل کر نارمل ہوگئے تھے۔
’’ہائیں، آنے کا ارادہ نہیں ہے؟ میں نے تو یہاں سب کو بتادیا کہ تم آرہے ہو، سب اتنا خوش ہیں کہ بار بار پوچھ رہے ہیں عمران بھائی کب آئیں گے۔‘‘
’’ کیا اکیلے آجاؤں؟ تنہا تو کوئی نہیں بھیجے گا، نہ اماں نہ ابا۔‘‘
’’فکر نہ کرو، میں بھائی جان سے بات کرلوں گی، بھابھی کو تم سمجھاؤ۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، یہاں سے جہاز میں بیٹھو، دہلی چھوٹے بھائی لینے آجائیں گے، بس پہنچ گئے انڈیا۔‘‘ انہوں اپنی طرف سے پُرکشش ترغیبیں دیں، بقول اماں میرے بچے کو خوب بھڑکایا، ورغلایا، آگ لگادی، پڑگئی کلیجے میں ٹھنڈک وغیرہ وغیرہ!!!‘‘
ویسے یہ تو تھا، آنٹی نے دل میں سرد ہوتی آگ پھر بھڑکا دی تھی۔ ہم بہت دیر تک سوچتے رہے، جائیں، نہ جائیں۔ جائیں تو تنہاء دوسرے ملک کا سفر، دل دھڑکنے لگتا۔ نہ جائیں تو عزیزوں، رشتے داروں اور تاج محل کے دیدار سے محرومی، دل پھر دھڑکنے لگتا۔
اس عالم میں چند اکتاہٹ بھرے دن گزرے تو اچانک خیال آیا کہ ان چھٹیوں سے اکتا کر ہی تو انڈیا جانا تھا۔ ارے واہ!!! دل سے نعرہ نکلا۔ ہم پھر جوش سے بھر گئے۔ ارے بھئی انڈین ویزہ لگوانے کے لیے کیا کرنا ہوتا ہے؟ ہم نے بھارت دیدہ رشتے داروں سے فون پر ٹوہ لینی شروع کی۔
’’ کون جارہا ہے؟’’ اماں کی خالہ زاد بہن نے فون پر پوچھا۔
’’ہم اپنے لیے پوچھ رہے ہیں۔‘‘
’’کس کے ساتھ جارہے ہو؟‘‘ اگلا سوال۔ ارے بھائی ٹوہ ہم لینے والے تھے، شروع آپ نے کردی۔ ہم نے اندر ہی اندر پیچ و تاب کھائے۔ کیوں باہر کھاتے تو کچھ ناخوشگوار اشیاء کھانے کو ملتیں، جن کا فی الوقت ہمارا کوئی موڈ نہیں تھا۔
’’اکیلے!!!‘‘ ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’باؤلے ہوگئے ہو؟ اکیلے جاؤگے، راستہ آتا ہے؟ وہاں سی آئی ڈی والے اکیلے نوجوانوں کو جاسوسی کے الزام میں پکڑ کر جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ کیا کرو گے جیل میں؟‘‘
’’ہمیں کیا معلوم؟ وہاں جائیں گے تو بتائیں گے۔‘‘ یہاں ہماری دال نہیں گلی۔
اب کسے فون کریں؟ سوچ سوچ کر ایک اور نمبر ملایا۔ ابا کی خالہ کو۔
’’ہم انڈیا جارہے ہیں، اکیلے، اب بتائیں ویزہ کیسے لگتا ہے، اور ہر بات تفصیل سے۔‘‘ وقت ضائع کرنا مناسب نہیں تھا لہٰذا بغیر تمہید کے مدعا پیش کردیا۔
’’ اکیلے ہو تو کیا ہوا؟ تمہیں پتا ہے لاہور پر کسٹم والے کتنا تنگ کرتے ہیں، لمبی لمبی لائنیں لگتی ہیں، لیکن حسّانہ ہر سال جا جا کراتنی تیز ہوگئی ہے کہ یہ جنگلہ پھلانگ، وہ بیرئیر کی راڈ سے نکل، اِدھر جا اُدھر جا، لائن میں گھس سب سے پہلے کاؤنٹر پر کھڑی ہوجاتی ہے۔‘‘ انہوں نے اپنی بیٹی کی ’’مردانگی‘‘ کے قصے بگھارنے شروع کردئیے۔ کچھ باتیں بور لگیں ، کچھ سنسنی خیز جو ہمارا مائنڈ کچھ اور سیٹ کرگئیں۔ آخر میں ان سے انڈین قونصلیٹ میں ویزہ لگنے کے مراحل سمجھے اور ایک لمبی سانس لے کر فون بند کردیا۔
اب ہمارے ذہن میں آئندہ کا لائحہ عمل بالکل واضح ہوچکا تھا جسے اماں سے چھپانا از حد ضروری تھا، ابھی آپ کو بھی نہیں بتائیں گے، کہیں اماں نہ سن لیں۔ فوراً انڈیا فون کیا چچا سے بات ہوئی، جن شہروں کا ویزہ لینا تھا وہاں کے ایڈریس لکھے، وہاں کے لوگوں سے کیا رشتے داری تھی وہ سمجھی اور ایک بھرپور ہنکارا بھر کر لائن کاٹ دی۔
آدھی رات کو خاموشی سے اٹھے، واش روم کی لائٹ جلا کر دروازہ کھول دیا، بیڈ روم میں اس کی مدھم روشنی سے گزارا کیا۔ کمرہ کی لائٹ جلتی دیکھ کر اماں نے فوراً آدھمکناتھا۔ سوتے سوتے بھی ہماری پوری خبر گیری رکھتی ہیں۔ اب ویزہ اپلائی کرنے کے لیے سارے کاغذات از سر نو ترتیب دئیے، بار بار دیکھا کوئی چیز کم تو نہیں رہ گئی، کچھ اطمینان، کچھ بے اطمینانی کے عالم میں الارم لگا کر سو گئے۔ صبح چھ بجے انڈین قونصلیٹ پہنچنا تھا۔
جیسے ہی الارم بجا فوراً بٹن دبا کر اس کا منہ بند کیا، ہر لمحہ ڈر، اماں نہ اٹھ جائیں۔ منہ ہاتھ دھویا، بغیر ناشتہ کیے باہر نکلے اور اطمینان بھری سانس لی۔ اماں کو جُل دینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ایک رکشہ آتا دکھائی دیا تو اسے ہاتھ دکھایا۔ یوں چھ بجے انڈین قونصلیٹ کی بلڈنگ کے آگے پڑی قطار میں کھڑے ہوگئے۔
قطار پڑی اس لیے تھی کہ بیرون شہر سے آنے والے بیسیوں لوگ رات سے بستر بچھائے پڑے تھے۔ اتنی لمبی لائن دیکھ کر دل بیٹھ گیا۔ قطار ختم ہونے تک تو پیدل ہی انڈیا پہنچ جائیں گے، دل میں سوچ کر رہ گئے۔ بھاگنے کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے قبل اپنے پیچھے کھڑے صاحب سے پوچھا:
’’ہماری باری کب آئے گی؟ ‘‘
’’ایک دفعہ گیٹ کھلنے کی دیر ہے، پھر دیر نہیں لگے گی۔ یہ لوگ جلدی جلدی سب کو نمٹادیتے ہیں ۔‘‘ صاحب کی بات سے دل کو تسلی ہوئی۔
’’آپ کراچی سے ہی ہیں؟؟؟‘‘ صاحب نے پوچھا۔
’’جی۔ اور آپ؟؟؟‘‘ ہم نے بھی اخلاقاً پوچھ لیا۔
’’ٹنڈو آدم سے۔‘‘ صاحب نے کہا۔
’’اچھا سندھ سے آئے ہیں۔‘‘ ہم نے بظاہر جوش دکھاتے ہوئے پوچھا۔
’’کراچی تو انگلینڈ میں ہے نا۔‘‘ جلا کٹا طنزیہ جواب آیا۔
’’اوہ۔‘‘ ہم نے سر پر ہاتھ پھیرا۔ کیسا بے وقوفانہ سوال تھا۔ اس کے بعد ایسا سبق ملا کہ ہمیشہ سندھ سے پہلے اندرون لگانا نہیں بھولتے۔
نو بجے گیٹ کھلا، آہستہ آہستہ قطار آگے سرکنے لگی۔ دس بجے تک صبح کی باد نسیم کے جھونکوں کی جگہ سر جھلساتا سورج سر پر سوار ہوگیا تھا۔ چار گھنٹے سے بھوکے پیاسے کھڑے تھے، ٹانگیں الگ جواب دے رہی تھیں، کہیں بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔ غرض اچھا خاصا تزکیہ نفس ہورہا تھا۔
خدا خدا کرکے عمارت کے اندر داخل ہوئے، سب سے پہلا احساس سورج کی تپش سے نکل کر سائے اور ٹھنڈک میں آنے کا تھا۔ میز کے پیچھے بیٹھے ادھیڑ عمر کے بابو صاحب نے سر سے پیر تک دیکھا اور نہایت نرم لہجے میں پوچھا:
’’بیٹا آپ کے ساتھ اور کون ہے۔‘‘
’’کوئی نہیں۔‘‘
’’مطلب اکیلے جاؤ گے۔‘‘ نرم لہجے کے ساتھ لبوں پہ مسکراہٹ بھی آگئی۔
’’جی۔‘‘
’’کوئی رشتے دار فوج میں تو نہیں ہے؟‘‘ اگلا سوال ہوا۔
ہم نے خوب سوچا، دھیان سے ایوب خان، ضیاء الحق وغیرہ جیسے مشہور فوجیوں سے رشتہ نکالنا چاہا مگر کوئی کامیابی نہ ملی۔
’’نہیں جی۔ ہمارا فوجیوں سے کیا لینا دینا۔‘‘
بابو صاحب کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔
’’کہاں جانا ہے؟‘‘
ہم نے جھٹ ایڈریس کی لسٹ ان کے ہاتھ میں تھما دی۔ اوپر سے نیچے تک لسٹ دیکھی پھر پوچھا:
’’مستقل رہائش کہاں ہوگی؟‘‘
’’دیو بند۔‘‘
انہوں نے سب قلم بند کیا۔ سلپ ہاتھ میں دے کر چند دن بعد کی تاریخ دی اور ہاتھ سے جانے کا اشارہ کردیا۔
اتنی جلدی فارغ ہوگئے تھے۔ ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔
باہر آکر دوکان میں بیٹھے، خوب پیٹ بھر کے ناشتہ کیا اور توانائی حاصل کی۔
اب سمجھا بھی کریں۔۔۔
یہ توانائی اماں کی باز پرس سے نمٹنے کے لیے از حد ضروری تھی!!!
سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
گھر میں داخل ہوئے تو برتنوں کی آواز سے اندازہ لگالیا امّاں کچن میں ہیں۔ اماں کی نظروں سے بچ نکلنے کے لیے دبے پاؤں آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر اماں کی چھٹی حس نے بھانپ لیا۔
’’کہاں سے مٹر گشت کرکے آرہے ہو؟‘‘ حسب توقع پاز پرس شروع ہونے جارہی تھی۔
ہمیں معلوم تھا اس وقت صحیح بات بتانا ہمیں قرطاس ارض سے حرف غلط کی طرح مٹادے گا لہٰذا ٹہلتے ہوئے آگے بڑھے اور یہ کہہ کربات ٹہلائی:
’’کھانے پر بتاتے ہیں۔‘‘
کھانے پر اماں کا سوالیہ اور ہمارا نظریں چراتا چہرہ۔
’’ کھانا کھانے دیں پھر اطمینان سے بتاتے ہیں۔‘‘ ہم نے اماں کو آخری بار ٹالا۔ معلوم تھا اب فرار کی مزید کوئی راہ نہیں۔ کھانے کے بعد پھر آ موجود ہوئیں۔
’’اتنا سسپنس پھیلانے کی کوئی خاص وجہ؟‘‘ اماں کے لہجےمیں ہزار تشویشیں گھلی تھیں۔
’’ویزہ لگوانے گئے تھے۔‘‘ سچ بولے بغیر نجات کی کوئی راہ نہیں تھی۔
’’ہوش میں تو ہو؟‘‘
ہم خاموش رہے۔ کچھ بولنے کے نتائج دشمنوں کو خوش کرنے والے ہوتے۔
’’اکیلے جاؤ گے؟‘‘ہماری خاموشی سے تنگ آکر پوچھا۔
’’ہمم۔‘‘چہرہ جھکائے جواب دیا۔
’’اپنے ابا کو بتایا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ویزہ لگ گیا تو بتا دیں گے۔‘‘
’’بتا دیں گے، یعنی اطلاع دیں گے، اجازت نہیں لیں گے؟‘‘
’’ابا نے منع کردیا تو نہیں جائیں گے۔‘‘
اماں کچھ سوچتی نظروں سے گھورتی ہوئی چلی گئیں۔
اتنی خاموشی کا نتیجہ لازماً طوفان کی پیش گوئی ہوتا ہے۔ اور طوفان برپا ہوگیا۔رات کھانے کے بعد اماں نے آواز دے کر بلا لیا:
’’تمہارے ابا کا فون ہے، آکر بات کرلو۔‘‘ اماں نے ریسیور ہمیں تھما دیا۔
اماں نے جدّہ کال ملادی تھی۔ایک لمحے میں ہزار خوف، ہزار خیال دل پر سے گزر گئے۔ اماں نے کیا بتایا ، کس طرح بتایا، ڈانٹ پڑے گی، ابا غصہ ہوں گے، جانے سے منع کردیا تو اجازت کیسے ملے گی۔
’’تمہاری امی کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ ابا نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
’’کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ ہم نے لہجے میں لاعلمی سمونے کی کوشش کی۔
’’انڈیا جانے کا ارادہ ہے ؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’بتایا کیوں نہیں؟‘‘
’’ سوچا پہلے کچھ تیاری کرلیں پھر بتاتے ہیں۔‘‘ دل میں جو تھا بتادیا۔
’’ کہاں تک تیاری پہنچی؟‘‘
’’ویزہ لگنے دیا ہے۔‘‘
’’ہممم۔‘‘ ابا کی آواز میں گہری سوچ تھی۔
’’اچھا مجھے کچھ سوچنے دو ، کل بات کرتا ہوں۔‘‘
ہم نے گہری سانس لے کر فون بند کردیا۔ اگلی رات ابا کا فون آنے تک ہزاروں وسوسے اندیشے آتے رہے جاتے رہے۔ رات دس بجے فون کی گھنٹی بجی۔ دھڑ دھڑ کرتے ہوئے دل سے فون اٹھایا۔ امید تھی ابا کی کال ہوگی۔ واقعی انہی کی تھی۔
’’ اکیلے سفر کرلو گے؟‘‘ سلام دعا کے بعد پہلا سوال آیا۔
’’جی کرلیں گے۔‘‘
’’کسی قسم کا خوف یا گھبراہٹ؟‘‘ نجانے ابا نے کیوں پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ ہم نے مضبوط لہجے میں کہا۔
ہم اپنے ملک میں اکیلے سفر کرنے کے عادی تھے لہٰذا سفر کا کوئی خوف نہیں تھا۔ اسی لیے دل کو یہی سمجھایا کہ سفر یہاں کا ہو یا وہاں کا ڈرنے کی کیا بات ہے، اور وہاں پہنچتے ہی چچا لینے آجائیں گے، پھر آگے کی وہ جانیں ان کا کام۔ ویسے بھی اس وقت ابا کے سامنے کسی بھی قسم کی کمزوری دکھانے کا مطلب صاف انکار سننا تھا۔
’’اچھی بات ہے۔ مجھے یہی سننا تھا۔ اب بڑے ہورہے ہو تو بڑا بن کے بھی دکھاؤ، بڑے کام کرو، محض زندگی کے سال میں اضافے سے آدمی بڑا نہیں بنتا۔ آج تمہارے چچا سے بات ہوئی ہے، انہوں نے اطمینان دلایا ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں، میں دلّی ائیر پورٹ پہنچ جاؤں گا۔ اگر تمہارا ویزہ لگ جائے تو مجھے بتانا، کراچی میں کسی دوست سے کہہ کر جہاز کی سیٹیں بک کرادوں گا۔‘‘
معلوم نہیں ابا نے کن کن لوگوں کو فون کھڑکا دیا تھا، ان سے کیا کیا معلومات حاصل کی تھیں۔ اتنی دور بیٹھ کر باپ کا اولاد کے لیے فکر مند ہونا لازمی بات تھی۔ ابھی بھی اجازت دے رہے تھے لیکن لہجے میں تشویش واضح طور پر محسوس کی جارہی تھی۔
’’ ہم جہاز سے نہیں جارہے ٹرین سے جائیں گے۔‘‘ ہم نے ایک اور دھماکہ کردیا۔
’’بیٹا تم میری پریشانی بڑھاتے جا رہے ہو۔‘‘ ابا مزید پریشان ہوگئے۔
’’ابو، حسّانہ بھی ٹرین سے جاتی ہے اور کیا کیا کرتب دکھاتی ہے۔ ہم بھی یہ سب کرسکتے ہیں۔‘‘ دل کی اصل بات زبان پر آگئی۔ ہمارا اصل کمپٹیشن حسّانہ سے تھا۔ جب وہ کرسکتی ہے تو ہم کیوں نہیں۔ ہم نے ابا کو تفصیل سے حسّانہ کے کارنامے بتائے۔ پہلے تو ہنسے پھر کہا:
’’بیٹا، وہ لوگ ہر سال جاتے ہیں، کسٹم کے سارے مراحل سے بخوبی واقف ہیں، حسّانہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوتی ہے، جو کسی بھی قسم کی اونچ نیچ سنبھال سکتے ہیں۔ ابھی تم نے وہاں دیکھا ہی کیا ہے؟ جہاز کی نسبت ہزار مشکلات ہیں۔‘‘ جن باتوں نے ہمیں اس تھرل پر اکسایا تھا وہی باتیں ابا کو پریشان کررہی تھیں۔
’’ابو، اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہم سے ویزہ اپلائی کرتے وقت پوچھا گیا تھا، سفر جہاز سے ہوگا یا ٹرین سے۔ ہم نے ٹرین لکھوادیا ۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ ابا نے بے بسی سے کہا۔
’’ چلو، اللہ مالک ہے۔‘‘
گویا ابا کی طرف سے ہاں تھی۔ اماں نے سنا تو منہ بنا کر بیٹھ گئیں:
’’ تمہارا تو سارا خاندان ہی باؤلا ہے۔‘‘ اشارہ واضح طور پر سسرال کی جانب تھا۔
اب ہم شیر ہوگئے تھے، خوب دندناتے پھرتے تھے۔ ہر ایک کو ببانگ دہل بتاتے انڈیا جارہے ہیں۔ خاندان والے ہمیں حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے جبکہ دوست احباب تجسس بھری نظروں سے کہ وہاں جا کر کیا لنکا ڈھاتے ہیں۔
اندیشہ تھا کہ دی گئی تاریخ سے ویزہ ملنے میں ایک دو دن تاخیر نہ ہوجائے اس لیے ہم نے احتیاطاً ویزہ ملنے کی تاریخ سے چند دن آگے کی سیٹ بک کرالی تھی، کراچی سے لاہور کی۔ ہوسکتا ہے عین وقت پر سیٹ نہ ملے اور مزید وقت ضائع ہو۔ ہماری کوشش تھی کہ آنٹی کے پاکستان واپس آنے سے پہلے پہنچ جائیں۔ تاکہ ان کے ساتھ مل کر سب سے ملیں۔ کیوں کہ اس پاکستانی کی ہندوستانیوں سے بالکل واقفیت نہیں تھی!!!
سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات
سفرنامۂ ہندویزہ ملنے سے پہلے ہزار لوگوں نے ہزار طرح سے ڈرایا:
’’ کسی خوش فہمی میں نہ رہنا، نوجوان لوگوں کو ویزہ نہیں ملتا، اور اکیلے کو تو ناں ہی سمجھو۔‘‘
ایک نے کہا:
’’اکیلے جانے کی غلطی نہ کرنا، نوجوانوں کو تو بالکل نہیں چھوڑتے، جاسوسی کے الزام میں دھرلیتے ہیں۔ ‘‘
ایک صاحب نے ماضی حال کے تمام اخبارات کھول کھول کر دکھائے۔
’’یہ دیکھو، یہ لوگ کتنے برسوں سے جیل میں ہیں، کوئی پرسانِ حال نہیں، حکومت بھی کوئی خبر گیری نہیں رکھتی۔‘‘
لوگ لرزاتے رہے اور ہم لرزتے رہے۔لیکن سر پر جانے کی دُھن سوار رہی۔ یہاں تک کہ ویزہ ملنے کی تاریخ آگئی۔ ڈرتے لرزتے انڈین قونصلیٹ پہنچے۔ دیکھتے ہیں کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ نمبر آنے پر پاسپورٹ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا گیا، ہاتھ مزید لرزگیا ، ویزہ لگا یا نہیں۔ ہزار تشویشیں دماغ میں کوندنے لگیں، دل کی دھڑکن تیز تر ہوگئی۔ جلدی جلدی پاسپورٹ کے سارے صفحات دیکھے، سب خالی، کہیں ویزے کا نام و نشان نہیں،حلق خشک ہوگیا۔ ساری محنت اور بھاگ دوڑ پر پانی پھر گیا، لوگوں کا کہا سچ ہوا، نوجوانوں کو ویزہ نہیں ملتا!!!
ہم نے زرد چہرے اور پھیکے لہجے میں پاسپورٹ تھمانے والے بابو سے پوچھا کیا ویزہ نہیں لگا؟ اس نے ہمارے ہاتھ سے پاسپورٹ لیا اور صفحات الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ یہ کام تو ہم کر ہی چکے تھے۔ دل میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوئی، ناحق وقت ضائع کررہا ہے۔ اتنے میں اس نے پاسپورٹ ہمیں واپس کردیا، لیکن وہ صفحہ کھول کر جس پر جا بجا انڈین قونصلیٹ کی مہریں لگی ہوئی تھیں، آخری صفحے سے ایک دو صفحات پہلے۔ شاید گھبراہٹ میں ہماری نظروں سے نکل گئے تھے۔ مارے خوشی کے ہم صفحے پر لگی مہریں دیکھ رہے تھے، تبھی کاؤنٹر والے بابو نے چند صفحات اور تھمادئیے۔ جس پر ان شہروں کی تفصیلات تھیں جہاں کے ویزہ کے لیے ہم نے اپلائی کیا تھا۔ ان میں دو جگہیں شامل نہیں تھیں، بمبئی اور جے پور!!!
نہ جانے ان کو ہم سے کیا خطرہ تھا۔ ہم سے بات کرتے تو انہیں کامل یقین دلاتے کہ نہ تو ہم آپ کی فلم انڈسٹری میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہونے بمبئی جارہے ہیں نہ ہی آپ کے گلابی شہر جے پور کا رنگ و روغن تبدیل کرنے کی غرض و غایت رکھتے ہیں۔ مگر انہوں نے اس موضوع پر بات کرنا گوارا نہیں کیا۔ خیر، اپنا ہی معاشی نقصان کیا۔ ہم نے ان شہروں کی سیاحت پر اتنا پیسہ لُٹانا تھا جن سے بھارت کا سرکاری خزانہ بھر جاتا۔ ویزہ لُوٹ کر گھر لوٹے تو ہمارے چہرہ پر گلاب کِھل رہے تھے، چاند دمک رہا تھا،سورج چمک رہا تھا وغیرہ وغیرہ۔ اور اماں کے چہرہ پر۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ!!!
ریل کی ٹکٹ بُک تھی۔ اب سامان کی پیکنگ شروع کی۔ لوگ باگ آتے گئے مشورے دیتے گئے۔ رشتے دار بڑی بوڑھیاں ہمیں مشورے دیتیں اور اماں کو ہولیں۔ ہولایا تو خیر لوگوں نے ہمیں بھی بہت:
’’اب منع کرنے کے باوجود جاہی رہے تو پکڑے جانے سے قبل بچنے کی اپنے تئیں کوششیں ضرور کرلینا۔‘‘ ایک کزن جاتے جاتے بھی ہولانے سے باز نہ آیا۔
’’وہ کیسے؟‘‘ ہم نے چہرہ پر سوالیہ نشان بنایا۔
’’باہر نکلتے وقت پینٹ شرٹ پہننا، شلوار قمیض نہیں، ورنہ دور سے ہی پہچان کر دھر لیے جاؤ گے۔‘‘
’’مزید کچھ؟‘‘ ہم نے اس بات کو دماغ میں بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’ اجنبیوں، دوکان داروں اور رکشہ والوں سے زیادہ پٹر پٹر باتیں نہ بنانے بیٹھ جانا۔ لہجے سے فوراً پہچان لیے جاؤ گے۔‘‘ کزن کی اماں نے گول شیشوں والی عینک کے پیچھے سے آنکھیں گھمائیں۔
’’اور فوراً دھر لیے جاؤ گے۔‘‘ ہمیں سبق اچھی طرح یاد ہوگیا تھا۔
اپنی پڑھائی پٹی پر ہمارا عبور دیکھ کر کزن کی اماں کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔
ہم واحد سوٹ کیس میں سامان رکھتے اور دماغ میں لوگوں کے مشورے۔ ہمارے جانے کا سن کر لوگ آتے اور ہمیں تحائف سے نوازتے۔ خوش ہونے کی کوئی ضرورت نہیں،تمام تحفے انڈیا میں رشتے داروں کو بھیجنے کے لیے دئیے جارہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سوٹ کیس سے ہمارے کپڑے نکلتے گئے اور لوگوں کے تحائف بھرتے گئے۔ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ سیاح آدمی کو سامان سے کیا سرو کار۔ وہ تو جتنا کم سامان ہو اتنا ہلکا رہتا ہے۔ اور یہاں اصل سے زیادہ سود اٹھانا پڑ رہا تھا۔
خدا خدا کرکے وقتِ روانگی آگیا۔ اماں نے صبح سے چپ لگا رکھی تھی۔ ہم سمجھ رہے تھے سارا خفگی کا اثر ہے۔سہ پہر کا وقت ہوگا، دروازے کے باہر ٹیکسی کھڑی تھی اور دروازے پر اماں۔سر پر ہاتھ پھیر کر رخصت کیا سلام دعا ہوئی اور اماں نے فی امان اللہ کہا۔ ہم نے جاتے جاتے ایک بار پھر پیچھے مڑ کر اماں کو دیکھا۔ چہرہ پر سنجیدگی اور سختی تھی جیسی کوئی پرواہ نہیں، کچھ نہیں ہوا۔ اور آنکھوں میں معمول سے زیادہ نمی، جیسے بہت کچھ ہوگیا۔ دل اداس ہوگیا اور پاؤں بوجھل۔
تبھی ٹیکسی والے نے بے چین ہوکر ہارن بجانا شروع کردیا۔ ہم بوجھل دل لیے اماں کو اسی حالت میں کھڑا چھوڑ کے آگے بڑھ گئے۔ اپنے پیچھے دروازہ بند ہونے کی آواز بھی نہ سنی۔ نہ جانے اماں دروازے پہ کب تک کھڑی رہی ہوں گی!!!
سرحد کے اس پار ٭ تبصرہ جات