سزائے رجم، پتھر مار کر ہلاک کرنے کی حقیقت

آپ فرماتے ہیں کہ احکامات منسوخ کردئے گئے تھے۔ جب کہ آپ بھی مانتے ہیں کہ احکامات سنت اللہ ہیں اور منسوخ نہیں ہوتے۔ ساتھ ساتھ اللہ تعالی کا فرمان دیکھئے کہ سابقہ کتب کی آیات (وجوہات کے ساتھ) منسوخ کرکے بہتر آیات دی گئیں۔ یہاں یہ نہیں کہا جارہا کہ احکامات منسوخ کئے گئے۔
میں نے کہیں بھی نہیں کہا کہ احکامات سنت اللہ ہیں۔ پتہ نہیں آپ نے کہاں سے دیکھ کر یہ بات مجھ سے منسوب کر دی ہے۔ میرے نزدیک نا تو آیات سنت اللہ ہیں نہ ہی شریعت کے احکامات اوامر و نواہی سنت اللہ ہیں۔ سنت اللہ کا ترجمہ ہے اللہ کی عادت اور اللہ کی عادات میں ہے رحم کرنا، انصاف کرنا،مظلوم کی دادرسی کرنا خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، اور قرآنٰ پاک کے مطالعے، رسولوں کی زندگیوں کے مطالعے اور قوموں کی تاریخ کے مطالعے سے اللہ کی عادات کا پتہ چلتا ہے۔ احکامات کی شرائط اور مدتیں ہوتی ہیں ۔ انکو بنی نوعِ انسان کے ذہنی و ثقافتی ارتقاء کے ساتھ ساتھ تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔ ْرآن آخری سماوی کتاب ہے اسکو کوءی منسوخ نہیں کرسکتا لیکن احکامات کی مدت ہوتی ہے کچھ احکامات قیامت تک نافذ رہیں گے کچھ کی مدت تھوڑے عرصے تک تھی جس کے بعد دوسری آیت نے آکر نئے احکام جاری کئے پہلے والے کی مدت ختم ہونے کے بعد۔ کئی مثالیں ہیں جو اوپر پیش کی گئی ہیں۔ کچھ اور بھی ہیں جیسے یہ کہ پہلے نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا۔ ۔ ۔پھر کچھ عرصے کے بعد جب لوگوں کی ایڈکشن میں وہ شدت نہ رہی تو نئی آیت نے شراب کو یکسر حرام قرار دے دیا۔ اسی کو نسخ کہتے ہیں۔

2:106[arabic] مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[/arabic]
ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے


اب آپ مجھے قرآن حکیم کی ایک آیت ایسی عطا فرمائیے جس میں درج ہو کہ اس قرآن یا محمد صلعم پر نازل شدہ آیات میں تحریف کی گئی تھی یا پھر شیطان نے ان آیات کی تلاوت میں خلل ڈالا تھا جس کی وجہ سے ان آیات کو بھلایا گیا اور پھر نئی آیات نازل فرمائی گئیں؟
والسلام
نعوذ باللہ ایسا تو کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ نجانے میری کس بات سے آپ نے یہ فرض کر لیا ہے ۔براہِ کرم میرے مراسلے کو دوبارہ غور سے پڑھئیے۔ اور سوچ سمجھ کر الزام لگائیے۔
بات صرف اتنی ہے کہ کچھ آیات کی فرضیت یا احکامات کچھ مدت تک تھے پھرجب اللہ تعالی کی حکمت کو منظور ہوا مناسب موزع پر نئے احکامات نازل کئے گئے اسی کو نسخ کہتے ہیں بڑے بھائی۔ کتنی ہی مثالیں ہیں۔ مکّی زندگی میں باوجود اسقدر ظلم و ستم کے مسلمانوں کو بدلہ لینے یا کافروں کے ساتھ قتال کا حکم نہیں ملا بلکہ ایسی آیات نازل کی گئیں جن میں صبر کی تلقین کی گئی۔ لیکن مدنی زندگی میں جب مسلمانوں کی حالت بدل گئی تو اسکے مناسب آیات نازل کی گئیں ۔ اسی کو حکمت کہتے ہیں۔ اللہ تعالی نے بھی تو فرمایا ہےجسکا مفہوم ہے کہ اللہ اس قوم کے حالات میں تبدیلی اتنی دیر تک نہیں لاتا جب تک اس قوم کے افراد کے نفوس میں تبدیلی کے آثار پیدا نہ ہوجائیں۔:)
 
سلام،
جیسے جیسے خلاف قرآن روایات پیش کی جاتی ہیں ان پر مناسب قرآن حکیم کے حوالے فراہم کردیتا ہوں۔ جب موافق القرآن روایات پیش کی جاتی ہیں تو ان کو احادیث نبوی مان کر اس کا شکریہ ادا کردیتا ہوں۔

آپ ساری کی ساری روایات پر بات کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ایک الگ دھاگہ کھول لیجئے۔ یہ دھاگہ سزائے رجم کے بارے میں ہے۔ اس پر بات کیجئے۔

یہاں کیا سارے عالم اسلام میں دو قسم کے نظریات کے حامل گروپ ہیں۔

1۔ وہ جو قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اور فرمان نبوی کے عین مطابق، روایات کو قرآن کی روشنی میں موافق القرآن یا خلاف القرآن قرار دیتے ہیں۔ صحیح حدیث کے لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ مطابق و موافق القرآن ہو۔

اگر آپ کا تعلق اس گروپ سے ہے تو اس پیغام کا شکریہ ادا کریں۔

والسلام
 
یا پھر

2۔ ایسے لوگ جو خلاف قرآن روایات کو بھی درست مانتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان کا ان کتب روایات پر قرآن کی طرح ایمان ہے۔ یہ سمجھتےہیں کہ قرآن صرف قرآن حکیم تک محدود نہیں بلکہ مزید چھ کتب بھی قرآن کا ایکسٹینشن ہیں۔ ان کے پاس ان چھ کتب کی اصل بھی نہیں پھر بھی یہ دشمان اسلام کی شامل کردہ خلاف قرآن روایات کو انہی علماء سے منسوب کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے ایک روایت کے درست ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ روایت ان چھ کتب میں سے ایک میں موجود ہو۔

اگر آپ کا ایمان قرآن کے علاوہ ، ان چھ کتب پر ہے کہ ان کتب میں جو کچھ ہے تو درست ہے اور اس کو قرآن سے پرکھا نہیں‌ جاسکتا تو پھر اس پیغام کا شکریہ ادا کریں۔

اگر آپ ان دونوں پیغامات میں سے ایک کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو بھائی پھر اپنا نظریہ پیش کیجئے تاکہ ہم کو اندازہ ہو کہ ہم کس سے بات کررہے ہیں اور کیا بات کی جانی چاہئے۔

والسلام
 

باذوق

محفلین
قرآن حکیم میں کوئی بھی ناسخ و منسوخ نہیں ہے۔ صرف سمجھنے والے کی عقل کا معاملہ ہے۔ اس سلسلے میں پہلے بھی آیات پیش کی گئی تھیں۔ ان کا معقول جواب دے دیا گیا تھا۔

اگر آپ سزائے رجم کے موضوع تک محدود رہئیے تو بہتر ہوگا، دیگر موضوعات پر ایک نیا دھاگہ کھول لیجئے۔

ہمارے کچھ دوست، فاروق سرور خان کردار کشی مہم میں مصروف ہیں ۔۔۔ اس لئے کہ
وہ مانتے ہیں:
کہ جو کچھ علماء نے لکھا ہے وہ درست ہے۔ سارے کا سارا قرآن ہے۔ اس میں قرآن حکیم اور کتب روایات دونوں‌شامل ہیں۔ ان کا ایمان قرآن کے بعد آنے والی کتب پر بھی ہے

وہ یہ نہیں مانتے :
کہ صرف موافق القرآن روایات قابل قبول ہیں اور خلاف قرآن روایات قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ فرمان نبوی ہے
کہ قرآن حکیم کی ہی پیروی لازم ہے۔

اس وجہ سےیہ حضرات اب معاملہ کے بجائے صاحب معاملہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ ان کے ہر معقول سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے لیکن نامعقولیت کا کوئی جواب نہیں۔ اس کا جواب ہے سلام علیکم اور بس۔

والسلام
اگر آپ سزائے رجم کے موضوع تک محدود رہئیے تو بہتر ہوگا
فاروق بھائی !
مجھے افسوس ہے کہ میں اس دھاگے میں مزید حصہ لینے سے قاصر ہوں۔
کیونکہ ۔۔۔۔۔۔
یہاں صرف قلمی طور سے دہرایا جا رہا ہے کہ
دھاگے کے اصل موضوع پر رہا جائے
مگر اس پر عمل صفر ہے !!

اگر آپ بھائیوں کو ناسخ و منسوخ کے موضوع پر بحث کرنا ہو تو براہ مہربانی الگ دھاگہ کھول لیں۔

فاروق بھائی ! اگر آپ صرف سزائے رجم پر گفتگو کے لیے اس دھاگے کو آگے بڑھا سکتے ہیں تو پھر میں حاضر ہوں بصورتِ دیگر میری معذرت قبول فرمائیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
میرا خان صاحب سے فقط ایک ہی سوال ہے کہ وہ یہ بتلا دیں کہ آخر خلاف قرآن سے انکی مراد کیا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا عدم ذکر یا پھر آیا انکا (خان صاحب کا ) ذاتی فہم مراد ہے کہ جسے وہ خلاف قرآں سمجھیں ؟؟
السلام علیکم گو کہ میرے پہلے سوالوں کے جوابات خان صاحب کی طرف سے ہنوز دلی دور است کی مصداق ندارد ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ہم سب کو خان صاحب کے ساتھ حجیت حدیث پر مدافعانہ گفتگو کی بجائے خان صاھب کے فہم قرِآن پر گفتگو کرنی چاہیے تاکہ انکا فہم قرآن نکھر کر لوگوں کے سامنے آسکے اور یوں انکے قرآن و سنت کے باہمی ربط کو مشکوک بنانے کی جسارت کا قلع قمع کیا جاسکے سو اسی سلسلے کی ابتداء کرتے ہوئے میں خان صاحب کے ساتھ
" حجیت حدیث " اور " سنت اور اسکے ثبوت کے زرائع " پر گفتگو کرنے کی بجائے براہ راست قرآن اور "خان صاحب کے فہم قرآن " پر بصورت سوالات گفتگو کا آغاز کررہا ہوں امید ہے خان صاحب اس بار مایوس نہیں فرمائیں گے ۔ ۔ ۔
تو آئیے اس سلسلے کا آغاز کرتے ہیں ۔ ۔ ۔



موافق و مطابق القران حدیث کے لئے فرامین الہی اور فرامین نبوی۔

سوال : کیا اللہ تعالی یہ اصول فراہم کرتے ہیں کہ نبی صرف موافق القرآن بات کرتے ہیں؟

جواب:
53:3 [arabic]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى[/arabic]
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے
53:4 إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى
اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے

اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اکرم قرآن کے خلاف یا جو کچھ ان پر وحی کیا گیا اس کے خلاف قطعاً کچھ نہیں فرماتے ۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو کچھ رسول اکرم نے جو بھی فرمایا وہ قرآن ہے یا قرآن کی طرح ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ اللہ تعالی ایک ایسی کتاب فراہم کریں جس میں پیوند عرصہ 200 سال کے بعد لوگ لگائیں۔
["]
قطع نظر اسکے خان صاحب ابھی تک یہ وضاحت نہیں فرماسکے کہ خلاف قرآن یا مواقف قرآن سے اُنکی مراد کیا ہے ؟ ہم قارئین پر جناب خان صاھب کے " فہم قرآن " کو خان صاھب ہی کی عبارت کے جھول کی صورت میں پیش کرتے ہیں ۔ ۔

سوال:-کیا اللہ تعالی یہ اصول فراہم کرتے ہیں کہ نبی صرف موافق القرآن بات کرتے ہیں؟
جواب جو خان صاحب نے دیا سوال گندم اور جواب چنا کی مصداق تھا آپ بھی ملاحظہ فرمائیے ۔۔
خان صاحب کا جواب بصورت فہم قرآن :- [arabic]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى[/arabic]
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے
53:4 إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى
اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے
یعنی سوال میں پوچھا گیا کہ کیا نبی فقط موافق القران بات کرتے ہیں اور جواب دیا جارہا ہے جی ہاں نبی جو کچھ فرماتے ہیں وہ سراسر وحی پر مبنی ہی ہوتا ہے اور نتیجہ (مضموم) اس سے جناب نے یہ نکالا کہ وحی فقط قرآن تک ہی محدود ہے لاحول ولا قوۃ میرے محترم اس آیت میں یہ کہاں آیا ہے کہ نبی جو کچھ بھی فرماتے ہیں وہ قرآن ہی ہوتا ہے یہاں تو یہ آیا ہے کہ نبی جو کچھ بھی فرماتے ہیں وہ ان پر وحی کیا گیا ہوتا ہے اور قرآن کی یہ آیت مطلق ہے اس میں کہیں یہ نہیں آیا کہ وحی فقط قرآن ہی کا نام ہے ۔۔۔۔۔
پھر آگے چل کر خاں صاحب فرماتے ہیں کہ ۔ ۔۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اکرم قرآن کے خلاف یا جو کچھ ان پر وحی کیا گیا اس کے خلاف قطعاً کچھ نہیں فرماتے ۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو کچھ رسول اکرم نے جو بھی فرمایا وہ قرآن ہے یا قرآن کی طرح ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ اللہ تعالی ایک ایسی کتاب فراہم کریں جس میں پیوند عرصہ 200 سال کے بعد لوگ لگائیں۔

جی بھلا اس میں کسی کو کوئی شک ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی فرماتے ہیں وہ اتباع وحی میں ہے سو اس لحاظ سے کبھی بھی خلاف قرآن نہیں ہوسکتا مگر اس سے یہ بھی ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ تاریخ احادیث سے ثابت ہے کو آج کی کوئی شخصیت محض اپنے فہم کی بنیاد پر خلاف قرآن کہنا شروع کردے ۔ ۔ ۔
پھر فرماتے ہیں کہ ۔۔جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو کچھ رسول اکرم نے جو بھی فرمایا وہ قرآن ہے یا قرآن کی طرح ہے
حضرت یہ کچھ لوگ جو کوئی بھی ہیں مگر یہاں کم از کم اس فورم پر انکا کوئی وجود نہیں لیکن اگر آپ اپنے قلت مطالعہ اور " ذاتی فہم قرآن " کی بدولت سنت کا قرآ ن ہی کی طرح حجت ہونا کھٹک رہا تو معاف کیجیئے گا سنت حجت ہونے میں تو قرآن ہی کی طرح ہے اور پھر اس میں بھی درجہ بندی ہے اور اسکا درجہ ثانیہ ہے مگر نفس قرآن میں سنت کا شمار ہرگز کوئی نہیں کرتا حالانکہ سنت بھی بلا شبہ وحی ہے مگر بطور بیان القرآن اور یہ سب کچھ قرآن ہی کہہ رہا ہے ۔
پھر خاں صاحب مزید رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔ ۔
اب آپ دیکھئے اتباع کرنے کا زبردست حکم۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلعم کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اس کی پیروی کریں جو کہ ان پر وحی کیا گیا۔ یعنی جو کچھ رسول اللہ فرماتے ہیں وہ قرآن کی پیروی ہوتا ہے
جی بلا شبہ نبی کی اطاعت کا بڑا زبردست حکم آیا ہے مگر اس کا جو نتیجہ آپ نے نکالا ہے وہ آپ کی اختراع ہے قرآن میں کہیں یہ نہیں آیا کہ اے نبی آپ پر فقط قرآن ہی کی پیروی لازم ہے ۔ ۔بلکہ قرآن میں ایک تو جہاں بھی رسول پاک کی اطاعت و اتباع کا حکم آیا ہے اللہ پاک نے اسے مطلق رکھا ہے اور دوسرے اسی طرح جہاں بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اتباع وحی کا حکم آیا ہے تو اللہ پاک نےا س کو بھی مطلق رکھا ہے اس کے ساتھ کوئی قید کسی بھی قسم کی ذکر نہیں ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ آپ پورا قرآن پڑھیئے قرآن جہاں جہاں بھی تلاوت قرآن کا ذکر کرتا ہے تو وحی کے لفظ کے ساتھ میں لفظ کتاب لاتا ہے مگر جہاں اطاعت و اتباع کی بات کرتا ہے تو پھر وحی کے ساتھ لفظ الکتاب کی قید کو ہٹا دیتا ہے ۔ ۔
ا س سے ثابت یہ ہوا کہ وحی قرآن کے علاوہ بھی ہے ۔ ۔
بطور نمونہ چند آیات درج زیل ہیں ۔ ۔

وحی کی تلاوت کا حکم متعدد آیات کی روشنی میں ۔ ۔
و اتل ما اوحى اليک من کتاب ربک لا مبدل لکلماته و لن تجد من دونه ملتحدا. (سوره کهف ، آيه 26)

اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ سوره عنكبوت ، آيه 45

قارئین آپ نے دیکھا جہاں پر وحی کی تلاوت کا حکم آیا ساتھ میں لفظ کتاب بھی ذکر کیا گیا کہ جس سے وحی متلو کی قسم کا اظہار بھی ہوا اب آگے ہم وہ یات نقل کریں گے کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی اتباع کا حکم دیا جارہا ہے مگر ساتھ میں لفظ کتاب کی قید مذکور نہیں ہے ۔ ۔ ۔
اتباع وحی متعدد آیات کی روشنی میں ۔ ۔ ۔

اتبع ما أوحي إليك من ربك لا إله إلا هو وأعرض عن المشركين ( 106 ) الانعام

قل لا أقول لكم عندي خزائن الله ولا أعلم الغيب ولا أقول لكم إني ملك إن أتبع إلا ما يوحى إلي قل هل يستوي الأعمى والبصير أفلا تتفكرون ( 50 ) الانعام
قارئین کرام ان دونوں آیات اور ان جیسے متعدد آیات کہ جن میں رسول کو اتباع وحی کا حکم دیا گیا ہے آپ دیکھیں گے کہ جہاں بھی قرآن میں یہ‌ آیات آئی ہیں وہاں اللہ پاک نے لفظ وحی کو مطلق رکھا اور بغیر لفظ کتاب یا الکتاب کی قید کے ذکر کیا ہے اور آگر آپ احباب ان چاروں آیات سے پہلے لفظ ما کو دیکھیں تو لفظ ما جو کہ عمومی طور پر عمومیت ہی کے لیے آتا کی لفظ وحی سے پہلے موجودگی اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ وحی فقط قرآن میں مضمر نہیں ۔ ۔ ۔
بات بہت دور نکل گئی پلٹتے ہیں خاں صاھب کی قرآن فہمی کی جانب ۔ ۔ ۔جی ہاں تو خاں صاحب آگے چل کر فرماتے ہیں ۔ ۔
سوال: کیا کچھ وحی قرآن میں لکھے جانے سے رہ گئی تھی یا ترک کردی گئی تھی؟
جواب:
11:12 فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَضَآئِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُواْ لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْهِ كَ۔نْ۔زٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
بھلا کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس میں سے کچھ ترک کر دیں جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے اور اس سے آپ کا سینہء تنگ ہونے لگے کہ کفار یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا، (ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ اے رسولِ معظم!) آپ تو صرف ڈر سنانے والے ہیں (کسی کو دنیوی لالچ یا سزا دینے والے نہیں)، اور اﷲ ہر چیز پر نگہبان ہے
اور پھر نتیجہ یوں نکالتے ہیں ۔ ۔ ۔

ہم اس سے یہ صاف صاف دیکھ سکتے ہیں کہ رسول اکرم کا ہر فرمان اس وحی کے مطابق ہوتا ہے جو کہ ان پر وحی کی گئی (53:3) رسول اکرم کو قرآن کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا (6:106) رسول اللہ صلعم نے کوئی بھی وحی ترک نہیں کی یعنی اس قرآن میں‌ہر وحی موجود ہے۔ (11:12)

جی اس میں کسی مسلمان کو کوئی شک ہی نہیں کہ نبی (معاذ اللہ ) تارک وحی ہوسکتا ہے اور جو شک کرئے وہ مسلمان ہی نہیں رہتا مگر حضور اس سے یہ نتیجہ کہاں سے نکل آیا کہ وحی فقط قرآن ہی ہے ؟؟؟؟؟
آپکی پیش کردہ آیت میں تو مطلق وحی کا حکم ہے قرآن یا پھر الکتاب کا تو ذکر ہی نہیں کہ جو وحی کو فقط قرآن ہی میں محدود مانا جائے ۔ ۔ ۔
نتیجہ نبی معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ہرگز ہرگز بھی تارک وحی نہیں ہوسکتا چاہے وہ وحی قرآن کی سورت میں ہو یا پھر قرآن کے بیان (نبی کے فرمان یعنی سنت ) کی صورت میں ۔ ۔
پھر آگے چل کر مزید انکشافات فرمائے ہیں خان صاھب نے
نسخ آیات قرآنی کی وضاحت کی ضمن میں آپ فرماتے ہیں کہ ۔ ۔

قرآن مجید میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی اور نا ہی اس کو فراموش کیا گیا۔ اللہ تعالی کا دستور، اللہ تعالی کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ الفاظ اور جملے بدل دئے جاتے ہیں لیکن حکم نہیں تبدیل ہوتا۔

حضور ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ جو آپ نے اپنا ذاتی اور اختراعی فہم قرآن بیان کیا ہے کہ ۔ ۔ قرآن مجید میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی اور نا ہی اس کو فراموش کیا گیا
اس کی آپ کے پاس کونسی آیت دلیل ہے جو دلیل ہے آپکے پاس اس میں تو مطلق آیات کے نسخ کی بات کی گئی ہے نہ کے فقط نسخ تورات و انجیل کی پھر مطلق کو مقید بنا کر آپ ایک خاص دعوٰی کی دلیل عام سے کس طرح سے دے سکتے ہیں یا تو قرآن سے وہ الفاظ دکھایئے کہ جس میں اللہ پاک نے یہ فرمایا ہو کہ ہم نے فقط سابقہ کتابوں میں ہی نسخ فرمایا اس قرآن میں نہیں تو بھی کچھ بات بنے ۔۔ ثانیا یہ جناب آپ سے کس نے کہہ دیا کہ نسخ سے مراد سنت اللہ کی تبدیلی ہے ؟؟؟؟؟؟ سنت اللہ کی تبدیلی سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ اللہ پاک ایک حکم نازل کرکے اس کو منسوخ نہیں فرماتا بلکہ سنت اللہ کی تبدیلی سے یہ مراد ہے کہ اللہ کے نظام قانون کے جو مسلمہ اصول ہیں ان میں تم کوئی تبدیلی ہرگز نہ پاؤ گے ۔ حکم تو خود قرآن کی آیات سے بعض قرآنی آیات کا منسوخ ٹھرتا ہے اور بچہ بچہ قاری قرآن جانتا ہے کہ کہ شراب کی حرمت کا حکم تدریجا نازل ہوا پھر تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا وغیرہ وغیرہ اب جن آیات نے سابقہ حکم کو تبدیل کیا ، کیا وہ آیات ان آیات کے حکم کے لیے بطور ناسخ وارد نہیں ہوئیں ؟؟
اور مزے کی بات تو یہ ہے خان صاحب کے قبلہ اول کے جسکی تبدیلی کا حکم قرآن دے رہا ہے اس اول قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا کوئی حکم سرے سے قرآن میں موجود ہی نہیں ؟؟؟؟؟ تو اس قبلہ کی طرف جو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم منہ کرکے نماز پڑھتے رہے وہ کس وحی کے تحت تھا ۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟
فی الحال کے لیے اتنا ہی والسلام
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا بھائی محمود غزنوی ، آپ کا مراسلہ رقم ۳۷ بہت اچھی معلومات پر مشتمل ہے ، اس سلسلے میں ایک عرصہ پہلے میں فاروق صرور صاحب سے پوچھا تھا کہ :::
آپ رمضان میں روزے تو رکھتے ہوں گے ، اور میرا حسن ظن ہے کہ کبھی کبھار نفلی روزے بھی رکھتے ہوں گے ، بتایے تو کہ آپ سحری اور افطاری کے اوقات کس طرح مقرر فرماتے ہیں ، اور روزہ کس وقت سے کس وقت تک رکھتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
لیکن حسب دستور جواب ندارد ،
فاروق صرور صاحب ، چلیے یہاں ہی اس سوال کا جواب دے دیجیے ،
غزنوی بھائی آپ نے بہت اچھے اور انتہائی بنیادی موضوع پر بات کی ہے ، میرا مشورہ ہے کہ آپ اسے ایک الگ دھاگے کے طور پر شروع کیجیے ، جزاک اللہ خیرا ، ان شاء اللہ اس طرح زیادہ خیر ہو گی ،
یہاں فاروق صاحب کے شروع کیے ہوئے موضوع پر ہی بات کی جائے ، لیکن اس سے پہلے بھائی عابد عنایت ( آئی بی ٹو کول ) کے کہنے مطابق فاروق خان صاحب کے فہم قران کے بارے میں بات کر لی جانا بھی بہت مناسب ہو گا ان شاء اللہ ،
غزنوی بھائی اگر آپ قران کے ناسخ اور منسوخ کا موضوع الگ سے شروع کریں تو ان شاء اللہ وہاں فاروق سرور صاحب کے فہم قران کی حقیقت مزید نکھر کر سامنے آئے گی ،
اپنے مشورے کی قبولیت کی تمنا رکھتے ہوئے ، السلام علیکم۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ، بھائی عابد عنایت ، ایک مشورہ آپ کے لیے بھی پیش خدمت ہے اور وہ یہ کہ اپنے سوالات کی ایک الگ فپہرست محفوظ کرتے جایے گا ، ان شاء اللہ فاروق صاحب ان میں سے بہت بڑی اکثریت کے جوابات نہ دیں گے بلکہ کچھ عرصہ بعد آپ سے یہ کہیں گے کہ آپ لوگ ان کے سوالات کے جواب نہیں دیتے ، ایسے وقت میں ان شاء اللہ آپ کے سوالات کی فہرست ان کی یاد دہانی کے کام آئے گی ، تجربے کی بات ہے عابد بھائی :):):) ،
و السلام علیکم۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
فاروق صاحب کے تمام تر اعتراضات کی بنیاد """ خلاف قران روایات """ نامی ایک فلسفہ ہے ، اس کے بارے میں میں فاروق صاحب سے بہت دفعہ گذارش کر چکا ہوں کہ """"" اپنے اس """ خلاف قران """ فلسفے کی ایک ایسی تعریف بیان فرما دیجیے جس کی مخالفت آپ نہ خود نہ کی ہو اور نہ کریں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ """""""
جس کی بنا پر اس قدر لمبی بحثیں ہوتی ہیں اور جس کی بنا پر ماشاء اللہ آپ اس قدر مضبوطی سے سنت مبارکہ کو رد کر دیتے ہیں ،
براہ مہربانی جواب اور واضح جواب عنایت فرمایے ،
اور ایک سوال یہ بھی ہے کہ """" چونکہ آپ ہر دوسرے کے ایمان پر حکم لگاتے ہیں تو یہ تو بتایے کہ قران پاک میں آخر ایمان کس چیز کو کہا گیا ہے ؟؟؟؟؟؟ """""
 
بھائی آبی ٹو کول، سلام

آپ سے بہت ہی سادہ سوالات :
1۔ کتب روایات کی درستگی کا کیا معیار ہے؟ اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم یا پھر بزرگوں (‌باپ دادوں) کی جمع کی ہوئی روایات؟
2۔ کیا کتب روایات کی ہر ہر روایت صحیح ہے؟ کیا ان کتب کی ہر روایت پر کو ماننا ہے --- چاہے وہ خلاف قرآن ہی کیوں نہ ہو۔ ؟؟؟؟؟

خلاف قرآن روایت کی ایک مثال:
رجم، یعنی پتھر مار کر ہلاک کرنے کی سزا --- خلاف قرآن روایت --- کی ایک مثال ہے۔ جس کے لئے یہ دھاگہ کھولا گیا ہے ۔ یہ سزا قرآن حکیم میں کہیں نہیں پائی جاتی اس کے برعکس صرف 100 کوڑے مارنے کی سزا پائی جاتی ہے۔ 100 کوڑے مارنے اور جان سے ماردینے میں ایک بہت ہی بڑا فرق ہے۔

ان سوالات کے جواب عرض فرمائیے۔ آپ کے موقف کے تعین کے بعد ہی آپ کے سوالات کا جوابات کے بارے میں غور کر سکتا ہوں۔

صرف وہ حوالہ جات دیجئے جس پر یا تو آپ کا ایمان ہو یا پھر آپ کے پاس ثبوت و دلیل ہو کہ قرآن کی آیات کی طرح ، یہ روایت خود رسول اکرم نے لکھوائی تھی اور اس کے دو عدد گواہان بھی تھے۔

والسلام
 
عادل سہیل صاحب ،

یہ دھاگہ سزائے رجم کے بارے میں ہے۔ اس سزا کو ثابت کرنے یا نہ ثابت کرنے کے لئے لوگ اپنے اصول و شرائط رکھ رہے ہیں۔ میرے نزدیک اصول اہم ہیں اور آپ کے نزدیک اصول کی طرف توجہ دلانے والے۔

اس وقت یہاں یہ اصول زیر بحث ہے کہ کسی روایت کا درست ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ چھ میں سے ایک کتاب میں پائی جائے، یعنی بزرگوں کی پیروی کی جائے یا پھر یہ دیکھا جائے کہ ایک روایت قرآن کی آیات کے خلاف ہے۔

میرا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی روایت قرآن کے موافق ہے تو وہ قابل قبول ہے۔

جبکہ آپ کا مؤقف یہ ہے کہ چونکہ یہ روایت -- ان چھ کتب میں سے ایک میں پائی جاتی ہے -- جن پر آپ کا قرآن کے علاوہ ایمان ہے --- لہذا یہ روایت درست ہے۔

اگر آپ کا یہ مؤقف نہیں تو پھر یا تو آپ ان کتب سے جن پر مسلمان کا ایمان ہے ثبوت پیش کیجئے کہ پتھر مار مار کر ہلاک کردینے کی سزا درست ہے۔ یا پھر جن کتب کا آپ حوالہ دے رہے ہیں ان کی درستگی کا ثبوت فراہم کیجئے۔

اب تک آپ نے صرف اور صرف یہ ثبوت فراہم کیا ہے کہ یہ کتب بزرگوں (‌باپ دادوں‌)‌ نے پیش کیں ہیں۔ اور بس۔

جبکہ اللہ تعالی صاف صاف یہ فرماتے ہیں کہ

5:104 وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُواْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلاَ يَهْتَدُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس (قرآن) کی طرف جسے اللہ نے نازل فرمایا ہے اور رسولِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں: ہمیں وہی (طریقہ) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ (دین کا) علم رکھتے ہوں اور نہ ہی ہدایت یافتہ ہوں
 
السلام علیکم۔

ناسخ و منسوخ:
کیا آپ جانتے ہیں کہ لوگوں‌نے قرآن میں ناسخ‌ و منسوخ کے فلسفہ کی بنیاد کیوں ڈالی؟
صرف اس لئے کہ یہ ثابت کرسکیں کہ اللہ تعالی خود بھی قرآن حکیم میں احکامات نازل فرما کر منسوخ کرتا رہا ہے۔ اس طرح یہ خلاف قرآن لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ قرآن حکیم کی آیات کی تنسیخ ، اللہ تعالی کرتے رہے اور بعد میں رسول اللہ بھی کرتے رہے۔ تاکہ یہ لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کرسکیں اور اس طرح من گھڑت روایات کو قرآن کے احکامات کی جگہ نافذ‌ کرسکیں۔

اس کی سب سے بڑی مثال زنا کی سزا، رجم کی ہے۔ کچھ لوگوں‌ نے فرمان الہی، قرآن حکیم میں فراہم کی ہوئی سزا 100 کوڑوں کو منسوخ کردیا اور اس کی جگہ پتھر مار ما کر ہلاک کرنے کی یہودی سزا جاری کردی۔

کیا قرآن میں‌کوئی ناسخ و منسوخ ہے؟
جی نہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم ، اگر کنفیوژن کا مرقع ہوتا کہ یہ حکم تو اس حکم سے تبدیل ہوگیا تو پھر اللہ تعالی آپ کو اس قرآن کی پیروی کرنے کا حکم کیسے دیتا؟


[ayah]5:104 [/ayah][arabic]وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُواْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلاَ يَهْتَدُونَ [/arabic]
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس (قرآن) کی طرف جسے اللہ نے نازل فرمایا ہے اور رسولِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں: ہمیں وہی (طریقہ) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ (دین کا) علم رکھتے ہوں اور نہ ہی ہدایت یافتہ ہوں


قرآن حکیم لوح‌محفوظ‌پر محفوظ ایک کتاب جس کے مندرجات پہلے سے طے شدہ ہیں۔ اس کی حفاظت اللہ تعالی فرمارہے ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ اس کتاب میں متصادم احکامات ہیں کہ قرآن کا ایک حکم دوسرے حکم کی تنسیخ‌کرتا ہے ایک غیر منطقی بات ہے جو دشمنان اسلام نے پھیلائی ہے۔

جو ناسخ‌و منسوخ‌یہاں پیش کئے گئے ہیں ان کا مناسب جواب دینا ضروری تھا۔ مزید تفصیل انشاء اللہ ایک الگ دھاگہ میں۔

والسلام
 
(ا) امام علی بن محمدالبزدوی الحنفی متوفی 284 ھ
” فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی، فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔“
( اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔
( فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ’اصولِ بزدوی‘،باب بیان قسم الانقطاع ص٥٧١،میرمحمد کتب خانہ کراچی۔)

یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ زنا کی سزا رجم یعنی پتھروں سے مار مار کر ہلاک کرنا سارے قرآن حکیم میں کہیں نہیں پائی جاتی۔ اس کے برعکس قرآن صرف 100 کوڑے لگا نے کا حکم دیتا ہے۔ کوڑے لگا لگا کر ماردینے کا حکم نہیں دیتا۔

ایسی خلاف قرآن روایت کو درست ثابت کرنے کے لئے آپ حضرات کے پاس کیا اصول ہیں؟

جن اصحاب کورسول اللہ صلعم کے اس مندرجہ بالاء اصول پر شبہ ہے کہ موافق القرآن قبول کرلو اور خلاف قران رد کردو تو ان لوگوں سے استدعا ہے کہ وہ درست اصول یہاں لکھ دیں تاکہ سب کی ہدایت کے کام آئے۔

والسلام
 
السلام علیکم۔

ناسخ و منسوخ:
کیا آپ جانتے ہیں کہ لوگوں‌نے قرآن میں ناسخ‌ و منسوخ کے فلسفہ کی بنیاد کیوں ڈالی؟
صرف اس لئے کہ یہ ثابت کرسکیں کہ اللہ تعالی خود بھی قرآن حکیم میں احکامات نازل فرما کر منسوخ کرتا رہا ہے۔ اس طرح یہ فاسق و فاجر لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ قرآن حکیم کی آیات کی تنسیخ ، اللہ تعالی کرتے رہے اور بعد میں رسول اللہ بھی کرتے رہے۔ تاکہ یہ لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کرسکیں اور اس طرح من گھڑت روایات کو قرآن کے احکامات کی جگہ نافذ‌ کرسکیں۔

اس کی سب سے بڑی مثال زنا کی سزا، رجم کی ہے۔ فاسق و فاجر لوگوں‌ نے فرمان الہی، قرآن حکیم میں فراہم کی ہوئی سزا 100 کوڑوں کو منسوخ کردیا اور اس کی جگہ پتھر مار ما کر ہلاک کرنے کی یہودی سزا جاری کردی۔

کیا قرآن میں‌کوئی ناسخ و منسوخ ہے؟
جی نہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم ، اگر کنفیوژن کا مرقع ہوتا کہ یہ حکم تو اس حکم سے تبدیل ہوگیا تو پھر اللہ تعالی آپ کو اس قرآن کی پیروی کرنے کا حکم کیسے دیتا؟


[ayah]5:104 [/ayah][arabic]وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُواْ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلاَ يَهْتَدُونَ [/arabic]
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس (قرآن) کی طرف جسے اللہ نے نازل فرمایا ہے اور رسولِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں: ہمیں وہی (طریقہ) کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا۔ اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ (دین کا) علم رکھتے ہوں اور نہ ہی ہدایت یافتہ ہوں


قرآن حکیم لوح‌محفوظ‌پر محفوظ ایک کتاب جس کے مندرجات پہلے سے طے شدہ ہیں۔ اس کی حفاظت اللہ تعالی فرمارہے ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ اس کتاب میں متصادم احکامات ہیں کہ قرآن کا ایک حکم دوسرے حکم کی تنسیخ‌کرتا ہے ایک غیر منطقی بات ہے جو دشمنان اسلام نے پھیلائی ہے۔

جو ناسخ‌و منسوخ‌یہاں پیش کئے گئے ہیں ان کا مناسب جواب دینا ضروری تھا۔ مزید تفصیل انشاء اللہ ایک الگ دھاگہ میں۔

والسلام
محترم آپ نے ناسخ و منسوخ کا قطعاّ کوئی مناسب جواب نہیں دیا۔ ناسخ ومنسوخ کی جو آیات سے مثالیں پیش کی گئی ہیں انکو آپ بائی پاس کرکے نکل گئے ہیں اور اپنے نقطہءِ نظر کو محض سستی قسم کی جذباتی تقریر کر کے سمجھ رہے ہیں کہ وہ ثابت ہوگیا۔
ناسخ و منسوخ ایک نہایت سنجیدہ موضوع ہے جس پر صدیوں علماء و محققین نے غوروفکر کیا اور قابلِ قدر تحقیقات پر مبنی کتابیں لکھین۔
جس قسم کی زبان آپ امتِ مسلمہ کے قابلِ عزّت علماء و محققین کے خلاف استعمال کررہے ہیں ان سے آپ خود کو مزید ایکسپوز ہی کررہے ہیں۔ ان لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور ستم یہ کہ دلیل بھی کوئی نہیں
یعنی جہالت و سفاہت کی انتہا ہے کہ 1400 سال کا غورو فکر اور تحقیق لایعنی ٹھری، اور ان 1400 سال میں جتنے بھی علماء و محدثین، فقہاء و محققین گذرے ہیں انکو آپ بیک جنبشِ قلم "فاسق و فاجر شخص" قرار دیدیں۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون۔
ساری خدائی اک طرف۔ فاروق بھائی اک طرف:applause:
 

dxbgraphics

محفلین
فاروق ۔
جو عقلی منطق آپ بیان کر رہے ہیں میری تو صرف ہنسی ہی نکل رہی ہے آپ کی ان فضول پوسٹوں پر۔
اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ شروع ہی سے مسلمانوں کو کعبہ کی طرف رخ کر کے عبادت کا حکم دے دیتا۔ کیوں پہلے قبلہ اول کی طرف رخ کر کے عبادت کی جاتی اور بعد میں کعبہ کی جانب رخ کر کے عبادت کا حکم ہوا۔اور وہ بھی دوران نماز اللہ تعالیٰ رخ کعبۃ اللہ کی جانب کرنے کا حکم دیتےہیں۔
چاہے جتنا بھی احادیث کے انکار کے یہود و صیہون والے حربے آزمالیں۔ آپ کی ان تحاریر کا جن کا نہ سر ہے نہ پیر کوئی اثر نہیں ہوگا۔
عقل استعمال کرتے کرتے ایک دن آپ یہ بھی کہہ دینگے کہ اللہ کو عبادت کی ضرورت نہیں ۔ یہ تو اپنے آپ کو تھکانہ ہے یا ورزش ہے
 

آبی ٹوکول

محفلین
بھائی آبی ٹو کول، سلام

آپ سے بہت ہی سادہ سوالات :
1۔ کتب روایات کی درستگی کا کیا معیار ہے؟ اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم یا پھر بزرگوں (‌باپ دادوں) کی جمع کی ہوئی روایات؟
2۔ کیا کتب روایات کی ہر ہر روایت صحیح ہے؟ کیا ان کتب کی ہر روایت پر کو ماننا ہے --- چاہے وہ خلاف قرآن ہی کیوں نہ ہو۔ ؟؟؟؟؟

والسلام حجور سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیئے کہ اب آپ کے ساتھ بات "حدیث اور حجیت حدیث "پر ہرگز نہیں ہوگی ۔۔۔ آپ جو ہر وقت قرآن قرآن قرآن کی رٹ لگائے رکھتے ہیں ناں اب آپ سے بات "قرآن اور اس کے ثبوت کے زرائع اور آپ کے فہم قران " پر ہوگی آئی بات سمجھ میں ؟؟؟؟
لہذا چھوڑ دیجیئے حدیث کو کیونکہ حدیث اور کتب احادیث پر اعتماد کرکے بقول آپکے تمام کی تمام امت فاسق و فاجر ٹھری بس ایک آپ ہی 1400 سو سال بعد پیدا ہوئے کہ جن کو قرآن سے اور دین اسلام سے حد درجے کا پیار تھا اور بس آپ ہی کو اللہ کے سچے دین کی فکر تھی باقی ساری امت تو آج تک بے ایمانی میں مبتلا رہی ۔۔
یہ تو بس ایک آپ ہی تھے کہ جنکو اپنے ایمان کی فکر تھی سو آپکو دشمانان اسلام کی سازشیں نظر آگئیں باقی ساری امت جاہل رہی کے کبھی مولویوں کی کتب کبھی اسرائیلیات اور کبھی ایرانی سازشوں کا پے در پے نشانہ بنتی چلی گئی ساری امت گمراہ اور ایک آپ کا فہم سب پر فائق باقی سب بے وقوف کے جنھوں نے احادیث جمع کیں حفظ کی اور پھر ان احادیث کی جانچ پڑتال کے لیے ایسے ایسے علوم ایجاد کیے کہ تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی کے خود غیر مسلم بھی مسلمانوں کو اس فن پر داد تحسین دیئے بغیر نہ رہ سکیں ۔ ۔
مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ عقل پرستی کا دعوٰی کرنے والے آخر کس عقلی دلیل کی بنیاد پر ایک اکیلے شخص کی عقل کو پوری امت کی عقل پر حاوی سمجھتے ہیں کیا عقل کے اعتبار سے یہ ممکن ہے کہ 1400 سو سال سے ساری امت جن چیزوں پر متفقہ طور پر اعتماد کرتی چلی آرہی ہے وہ ساری کی ساری چیزیں ہی من حیث المجموع گمراہی ہوں اور امت کو پتا ہی نہ چلا ہو ایسا کیسے ممکن ہے ؟ چلو مان لیا کہ یہ اسلام دشمنوں کی ملاوٹ تھی قرآن پر اضافے کی صورت میں مگر کیا ساری کی ساری امت جاہل یا بے وقوف رہی کسی ایک شخص کو بھی اس سازش کی بھنک نہ پڑ سکی ؟؟؟؟؟
عقلی اعتبار سے یہ محال ہے کہ ایک شئے کو سینکڑوں لوگ ہر زمانے میں صحیح سمجھتے آئے ہوں مگر وہ شئے صحیح نہ ہو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ساری کی ساری امت اسلام دشمنوں کے ہاتھوں سازش کا شکار بن کر بے وقوف بنتی چلی آرہی ہو اور آج کے دور کا ایک شخص اٹھ کر کھڑا ہوجائے اور کہے یہ سب بکواسیات تھی جمیع امت متفقہ طور پر بے وقوف بن گئی کسی کو خبر نہ ہوئی کے اسلام دشمنوں نے قرآن احادیث کی صورت میں قرآن میں پیوند لگانے کی کوشش کی ہے یعنی کہ لاحول ولا قوۃ ۔۔۔


خلاف قرآن روایت کی ایک مثال:
رجم، یعنی پتھر مار کر ہلاک کرنے کی سزا --- خلاف قرآن روایت --- کی ایک مثال ہے۔ جس کے لئے یہ دھاگہ کھولا گیا ہے ۔ یہ سزا قرآن حکیم میں کہیں نہیں پائی جاتی اس کے برعکس صرف 100 کوڑے مارنے کی سزا پائی جاتی ہے۔ 100 کوڑے مارنے اور جان سے ماردینے میں ایک بہت ہی بڑا فرق ہے۔
تو گویا کسی شئے کا قرآں میں مذکور نہ ہونا اس کے خلاف قرآن ہونے کی دلیل واہ واہ یعنی کے سبحان اللہ ہیں
کیا عقلی دلیل ہے کہ عدم ذکر کو عدم جواز پر محمول کرکے ممانعت کی دلیل ٹھرایا جارہا ہے سبحان اللہ کیا کہنے ہیں یوں تو پھر حجور قرآن میں یہ بھی مذکور نہیں ہے کہ 14 ویں صدی میں ایک خان صاحب کا ورود ہوگا جو کہ تم پر اللہ کی آیتیں کھول کھول کر بیان فرمائیں گے لہزا خبرادر رہو ان سے کہیئے کیا خیال ہے ؟؟؟؟؟
یا پھر میں دوستوں سے یہ کہہ دوں کے خان صاحب بڑے ہی مضحکہ خیز انسان ہیں لوگ پوچھیں کیوں تو میں عرض کروں چونکہ آج تک خان صاحب نے اپنے کلام میں اپنے مضحکہ خیز نہ ہونے کا ذکر ہی نہیں کیا لہذا ان کا مضحکہ خیز نہ ہونا انکے کلام کے خلاف ہے لہزا وہ مضحکہ خیز ہی ہیں ؟؟؟




صرف وہ حوالہ جات دیجئے جس پر یا تو آپ کا ایمان ہو یا پھر آپ کے پاس ثبوت و دلیل ہو کہ قرآن کی آیات کی طرح ، یہ روایت خود رسول اکرم نے لکھوائی تھی اور اس کے دو عدد گواہان بھی تھے۔

سب سے پہلے تو حجور آپ خود قرآن کی تعریف خود قرآن ہی سے فرمائیں اور پھر خود قرآن ہی سے موجودہ دور کہ اس مصحف کا قرآن ہونا بھی ثابت فرمائیں یاد رہے کہ اس قرآن کو قرآں ثابت کرنے کے لیے غیر قرآن یا کوئی بھی بیرونی گواہی قابل قبول نہ ہوگی اگرچہ وہ عقل کے کتنے ہی معیارات پر پورا کیوں نہ اترتی ہو ۔ ۔ ۔رہ گئے وہ دو گواہ تو حجور بھلا یہ تو بتلایئے ان دو گواہوں کی گواہی آپ پر براہ راست نازل ہوئی یا پھر اسی زریعہ سے کے جس زریعہ سے دیگر روایات بھی ہم تک پہنچی ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟ اگلی بات میں آپ سے بعد میں کرتا ہوں ۔ ۔ ۔



السلام علیکم۔

ناسخ و منسوخ:
کیا آپ جانتے ہیں کہ لوگوں‌نے قرآن میں ناسخ‌ و منسوخ کے فلسفہ کی بنیاد کیوں ڈالی؟
صرف اس لئے کہ یہ ثابت کرسکیں کہ اللہ تعالی خود بھی قرآن حکیم میں احکامات نازل فرما کر منسوخ کرتا رہا ہے۔ اس طرح یہ فاسق و فاجر لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ قرآن حکیم کی آیات کی تنسیخ ، اللہ تعالی کرتے رہے اور بعد میں رسول اللہ بھی کرتے رہے۔ تاکہ یہ لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کرسکیں اور اس طرح من گھڑت روایات کو قرآن کے احکامات کی جگہ نافذ‌ کرسکیں۔



والسلام

نبیل بھائی یہاں میں آپ سے سخت احتجاج کرتا ہوں کہ آپ نے اس شخص کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ رکھا کہ جو جی میں آئے کہتا پھرے یعنی پوری امت جن امور پر متفق ہے ان میں کیسے کیسے عظیم نام ہیں اور یہ صاھب سب کو کبھی مولوی کبھی اسرائیلی اور کبھی ایرانی سازشی نظریات کا کردار ثابت کرتا پھرتا ہے اور اب تو حد ہی ہوگئی سب کو فاسق و فاجر ٹھرا دیا ۔۔نبیل بھائی ہم ذرا سی خان صاحب پر طنزیہ پیرائے میں گفتگو کریں تو آپ فورا پوسٹ حذف کردیتے ہیں جبکہ خان صاحب جو چاہیں جس کو چاہیں کہتے پھریں انھے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ؟؟؟؟؟؟؟ انا للہ وانا الیہ راجعون
 

نبیل

تکنیکی معاون
نبیل بھائی یہاں میں آپ سے سخت احتجاج کرتا ہوں کہ آپ نے اس شخص کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ رکھا کہ جو جی میں آئے کہتا پھرے یعنی پوری امت جن امور پر متفق ہے ان میں کیسے کیسے عظیم نام ہیں اور یہ صاھب سب کو کبھی مولوی کبھی اسرائیلی اور کبھی ایرانی سازشی نظریات کا کردار ثابت کرتا پھرتا ہے اور اب تو حد ہی ہوگئی سب کو فاسق و فاجر ٹھرا دیا ۔۔نبیل بھائی ہم ذرا سی خان صاحب پر طنزیہ پیرائے میں گفتگو کریں تو آپ فورا پوسٹ حذف کردیتے ہیں جبکہ خان صاحب جو چاہیں جس کو چاہیں کہتے پھریں انھے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ؟؟؟؟؟؟؟ انا للہ وانا الیہ راجعون

آپ کا احتجاج سر آنکھوں پر۔ میں جب تک آن لائن آیا تو اس وقت تک شکایات کی لائن لگ چکی تھی۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم۔
اس کی سب سے بڑی مثال زنا کی سزا، رجم کی ہے۔ فاسق و فاجر لوگوں‌ نے فرمان الہی، قرآن حکیم میں فراہم کی ہوئی سزا 100 کوڑوں کو منسوخ کردیا اور اس کی جگہ پتھر مار ما کر ہلاک کرنے کی یہودی سزا جاری کردی۔
والسلام

فاروق بھائی، آپ قران فہمی کی تعلیم ضرور عام کریں، لیکن آپ کو اس طرح کا لب و لہجہ اختیار کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے، لیکن آپ اس پوسٹ کو میری جانب سے وارننگ سمجھیں۔
 
فاروق ۔
اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ شروع ہی سے مسلمانوں کو کعبہ کی طرف رخ کر کے عبادت کا حکم دے دیتا۔ کیوں پہلے قبلہ اول کی طرف رخ کر کے عبادت کی جاتی اور بعد میں کعبہ کی جانب رخ کر کے عبادت کا حکم ہوا۔اور وہ بھی دوران نماز اللہ تعالیٰ رخ کعبۃ اللہ کی جانب کرنے کا حکم دیتےہیں۔


بھائی دبئی کے مصور ، سلام

آپ میرا قاعدہ ہے کہ ذاتی تبصرات -- ردی کی نذر۔ اس کے بعد جو اہم امور بچتے ہیں اس کا جواب حاضر ہے۔

جب اللہ تعالی نے سابقہ قبلہ بدلہ یعنی سابقہ کتب کے فرمان کو قرآن حکیم میں تنسیخ یا تبدیل کیا تو اس کے بارے میں وضاحت سے فرمایا :

[AYAH]2:143[/AYAH] [ARABIC]وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ[/ARABIC]
اور اس طرح بنادیا ہے ہم نے تم کو ایک اُمّتِ مُعتدل تاکہ بنو تم گواہ لوگوں پر اور ہو رسول تم پر گواہی دینے والا اور نہیں مقرر کیا تھا ہم نے وہ قبلہ کہ تھے تم (پہلے) جس پر مگر اس غرض سے کہ دیکھیں ہم کہ کون پیروی کرتا ہے رسول کی اور کون پھرجاتا ہے اپنے الٹے پاؤں۔ اور بے شک تھا یہ (قبلہ بدلنا) بہت گراں سوائے ان لوگوں کے جنہیں ہدایت دی اللہ نے۔ اور نہیں ہے اللہ ایسا کہ ضائع کر دے تمہارا ایمان۔ بیشک اللہ انسانوں پر بہت ہی شفیق اور رحم کرنے والا ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ قبلہ اول قرآن حکیم میں‌مقرر نہیں کیا گیا تھا۔ قرآن حکیم کا کوئی بھی حکم منسوخ‌نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی ایک طویل لسٹ پیش کی گئی تھی جس کا جواب میں نے فراہم کیا تھا۔ آپ یہاں دیکھ لیجئے۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=14533

والسلام
 
آبی ٹو کول،

صرف اہم نکات کے جوابات حاضر ہیں۔ آپ کے ذاتی نوعیت کے تبصرات - ردی کی نذر۔ اس لئے کہ میری کردار کشی سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ قرآن پر مسلمانوں کا ایمان برقرار رہے گا اور کتب روایات پر قرآن کی توثیق کی ضرورت برقرار رہے گی۔ صرف وہ روایات ، سنت نبوی ہیں جو موافق و مطابق قرآن ہیں۔

اب آپ سے بات "قرآن اور اس کے ثبوت کے زرائع اور آپ کے فہم قران " پر ہوگی آئی بات سمجھ میں ؟؟؟؟

قرآن حکیم ہمارے ہاتھوں میں کس طرح پہنچا، آپ یہ دھاگہ ملاحظہ فرما لیجئے

اگر آپ نے مجھ پر ذاتی حملہ کرنے ہیں تو اس کے لئے ایک دھاگہ الگ سے کھول لیجئے۔ لیکن میں وہاں آپ سے لڑنے نہیں‌آؤں گا۔ آپ کو اپنے خلاف قرآن نظریات کا حق ہے، بس یہ کہ یہ نظریات قرآن حکیم سے ثابت نہیں ہیں۔ یہ ان بزرگوں (‌جن کو قرآن باپ دادا کہتا ہے) کی پیروی ہے جنہوں نے کتب روایات تصنیف کیں، قرآن حکیم کی پیروی نہیں۔

سب کو بتا چکا ہوں کہ جو کچھ میں‌کہتا ہوں اس پر کان نہ دھریں ، اس کو ڈسکاؤنٹ‌کردیں۔ صرف اور صرف اللہ تعالی کی آیات پر نظر رکھیں۔ اس پر خود سے غور کیجئے۔ لیکن یہ اگر آپ کو گوارا نہیں تو میں کیا کرسکتا ہوں ۔

تو گویا کسی شئے کا قرآن میں مذکور نہ ہونا اس کے خلاف قرآن ہونے کی دلیل واہ واہ یعنی کے سبحان اللہ ہیں
کیا عقلی دلیل ہے کہ عدم ذکر کو عدم جواز پر محمول کرکے ممانعت کی دلیل ٹھرایا جارہا ہے سبحان اللہ کیا کہنے ہیں یوں تو پھر حجور قرآن میں یہ بھی مذکور نہیں ہے کہ 14 ویں صدی میں ایک خان صاحب کا ورود ہوگا جو کہ تم پر اللہ کی آیتیں کھول کھول کر بیان فرمائیں گے لہزا خبرادر رہو ان سے کہیئے کیا خیال ہے ؟؟؟؟؟

بغور پڑھئیے۔

میں نے لکھا ہے --- قرآن کے برعکس ہونا یعنی قرآن کے فرمان کردہ اصولوں کے خلاف ایک سزا کا ہونا ---- کہ --- رجم سزا ہے جان لینے کی جبکہ سو درے جان لینے کی سزا نہیں ہے۔

جو لوگ اتنے وثوق سے ناسخ و منسوخ کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ وہ کیوں نہیں مان لیتے قرآن کا یہ حکم کہ زانی کو سو درے لگانے کی سزا نے ----- سابقہ کتب (‌ان کے مطابق) کی سزائے رجم کی تنسیخ کردی ہے۔۔ کیوں ؟؟؟؟؟


کیا عقل کے اعتبار سے یہ ممکن ہے کہ 1400 سو سال سے ساری امت جن چیزوں پر متفقہ طور پر اعتماد کرتی چلی آرہی ہے وہ ساری کی ساری چیزیں ہی من حیث المجموع گمراہی ہوں اور امت کو پتا ہی نہ چلا ہو ایسا کیسے ممکن ہے ؟ چلو مان لیا کہ یہ اسلام دشمنوں کی ملاوٹ تھی قرآن پر اضافے کی صورت میں مگر کیا ساری کی ساری امت جاہل یا بے وقوف رہی کسی ایک شخص کو بھی اس سازش کی بھنک نہ پڑ سکی ؟؟؟؟؟
عقلی اعتبار سے یہ محال ہے کہ ایک شئے کو سینکڑوں لوگ ہر زمانے میں صحیح سمجھتے آئے ہوں مگر وہ شئے صحیح نہ ہو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ساری کی ساری امت اسلام دشمنوں کے ہاتھوں سازش کا شکار بن کر بے وقوف بنتی چلی آرہی ہو اور آج کے دور کا ایک شخص اٹھ کر کھڑا ہوجائے اور کہے یہ سب بکواسیات تھی جمیع امت متفقہ طور پر بے وقوف بن گئی کسی کو خبر نہ ہوئی کے اسلام دشمنوں نے قرآن احادیث کی صورت میں قرآن میں پیوند لگانے کی کوشش کی ہے یعنی کہ لاحول ولا قوۃ ۔۔۔

سوالات :
1۔ کیا آپ کے پاس کسی بھی کتاب کی اصل موجود ہے کہ یہ سب کچھ آپ کی سمجھ کے مطابق علماء ہی نے جمع کیا تھا؟
2۔ کیا آپ کے پاس ایک بھی ثبوت ہے کہ ان کتب کو قرآں کی طرح رسول اکرم کے زمانے میں لکھا گیا، خلفاء نے ان کتب کی تدوین کی؟
3۔ کیا آپ کا ایمان ہے کہ یہ وہی کتب ہیں جو آپ کے علماء نے در حقیقت لکھی تھیں؟ اگر ایمان نہیں تو ثبوت کیا ہے؟

اللہ تعالی فرماتے ہیں:
[AYAH]2:170[/AYAH] [ARABIC]وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُونَ [/ARABIC]
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو اﷲ نے نازل فرمایا ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں: (نہیں) بلکہ ہم تو اسی (روش) پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے ہوں اور نہ ہی ہدایت پر ہوں



آپ سے ایک بار پھر وہی سوالات ہیں:

آپ سے بہت ہی سادہ سوالات :
1۔ کتب روایات کی درستگی کا کیا معیار ہے؟ اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم یا پھر بزرگوں (‌باپ دادوں) کی جمع کی ہوئی روایات؟
2۔ کیا کتب روایات کی ہر ہر روایت صحیح ہے؟ کیا ان کتب کی ہر روایت پر کو ماننا ہے --- چاہے وہ خلاف قرآن ہی کیوں نہ ہو۔ ؟؟؟؟؟


آپ صرف آخری دو سوالات کے جوابات عنایت فرمائے۔ تاکہ ہم جیسوں‌کی ہدایت کا سبب بنیں۔ آپ تو یہ ثابت کر ہی چکے ہیں کہ میں قرآن کی پیروی کرکے حق و صداقت سے دور ہوں۔ تو پھر آپ اپنا اصول کیوں‌نہیں‌پیش کرتے ۔۔۔ تاکہ سب کی بھلائی ہو۔

والسلام
 
Top