میرا خان صاحب سے فقط ایک ہی سوال ہے کہ وہ یہ بتلا دیں کہ آخر خلاف قرآن سے انکی مراد کیا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا عدم ذکر یا پھر آیا انکا (خان صاحب کا ) ذاتی فہم مراد ہے کہ جسے وہ خلاف قرآں سمجھیں ؟؟
السلام علیکم گو کہ میرے پہلے سوالوں کے جوابات خان صاحب کی طرف سے ہنوز دلی دور است کی مصداق ندارد ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ہم سب کو خان صاحب کے ساتھ
حجیت حدیث پر مدافعانہ گفتگو کی بجائے
خان صاھب کے فہم قرِآن پر گفتگو کرنی چاہیے تاکہ انکا فہم قرآن نکھر کر لوگوں کے سامنے آسکے اور یوں انکے قرآن و سنت کے باہمی ربط کو مشکوک بنانے کی جسارت کا قلع قمع کیا جاسکے سو اسی سلسلے کی ابتداء کرتے ہوئے میں خان صاحب کے ساتھ
" حجیت حدیث " اور
" سنت اور اسکے ثبوت کے زرائع " پر گفتگو کرنے کی بجائے براہ راست قرآن اور
"خان صاحب کے فہم قرآن " پر بصورت سوالات گفتگو کا آغاز کررہا ہوں امید ہے خان صاحب اس بار مایوس نہیں فرمائیں گے ۔ ۔ ۔
تو آئیے اس سلسلے کا آغاز کرتے ہیں ۔ ۔ ۔
موافق و مطابق القران حدیث کے لئے فرامین الہی اور فرامین نبوی۔
سوال : کیا اللہ تعالی یہ اصول فراہم کرتے ہیں کہ نبی صرف موافق القرآن بات کرتے ہیں؟
جواب:
53:3 [arabic]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى[/arabic]
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے
53:4 إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى
اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے
اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اکرم قرآن کے خلاف یا جو کچھ ان پر وحی کیا گیا اس کے خلاف قطعاً کچھ نہیں فرماتے ۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو کچھ رسول اکرم نے جو بھی فرمایا وہ قرآن ہے یا قرآن کی طرح ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ اللہ تعالی ایک ایسی کتاب فراہم کریں جس میں پیوند عرصہ 200 سال کے بعد لوگ لگائیں۔
["]
قطع نظر اسکے خان صاحب ابھی تک یہ وضاحت نہیں فرماسکے کہ خلاف قرآن یا مواقف قرآن سے اُنکی مراد کیا ہے ؟ ہم قارئین پر جناب خان صاھب کے
" فہم قرآن " کو خان صاھب ہی کی عبارت کے جھول کی صورت میں پیش کرتے ہیں ۔ ۔
سوال:-کیا اللہ تعالی یہ اصول فراہم کرتے ہیں کہ نبی صرف موافق القرآن بات کرتے ہیں؟
جواب جو خان صاحب نے دیا سوال گندم اور جواب چنا کی مصداق تھا آپ بھی ملاحظہ فرمائیے ۔۔
خان صاحب کا جواب بصورت فہم قرآن :- [arabic]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى[/arabic]
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے
53:4 إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى
اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے
یعنی سوال میں پوچھا گیا کہ
کیا نبی فقط موافق القران بات کرتے ہیں اور جواب دیا جارہا ہے جی ہاں نبی جو کچھ فرماتے ہیں
وہ سراسر وحی پر مبنی ہی ہوتا ہے اور نتیجہ (مضموم) اس سے جناب نے یہ نکالا کہ
وحی فقط قرآن تک ہی محدود ہے لاحول ولا قوۃ میرے محترم اس آیت میں یہ کہاں آیا ہے کہ نبی جو کچھ بھی فرماتے ہیں وہ قرآن ہی ہوتا ہے یہاں تو یہ آیا ہے کہ نبی جو کچھ بھی فرماتے ہیں وہ ان پر وحی کیا گیا ہوتا ہے اور قرآن کی یہ آیت مطلق ہے اس میں کہیں یہ نہیں آیا کہ وحی فقط قرآن ہی کا نام ہے ۔۔۔۔۔
پھر آگے چل کر خاں صاحب فرماتے ہیں کہ ۔ ۔۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اکرم قرآن کے خلاف یا جو کچھ ان پر وحی کیا گیا اس کے خلاف قطعاً کچھ نہیں فرماتے ۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو کچھ رسول اکرم نے جو بھی فرمایا وہ قرآن ہے یا قرآن کی طرح ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ اللہ تعالی ایک ایسی کتاب فراہم کریں جس میں پیوند عرصہ 200 سال کے بعد لوگ لگائیں۔
جی بھلا اس میں کسی کو کوئی شک ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی فرماتے ہیں وہ
اتباع وحی میں ہے
سو اس لحاظ سے کبھی بھی خلاف قرآن نہیں ہوسکتا مگر اس سے یہ بھی ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ
تاریخ احادیث سے ثابت ہے کو آج کی کوئی شخصیت
محض اپنے فہم کی بنیاد پر خلاف قرآن کہنا شروع کردے ۔ ۔ ۔
پھر فرماتے ہیں کہ
۔۔جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو کچھ رسول اکرم نے جو بھی فرمایا وہ قرآن ہے یا قرآن کی طرح ہے
حضرت یہ کچھ لوگ جو کوئی بھی ہیں
مگر یہاں کم از کم اس فورم پر انکا کوئی وجود نہیں لیکن اگر آپ اپنے قلت مطالعہ اور
" ذاتی فہم قرآن " کی بدولت سنت کا قرآ ن ہی کی طرح حجت ہونا کھٹک رہا تو معاف کیجیئے گا سنت حجت ہونے میں تو قرآن ہی کی طرح ہے اور پھر اس میں بھی درجہ بندی ہے اور اسکا درجہ ثانیہ ہے
مگر نفس قرآن میں سنت کا
شمار ہرگز کوئی نہیں کرتا حالانکہ
سنت بھی بلا شبہ وحی ہے مگر بطور
بیان القرآن اور یہ سب کچھ قرآن ہی کہہ رہا ہے ۔
پھر خاں صاحب مزید رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔ ۔
اب آپ دیکھئے اتباع کرنے کا زبردست حکم۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلعم کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اس کی پیروی کریں جو کہ ان پر وحی کیا گیا۔ یعنی جو کچھ رسول اللہ فرماتے ہیں وہ قرآن کی پیروی ہوتا ہے
جی بلا شبہ نبی کی اطاعت کا بڑا زبردست حکم آیا ہے مگر اس کا جو نتیجہ آپ نے نکالا ہے
وہ آپ کی اختراع ہے قرآن میں کہیں یہ نہیں آیا کہ اے نبی آپ پر فقط قرآن ہی کی پیروی لازم ہے ۔ ۔بلکہ قرآن میں ایک تو جہاں بھی رسول پاک کی
اطاعت و اتباع کا حکم آیا ہے اللہ پاک نے اسے مطلق رکھا ہے اور دوسرے اسی طرح جہاں بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اتباع وحی کا حکم آیا ہے تو اللہ پاک نےا س کو بھی مطلق رکھا ہے اس کے ساتھ کوئی قید کسی بھی قسم کی ذکر نہیں ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ آپ پورا قرآن پڑھیئے قرآن جہاں جہاں بھی تلاوت قرآن کا ذکر کرتا ہے تو
وحی کے لفظ کے ساتھ میں
لفظ کتاب لاتا ہے مگر جہاں
اطاعت و اتباع کی بات کرتا ہے تو پھر
وحی کے ساتھ لفظ
الکتاب کی قید کو ہٹا دیتا ہے ۔ ۔
ا س سے ثابت یہ ہوا کہ وحی قرآن کے علاوہ بھی ہے ۔ ۔
بطور نمونہ چند آیات درج زیل ہیں ۔ ۔
وحی کی تلاوت کا حکم متعدد آیات کی روشنی میں ۔ ۔
و
اتل ما اوحى اليک من کتاب ربک لا مبدل لکلماته و لن تجد من دونه ملتحدا. (سوره کهف ، آيه 26)
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ سوره عنكبوت ، آيه 45
قارئین آپ نے دیکھا
جہاں پر وحی کی تلاوت کا حکم آیا ساتھ میں لفظ کتاب بھی ذکر کیا گیا کہ جس سے وحی متلو کی قسم کا اظہار بھی ہوا اب آگے ہم وہ یات نقل کریں گے کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی اتباع کا حکم دیا جارہا ہے مگر ساتھ میں لفظ کتاب کی قید مذکور نہیں ہے ۔ ۔ ۔
اتباع وحی متعدد آیات کی روشنی میں ۔ ۔ ۔
اتبع ما أوحي إليك من ربك لا إله إلا هو وأعرض عن المشركين ( 106 ) الانعام
قل لا أقول لكم عندي خزائن الله ولا أعلم الغيب ولا أقول لكم إني ملك إن أتبع إلا ما يوحى إلي قل هل يستوي الأعمى والبصير أفلا تتفكرون ( 50 ) الانعام
قارئین کرام ان دونوں آیات اور ان جیسے متعدد آیات کہ جن میں رسول کو اتباع وحی کا حکم دیا گیا ہے آپ دیکھیں گے کہ جہاں بھی قرآن میں یہ آیات آئی ہیں وہاں اللہ پاک نے لفظ
وحی کو مطلق رکھا اور بغیر
لفظ کتاب یا الکتاب کی قید کے ذکر کیا ہے اور آگر آپ احباب ان چاروں آیات سے پہلے لفظ
ما کو دیکھیں تو لفظ ما جو کہ عمومی طور پر عمومیت ہی کے لیے آتا کی لفظ وحی سے پہلے موجودگی اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ وحی فقط قرآن میں مضمر نہیں ۔ ۔ ۔
بات بہت دور نکل گئی پلٹتے ہیں خاں صاھب کی قرآن فہمی کی جانب ۔ ۔ ۔جی ہاں تو خاں صاحب آگے چل کر فرماتے ہیں ۔ ۔
سوال: کیا کچھ وحی قرآن میں لکھے جانے سے رہ گئی تھی یا ترک کردی گئی تھی؟
جواب:
11:12 فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَضَآئِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُواْ لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْهِ كَ۔نْ۔زٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
بھلا کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس میں سے کچھ ترک کر دیں جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے اور اس سے آپ کا سینہء تنگ ہونے لگے کہ کفار یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا، (ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ اے رسولِ معظم!) آپ تو صرف ڈر سنانے والے ہیں (کسی کو دنیوی لالچ یا سزا دینے والے نہیں)، اور اﷲ ہر چیز پر نگہبان ہے
اور پھر نتیجہ یوں نکالتے ہیں ۔ ۔ ۔
ہم اس سے یہ صاف صاف دیکھ سکتے ہیں کہ رسول اکرم کا ہر فرمان اس وحی کے مطابق ہوتا ہے جو کہ ان پر وحی کی گئی (53:3) رسول اکرم کو قرآن کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا (6:106) رسول اللہ صلعم نے کوئی بھی وحی ترک نہیں کی یعنی اس قرآن میںہر وحی موجود ہے۔ (11:12)
جی اس میں کسی مسلمان کو کوئی شک ہی نہیں کہ نبی (معاذ اللہ )
تارک وحی ہوسکتا ہے اور جو شک کرئے وہ مسلمان ہی نہیں رہتا مگر حضور اس سے یہ نتیجہ کہاں سے نکل آیا کہ
وحی فقط قرآن ہی ہے ؟؟؟؟؟
آپکی پیش کردہ آیت میں تو
مطلق وحی کا حکم ہے قرآن یا پھر
الکتاب کا تو ذکر ہی نہیں کہ جو وحی کو فقط قرآن ہی میں محدود مانا جائے ۔ ۔ ۔
نتیجہ نبی معاذ اللہ ثم معاذ اللہ
ہرگز ہرگز بھی تارک وحی نہیں ہوسکتا
چاہے وہ وحی قرآن کی سورت میں ہو یا
پھر قرآن کے بیان (نبی کے فرمان یعنی سنت ) کی صورت میں ۔ ۔
پھر آگے چل کر مزید انکشافات فرمائے ہیں خان صاھب نے
نسخ آیات قرآنی کی وضاحت کی ضمن میں آپ فرماتے ہیں کہ ۔ ۔
قرآن مجید میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی اور نا ہی اس کو فراموش کیا گیا۔ اللہ تعالی کا دستور، اللہ تعالی کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ الفاظ اور جملے بدل دئے جاتے ہیں لیکن حکم نہیں تبدیل ہوتا۔
حضور ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ جو آپ نے
اپنا ذاتی اور اختراعی فہم قرآن بیان کیا ہے کہ ۔ ۔
قرآن مجید میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی اور نا ہی اس کو فراموش کیا گیا
اس کی آپ کے پاس کونسی آیت دلیل ہے جو دلیل ہے آپکے پاس اس میں تو
مطلق آیات کے نسخ کی بات کی گئی ہے نہ کے
فقط نسخ تورات و انجیل کی پھر
مطلق کو مقید بنا کر
آپ ایک خاص دعوٰی کی دلیل عام سے کس طرح سے دے سکتے ہیں یا تو
قرآن سے وہ الفاظ دکھایئے کہ جس میں اللہ پاک نے یہ فرمایا ہو کہ ہم نے فقط سابقہ کتابوں میں ہی نسخ فرمایا اس قرآن میں نہیں تو بھی کچھ بات بنے ۔۔ ثانیا یہ جناب آپ سے کس نے کہہ دیا کہ نسخ سے مراد سنت اللہ کی تبدیلی ہے ؟؟؟؟؟؟ سنت اللہ کی تبدیلی سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ اللہ پاک ایک حکم نازل کرکے اس کو منسوخ نہیں فرماتا بلکہ سنت اللہ کی تبدیلی سے یہ مراد ہے کہ اللہ کے نظام قانون کے جو مسلمہ اصول ہیں ان میں تم کوئی تبدیلی ہرگز نہ پاؤ گے ۔ حکم تو خود قرآن کی آیات سے بعض قرآنی آیات کا منسوخ ٹھرتا ہے اور بچہ بچہ قاری قرآن جانتا ہے کہ کہ شراب کی حرمت کا حکم تدریجا نازل ہوا پھر
تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا وغیرہ وغیرہ اب جن آیات نے سابقہ حکم کو تبدیل کیا ، کیا وہ آیات ان آیات کے حکم کے لیے بطور ناسخ وارد نہیں ہوئیں ؟؟
اور مزے کی بات تو یہ ہے خان صاحب کے قبلہ اول کے جسکی تبدیلی کا حکم قرآن دے رہا ہے
اس اول قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا کوئی حکم سرے سے قرآن میں موجود ہی نہیں ؟؟؟؟؟ تو اس قبلہ کی طرف جو
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم منہ کرکے نماز پڑھتے رہے وہ کس وحی کے تحت تھا ۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟
فی الحال کے لیے اتنا ہی والسلام