فاروق سرور خان
محفلین
احبابو و صاحبو، سلام۔
زنا کی سزا روایات میں سنگساری بیان ہوئی ہے۔ اس دھاگہ کا مقصد ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ آیا کہ یہ سزا کسی طور بھی قرآن سے ثابت ہے یا نہیں۔ کیا یہ سزا جو کہ رجم کہلاتی ہے جس سے مقصود سنگساری سے ہلاکت ہے، روایات یا سنت رسول سے ثابت ہے ؟
یا دشمنان اسلام نے اس کو مسلمانوںکی کتب میں شامل کیا ؟
قرآن حکیم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
24:2 [ARABIC]الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِين[/ARABIC]
ترجمہ:-بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو (سو) کوڑے مارو اور تمہیں ان دونوں پر (دین کے حکم کے اجراء) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک) جماعت موجود ہو
جبکہ اسی آیت کی تفسیر، تفسیر ابن کثیر میں کچھ اس طرحملتی ہے ۔
تفسیر ابن کثیر صفحہ 580 --- 1301–1373 -- تصویر کا لنک
میرا تبصرہ
اس اقتباس کو بار بار پڑھئیے اور سوچئیے کہ کیا نیلے رنگ کے حصہ اور اس سے متعلق حصہ درست ہے؟
جناب ابن کثیر کا دور ہے 1301 سے 1373 تک
700 سال بعد لکھی جانے والی اس کتاب میں یہ کہا جارہا ہے کہ:
1۔ قرآن میں رجم کی آیت تھی جو اب اس میں سے ضائع ہوگئی۔ (نعوذباللہ)
2۔ اللہ تعالی اپنی کتاب قرآنحکیم کی حفاظت نہیں کرپایا - (نعوذباللہ)
3۔ 1400 سال کے لگ بھگ تمام حفاظ جس قرآن کو یاد کرتے رہے ، ایک ایک نقطے اور زیر زبر کی حفاظت کرتے رہے وہ درست نہیں ۔ (نعوذباللہ)
4۔ لہذا قرآن میں ترمیم کی ضرورت ہے کہ اس آیت کو شامل کیا جائے (نعوذ باللہ)
5۔ ایسی غلط بیانی کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ (جن سے اللہ راضی ہوا) سے منسوب کیا جارہا ہے۔
6۔ پھر کہا جاتا ہے کہ یہ وحی متلو ہے۔ جبکہ اس روایت یہ الفاظ رسول اللہ کی زبان مبارک سے ادا ہی نہیں ہورہے (نعوذباللہ)
کیا آپ خلاف قرآن اس روایت کو درست ماننے کو تیار ہیں ، کیا ابن کثیر جیسا جید عالم ، ایسے الزامات بناء سوچے سمجھے عائد کرسکتا ہے؟
کہ قرآن غٍیر محفوظ ہے (نعوذ باللہ) اور اللہ تعالی پر بہتان عظیم کہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت نہیں کرسکا (نعوذباللہ)
دشمنان اسلام کی ملاوٹ کردہ خلاف قرآن روایات میں اس قدر جھوٹ موجود ہے کہ ایک عام قاری اس کو فوراً پکڑ سکتا ہے۔ ایسی روایات قرآن کریم کی کسوٹی پر پوری اترتی ہی نہیںہیں۔
[ARABIC]15:9 إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[/ARABIC]
بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے
دشمناں اسلام کا شامل کردہ جھوٹ مسلمان اللہ کی کتاب کی مدد سے نکال پھینکیں گے ۔ انشاءاللہ تعالی ۔
والسلام
زنا کی سزا روایات میں سنگساری بیان ہوئی ہے۔ اس دھاگہ کا مقصد ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ آیا کہ یہ سزا کسی طور بھی قرآن سے ثابت ہے یا نہیں۔ کیا یہ سزا جو کہ رجم کہلاتی ہے جس سے مقصود سنگساری سے ہلاکت ہے، روایات یا سنت رسول سے ثابت ہے ؟
یا دشمنان اسلام نے اس کو مسلمانوںکی کتب میں شامل کیا ؟
قرآن حکیم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
24:2 [ARABIC]الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِين[/ARABIC]
ترجمہ:-بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو (سو) کوڑے مارو اور تمہیں ان دونوں پر (دین کے حکم کے اجراء) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک) جماعت موجود ہو
جبکہ اسی آیت کی تفسیر، تفسیر ابن کثیر میں کچھ اس طرحملتی ہے ۔
تفسیر ابن کثیر صفحہ 580 --- 1301–1373 -- تصویر کا لنک
"چنانچہ موطا مالک میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ لوگو اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ پر اپنی کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب اللہ میں رجم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کیا، یاد کیا ، اس پر عمل بھی کیا ۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ (صلعم) کے بعد رجم کیا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ خدا کے اس فریضے کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا، چھوڑ کر گمراہ ہوجائیں۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے۔"
میرا تبصرہ
اس اقتباس کو بار بار پڑھئیے اور سوچئیے کہ کیا نیلے رنگ کے حصہ اور اس سے متعلق حصہ درست ہے؟
جناب ابن کثیر کا دور ہے 1301 سے 1373 تک
700 سال بعد لکھی جانے والی اس کتاب میں یہ کہا جارہا ہے کہ:
1۔ قرآن میں رجم کی آیت تھی جو اب اس میں سے ضائع ہوگئی۔ (نعوذباللہ)
2۔ اللہ تعالی اپنی کتاب قرآنحکیم کی حفاظت نہیں کرپایا - (نعوذباللہ)
3۔ 1400 سال کے لگ بھگ تمام حفاظ جس قرآن کو یاد کرتے رہے ، ایک ایک نقطے اور زیر زبر کی حفاظت کرتے رہے وہ درست نہیں ۔ (نعوذباللہ)
4۔ لہذا قرآن میں ترمیم کی ضرورت ہے کہ اس آیت کو شامل کیا جائے (نعوذ باللہ)
5۔ ایسی غلط بیانی کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ (جن سے اللہ راضی ہوا) سے منسوب کیا جارہا ہے۔
6۔ پھر کہا جاتا ہے کہ یہ وحی متلو ہے۔ جبکہ اس روایت یہ الفاظ رسول اللہ کی زبان مبارک سے ادا ہی نہیں ہورہے (نعوذباللہ)
کیا آپ خلاف قرآن اس روایت کو درست ماننے کو تیار ہیں ، کیا ابن کثیر جیسا جید عالم ، ایسے الزامات بناء سوچے سمجھے عائد کرسکتا ہے؟
کہ قرآن غٍیر محفوظ ہے (نعوذ باللہ) اور اللہ تعالی پر بہتان عظیم کہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت نہیں کرسکا (نعوذباللہ)
دشمنان اسلام کی ملاوٹ کردہ خلاف قرآن روایات میں اس قدر جھوٹ موجود ہے کہ ایک عام قاری اس کو فوراً پکڑ سکتا ہے۔ ایسی روایات قرآن کریم کی کسوٹی پر پوری اترتی ہی نہیںہیں۔
[ARABIC]15:9 إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[/ARABIC]
بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے
دشمناں اسلام کا شامل کردہ جھوٹ مسلمان اللہ کی کتاب کی مدد سے نکال پھینکیں گے ۔ انشاءاللہ تعالی ۔
والسلام