سزائے رجم، پتھر مار کر ہلاک کرنے کی حقیقت

احبابو و صاحبو، سلام۔

زنا کی سزا روایات میں سنگساری بیان ہوئی ہے۔ اس دھاگہ کا مقصد ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ آیا کہ یہ سزا کسی طور بھی قرآن سے ثابت ہے یا نہیں۔ کیا یہ سزا جو کہ رجم کہلاتی ہے جس سے مقصود سنگساری سے ہلاکت ہے، روایات یا سنت رسول سے ثابت ہے ؟

یا دشمنان اسلام نے اس کو مسلمانوں‌کی کتب میں شامل کیا ؟

قرآن حکیم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
24:2 [ARABIC]الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِين[/ARABIC]
ترجمہ:-بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو (سو) کوڑے مارو اور تمہیں ان دونوں پر (دین کے حکم کے اجراء) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک) جماعت موجود ہو



جبکہ اسی آیت کی تفسیر، تفسیر ابن کثیر میں کچھ اس طرح‌ملتی ہے ۔

تفسیر ابن کثیر صفحہ 580 --- 1301–1373 -- تصویر کا لنک

"چنانچہ موطا مالک میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ لوگو اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ پر اپنی کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب اللہ میں رجم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کیا، یاد کیا ، اس پر عمل بھی کیا ۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ (صلعم) کے بعد رجم کیا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ خدا کے اس فریضے کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا، چھوڑ کر گمراہ ہوجائیں۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے۔"



میرا تبصرہ

اس اقتباس کو بار بار پڑھئیے اور سوچئیے کہ کیا نیلے رنگ کے حصہ اور اس سے متعلق حصہ درست ہے؟

جناب ابن کثیر کا دور ہے 1301 سے 1373 تک
700 سال بعد لکھی جانے والی اس کتاب میں یہ کہا جارہا ہے کہ:

1۔ قرآن میں ‌رجم کی آیت تھی جو اب اس میں‌ سے ضائع ہوگئی۔ (نعوذ‌باللہ)‌
2۔ اللہ تعالی اپنی کتاب قرآن‌حکیم کی حفاظت نہیں کرپایا - (نعوذ‌باللہ)‌
3۔ 1400 سال کے لگ بھگ تمام حفاظ جس قرآن کو یاد کرتے رہے ، ایک ایک نقطے اور زیر زبر کی حفاظت کرتے رہے وہ درست نہیں ۔ (نعوذ‌باللہ)‌
4۔ لہذا قرآن میں ترمیم کی ضرورت ہے کہ اس آیت کو شامل کیا جائے (نعوذ باللہ)
5۔ ایسی غلط بیانی کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ (جن سے اللہ راضی ہوا)‌ سے منسوب کیا جارہا ہے۔
6۔ پھر کہا جاتا ہے کہ یہ وحی متلو ہے۔ جبکہ اس روایت یہ الفاظ رسول اللہ کی زبان مبارک سے ادا ہی نہیں ہورہے (نعوذ‌باللہ)


کیا آپ خلاف قرآن اس روایت کو درست ماننے کو تیار ہیں ، کیا ابن کثیر جیسا جید عالم ، ایسے الزامات بناء سوچے سمجھے عائد کرسکتا ہے؟
کہ قرآن غٍیر محفوظ ہے (‌نعوذ باللہ) اور اللہ تعالی پر بہتان عظیم کہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت نہیں کرسکا (‌نعوذ‌باللہ)

دشمنان اسلام کی ملاوٹ کردہ خلاف قرآن روایات میں اس قدر جھوٹ موجود ہے کہ ایک عام قاری اس کو فوراً پکڑ سکتا ہے۔ ایسی روایات قرآن کریم کی کسوٹی پر پوری اترتی ہی نہیں‌ہیں۔

[ARABIC]15:9 إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[/ARABIC]
بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے

دشمناں اسلام کا شامل کردہ جھوٹ مسلمان اللہ کی کتاب کی مدد سے نکال پھینکیں گے ۔ انشاء‌اللہ تعالی ۔


والسلام
 

دوست

محفلین
جناب عالی آپ نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی حوالے کو ماننا نہیں تو پیچھے بات ہی کیا رہ جاتی ہے؟
 

سویدا

محفلین
فاروق سرور صاحب اپنے اساتذہ یعنی غامدی ، اصلاحی اور فراہی صاحبان کے چینل سے گفتگو فرمارہے ہیں‌اور بالترتیب یہ تینوں‌حضرات اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں‌جو حدیث کو حجت
نہیں‌مانتا تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمایے غامدی اور انکار حدیث
اور ان کے سارے دلائل کا ماخذمعروف ومشہور منکر حدیث غلام احمد پرویز کی کتابیں‌ہیں‌اور یہ ان ہی کے نقش قدم پرہیں‌
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم
میں ذاتی طور پر اس چیز کو بہتر خیال کرتا ہوں کہ ہم کسی موضوع پر تفصیلی گفتگو سے قبل کچھ اصول و ضوابط قائم کر لیں۔ پچھلے کئی مواقع پر ایسا نہ ہونے کے سبب خاصی افراتفری ہوئی ہے۔ لہذا گذشتہ تجربات سے سبق لینا ہم سب کے لیے مفید ہی ثابت ہوگا ان شاءاللہ

میں ذیل میں کچھ نکات لکھ رہا ہوں۔
فاروق بھائی اور دیگر صاحبان ! آپ چاہیں تو ان میں رد و بدل و اضافہ کر سکتے ہیں۔

1: قرآنی آیت کے ترجمہ و تفہیم میں اگر باحثین کے درمیان کسی قسم کا اختلاف واقع ہو جائے تو خود کی ذاتی "تشریح" کی پیشکشی کے بجائے بہتر ہوگا کہ اس میدان (ترجمہ مع تفسیر) کے ماہرین کی آراء سے استفادہ کیا جائے۔

2: احادیث چونکہ عربی زبان میں اصل (اوریجنل) ہوتی ہیں لہذا جہاں تک ممکن ہو اصل عربی متن کو پیش کئے جانے کا لزوم ضروری ہے۔

3: احادیث کے موضوع (topic) یا متن سے اختلاف عین ممکن ہے۔ لیکن اپنا اختلاف ظاہر کرنے کے لیے یہ دعویٰ ضروری نہیں ہے کہ :
یہ احادیث ائمہ حدیث کے نام پر گھڑی گئی ہیں یا ان کی کتب میں بعد میں شرپسندوں نے داخل کر دی ہیں۔
اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے بھی تو لازم ہے کہ وہی اس کا ٹھوس ثبوت فراہم کرے۔

4: بےشک! کتب احادیث پر ایمان لانے کے لیے کوئی بھی اصرار نہیں کرتا لیکن ۔۔۔ صحیح احادیث کے ٹاپک (موضوع) یا متن سے اختلاف کے ثبوت کے طور پر آیت/آیاتِ ربانی یا ترجمہِ آیت/آیات کی پیشکشی قابل قبول نہیں ہوگی۔ آیاتِ ربانی کو صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) تابعین عظام (رحمہم اللہ) ، مفسرین کرام (رحمہم اللہ) نے ہم سے بہتر طور سمجھا ہوتا ہے لہذا اپنے اختلاف کی دلیل میں انہی کی تفہیم اور تحقیق حوالوں کے ساتھ دیا جانا انصاف کا قرینہ ہے۔ اور احادیث کو یا ان کے متن کو غلط ثابت کرنے کے لیے علمِ حدیث کے ماہرین ہی کا فیصلہ آخری سمجھا جانا چاہئے۔

5: لاریب ! قرآن عظیم ہے ، حرفِ آخر ہے ، کلامِ برحق ہے۔ اس کے ایک بھی لفظ یا حرف سے کوئی مسلمان اختلاف کی بات تک سوچ نہیں سکتا۔ جو بھی اختلاف ہوتا ہے وہ دراصل کلامِ ربانی کی ترجمانی یا تفہیم میں ہوتا ہے جو کہ ایک ثابت شدہ حقیقت بھی ہے۔ لہذا اپنی بات میں وزن لانے کے لئے فریق مخالف پر "قرآن سے فرار" کا الزام نہیں دھرنا چاہئے۔
 

باذوق

محفلین
اس سلسلے میں میرے پاس ایک مفصل مضمون موجود ہے ۔ جو کہ ہمارے ایک دوست نے بڑی عرق ریزی کے بعد مرتب کیا ہے ۔ آئمہ کرام اور دورِ حاضر کے تمام علماء کا نکتہ نظر اور ان کے استدلال کو سامنے رکھ قرآن کی زنا اور رجم سے متعلق آیاتوں پر مفصل بحث کی ہے ۔ ان کے اس مضمون سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ مگر آئمہ کرام کے مختلف فتوؤں اور نکتہ نظر کا جس باریکی سے انہوں نے قرآن کی آیاتوں سے موازانہ کیا ہے ۔ وہ قابل تعریف ہے ۔ باقی سب کا اپنا اپنا نکتہ نظر ہے ۔ والسلام
بھائی۔ میرا ناقص مشورہ ہے کہ آپ اس مفصل مضمون (جو کہ یقیناً ایک تحقیقی مقالے کے طور پر ہوگا) کو الگ تھریڈ کے طور پر لگائیں۔ اس کی اہمیت ایک علیحدہ مقالے کی حیثیت سے برقرار رہے گی اور بعد میں کبھی حوالہ دینے کے طور پر بھی مضمون کام آ سکے گا۔
 

باذوق

محفلین
فاروق سرور صاحب اپنے اساتذہ یعنی غامدی ، اصلاحی اور فراہی صاحبان کے چینل سے گفتگو فرمارہے ہیں‌اور بالترتیب یہ تینوں‌حضرات اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں‌جو حدیث کو حجت
نہیں‌مانتا تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمایے غامدی اور انکار حدیث
اور ان کے سارے دلائل کا ماخذمعروف ومشہور منکر حدیث غلام احمد پرویز کی کتابیں‌ہیں‌اور یہ ان ہی کے نقش قدم پرہیں‌
مولانا امین اصلاحی صاحب (علیہ الرحمۃ) کے بعض افکار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور عموماً یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے کچھ افکار سے "انکارِ حدیث نظریہ" کو فروغ حاصل ہوا ہے۔
لیکن جہاں تک مجھے علم ہے عرب و عجم کے کسی ایک بھی عالم دین نے اصلاحی صاحب کو اس گروہ سے قطعاً وابستہ نہیں بتایا جو حدیث کو حجت نہیں مانتا۔ اصلاحی صاحب کی بہت سی کتب سے صاف وضاحت ہوتی ہے کہ وہ حدیث کو حجت مانتے تھے۔

ایک گذارش یہ بھی ہے کہ براہ مہربانی شخصیات پر انگلی اٹھانے سے احتراز کیا جائے۔ شکریہ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میری بھی باقی ناظمین سے درخواست ہے کہ ان فورمز میں ایسے مراسلات کو منظور نہ کریں جو موضوع سے متعلق نہ ہوں اور انہیں فوری طور پر حذف کر دیں۔ جو دوست مثبت انداز میں کسی موضوع پر معلومات میں اضافہ نہیں کر سکتے ہیں انہیں ان موضوعات سے دور رہنا چاہیے۔
 

سویدا

محفلین
بہتر ہوگا کہ منتظمین محفل اس سلسلے میں اصول مقرر کردیں جو مراسلہ ان اصولوں‌پر پورا اترے ان کو شامل کیا جائے ورنہ حذف کردیا جائے
باذوق صاحب نے اس سلسلے میں‌جو تجاویز پیش کی ہیں بہت اچھی ہیں‌
 
السلام علیکم۔
میں یہ بات قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میں‌نے پرویز یا غامدی صاحب کی ایک بھی کتاب نہیں‌ پڑھی۔ غامدی صاحب کا ایک لیکچر یو ٹیوب پر دیکھا تھا جو کہ مسیح کے بارے میں تھا جو ایک فورم پر پوسٹ ہوا تھا۔ امین اصلاحی کا نام پہلی مرتبہ یہاں سنا ہے۔

گو کہ ذاتیات سے پرہیز ضروری ہے ، لیکن برادران یقیناً یہ جاننا ہیں گے کہ میری تعلیم کی بنیاد کیا ہے تو وہ ہے قرآن مجید۔ اس ضمن مٰں مختصراً یہ کام کئے ہیں۔
1۔ قرآن کی ہر آیت کو تنزیل ڈاٹ آرگ سے لے کر ایک سعودی میڈیا سرور سے منسلک کیا کہ ہر آیت درست جگہ پر لگتی ہے۔
2۔ قرآن کی 23 عدد تراجم لے کر ہر ترجمہ کے ساتھ، ہر آیت کو ساتھ ساتھ پڑھا کہ عربی اور اردو یا عربی اور انگریزی کی آیات ملتی ہیں۔ یہ عمل فی ترجمہ ایک سے زائید بار دہرایا۔ اس میں سے ایک ترجمے میں اس فورم سے محب، شمشاد، نبیل، الف عین اور کئی دوسرے افراد نے بھی ساتھ دیا۔ ان لوگوں کو اس کام کا اندازہ ہے کہ یہ ایک مشقت طلب کا ہے لیکن اس کا انعام قرآن شریف کی معنوں کے ساتھ تعلیم ہے۔
3۔ قرآن کے 97 فی صدالفاظ کو لے کر ان کا مصدر معلوم کیا تاکہ ایک مصدر کے الفاظ کی مدد سے ایک مضمون کی آیات کو ڈھونڈا جاسکے۔ اور کسی بھی لفظ کو قرآن نے کس معنوں میں استعمال کیا ہے وہ دیکھا جاسکے۔
4۔ قرآن کے 84 فی صد الفاظ کے انگریزی معانی ڈکشنری سے دیکھ کر لگائے
5۔ قرآن کے ہر لفظ کی گرامر اور کمپوزیشن کیا ہے، اس کا ٹینس کیا ہے ، اس کا زمانہ کیا ہے اور مرکب الفاظ کی تحلیل کس طرح کی جاتی ہے، اس پراجیکٹ پر اپنا حصہ ڈالا اور اس کی تکمیل میں مدد کی۔

یہ تمام کام آپ اوپن برہان پر دیکھ سکتے ہیں۔

یہاں میں کیا کرتا ہوں؟
میں صرف اور صرف موقع اور محل کے لحاظ سے حوالے فراہم کرتا ہوں کہ کسی موضوع پر میری معلومات میں‌ کونسی آیت ہے۔ اور اس آیت کو مزید کون سی آیات سپورٹ کرتی ہیں۔

احادیث: ماسوائے معدودے چند احادیث کے زیادہ تر احادیث قرآن کے مطابق و موافق ہیں اس لئے یہ فرمان نبوی اور سنت نبوی شمار ہوتی ہیں۔ اس میں مجھے کوئی شبہ نہیں، میں ایسی کئی احادیث نبوی پر باذوق صاحب کا شکریہ ادا کرچکا ہوں۔ البتہ تھوڑی سی روایات ایسی ہیں جو قرآن کی آیات کی ( میرے خیال میں تکفیر کرتی ہیں) ۔ اس کی مثال اس طرح‌ لیجئے کہ باذوق صاحب سجدہ تعظیمی کے ضمن میں جو روایات بطور احادیث پیش کرچکے ہیں ان پر باذوق صاحب سے میرا اتفاق ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں اور تصدیق کریں گے۔ لیکن بہت سے معاملات پر باذوق اور میں کئی بار اختلاف کرچکے ہیں۔ اختلافات ، عزت میں کمی کی بنیاد نہیں ہوتے۔

یہاں معاملہ صرف اور صرف سزائے رجم کا ہے۔ ہماری آپ کی ذات کا نہیں۔ اگر آپ کی اور ہماری اس موضوع پر بحث سے کوئی مثبت نتیجہ سامنے آتا ہے تو سب کو اس کا فائیدہ ہوگا۔ اس بحث کا مقصد معلومات میں اضافہ ، سوچنے کا مناسب مواد فراہم کرنا اور اس کی مدد سے عقائد کی درستگی ہے۔ لہذا صرف اسی مسئلے پر اپنی توجہ رکھئے۔ شکریہ ادا کرکے تائید کیجئے اور عقلی دلائیل و ثبوت یا ایمانی دلیل و ثبوت عطا فرما کر تنقید کیجئے ۔ اس طرح سب کی معلومات میں اضافہ فرمائیے۔

اگر کسی وجہ سے آپ کو شرکاء کا کوئی بھی حوالہ غلط یا معانی غلط لگتے ہیں تو اس کو نمایاں کیجئے۔ ہمارا مقصد یہاں‌تحقیر و نفرت نہیں ہے، درستگی اور خیلات کو وسعت دینا ہے۔ میرے دل میں آپ سب کی محبت اور عزت ہے۔ اختلاف اس عزت و محبت کو کم نہیں کرسکتا۔ اگر ہم کسی مناسب فورم پر بات نہیں کریں گے تو پھر کہاں‌ اختلاف کریں گے؟ ممکن ہے کہ اس کا کوئی نتیجہ آج نہ نکلے لیکن یقین کیجئے کہ آج کی معلومات، کل ہمارے لئے مشعل راہ ہونگی۔

والسلام
 
السلام علیکم
میں ذاتی طور پر اس چیز کو بہتر خیال کرتا ہوں کہ ہم کسی موضوع پر تفصیلی گفتگو سے قبل کچھ اصول و ضوابط قائم کر لیں۔4: بےشک! کتب احادیث پر ایمان لانے کے لیے کوئی بھی اصرار نہیں کرتا لیکن ۔۔۔ صحیح احادیث کے ٹاپک (موضوع) یا متن سے اختلاف کے ثبوت کے طور پر آیت/آیاتِ ربانی یا ترجمہِ آیت/آیات کی پیشکشی قابل قبول نہیں ہوگی۔ آیاتِ ربانی کو صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) تابعین عظام (رحمہم اللہ) ، مفسرین کرام (رحمہم اللہ) نے ہم سے بہتر طور سمجھا ہوتا ہے لہذا اپنے اختلاف کی دلیل میں انہی کی تفہیم اور تحقیق حوالوں کے ساتھ دیا جانا انصاف کا قرینہ ہے۔ اور احادیث کو یا ان کے متن کو غلط ثابت کرنے کے لیے علمِ حدیث کے ماہرین ہی کا فیصلہ آخری سمجھا جانا چاہئے۔

بھائی بازوق،

صحیح احادیث کے ٹاپک (موضوع) یا متن سے اختلاف کے ثبوت کے طور پر آیت/آیاتِ ربانی یا ترجمہِ آیت/آیات کی پیشکشی قابل قبول نہیں ہوگی۔

اس اصول میں سرخ شدہ حصہ ہی سب سے مشکل حصہ ہے۔ قرآن حکیم مسلمان کے ایمان کے مطابق دو وجوہات سے سچ اور جھوٹ کی کسوٹی ہے ۔ پہلی وجہ : اللہ تعالی کا فرمان اور دوسری وجہ رسو؛ل اکرم صلعم کا فرمان۔

اگر کوئی معاملہ ، روایت، موضوع، لیجنڈ وغیرہ قرآن حکیم کی کسی آیت کی تکفیر کرتی ہے تو بھائی ہم اس پر ایمان کس طرح لاسکتے ہیں‌۔۔

میں نے یہ اصول تو بہت سی کتب میں دیکھا ہے ایک صحیح روایت خلاف قرآن ہوہی نہیں سکتی۔

اس اصول میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ یہ طے کرلیجئے تو پھر آگے بڑھتے ہیں۔

والسلام
 

ظفری

لائبریرین
ویسے غامدی صاحب نے تو ایک زمانے میں‌قرآن کے مقابلے میں‌نمونے کے طور پر کچھ آیات بھی بنائیں‌تھی اور اپنے تئیں‌وہ بہت فخر بھی کرتے تھے کہ میں‌بھی قرآن کی طرح‌آیات لکھ سکتا ہوں‌
یہ آیات ان کے عربی کے جریدے میں‌جو کسی زمانے وہ نکالاکرتےتھے شائع ہوئیں‌تھیں !
غامدی صاحب کی حقیقت سے اصل پردہ پروفیسر رفیق احمد چودھری صاحب نے اٹھایا ہے دو عدد کتابیں‌لکھ کر اور ان کتابوں‌میں‌علمی اور تحقیقی انداز سے غامدی صاحب کی کتابوں‌کے حوالو‌ں‌کے ساتھ
نشاندہی بھی کی ہے جہاں‌غامدی صاحب نے قرآن وسنت کے خلاف رائے اختیار کی ہے مولویوں کی کتابوں‌کی طرح‌اس کتاب میں الزام برائے الزام نہیں‌ہے بلکہ ٹھوس مواد علمی انداز کے ساتھ پیش کیا گیا ہے

میرا آپ سےگو کہ تعارف نہیں ہے ۔ مگر مجھے یاد پڑتا ہے کہ آپ کی اس اردو محفل پر آمد ہی غامدی‌صاحب کے خلاف ایک پوسٹ سے ہوئی تھی ۔ جس طرح آپ نے ان پر بے بنیاد الزام اس اقتباس میں دھرا ہے ۔ بلکل اسی طرح کا ایک الزام آپ نے ہم جنس پرستی پر Renaissance میگزین کے ایک شمارے کا حوالہ دیتے ہوئے دھرا تھا کہ یہ لوگ ہم جنس پرستی کو جائز سمجھتے ہیں ۔ دوست و احباب جب آپ کے دیئے ہوئے لنک پر گئے تو وہاں کوئی ایسا مواد نظر نہیں آیا ۔ جو آپ کے الزامات کو ثابت کرتا ۔ تقریباِ تمام لوگوں نے ہی آپ کی علمی قابلیت کا وہاں ماتم کیا تھا کہ اگر انگلش آپ کو سمجھ نہیں آتی تو کم از کم اس کا صحیح ترجمہ کروا کر اس مضمون کو سمجھنے کی کوشش کرتے ۔ اگر غلطی سے سمجھ آجاتا تو پھر شاید آپ کو اس طرح بے بنیاد الزام لگانے میں شاید کسی قسم کی شرم محسوس ہوتی ۔ ( آپ کی وہ پوسٹ آج بھی اردو محفل پر زینت بنی ہوئی ہے اور لوگ آج بھی اس سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ (
میں آپ کے منشاء کو پہلے ہی دن سمجھ چکا تھا اس لیئے آپ سے براہ راست گفتگو سے گریز کیا ۔ مگر آپ مسلسل غامدی صاحب اور دوسرے علماء پر جس طرح کیچڑ اچھال رہے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ غیر صحتمندانہ ذہن کے مالک ہیں - محترم باذوق صاحب کا غامدی صاحب اورمولانا اصلاحی صاحب سے نظریاتی اختلاف ہے ۔ مگر انہوں نے بھی آپ کو تنبیہ کی ہے کہ آپ کے نظریات اور عقائد خواہ کسی بھی قسم کے ہوں ۔ مگر کسی شخصیت پر انگلیاں اٹھانے سے گریز کریں ۔ اس قسم کی حرکتوں سےانسانی شخصیت کا وہ پہلو اجاگر ہوتا ہے ۔ جس کو اخلاق کہتے ہیں ۔ اور یہیں سے انسان کے اسلام کی سب سے بڑے پیغام پر عمل پیرا ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے ۔ اور یہ ثبوت آپ نے بڑی جانفشانی سے ادا کیا ہے ۔
میرا مقصد یہاں آپ سے الجھنا نہیں ہے ۔ مگر جو تہمت آپ نے ابھی اس اقتباس میں غامدی صاحب پر باندھی ہے ۔ اس کے ثبوت یہاں مہیا کریں کہ کس طرح غامدی صاحب نے قرآنی آیات کا اپنے تخلیق کردہ آیات سے موازنہ کیا ہے ۔ ثبوت اس طرح مہیا ہو کہ آپ کا الزام مکمل طور پر ثابت ہوجائے ۔ مجھے امید ہے یہاں بھی آپ کو Renaissance والے شمارے کی طرح منہ کی کھانی پڑی گی ۔ الزامات دھرنے کی بھی کوئی قواعد ہوتے ہیں ۔ کوئی حد ہوتی ہے ۔ یہاں تو ہر حوالہ نفرت اور کدورت کو ظاہر کررہا ہے ۔

انسان کا شرف ہی یہی ہے کہ وہ مختلف نکتہ نظر کے ساتھ ارادے اور فیصلے کی قوت کا حامل ہے ۔ مختلف رنگوں میں اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کی ہے ۔ مختلف قبائل اور زبانوں میں انسان کو تقسیم کیا ہے ۔ دنیا میں سارے گورے ہوتے یا سارے کالے ہوتے ، سارے ایک ہی زبان بولنے والے ہوتے اور حتی کے ایک ہی مخصوص سوچ رکھنے والے ہوتے تو اللہ تعالی کی بنائی ہوئی دنیا کا کیا مقصد رہ جاتا ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا بنائی ہی امتحان اور آزمائش کے لیئے ہے ۔ یہ تفرقات اسی لیئے رکھے ہیں کہ انسان کس طرح فیصلے کرتا ہے ۔ ہر کوئی اپنا نکتہ نظر اور سوچ کا زاویہ رکھتا ہے ۔ قرآن ایک ہے مگر اس کی ہزاروں تفصیریں موجود ہیں ۔ ایک ہی احکام پر آج کے غامدی‌صاحب کو تو چھوڑیئے ، آئمہ کرام میں سے بڑے جلیل و القدر علماء کرام کو ایک دوسرے سے اعتراض تھا ۔ کیونکہ یہی انسانی فہم کا حسن ہے کہ وہ کس طرح کس چیز کو سمجھتا ہے ۔ مگر اس نکتہ نظر پر کسی طرح تہمتیں لگانا ، الزامات اور فتوؤں کی گٹھری کھول دینا ۔ پتا نہیں کس ذہن کی عکاسی کرتا ہے ۔ چلیں کسی بات پر اعتراض ہے تو میدان میں آئیں ۔ اپنا استدلال اور دلائل پیش کریں ۔ اپنا نکتہ نظر پیش کریں ۔ جس کے دلائل قوی ہونگے ۔ لوگ خودبخود اس کی بات سمجھ جائیں گے ۔ کسی پر زبردستی اپنا نکتہ نظر ٹھوکنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ یہ کام تو اللہ تعالی نے اپنے لیئے بھی پسند نہیں کیا ۔ پیغمبروں اور نبیوں کے ذریعے ہدایت و تلقین کا راستہ متعین کیا ۔ اللہ نے خو د فرمایا کہ میں نے کسی نبی کو دوراغہ یا قاضی بنا کر نہیں بھیجا ہے ۔ یہ سب نبی ہے ، میرا پیغام پہنچانے والے ہیں ۔ میں نے انسان کو عقل و ارادہ دیا ہے ۔ جس کا دل چاہے گا حق کو مان لے گا ، کسی کا دل نہیں چاہے گا وہ حق کو نہیں مانے گا ۔ اس ضمن میں " دین پر کوئی جبر نہیں " والی آیات کا بھی اطلاق ہوتا ہے ۔ جو کام نبیوں اور پیغمبروں نے نہیں کیا ۔ پتا نہیں لوگ کس ڈھٹائی سے اسلام کے حوالے سے یہ کام انجام دے رہے ہیں ۔ وہ بھی بے سروپا اور بے بنیاد الزامات ۔ یعنی حد ہوگئی ۔
میں منتظمین سے گذارش کروں‌گا ۔ ایسے انتشار پھیلانے والوں کو متنبہ کیا جائے ورنہ یہاں پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ۔ یہ موصوف بھی کسی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہونگے سو ان پر بھی اس طرح کے الزامات کا آغاز ہوگیا تو سوچیئے ایک مثبت اور علمی بحث کا کیا انجام ہوگا ۔
اللہ ان لوگوں‌کو ہدایت دے ۔
 

باذوق

محفلین
احبابو و صاحبو، سلام۔

زنا کی سزا روایات میں سنگساری بیان ہوئی ہے۔ اس دھاگہ کا مقصد ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ آیا کہ یہ سزا کسی طور بھی قرآن سے ثابت ہے یا نہیں۔ کیا یہ سزا جو کہ رجم کہلاتی ہے جس سے مقصود سنگساری سے ہلاکت ہے، روایات یا سنت رسول سے ثابت ہے ؟

یا دشمنان اسلام نے اس کو مسلمانوں‌کی کتب میں شامل کیا ؟

قرآن حکیم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
24:2 [ARABIC]الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِين[/ARABIC]
ترجمہ:-بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو (سو) کوڑے مارو اور تمہیں ان دونوں پر (دین کے حکم کے اجراء) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک) جماعت موجود ہو



جبکہ اسی آیت کی تفسیر، تفسیر ابن کثیر میں کچھ اس طرح‌ملتی ہے ۔

تفسیر ابن کثیر صفحہ 580 --- 1301–1373 -- تصویر کا لنک


میرا تبصرہ

اس اقتباس کو بار بار پڑھئیے اور سوچئیے کہ کیا نیلے رنگ کے حصہ اور اس سے متعلق حصہ درست ہے؟

جناب ابن کثیر کا دور ہے 1301 سے 1373 تک
1000 سال بعد لکھی جانے والی اس کتاب میں یہ کہا جارہا ہے کہ:

1۔ قرآن میں ‌رجم کی آیت تھی جو اب اس میں‌ سے ضائع ہوگئی۔ (نعوذ‌باللہ)‌
2۔ اللہ تعالی اپنی کتاب قرآن‌حکیم کی حفاظت نہیں کرپایا - (نعوذ‌باللہ)‌
3۔ 1000 سال تک تمام حفاظ جس قرآن کو یاد کرتے رہے ، ایک ایک نقطے اور زیر زبر کی حفاظت کرتے رہے وہ درست نہیں ۔ (نعوذ‌باللہ)‌
4۔ لہذا قرآن میں ترمیم کی ضرورت ہے کہ اس آیت کو شامل کیا جائے (نعوذ باللہ)
5۔ ایسی غلط بیانی کو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ (جن سے اللہ راضی ہوا)‌ سے منسوب کیا جارہا ہے۔
6۔ پھر کہا جاتا ہے کہ یہ وحی متلو ہے۔ جبکہ اس روایت یہ الفاظ رسول اللہ کی زبان مبارک سے ادا ہی نہیں ہورہے (نعوذ‌باللہ)


کیا آپ خلاف قرآن اس روایت کو درست ماننے کو تیار ہیں ، کیا ابن کثیر جیسا جید عالم ، ایسے الزامات بناء سوچے سمجھے عائد کرسکتا ہے؟
کہ قرآن غٍیر محفوظ ہے (‌نعوذ باللہ) اور اللہ تعالی پر بہتان عظیم کہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت نہیں کرسکا (‌نعوذ‌باللہ)

دشمنان اسلام کی ملاوٹ کردہ خلاف قرآن روایات میں اس قدر جھوٹ موجود ہے کہ ایک عام قاری اس کو فوراً پکڑ سکتا ہے۔ ایسی روایات قرآن کریم کی کسوٹی پر پوری اترتی ہی نہیں‌ہیں۔

[ARABIC]15:9 إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[/ARABIC]
بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے

دشمناں اسلام کا شامل کردہ جھوٹ مسلمان اللہ کی کتاب کی مدد سے نکال پھینکیں گے ۔ انشاء‌اللہ تعالی ۔


والسلام
فاروق بھائی ! گمان اغلب ہے کہ آپ کی تحقیق میں کہیں کچھ کسر رہ گئی ہے، ورنہ آپ ایسا تبصرہ یقیناً نہ کرتے :
جناب ابن کثیر کا دور ہے 1301 سے 1373 تک
1000 سال بعد لکھی جانے والی اس کتاب میں یہ کہا جارہا ہے کہ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3۔ 1000 سال تک تمام حفاظ جس قرآن کو یاد کرتے رہے ، ایک ایک نقطے اور زیر زبر کی حفاظت کرتے رہے وہ درست نہیں ۔ (نعوذ‌باللہ)‌
آپ نے تفسیر ابن کثیر سے جس عبارت کا حوالہ دیا ہے ، وہ کچھ یوں ہے:
[ARABIC]كما قال الإمام مالك: ................................ أخرجاه في " الصحيحين " من حديث مالك مطولاً[/ARABIC]
اصل عربی تفسیر آن لائن لنک
یعنی امام ابن کثیر کہہ رہے ہیں کہ ۔۔۔۔
موطا مالک میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حدیث صحیحین میں اس سے ہی مطول ہے۔

اس وضاحت سے صاف ظاہر ہے کہ آپ نے جو امام ابن کثیر کا اقتباس لگایا ہے وہ امام صاحب کا نہ تو اپنا خیال ہے اور نہ ہی کسی نے ان کے سر تھوپا پے۔ بلکہ یہ روایت امام مالک نے اپنی کتاب حدیث "موطا مالک" میں مختصراً بیان کی ہے اور اسی روایت کو صحیح بخاری و صحیح مسلم میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

فاروق بھائی ! آپ نے پاک فورم پر ایک جگہ یوں لکھا تھا :
پھر آپ موطا امام مالک رضی اللہ تعالی عنہہ سے کوئی حدیث پیش کیجئے ، کہ جس سے عیسی علیہ السلام کے زندہ اٹھائے جانے کی خبر ملتی ہو۔ کہ یہ صاحب واحد عرب دان محدث ہیں اور ان کی کتاب باقی حدیث کی کتب سے پہلے لکھی گئی تھی۔
آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ اٹھائے جانے کے مسئلے پر تو موطا مالک سے دلیل طلب کر لی۔ لیکن رجم کے مسئلہ پر جب آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ ابن کثیر نے موطا سے ہی روایت پیش کی ہے تو پھر یہاں اس معاملہ میں 1000 سال کا الزام کیوں ؟؟
پھر معذرت کے ساتھ یہ بھی عرض ہے کہ یہ 1000 کا ہندسہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ کیونکہ امام ابن کثیر علیہ الرحمة کی پیدائش 700ھ کی اور وفات 774ھ کی ہے۔

موطا مالک تو 150ھ کے قریب کی ہے اور بخاری و مسلم 250ھ کے پاس کی۔
پھر یہی روایت ان 3 کتب کے علاوہ ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ اور سنن دارمی میں موجود ہے۔
مختلف کتب تفاسیر میں اس آیت (سورہ النور : 2) کے ضمن میں انہی روایات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
اگر کسی کا دعویٰ ہو کہ یہ روایات غلط ہیں تو پھر اپنے اس دعویٰ کو ثابت بھی کیا جانا چاہئے۔

6۔ پھر کہا جاتا ہے کہ یہ وحی متلو ہے۔ جبکہ اس روایت یہ الفاظ رسول اللہ کی زبان مبارک سے ادا ہی نہیں ہورہے (نعوذ‌باللہ)
محترم فاروق بھائی۔ بےشک۔ اس روایت میں یہ الفاظ کہ :
اس کتاب اللہ میں رجم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کیا، یاد کیا ، اس پر عمل بھی کیا ۔
رسول اللہ کی زبان مبارک سے ادا نہیں ہو رہے
مگر ایک دوسری حدیث میں یہی الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لسانِ مبارک سے ادا فرما رہے ہیں ۔۔۔۔ ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری سے :
اللہ کی قسم ! میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔۔۔ تیرے بیٹے (کنوارا لڑکا) کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور ۔۔۔ عورت (شادی شدہ) اگر زنا کا اعتراف کرے تو اسے رجم کر دو ۔
اصل عربی متن آن لائن لنک

یاد رہے کہ صرف بخاری ہی نہیں بلکہ یہ روایت درج ذیل کتب میں بھی موجود ہے :
صحیح مسلم ، مسند احمد ، موطا مالک ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، نسائی ، طبرانی کبیر ، مصنف عبدالرزاق ، بیھقی للکبریٰ ، مصنف ابن ابی شیبہ اور ان کے علاوہ تاریخ اور تفسیر کی مختلف کتب۔

آپ کے باقی نکات کا جواب ان شاءاللہ اگلے مراسلے میں سہی۔
ویسے میں نے بحث کے جو اصول اوپر بیان کئے ہیں ، ادب کے ساتھ عرض ہے کہ میری بحث انہی اصولوں کے دائرے میں رہ کر چلے گی ، ان شاءاللہ
 

آبی ٹوکول

محفلین
میرا خان صاحب سے فقط ایک ہی سوال ہے کہ وہ یہ بتلا دیں کہ آخر خلاف قرآن سے انکی مراد کیا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا عدم ذکر یا پھر آیا انکا (خان صاحب کا ) ذاتی فہم مراد ہے کہ جسے وہ خلاف قرآں سمجھیں ؟؟
 
پھر معذرت کے ساتھ یہ بھی عرض ہے کہ یہ 1000 کا ہندسہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ کیونکہ امام ابن کثیر علیہ الرحمة کی پیدائش 700ھ کی اور وفات 774ھ کی ہے۔
درست فرمایا آپ نے 1000 سال درست نہیں لگ بھگ 700 سال کا عرصہ بنتا ہے ۔ اس کو میں نے آپ کی آسانی کے لئے آپ کی خواہش کے مطابق کردیا ہے۔ کیوںکہ اس سے میرے نکتہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

دوسرا اقتباس:
"چنانچہ موطا مالک میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ لوگو اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ پر اپنی کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب اللہ میں رجم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کیا، یاد کیا ، اس پر عمل بھی کیا ۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ (صلعم) کے بعد رجم کیا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ خدا کے اس فریضے کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا، چھوڑ کر گمراہ ہوجائیں۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے۔"

میں نے موطا مالک کا تقاضا جہاں‌کیا تھا وہا، یہ فرق بتانا مقصود تھا کہ ایک پرانی کتاب روایات میں اور نئی کتاب راویت میں فرق ہے۔ وہ تقاضا اس معاملہ کے لئے تھا۔ میں کسی بھی کتب روایت کی ہر ہر روایت پر ایمان نہیں رکھتا۔ لہذا ایک کتاب میں ساری اسناد کے ساتھ پائی جانے والی روایت بھی اگر قرآن کے خلاف ہو تو وہ قابل قبول نہیں۔

آپ نے کسی موقع پر غلطی سے سمجھ لیا کہ میں ایک کتاب تسلیم کررہا ہوں اور ایک نہیں۔ ایسا نہیں ہے بھائی۔

یہاں پر اہمیت اس بات کی ہے کہ اس کتاب اللہ میں رجم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کیا، یاد کیا ، اس پر عمل بھی کیا ۔ ۔۔
اس سے قرآن حکیم کی ایک آیت درست نہیں رہتی جس میں اللہ تعالی وعدہ فرمارہے ہیں کہ وہ قرآن حکیم کی حفاظت فرمارہے ہیں۔ اس لئے کہ یہ آیت آج قرآنمیں موجود نہیں۔
اس موقع پر میں نے کہا کہ گویا پچھلے ہزار سال سے جن حفاظ نے قرآن حفظ کیا وہ سب غلط ہے؟؟؟؟؟؟ یہ کسی پوائنٹ ان ٹائم سے لے کر کسی دوسے پوائنٹ ان ٹائم کی عکاسی نہیں کرتا۔ بلکہ کسی بھی عرصہ پر اس کا اطلاق کرلیجئے ۔۔

اندازہ یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اصل روایات میں یہ معاملہ شامل کیا، وہ قرآن سے اچھی طرح واقف نہیں تھے۔ ایسا ہم نہ امام مالک کے لئے کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی ابن کثیر کے لئے۔ اس لئے لازمی ہے کہ ایسا معاملہ قرآن سے ناواقف لوگوں نے کسی ایسے وقت میں ان کتب میں داخل کیا جس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔

بہت شکریہ

والسلام
 

سویدا

محفلین
ظفری بھائی میں‌بہت ہی جاہل اور ان پڑھ قسم کا انسان ہوں‌آپ نے جو کچھ بھی میرے بارے میں‌لکھا ٹھیک لکھا !
ساحل کراچی سے ایک رسالہ شائع ہوتا ہے اس میں‌تفصیل سے غامدی صاحب کے بارے میں‌مضمون شائع ہوا تھا اور اسی رسالہ میں‌غامدی صاحب کے اس عربی رسالہ کے اس صفحہ کی فوٹو بھی تھی
جہاں‌غامدی صاحب نے قرآن کے مقابلے میں‌کچھ آیتیں بنائی تھیں‌۔میرے پاس وہ رسالہ موجود ہے جیسے ہی مل گیا میں‌اس کی کاپی آپ کے لیے یہاں‌محفل پر بھی مہیا کردوں‌گا !
 

ظفری

لائبریرین
ظفری بھائی میں‌بہت ہی جاہل اور ان پڑھ قسم کا انسان ہوں‌آپ نے جو کچھ بھی میرے بارے میں‌لکھا ٹھیک لکھا !
ساحل کراچی سے ایک رسالہ شائع ہوتا ہے اس میں‌تفصیل سے غامدی صاحب کے بارے میں‌مضمون شائع ہوا تھا اور اسی رسالہ میں‌غامدی صاحب کے اس عربی رسالہ کے اس صفحہ کی فوٹو بھی تھی
جہاں‌غامدی صاحب نے قرآن کے مقابلے میں‌کچھ آیتیں بنائی تھیں‌۔میرے پاس وہ رسالہ موجود ہے جیسے ہی مل گیا میں‌اس کی کاپی آپ کے لیے یہاں‌محفل پر بھی مہیا کردوں‌گا !

میرے بھائی ۔۔۔۔ آپ کے ا س مراسلے نے آپ کے الزام کو خود ہی شک و شہبات سے دوچار کردیا ہے ۔ آپ ایک ایسے رسالے کا حوالہ دے رہے ہیں جہاں غامدی صاحب کے عربی رسالے کا عکس تھا ۔ اور یہ الزام اسی رسالے کی معرفت ہے کہ غامدی صاحب نے قرآن کے مقابلے میں یہ آیات مرتب کیں ہیں ۔ یعنی وہاں یہ آیاتیں کوٹ ہوئیں ہیں ۔ اور اسی پر سارے مذکورہ مضمون کا انحصار ہے کہ غامدی صاحب نے یہ کام کیا ہے ۔ میں بھی اس طرح کا کوئی کام خود بھی کرکے اس کوقابلِ اعتراض بنا سکتا ہوں ۔ اور یہ کام ہوتے رہتے ہیں ۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ اصل رسالہ کہاں ہے ، وہاں کیا بات ہو رہی ہے ۔ اس کا سیاق و سباق کیا ہے ۔ مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس الزام کا اصل منبع جو کہ غامدی صاحب کا عربی رسالہ ہے ۔ اس کا آپ کو قطعی علم نہیں ہے ۔ اور نہ ہی آپ نے یہ الزام دھرتے وقت خود سے تحقیق کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ میں اس مضمون کا اعتراض دیکھ اور پڑھ چکا ۔ اب ذرا اصل رسالے کے بارے میں تحقیق کروں کہ وہاں کیا واقعی ایسا ہے ، جیسا کہ اس مضمون میں بیان کیا گیا ہے ۔
مگر اس سے بھی زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آپ اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ میں وہ مضمون پیش کروں گا جہاں یہ الزام عائد ہے ۔ جبکہ آپ کو اصل رسالہ پیش کرنے کا اعادہ کرنا چاہیئے تھا کہ جہاں غامدی صاحب نے یہ کام کیا ہے ۔
معذرت کے ساتھ ۔۔۔۔ مجھے تو یہ الزام غامدی صاحب کے انگلش رسالے والے آپ کے اُس الزام کی مانند لگ رہا ہے ۔ جہاں آپ کا سارا بہتان ہی سراسر غلط تھا ۔
 

ساجد

محفلین
غامدی صاحب کو میں نے بھی سنا ہے اور کہیں یہ نہیں محسوس ہوا کہ وہ قرآن و حدیث کو جھٹلاتے ہیں۔ دیگر علماء کی طرح ان کے طریقہ استدلال پہ اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان پر الزام لگانا مناسب نہیں۔
میرا خیال ہے اب فواد اور ظفری دونوں برادران اس موضوع سے باہر نکل آئیں تو بہتر ہے۔
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
بھائیو ، اس موضوع پر فاروق سرور صاحب کے ساتھ میری گفتگو """ یہاں """ ہو رہی ہے ،
اگر آپ صاحبان اس سے استفادہ کرنا چاہیں تو ان شا اللہ خیر ہو گی ، اور شاید کافی وقت بچ جائے گا ،
بھائی با ذوق کی طرف سے یہاں مراسلہ رقم چار میں پیش کردہ تجاویز بہت مناسب ہیں ،
اور بھائی عابد عنایت صاحب نے جو سوال فاروق سرور صاحب سے کیا ہے وہ سوال کچھ مختلف انداز میں میں بھی ایک لمبے عرصے سے کر رہوں اور یہ ایک بنیادی سوال ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ فاروق صاحب کے دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے سوال ہے :::
""""" فاروق سرور صاحب آپ اپنے """ خلاف قران """ فلسفے کی ایک اسی تعریف بتا دیجیے جس کی آپ نے خود کبھی مخالفت نہ کی ہو اور نہ ہی کبھی کریں ؟؟؟ """"""
اس تعریف کو سامنے رکھ کر فاروق سرور صاحب سے بات کرنا ان شا اللہ سب کے لیے بہتر ہو گا ،
اور اگر ان کی طرف سے ایسی کوئی تعریف بیان نہیں ہوتی تو پھر ساری گفتگو یوں ہی ادھر ادھر گھماؕی جاتی رہے گی ، جیسا کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے فاروق صاحب کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو کے دروان سامنے آیا ہے ، گو کہ وہ گفتگو یہاں اردو محفل میں نہیں ،
اگر آپ بھائیوں میں سے کوئی اس گفتگو کو پڑھنا پسند کرے تو مندرجہ ذیل لنکس پر پڑھ سکتا ہے
""" درندگی """"

صومالیہ:شریعت عدالت کے حکم پر48سالہ شخص کو سنگسار کردیا گیا

قران کی حفاظت


کیا قران و حدیث لازم و ملزوم ہیں ؟

::: آخرت کی فِکر :
:: آخرت کے دوسرے مرحلے """ برزخ """ کی پہلی منزل ::: قبر


مزید موضوعات اور مقامات گفتگو ان روابط میں سے ہی مل سکتے ہیں ،
اگر یہ روابط دینا اردو محفل کی انتظامیہ کو قبول نہ ہو تو بے شک میرے مراسلے میں سے ان کو ختم کر دیا جائے ،
و السلام علیکم۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ عادل۔ کم از کم مجھے ان روابط کو یہاں پیش کرنےسے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کافی 'چشم کشا' حقائق سامنے آ رہے ہیں ان روابط سے۔ ایسے کچھ اور روابط ملیں تو انہیں بھی بے شک یہاں پیش کر دیں۔
 

dxbgraphics

محفلین
شکریہ عادل۔
فاروق سرور صاحب کے اور آپ کے تمام مراسلےپڑھے۔ آپ نے ان سے مطالبہ کیا کہ ایسی حدیث دکھائیں جو کہ خلاف قرآن ہو اور وہ بات کو آئیں بائیں شائیں کر کےکہیں اور کی بات شروع کر دیتے۔

قرآن کی تشریح سمجھنے کے لئے ہمیں احادیث ہی کی رہنمائی لینی پڑتی ہے۔
قرآن میں بار بار نماز کا ذکر ہوا۔ لیکن نماز کیسے پڑھی جائے اس کے لئے حدیث نے ہمیں سکھایا کہ نماز کیسی پڑھی جائے۔
 
Top