السلام علیکم،
خلاف قرآن کے بارے میں جواب میں اسی مراسلہ میں پہلے دے چکا ہوں۔
یہاں دیکھئے
اس کا ماحصل یہاں دہرا رہا ہوں۔۔ پڑھنے کی زحمت کیجئے اور بار بار ایک ہی سوال نہ دہرائیے۔
درج ذیل آیت کے مطابق۔ نبی اکرم نے صرف اس کی پیروی کی جو ان پر وحی کیا گیا ۔ لہذا اگر ایک روایت ، قرآن کے احکامات اور اصولوں کے مخالف ہو تو وہ روایت قابل قبول نہیں۔
قرآن سے ثبوت:
سورۃ يون۔س:10 , آیت:15 [arabic]وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَ۔ذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ[/arabic]
اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس (قرآن) کے سوا کوئی اور قرآن لے آئیے یا اسے بدل دیجئے، (اے نبیِ مکرّم!) فرما دیں: مجھے حق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل
دوں، میں تو فقط جو میری طرف وحی کی جاتی ہے (اس کی) پیروی کرتا ہوں، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بیشک میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
رسول اللہ نے کوئی وحی چھپائی نہیں ، ساری کی ساری جلی ہے جو کہ قرآن حکیم میںمرقوم ہے۔ ایسا نہیں کہ کچھ وحی جو قرآن کے احکامات کی تنسیخ کرتی ہو وہ چھپا لی ہو۔ لہذا جو کچھ قرآن حکیم کے اصولوں اور احکامات کے مطابق ہے صرف وہ قابل قبول ہے۔
قرآن سے ثبوت:
سورۃ آل عمران:3 , آیت:161 [arabic]وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ[/arabic]
اور
کسی نبی کی نسبت یہ گمان ہی ممکن نہیں کہ وہ کچھ چھپائے گا، اور جو کوئی (کسی کا حق) چھپاتا ہے تو قیامت کے دن اسے وہ لانا پڑے گا جو اس نے چھپایا تھا، پھر ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے
کیا خلاف قرآن کو رد کردینے کی تعلیم رسول اللہ کی ہے یا میری؟ دیکھئے :
(ا) امام علی بن محمدالبزدوی الحنفی متوفی٢٨٤ھ
” فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی، فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔“
( اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔“
( مشہور کتاب ’اصولِ بزدوی‘،باب بیان قسم الانقطاع ص 175 ، میرمحمد کتب خانہ کراچی۔)
ایمان کا بہت ہی سادہ مفہوم ہے مان لینا اور یقین رکھنا۔ ایمان و ایقان اسی لئے ساتھ ساتھ بھی لکھا جاتا ہے۔۔ جیسے اللہ تعالی کا مان لینا، رسول اللہ صلعم کو اللہ کا رسول مان لینا، آخرت میں دوبارہ اٹھائے جانے کو مان لینا۔ مجھے ایسے بنیادی سوال کی توقع ایسے انسان سے نہیں تھی جو قرآن حکیم اور سنت رسول کے بارے میں صفحہ کے صفحہ سیاہ کرتا ہے ۔
آب آپ سے میرا سوال پھر ایک بار۔۔ جس کا جواب مجھے معلوم ہے کہ آپ کے پاس نہیں۔ نہ آپ کا ایمان ہے خلاف قرآن روایات پر اور نہ ہی آپ کے پاس ان کے درست ہونے کی کوئی دلیل ہے۔
آپ اپنا سارا کا سارا ارتکاز (فوکس) صرف اور صرف خلاف القرآن روایات پر رکھ لیجئے۔
کیا آپ کا خلاف قرآن روایات پر بھی ایمان ہے جن پر عموماً ہمارا اختلاف ہوتا ہے؟؟؟؟؟ اس ایمان کی وجہ۔
یا پھر
آپ کے پاس ان خلاف قرآن روایات کے درست ہونے کے لئے کوئی دلیل یا ثبوت موجود ہے۔ ؟؟؟؟
اس دھاگہ کو اور دھاگوں کی طرح ذاتیات کا دھاگہ آپ لوگوں نے بنایا ہے۔
آپ کے پاس مراسلہ نمبر 28 کا کوئی جواب نہیں ۔
آپ کے پاس مراسلہ نمبر 62 کے سوالات کا کوئی جواب نہیں
آپ کے پاس مراسلہ نمبر 63 کے سوالات کا کوئی جواب نہیں
آپ سے ایک بار پھر وہی سوالات ہیں:
آپ سے بہت ہی سادہ سوالات :
1۔ کتب روایات کی درستگی کا کیا معیار ہے؟ اللہ تعالی کا فرمان ، قرآن حکیم یا پھر بزرگوں (باپ دادوں) کی جمع کی ہوئی روایات؟
2۔ کیا کتب روایات کی ہر ہر روایت صحیح ہے؟ کیا ان کتب کی ہر روایت پر کو ماننا ہے --- چاہے وہ خلاف قرآن ہی کیوں نہ ہو۔ ؟؟؟؟؟
آپ صرف آخری دو سوالات کے جوابات عنایت فرمائے۔ تاکہ ہم جیسوںکی ہدایت کا سبب بنیں۔ آپ تو یہ ثابت کر ہی چکے ہیں کہ میں قرآن کی پیروی کرکے حق و صداقت سے دور ہوں۔ تو پھر آپ اپنا اصول کیوںنہیںپیش کرتے ۔۔۔ تاکہ سب کی بھلائی ہو۔
والسلام