بات سیدھی اور آسان ہے۔۔ ڈرائیونگ فی نفسہ اور خود سے کوئی برا کام نہیں ہے۔۔۔ اور نہ ہی اس کی حرمت پر کوئی دلیل ہے۔
لیکن اگر اس پر کوئی اور حرمت مترتب ہو جیسے شوہر کی اجازت کے بغیر سفر، حرام کام کے لیے سفر وغیرہ تو یہ کام مرد کی ڈرائیونگ پر بھی مترتب ہو سکتے ہیں۔
مرد حضرات بھی حرام کام کے لیے سفرکر سکتے ہیں۔۔۔ تو ڈرائیونگ حرام نہیں ہوگی۔۔۔ وہ کام حرام ہوگا جس کے لیے سفر کیا جا رہا ہے۔
لہذا خود ڈرائیونگ کو حرام کہنا اور بھی صرف عورت کے لیے مضحکہ خیز لگتا ہے۔
ایک سیدھی سی بات اور بھی ہے
ایک چھوٹے سے گھر میں والدین کیطرف سے کتنے ایسے جائز کام ہیں جو بذات خود جائز ہوتے ہیں لیکن بچوں کو ان سے سختی سے منع کردیا جاتا ہے ۔ اہل محلہ کسی کام کے نہ کرنے پر متفق ہو جاتے ہیں کسی خاص گاؤں یا شہروالے کسی کام پر پابندی لگا دیتے ہیں ۔ یہ سب پابندیاں ماننا ایک شریف النفس اور بہترین انسان کے لیے ہر کوئی ضروری سمجھتا ہے کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ خواہ مخواہ کی پابندیاں لگا رہے ہیں ۔
اسی طرح اگر کسی ملک میں رہنے والے علماء اور اس کے حکام اور اکثر عوام اگر کسی جائز کام کے نقصانات کی وجہ سے اس پابندی پر متفق ہو جائیں تو اس میں حرج کیا ہے ؟
ویسے بھی جب حلت و حرمت کی واضح نص موجود نہ ہو تو شریعت کی طرف سے کچھ بنیادی اصول سمجھائے گئے ہیں مثلا :
ما أدی إلی حرام فہو محرم اگر کوئی جائز کام حرام میں داخل ہونے کا سبب بن رہا ہو تو پھر اس جائز کو بھی حرام ہی سمجھا جائے گا ۔علماء اس کو سدا للزریعۃ بھی کہتے ہیں مثلا اللہ تعالی نے صرف بدکاری سے منع نہیں کیا بلکہ جو چیزیں بدکاری کا سبب بن سکتی ہیں ان سے بھی منع کیا اور فرمایا ولاتقربوا الزنی ۔ کہ اس فعل کو کرنا تو دور کی بات اس کے قریب بھی نہیں جانا ۔
اسی طرح کسی کام کے کرنے سےفائدہ بھی اور نقصان بھی ہو رہا ہو تو پھر اجتناب نقصان ، حصول نفع پر مقدم ہوتاہے ۔
درء المفاسد أولی من جلب المنافع آپ نے سن رکھا ہوگا ۔
جس ملک میں پابندی ہے کہنے کو وہاں ملوکیت ہے لیکن اس میں صرف پابندی ایسے ہی کسی کی خواہش پر نہیں لگادی گئی بلکہ پورے ملک کے معتبر علماء اور اہل حکومت و سیاست نے ایک طویل مشاورت کے بعد یہ اقدام کیا ہے ۔ اور اگر جمہوریت کی نگاہ سے بھی اس مسئلہ کو دیکھا جائے تو سعودیہ کی اکثریت اس پابندی پر نہ صرف متفق ہے بلکہ بہت مطمئن ہے ۔