کاشفی
محفلین
سعودی عرب میں گاڑی چلاتی دو خواتین پکڑی گئیں
سعودی عرب میں خواتین کے گاڑی چلانے کے حق کے لیے کوششیں کرنی والی خاتون کارکن کو دارالحکومت ریاض میں پولیس نے ڈرائیونگ کرنے سے روک دیا۔
ریاض: (آن لائن) عزیزہ یوسف نامی اس کارکن نے انٹرنیٹ پر کچھ تصاویر شائع کیں تھیں جن میں انہیں گاڑی چلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی یہ تصاویر ان کی ساتھی کارکن انعام النفجاں نے لیں تھیں۔ انعام النفجاں نے اپنے ٹوئٹر صفحے پر ان دونوں کے اس سفر کا حال بیان کیا تھا جس کے مطابق کسی نے بھی ان کے گاڑی چلانے پر حیرانی نہیں ظاہر کی تھی اور ان دونوں نے جا کر خریدو فروخت کی تھی۔ انہوں نے ایک تصویر لگائی جس میں یہ دونوں خواتین پٹرول پمپ پر اپنی گاڑی میں تیل ڈال رہی ہیں جیسے یہ روز مرہ کی بات ہو تاہم تھوڑی دیر بعد انہیں پولیس نے روکا اور عزیزہ یوسف نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انہیں ایک پولیس سٹیشن لے جایا گیا ۔ ان دونوں خواتین سے کہا گیا کہ وہ ایک حلف نامے پر دستخط کریں جس میں لکھا تھا کہ وہ آئندہ کھبی گاڑی نہیں چلائیں گی۔ انعام النفجاں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ ٹوئٹر پر انہوں نے لکھا تھا کہ اگر ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے مرد سرپرست کو بلائیں تو وہ کہیں گی کہ وہ اپنی سرپرست خود ہیں۔ تاہم ان کے سرپرست جیسے محرم کہا جاتا ہے کو ان کی مرضی کے بغیر بلایا گیا۔ اس کے بعد دونوں خواتین کو رہا کر دیا گیا۔ انعام النفجاں نے اپنی ساتھی کو بہادر ترین اور جرات مند ترین ڈرائیور قرار دیا۔ اس واقعے سے دو روز قبل ہی عزیزہ یوسف اور ایک اور کارکن ہالہ الدوستری نے وزیر داخلہ شہزادہ محمد بن نائف سے ملاقات بھی کی تھی۔ شہزادہ محمد بن نائف کو ملک کے طاقتور ترین افراد میں گنا جاتا ہے اور انہیں مستقبل کا ممنکہ بادشاہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ کارکنوں کا کہنا تھا کہ شہزادہ نائف کے ساتھ ملاقات مثبت رہی۔ اس ملاقات سے سعودی عرب میں فوری طور پر بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جا رہی تھی۔ سعودی عرب میں اصلاحات ایک آہستہ ہونے والا عمل ہے اور بہت سے لوگ خواتین کے گاڑی چلانے پر پابندی کی ہٹانے کے حق میں نہیں ہیں۔ خواتین کے گاڑی چلانے کے حق کے لیے سعودی عرب میں چند ماہ پہلے ایک مہم شروع کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں 26 اکتوبر کی تاریخ بطور خواتین کا دن رکھی گئی تھی جس روز سعودی مردوں کی مدد سے خواتین نے گاڑیاں لے کر سڑکوں پر آنا تھا۔ تاہم حکام نے واضح کیا تھا کہ وہ پابندی کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کو برداشت نہیں کریں گے۔ اس دن سے مہم نے 31 نومبر کی فرضی تاریخ کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ یہ مہم اپنے مقصد کے مکمل ہونے تک جاری رہے گی۔
سعودی عرب میں خواتین کے گاڑی چلانے کے حق کے لیے کوششیں کرنی والی خاتون کارکن کو دارالحکومت ریاض میں پولیس نے ڈرائیونگ کرنے سے روک دیا۔
ریاض: (آن لائن) عزیزہ یوسف نامی اس کارکن نے انٹرنیٹ پر کچھ تصاویر شائع کیں تھیں جن میں انہیں گاڑی چلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی یہ تصاویر ان کی ساتھی کارکن انعام النفجاں نے لیں تھیں۔ انعام النفجاں نے اپنے ٹوئٹر صفحے پر ان دونوں کے اس سفر کا حال بیان کیا تھا جس کے مطابق کسی نے بھی ان کے گاڑی چلانے پر حیرانی نہیں ظاہر کی تھی اور ان دونوں نے جا کر خریدو فروخت کی تھی۔ انہوں نے ایک تصویر لگائی جس میں یہ دونوں خواتین پٹرول پمپ پر اپنی گاڑی میں تیل ڈال رہی ہیں جیسے یہ روز مرہ کی بات ہو تاہم تھوڑی دیر بعد انہیں پولیس نے روکا اور عزیزہ یوسف نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انہیں ایک پولیس سٹیشن لے جایا گیا ۔ ان دونوں خواتین سے کہا گیا کہ وہ ایک حلف نامے پر دستخط کریں جس میں لکھا تھا کہ وہ آئندہ کھبی گاڑی نہیں چلائیں گی۔ انعام النفجاں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ ٹوئٹر پر انہوں نے لکھا تھا کہ اگر ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے مرد سرپرست کو بلائیں تو وہ کہیں گی کہ وہ اپنی سرپرست خود ہیں۔ تاہم ان کے سرپرست جیسے محرم کہا جاتا ہے کو ان کی مرضی کے بغیر بلایا گیا۔ اس کے بعد دونوں خواتین کو رہا کر دیا گیا۔ انعام النفجاں نے اپنی ساتھی کو بہادر ترین اور جرات مند ترین ڈرائیور قرار دیا۔ اس واقعے سے دو روز قبل ہی عزیزہ یوسف اور ایک اور کارکن ہالہ الدوستری نے وزیر داخلہ شہزادہ محمد بن نائف سے ملاقات بھی کی تھی۔ شہزادہ محمد بن نائف کو ملک کے طاقتور ترین افراد میں گنا جاتا ہے اور انہیں مستقبل کا ممنکہ بادشاہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ کارکنوں کا کہنا تھا کہ شہزادہ نائف کے ساتھ ملاقات مثبت رہی۔ اس ملاقات سے سعودی عرب میں فوری طور پر بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جا رہی تھی۔ سعودی عرب میں اصلاحات ایک آہستہ ہونے والا عمل ہے اور بہت سے لوگ خواتین کے گاڑی چلانے پر پابندی کی ہٹانے کے حق میں نہیں ہیں۔ خواتین کے گاڑی چلانے کے حق کے لیے سعودی عرب میں چند ماہ پہلے ایک مہم شروع کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں 26 اکتوبر کی تاریخ بطور خواتین کا دن رکھی گئی تھی جس روز سعودی مردوں کی مدد سے خواتین نے گاڑیاں لے کر سڑکوں پر آنا تھا۔ تاہم حکام نے واضح کیا تھا کہ وہ پابندی کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کو برداشت نہیں کریں گے۔ اس دن سے مہم نے 31 نومبر کی فرضی تاریخ کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ یہ مہم اپنے مقصد کے مکمل ہونے تک جاری رہے گی۔