محمود احمد غزنوی
محفلین
تینوں سوالات کا جواب ہے۔۔۔نہیں۔کیا سعودیہ کا ”بادشاہی نظام“ اور پاکستان و ایران کا ”جمہوری نظام“ اسلام کے مطابق ہے؟ کیا اسلام کی یہ تعلیمات ہیں ؟
(سوالات برائے پُر مزاح ریٹنگ )
تینوں سوالات کا جواب ہے۔۔۔نہیں۔کیا سعودیہ کا ”بادشاہی نظام“ اور پاکستان و ایران کا ”جمہوری نظام“ اسلام کے مطابق ہے؟ کیا اسلام کی یہ تعلیمات ہیں ؟
(سوالات برائے پُر مزاح ریٹنگ )
"Why are they targeting the end-user here, the poor individual expat who had begged, borrowed and practically mortgaged his life and belongings to scrape up enough money to pay for a visa from some unscrupulous Saudi visa trader who is content to squeeze additional money from the hapless victim each year for simply allowing him to remain in the country? That in itself is a crime of the highest proportion, and those Saudis are the ones who should be rounded up and imprisoned. If the authorities want to stop the practice of fake sponsorship, then start by attacking the visa traders before anything else. They are the real criminals!"
Throwing out the baby with the bath water
یہ محض جذباتی سوچ ہے۔ غلطی کسی ایک طرف سے نہیں ہوتی ، ہاں کمی یا زیادتی کا معاملہ ضرور ہے۔ اور زیادتی خارجیوں کی نہیں بلکہ خود سعودی یا سعودی حکومت کی نظر آتی ہے۔ خارجیوں کے ہاتھ میں بھلا کیا ہے۔ بچارے تو زندگی بھر کی کمائی لٹا کر "ویزا" خرید کر یہاں آتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ویزا حکومت ہی جاری کرتی ہے کوئی سسرال والے نہیں۔ تو جس چیز کے اجرا پر حکومتی کنٹرول نہ ہو ، پہلے آپ اس کو درست کریں بعد میں مظلوموں کی غلطیوں کی طرف آئیں۔
قانونی / غیرقانونی کا بھی اچھا مذاق بنا رکھا ہے۔ جاب ہی تو کر رہا ہے ، کسی کا حق تھوڑی مار رہا ہے۔ اس کمپنی میں کرو یا اس میں ، پسینہ ٹپکا کر محنت تو کر رہا ہے ، کیا کسی پر ڈاکہ ڈال رہا ہے؟ 8 گھنٹے کی ڈیوٹی میں چار پانچ گھنٹے چائے پانی میں گزار رہا ہے؟
یہ بات مناسب ہےنامور سعودی صحافی طارق المینا نے بہترین تجزیہ پیش کیا ہے :
غلامی کی ایک شکل ہے سعودیہ کا یہ کفیل سسٹم۔۔۔ یہاں قدم قدم پر استحصال کیا جاتا ہے غریب الوطن مزدور کا۔
ڈیپنڈینٹ کے ویزے پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہ ویزا کام کرنے کے لیے نہیں ہے
اس کے باوجود اگر ڈیپنڈینٹ ہاوس وائف اسکول میں کام کرتی ہیں تو وہ غیرقانونی کام کررہی ہیں۔ اگر وہ قانونی کام کررہی ہیں تو پھر کیوں استعفیٰ دیا؟
حق مارنا ہی ہے۔ مثال یہ دوں کہ اگر میں اپنے بچے کی فیس 1000 ریال ماہانہ دے رہا ہوں تو اسکول کو چاہیے کہ وہ اپنی کفالت پر استاد بلائے۔ ظاہر ہے وہ اگر اپنی کفالت پر استاد بلائے گا تو زیادہ پیسے دینے پڑیں گے۔ پیسہ بچانے کے لیے وہ ڈیپنڈنٹ ویزے پر (جس پر لکھا ہوا ہے کہ یہ اقامہ کام کے لیے نہیں ہے) ہاوس وائف کو کم پیسہ پر رکھ لیتے ہیں جنھں پڑھانے کا کوئی تجربہ یا قابلیت بھی نہیں ہوتی۔ ہم پیسے بھی زیادہ دیتے ہیں اور کم تعلیمی قابلیت کی غیر تربیت یافتہ استاد ملتے ہیں۔ پھر یہ کام اسکول ہمیں بتا کر نہیں کرتے ورنہ ہم اس اسکول میں اپنے بچے داخل ہی نہ کروایں۔ یہ معاملہ سراسر خارجیوں کی غیر قانونی حرکتیں ہیں۔
ایسے ہی معاملات دوسرے پیشہ میں ہیں۔ غیر قانونی کام کرتے ہیں ہیں بلاشبہ اس میں مقامی کفیل بھی شامل ہیں۔
لیکن اتنا انت کوئی نہیں کرتا جتنا سعودی کفیلوں نے مچایا ہوا ہے۔ہر جگہ دنیا میں فارن ورکر خوار ہی ہوتا ہے
کہیں گرین کارڈ کے چکرمیں کہیں کسی اور چکر میں
اگر آپ کسی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر دریا میں دھکا دے دیں اور پھر اسے کہیں کہ تمہیں تو تیرنا ہی نہیں آتا۔۔کچھ ایسا ہی آپ کر رہے ہیں اس معاملے میں۔جب اپ کے اقامہ پر یہ لکھا ہوا ہے کہ اپ کام کرنے کے اہل نہیں تو اپ اگر کام کریں تو یہ غیر قانونی ہی ہوگا
جب ادمی نے ایک معائدہ کرلیا تواس کا پابند ہونا چاہیے۔ اگر نہیں پابند تو غیر قانونی۔
اس بات سے اتفاق کرنا ہی پڑے گا۔
اگر آپ کسی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر دریا میں دھکا دے دیں اور پھر اسے کہیں کہ تمہیں تو تیرنا ہی نہیں آتا۔۔کچھ ایسا ہی آپ کر رہے ہیں اس معاملے میں۔
جب پاکستان سے کوئی مزدور سعودیہ کیلئے جاتا ہے تو پہلے قدم پر ہی اسکے ساتھ بے اصولی کرلی جاتی ہے اور یہ سلسلہ دراز ہوتا ہی چلا جاتا ہے اور بیچارہ مزدور قدم قدم پر compromise کرتا ہے ۔ اسی کا نام استحصال ہے۔
شمشاد بھائی! ایسا دنیا بھر کی صحافت میں ہوتا ہے۔ پرنٹ ایڈیشن اور نیٹ ایڈیشن میں اکثر جگہ فرق ہوتا ہے۔ اس لئے کہ پرنٹ ایڈیشن کی ”ڈیڈ لائن“ کئی گھنٹے پہلے آجاتی ہے تاکہ اخبار چھاپنے اور سرکولیٹ کرنے کے لئے بھی مناسب وقت مل سکے۔ نیٹ ایڈیشن کو یہ ”وقت“ درکار نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ بالکل آخری لمحہ تک ”اپڈیٹ“ ہوکر ”پبلش“ ہوتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر اخبار کے ہر روز کا شمارہ میں یہ فرق موجود ہو۔ اس کا انحصار آخری گھنٹوں میں موصولہ خبروں پر ہوتا ہے۔
کیا سعودیہ کا ”بادشاہی نظام“ اور پاکستان و ایران کا ”جمہوری نظام“ اسلام کے مطابق ہے؟ کیا اسلام کی یہ تعلیمات ہیں ؟
پاکستان کا نظام سعودیہ سے زیادہ بھلے 'اسلامی' نہ ہو، لیکن یہ سعودیہ کے نظام سے زیادہ مترقی ضرور ہے۔ مثال کے طور پر سعودیہ میں عورتوں کو پارلیمان میں شرکت کی 'اجازت' رواں سال جنوری میں جا کر ملی ہے۔
لہذا پاکستان زندہ باد!
9 سال میں نے بھی سعودیہ میں گذارے ہیں اور بڑے قریب سے یہ استحصال ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔