یاز
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مستنصر حسین تارڑ نے اپنی کتاب یاک سرائے میں کرمبر جھیل کا سفرنامہ تحریر کیا ہے۔ اس میں لکھتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران گلگت میں اپنے گائیڈ یا میزبان کے پاس کرمبر کی تصویر دیکھی اور اس جھیل کے عشق میں ایسا گرفتار ہوئے کہ آخر اس کا ٹریک کر کے ہی دم لیا۔
بخدا ہم نے بھی انٹرنیٹ کے ایک پیج پہ کرمبر کی ایک تصویر ہی دیکھی تھی، جس نے چین و قرار لوٹ لیا۔
یہ تصویر لگ بھگ پندرہ سولہ سال قبل حسن ذکی نامی ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ایک ممبر نے لی تھی۔ آج بہت عرصے بعد اس تصویر کو دوبارہ دیکھا تو سچ یہ کہ زیادہ پرکشش نہیں لگی۔ وجہ شاید یہ کہ ان پندرہ سالوں میں دنیا روایتی کیمروں سے نکل کر ڈیجیٹل اور پھر ڈیجیٹل ایس ایل آر کیمروں کی جانب قدم بڑھا چکی ہے۔ تاہم اس وقت اس تصویر کو دیکھ کر کرمبر جانے کا مصمم ارادہ بن گیا تھا۔(ستم ظریفی یہ رہی کہ کافی بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ تصویر کرمبر جھیل کی تھی ہی نہیں، بلکہ اس کے نواح میں واقع کسی چھوٹی جھیل کی ہے۔ تاہم کرمبر اس سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت جھیل ہے)
پھر کچھ یوں ہوا کہ کچھ دوستوں کو راضی کیا۔ بہت سا ہوم ورک کیا۔ جس میں یاک سرائے کتاب کی خرید اور اس کا مطالعہ، تارڑ صاحب سے فون پہ بات چیت، حسن ذکی صاحب سے فون پہ معلومات کا حصول، انٹرنیٹ پہ بہت سی سرچ وغیرہ شامل ہے۔
تارڑ صاحب نے کرمبر کا ٹریک گلگت والی سائیڈ سے کیا تھا۔ وہ سائیڈ کم از کم ایک ہفتے کی ٹریکنگ پر مشتمل تھی۔ ہم نے اس کی بجائے چترال سائیڈ کے راستے کا انتخاب کیا کہ اس میں ٹریکنگ تقریباً 4 سے 5 دن پہ محیط ہوتی۔ چترال سے آگے مستوج نام کے ایک قصبے سے یارخون نامی وادی سے ہوتا ہوا یہ ٹریک بروغل کے راستے سے کرمبر پاس اور پھر کرمبر جھیل تک جاتا ہے۔ کرمبر جھیل کی سطح سمندر سے بلندی 4200 میٹر کے قریب ہے۔ مستوج سے کچھ آگے یہ ٹریک واخان کی پٹی کے کافی قریب سے گزرتا ہے۔اتنا قریب کہ کچھ لوگوں کے بقول وہ عمومی شاپنگ کے لئے تاجکستان بھی پیدل چلے جایا کرتے تھے کہ وہ چترال سے بہرحال نزدیک ہی پڑتا تھا۔
خیر اگست 2005 میں اس سفر کے لئے چل چلاؤ ہوا۔ تاہم شومئی قسمت یہ کہ اگست کے مہینے میں شدید بارشوں کے نتیجے میں ایک چھوٹا پل ٹوٹ جانے کی وجہ سے مستوج سے آگے جیپ ٹریک بند ہوا پڑا تھا۔ جس کی وجہ سے تقریباً 80 کلومیٹر کی ٹریکنگ اضافی کرنا پڑی۔ اسی اضافی ٹریکنگ کے دوران ہماری ٹانگ میں کچھ ایسا انفیکشن ہوا کہ ٹانگ کو ہلانا بھی مشکل ہو گیا۔ بروغل کے قریب مزید آگے جانا ناممکن محسوس ہونے لگا تو بڑی مشکل سے باقی پارٹی کو آگے جانے پہ راضی کیا۔ بس ایک دوست میرے ساتھ رک گیا۔ وہیں ایک جھونپڑی نما جگہ میں دو دن آرام کرنے کے بعد واپس چترال کی راہ لی اور مایوس و نامراد واپس لوٹے، جبکہ بقایا پارٹی نے اپنا ٹریک کامیابی سے مکمل کیا۔
اس ناکامی نے ایسا مایوس کیا کہ دل ہی ٹوٹ سا گیا۔ خیر کچھ عرصہ بعد ٹرپ کی تصاویر کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ جتنا ٹریک دیکھا تھا، وہ بھی ایسا برا نہیں تھا۔ یہ پہلا ٹرپ تھا جس میں ہم نے ڈیجیٹل کیمرہ استعمال کیا۔ کیمرے کے رزلٹ نے اس وقت خاصا حیران کیا تھا۔ انہی تصاویر میں سے کچھ منتخب تصاویر اس لڑی میں پیشِ خدمت ہیں۔
لیکن پہلے کرمبر جھیل کی انٹرنیٹ سے لی گئی ایک دو تصاویر۔ صرف جھیل کی دلکشی و سحرانگیزی کا اندازہ کرانے کے لئے۔
مستنصر حسین تارڑ نے اپنی کتاب یاک سرائے میں کرمبر جھیل کا سفرنامہ تحریر کیا ہے۔ اس میں لکھتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران گلگت میں اپنے گائیڈ یا میزبان کے پاس کرمبر کی تصویر دیکھی اور اس جھیل کے عشق میں ایسا گرفتار ہوئے کہ آخر اس کا ٹریک کر کے ہی دم لیا۔
بخدا ہم نے بھی انٹرنیٹ کے ایک پیج پہ کرمبر کی ایک تصویر ہی دیکھی تھی، جس نے چین و قرار لوٹ لیا۔
یہ تصویر لگ بھگ پندرہ سولہ سال قبل حسن ذکی نامی ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ایک ممبر نے لی تھی۔ آج بہت عرصے بعد اس تصویر کو دوبارہ دیکھا تو سچ یہ کہ زیادہ پرکشش نہیں لگی۔ وجہ شاید یہ کہ ان پندرہ سالوں میں دنیا روایتی کیمروں سے نکل کر ڈیجیٹل اور پھر ڈیجیٹل ایس ایل آر کیمروں کی جانب قدم بڑھا چکی ہے۔ تاہم اس وقت اس تصویر کو دیکھ کر کرمبر جانے کا مصمم ارادہ بن گیا تھا۔(ستم ظریفی یہ رہی کہ کافی بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ تصویر کرمبر جھیل کی تھی ہی نہیں، بلکہ اس کے نواح میں واقع کسی چھوٹی جھیل کی ہے۔ تاہم کرمبر اس سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت جھیل ہے)
پھر کچھ یوں ہوا کہ کچھ دوستوں کو راضی کیا۔ بہت سا ہوم ورک کیا۔ جس میں یاک سرائے کتاب کی خرید اور اس کا مطالعہ، تارڑ صاحب سے فون پہ بات چیت، حسن ذکی صاحب سے فون پہ معلومات کا حصول، انٹرنیٹ پہ بہت سی سرچ وغیرہ شامل ہے۔
تارڑ صاحب نے کرمبر کا ٹریک گلگت والی سائیڈ سے کیا تھا۔ وہ سائیڈ کم از کم ایک ہفتے کی ٹریکنگ پر مشتمل تھی۔ ہم نے اس کی بجائے چترال سائیڈ کے راستے کا انتخاب کیا کہ اس میں ٹریکنگ تقریباً 4 سے 5 دن پہ محیط ہوتی۔ چترال سے آگے مستوج نام کے ایک قصبے سے یارخون نامی وادی سے ہوتا ہوا یہ ٹریک بروغل کے راستے سے کرمبر پاس اور پھر کرمبر جھیل تک جاتا ہے۔ کرمبر جھیل کی سطح سمندر سے بلندی 4200 میٹر کے قریب ہے۔ مستوج سے کچھ آگے یہ ٹریک واخان کی پٹی کے کافی قریب سے گزرتا ہے۔اتنا قریب کہ کچھ لوگوں کے بقول وہ عمومی شاپنگ کے لئے تاجکستان بھی پیدل چلے جایا کرتے تھے کہ وہ چترال سے بہرحال نزدیک ہی پڑتا تھا۔
خیر اگست 2005 میں اس سفر کے لئے چل چلاؤ ہوا۔ تاہم شومئی قسمت یہ کہ اگست کے مہینے میں شدید بارشوں کے نتیجے میں ایک چھوٹا پل ٹوٹ جانے کی وجہ سے مستوج سے آگے جیپ ٹریک بند ہوا پڑا تھا۔ جس کی وجہ سے تقریباً 80 کلومیٹر کی ٹریکنگ اضافی کرنا پڑی۔ اسی اضافی ٹریکنگ کے دوران ہماری ٹانگ میں کچھ ایسا انفیکشن ہوا کہ ٹانگ کو ہلانا بھی مشکل ہو گیا۔ بروغل کے قریب مزید آگے جانا ناممکن محسوس ہونے لگا تو بڑی مشکل سے باقی پارٹی کو آگے جانے پہ راضی کیا۔ بس ایک دوست میرے ساتھ رک گیا۔ وہیں ایک جھونپڑی نما جگہ میں دو دن آرام کرنے کے بعد واپس چترال کی راہ لی اور مایوس و نامراد واپس لوٹے، جبکہ بقایا پارٹی نے اپنا ٹریک کامیابی سے مکمل کیا۔
اس ناکامی نے ایسا مایوس کیا کہ دل ہی ٹوٹ سا گیا۔ خیر کچھ عرصہ بعد ٹرپ کی تصاویر کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ جتنا ٹریک دیکھا تھا، وہ بھی ایسا برا نہیں تھا۔ یہ پہلا ٹرپ تھا جس میں ہم نے ڈیجیٹل کیمرہ استعمال کیا۔ کیمرے کے رزلٹ نے اس وقت خاصا حیران کیا تھا۔ انہی تصاویر میں سے کچھ منتخب تصاویر اس لڑی میں پیشِ خدمت ہیں۔
لیکن پہلے کرمبر جھیل کی انٹرنیٹ سے لی گئی ایک دو تصاویر۔ صرف جھیل کی دلکشی و سحرانگیزی کا اندازہ کرانے کے لئے۔
آخری تدوین: