یاز
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوات کو ہم نے آخری بار سنہ 2000 میں زمانہِ طالبعلمی میں دیکھا تھا۔ اس سال جون کے بالکل آغاز میں ہم پھر سے عازمِ سوات ہوئے۔ چار دن کے اس ٹرپ میں کالام سے پہلے پہلے بے تحاشا گرمی کھائی۔ البتہ کالام میں موسم شاندار اور خوشگوار تھا۔ کالام کے علاوہ مہوڈنڈ جھیل کی سیر بھی کی اور واپسی پہ شانگلہ پاس کے راستے سے آئے۔ شانگلہ پاس والا راستہ میں نے پہلی بار دیکھا اور یہ بلاشبہ بہت خوبصورت علاقہ ہے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ کالام سے مہوڈنڈ جھیل کے راستے کے علاوہ اس پورے سفر میں خوبصورت ترین علاقہ شانگلہ پاس خصوصاً الپوری کے آس پاس کا تھا تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا۔
سفر کی تفصیل کچھ یوں رہی۔
پہلا دن: صبح راولپنڈی سے براستہ موٹروے روانگی۔ رشکئی انٹرچینج پہ موٹروے سے اتر کر مردان، تخت بھائی، درگئی، مالاکنڈ پاس سے ہوتے ہوئے مینگورہ میں فضاگٹ پارک گئے، جس کو دیکھ کے ازحد مایوسی ہوئی۔ مینگورہ سے کچھ آگے ایک ہوٹیل میں رات گزاری۔
دوسرا دن: صبح اٹھ کر میاندم گئے جہاں 16 سال قبل بھی گئے تھے۔ تاہم حیرانی، مایوسی اور کچھ خوشی بھی ہوئی کہ میاندم میں ایک بھی سیاح نہیں تھا۔ نیز یہ کہ گرمی بھی کافی تھی۔ میاندم سے نکلے تو مدین، بحرین سے ہوتے ہوئے کالام کی راہ لی۔ بحرین تک سڑک شاندار ہے۔ البتہ بحرین سے آگے کالام تک سڑک کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ بحرین سے آگے 34 کلومیٹر کا یہ سفر پونے تین گھنٹے میں طے ہوا۔ میں نے اس سے بدترین سڑک کبھی نہیں دیکھی۔ ہماری گاڑی نے ہمیں کافی بددعائیں دی ہوں گی۔
مزید المناک بات یہ سامنے آئی کہ کالام کی اپنی حالت بھی غیر تھی۔ وہاں بھی صرف گنتی کے ٹورسٹ دکھائی دے رہے تھے۔ کالام کے مین بازار کا کافی حصہ 2010 کے سیلاب میں دریا برد ہو گیا تھا، اور ابھی تک اسی حالت میں ہے۔ جو حصہ بچ گیا تھا، وہ بھی کافی حد تک ویران دکھائی دے رہا تھا۔ یہ وہ کالام نہیں تھا جو ہم نے جون 2000 میں دیکھا تھا۔ اس وقت تو یہاں ایسی رونق دیکھی تھی جیسی اب ناران وغیرہ میں ہوتی ہے۔
تیسرا دن: یہ سارا دن مہوڈنڈ جھیل کے لئے وقف تھا۔ اس راستے پہ بہت سے گلیشیئر ابھی بھی موجود تھے تو اپنی گاڑی پہ جانا ہنوز ممکن نہ تھا، لہٰذا جیپ ہائر کی گئی۔ ہم چونکہ سیاحتی سیزن کے آغاز سے قبل ہی آ گئے تھے اور مہوڈنڈ کا راستہ کھلے ہوئے بھی تقریباً دو ہفتے ہی ہوئے تھے تو ابھی زیادہ رش بھی نہیں تھا اور ابھی تک یہ علاقہ اس گند اور کوڑا کرکٹ سے بھی بچا ہوا تھا جو کہ سیاحت کے سیزن کے دوران ہمارے تمام خوبصورت علاقوں میں ضرور دکھائی دیتا ہے۔ یہ دن بہت شاندار رہا۔ موسم بھی شاندار تھا اور یہ علاقہ بھی جنت سے کم نہیں۔
چوتھا دن: اس دن واپسی کی راہ لی۔ اللہ اللہ کر کے کالام سے بحرین کا سفر اڑھائی گھنٹے سے کچھ کم میں مکمل کیا۔ بحرین سے خواضخیلہ اور وہاں سے بائیں جانب یعنی شانگلہ پاس کو جانے والی سڑک پکڑی۔یہ بہت ہی شاندار سڑک تھی۔ شانگلہ ٹاپ تک جانے کا تو گویا پتا ہی نہیں چلا۔ شانگلہ ٹاپ کے بعد اصل خوبصورت علاقہ شروع ہوتا ہے۔ ضلع شانگلہ کے صدر مقام یعنی الپوری کی لوکیشن تو کمال کی ہے۔ خیر تقریباً 3 گھنٹے میں خواضخیلہ سے بشام پہنچے۔ بشام کے مقام پہ آ کے ہم قراقرم ہائی وے سے آ ملے۔ قراقرم ہائی وے سے راولپنڈی کا سفر شروع کیا جو کہ تقریباً 8 گھنٹے میں مکمل ہوا۔ بشام سے راولپنڈی کے راستے میں تھاکوٹ، بٹگرام، چھتر پلین، شنکیاری، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، حسن ابدال وغیرہ آتے ہیں۔ نیز یہ کہ ان مہینوں میں شنکیاری سے حسن ابدال تک اس سڑک پہ بے تحاشا بلکہ بے تحاشا ترین رش ہوتا ہے۔
تصویری کوریج: سالِ گزشتہ کے تلخ تجربے (جس میں ہمارے پھسڈی کیمرے کی بیٹری وفات پا گئی تھی) اس دفعہ ہم کافی پہلے ہی ایک عدد ڈی ایس ایل آر کیمرہ یعنی نائیکون D5200 لے چکے تھے۔ لینز سادہ سا ہی تھا یعنی mm 18-55 ۔ اگرچہ ڈی ایس ایل آر کے استعمال میں ہم ابھی مبتدی کی سٹیج پہ ہی ہیں۔ تاہم اس ٹرپ کے دوران زیادہ تر فل آٹو میٹک موڈ کی مدد سے ہی تصویر کشی کی۔ جس کی وجہ سے کچھ تصاویر اوور ایکسپوز اور کچھ انڈر ایکسپوز بھی ہوئیں، تاہم چونکہ ہم نے تقریباً ہر مقام پہ مختلف سیٹنگز کے ساتھ تصاویر بنائیں تو کافی تصاویر قابلِ قبول یا اس سے کچھ بہتر کوالٹی کی بھی رہیں۔
اگلے مراسلوں میں تصاویر بمعہ مختصر تفصیل پیشِ خدمت ہیں۔
سوات کو ہم نے آخری بار سنہ 2000 میں زمانہِ طالبعلمی میں دیکھا تھا۔ اس سال جون کے بالکل آغاز میں ہم پھر سے عازمِ سوات ہوئے۔ چار دن کے اس ٹرپ میں کالام سے پہلے پہلے بے تحاشا گرمی کھائی۔ البتہ کالام میں موسم شاندار اور خوشگوار تھا۔ کالام کے علاوہ مہوڈنڈ جھیل کی سیر بھی کی اور واپسی پہ شانگلہ پاس کے راستے سے آئے۔ شانگلہ پاس والا راستہ میں نے پہلی بار دیکھا اور یہ بلاشبہ بہت خوبصورت علاقہ ہے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ کالام سے مہوڈنڈ جھیل کے راستے کے علاوہ اس پورے سفر میں خوبصورت ترین علاقہ شانگلہ پاس خصوصاً الپوری کے آس پاس کا تھا تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا۔
سفر کی تفصیل کچھ یوں رہی۔
پہلا دن: صبح راولپنڈی سے براستہ موٹروے روانگی۔ رشکئی انٹرچینج پہ موٹروے سے اتر کر مردان، تخت بھائی، درگئی، مالاکنڈ پاس سے ہوتے ہوئے مینگورہ میں فضاگٹ پارک گئے، جس کو دیکھ کے ازحد مایوسی ہوئی۔ مینگورہ سے کچھ آگے ایک ہوٹیل میں رات گزاری۔
دوسرا دن: صبح اٹھ کر میاندم گئے جہاں 16 سال قبل بھی گئے تھے۔ تاہم حیرانی، مایوسی اور کچھ خوشی بھی ہوئی کہ میاندم میں ایک بھی سیاح نہیں تھا۔ نیز یہ کہ گرمی بھی کافی تھی۔ میاندم سے نکلے تو مدین، بحرین سے ہوتے ہوئے کالام کی راہ لی۔ بحرین تک سڑک شاندار ہے۔ البتہ بحرین سے آگے کالام تک سڑک کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ بحرین سے آگے 34 کلومیٹر کا یہ سفر پونے تین گھنٹے میں طے ہوا۔ میں نے اس سے بدترین سڑک کبھی نہیں دیکھی۔ ہماری گاڑی نے ہمیں کافی بددعائیں دی ہوں گی۔
مزید المناک بات یہ سامنے آئی کہ کالام کی اپنی حالت بھی غیر تھی۔ وہاں بھی صرف گنتی کے ٹورسٹ دکھائی دے رہے تھے۔ کالام کے مین بازار کا کافی حصہ 2010 کے سیلاب میں دریا برد ہو گیا تھا، اور ابھی تک اسی حالت میں ہے۔ جو حصہ بچ گیا تھا، وہ بھی کافی حد تک ویران دکھائی دے رہا تھا۔ یہ وہ کالام نہیں تھا جو ہم نے جون 2000 میں دیکھا تھا۔ اس وقت تو یہاں ایسی رونق دیکھی تھی جیسی اب ناران وغیرہ میں ہوتی ہے۔
تیسرا دن: یہ سارا دن مہوڈنڈ جھیل کے لئے وقف تھا۔ اس راستے پہ بہت سے گلیشیئر ابھی بھی موجود تھے تو اپنی گاڑی پہ جانا ہنوز ممکن نہ تھا، لہٰذا جیپ ہائر کی گئی۔ ہم چونکہ سیاحتی سیزن کے آغاز سے قبل ہی آ گئے تھے اور مہوڈنڈ کا راستہ کھلے ہوئے بھی تقریباً دو ہفتے ہی ہوئے تھے تو ابھی زیادہ رش بھی نہیں تھا اور ابھی تک یہ علاقہ اس گند اور کوڑا کرکٹ سے بھی بچا ہوا تھا جو کہ سیاحت کے سیزن کے دوران ہمارے تمام خوبصورت علاقوں میں ضرور دکھائی دیتا ہے۔ یہ دن بہت شاندار رہا۔ موسم بھی شاندار تھا اور یہ علاقہ بھی جنت سے کم نہیں۔
چوتھا دن: اس دن واپسی کی راہ لی۔ اللہ اللہ کر کے کالام سے بحرین کا سفر اڑھائی گھنٹے سے کچھ کم میں مکمل کیا۔ بحرین سے خواضخیلہ اور وہاں سے بائیں جانب یعنی شانگلہ پاس کو جانے والی سڑک پکڑی۔یہ بہت ہی شاندار سڑک تھی۔ شانگلہ ٹاپ تک جانے کا تو گویا پتا ہی نہیں چلا۔ شانگلہ ٹاپ کے بعد اصل خوبصورت علاقہ شروع ہوتا ہے۔ ضلع شانگلہ کے صدر مقام یعنی الپوری کی لوکیشن تو کمال کی ہے۔ خیر تقریباً 3 گھنٹے میں خواضخیلہ سے بشام پہنچے۔ بشام کے مقام پہ آ کے ہم قراقرم ہائی وے سے آ ملے۔ قراقرم ہائی وے سے راولپنڈی کا سفر شروع کیا جو کہ تقریباً 8 گھنٹے میں مکمل ہوا۔ بشام سے راولپنڈی کے راستے میں تھاکوٹ، بٹگرام، چھتر پلین، شنکیاری، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، حسن ابدال وغیرہ آتے ہیں۔ نیز یہ کہ ان مہینوں میں شنکیاری سے حسن ابدال تک اس سڑک پہ بے تحاشا بلکہ بے تحاشا ترین رش ہوتا ہے۔
تصویری کوریج: سالِ گزشتہ کے تلخ تجربے (جس میں ہمارے پھسڈی کیمرے کی بیٹری وفات پا گئی تھی) اس دفعہ ہم کافی پہلے ہی ایک عدد ڈی ایس ایل آر کیمرہ یعنی نائیکون D5200 لے چکے تھے۔ لینز سادہ سا ہی تھا یعنی mm 18-55 ۔ اگرچہ ڈی ایس ایل آر کے استعمال میں ہم ابھی مبتدی کی سٹیج پہ ہی ہیں۔ تاہم اس ٹرپ کے دوران زیادہ تر فل آٹو میٹک موڈ کی مدد سے ہی تصویر کشی کی۔ جس کی وجہ سے کچھ تصاویر اوور ایکسپوز اور کچھ انڈر ایکسپوز بھی ہوئیں، تاہم چونکہ ہم نے تقریباً ہر مقام پہ مختلف سیٹنگز کے ساتھ تصاویر بنائیں تو کافی تصاویر قابلِ قبول یا اس سے کچھ بہتر کوالٹی کی بھی رہیں۔
اگلے مراسلوں میں تصاویر بمعہ مختصر تفصیل پیشِ خدمت ہیں۔
آخری تدوین: