ایاز امیر کا آج کا یہ کالم ضرور پڑھیں۔ اس میں سقوط ڈھاکہ اور بھٹو کے کردار کو نمایاں کیا گیا ہے۔
اُس وقت کا پاکستان حادثے کا منتظر تھا
جلد یا بدیر حادثہ ہونا تھا لیکن وقت کا تعین حالات پر منحصر ہوتا ہے۔ اب ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو ہم اپنے برابر کا نہ سمجھتے تھے۔ ریاستِ پاکستان کی ہیئت، اُس کی ترجیحات، اُس کے نظریاتی خدوخال مغربی پاکستان کے حکمران طبقات کے متعین کردہ تھے۔ اِس کام میں مشرقی پاکستان کا کوئی حصہ نہ تھا کہ ڈیفنس پالیسی کیا ہونی ہے، خارجہ پالیسی کے اہداف کیا ہیں اور کیا ہونے چاہئیں، یہ سارے کا سارا کام حکمران طبقات نے اپنے ذمّے لیا ہوا تھا۔
اکثریت میں وہ تھے، اُن کا پٹ سن زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ تھا؛ البتہ وہاں سے الزام یہ تھا کہ اُن کا کمایا ہوا زرِمبادلہ زیادہ تر مغربی پاکستان کی انڈسٹریلائزیشن پہ استعمال ہوا ہے۔ اور تو اور پاکستان بننے کے فوراً بعد یہاں کے حکمران طبقات نے مشرقی پاکستان پہ اردو کو بطور قومی زبان ٹھونسنا چاہا۔ بنگالی ایک بڑی پرانی زبان ہے۔ بنگالیوں کا اپنا صدیوں پرانا کلچر ہے۔ لٹریچر اُن کا بہت زرخیز ہے‘ لیکن تقسیمِ ہند کے وقت ماحول ہی ایسا تھاکہ یہاں کے حکمران طبقات نے یہی موزوں سمجھاکہ اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ قدرتی طور پہ مشرقی پاکستان میں بہت مزاحمت ہوئی اور 1952ء میں تو نوبت خونریزی تک جا پہنچی۔
مسئلہ صرف جغرافیے کا نہیں تھاکہ پاکستان کے دونوں حصے ایک دوسرے سے ایک ہزار میل کے فاصلے پہ ہیں۔ یہاں اور وہاں کے کلچر میں بہت فرق تھا اور اس بات کا ادراک ہمارے حکمران طبقات کو ہونا چاہیے تھا‘ لیکن ایسا نہ ہوااور پاکستان کے مختلف اجزا کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔ جہاں ایسے مسائل ہوں وہاں قومی وحدت کو یقینی بنانے کیلئے ایک خاص قسم کی عقل اور دانش کی ضرورت تھی‘ لیکن پاکستان کے قومی معاملات میں ان چیزوں کا عمل دَخل اتنا نہ رہا جتنا ہونا چاہیے تھا۔
لاوا تو پک رہا تھا لیکن فیصلہ کن موڑ 1970ء کے انتخابات میں آیا۔ مشرقی پاکستان کی بڑی جماعت عوامی لیگ تھی۔ بنگالی احساسِ محرومی کا اظہار عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمن کے مشہورِ زمانہ چھ نکات کے حوالے سے ہوا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے میں شیخ مجیب کی گرفتاری ہوئی اور اُن پہ غداری کا مقدمہ بھی چلا‘ لیکن جب ایوب خان کو کرسیٔ صدارت چھوڑنا پڑی وہ مقدمہ بھی ختم ہو گیا۔ 1970ء کے انتخابات کا میدان سجا تو عوامی لیگ کا منشور وہ چھ نکات ہی تھے۔ سال بھرکی انتخابی مہم تھی اور جب 7 دسمبرکی شب کو انتخابی نتائج آنے لگے تویوں محسوس ہوا کہ مشرقی پاکستان میں ایک سیاسی زلزلہ آگیا ہے۔ پورے مشرقی پاکستان میں دو سیٹیں عوامی لیگ کی پہنچ سے باہر رہیں، باقی 160 پہ اُس کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ جنرل یحییٰ خان کی حکومت کو اب سمجھ نہ آئی کہ کیا کرے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا تاکہ جنرل یحییٰ خان کے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت 120 روز میں نیاآئین مرتب ہوتا‘ لیکن حیلے بہانوں سے اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا گیا اورپھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا رول بہت ہی مشکوک رہا۔ انہوں نے عجیب نعرہ لگایا کہ مغربی پاکستان کے مفادات کا بھی آئینی تحفظ ہونا چاہیے۔ اس غرض سے جنرل یحییٰ خان پہ زور دیتے رہے کہ فوری طورپہ قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا جائے جب تک کہ شیخ مجیب الرحمن سے کوئی تصفیہ نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے ایسے ہتھکنڈوں سے مشرقی پاکستان میں حکومت کے بارے میں شکوک بڑھتے گئے۔ بنگالیوں کی شکایت ہی یہ تھی کہ اُن کا استحصال ہوا ہے اوراُن کے ساتھ زیادتیاں کی گئی ہیں۔ اجلاس بلانے کی تاخیر کو بھی ایک اور زیادتی سمجھا گیا۔ بھٹو صاحب تواپنا کھیل کھیل رہے تھے لیکن حکومت میں بیٹھے کرداروں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ حالات کس رُخ جا رہے ہیں۔
حماقتوں پہ حماقتیں سرزد ہوئیں۔ اسمبلی کا اجلاس یکم مارچ کیلئے بلایا گیا۔ پھر اُسے مؤخر کردیا گیااور تاریخ 25 مارچ کی رکھی گئی۔ بنگالی احساسات نے بپھرنا ہی تھا، اور کیا ہوتا۔ اِس اثنا میں شیخ مجیب الرحمن نے 7 مارچ کو ڈھاکہ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کیا۔ اس کی ریکارڈنگ یوٹیوب پہ موجود ہے۔ جو بھی اپنے آپ کو سیاست کا طالب علم سمجھتا ہے اُسے یہ ریکارڈنگ دیکھنی چاہیے۔ شیخ مجیب نے انتباہ کیا کہ اب ہم اسمبلی اجلاس میں تب ہی جانے کا سوچیں گے جب مارشل لاء کا خاتمہ ہو گا۔ حکمران ٹولے میں جنرل یحییٰ خان سب سے زیادہ انتہا پسند نہ تھے۔ ہارڈ لائنر جنرل پیرزادہ اور جنرل عمر تھے۔ اُن کی لائن تھی کہ عوامی لیگ کسی نرمی کی مستحق نہیں۔ ایسٹ پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن اور مشرقی پاکستان کے فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل یعقوب خان ایک تصفیے اور سیاسی حل کی رائے دے رہے تھے لیکن جو جنونی کیفیت حکمران ٹولے کی ہو چکی تھی اُس میں ایسی باتوں کو کون سُنتا؟ سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ ایڈمرل احسن نے استعفیٰ دے دیا اور جنرل یعقوب خان نے بھی اپنی کمان چھوڑدی‘ لیکن فیصلہ ہو چکا تھاکہ عوامی لیگ کو کَرش کرنا ہے۔ جنرل یعقوب کی جگہ جنرل ٹکا خان کی بطور فوجی کمانڈر تعیناتی ہوئی۔ 25 مارچ وہ منحوس دن تھا جب عوامی لیگ کے خلاف ایکشن شروع کیاگیا۔ دسمبر1971ء میں ملک کے دولخت ہونے کی رسم ادا کی گئی۔ صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ملک ٹوٹنے کا فیصلہ 25 مارچ کو ہو چکا تھا۔
شیخ مجیب کے چھ نکات علیحدگی کا پروانہ ضرور تھے لیکن چھ نکات سے بھی زیادہ مہلک بھٹو صاحب کی 1971ء کے دوران سیاسی چالیں تھیں۔ انہوں نے ہر کوشش کی کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے خلاف آپریشن ہو‘ اور جب آپریشن ہوا اُن کے یہ تاریخی الفاظ تھے ''خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا ہے‘‘۔
دسمبر میں جب باقاعدہ جنگ چھڑ گئی تو ایک اور بیوقوفانہ فیصلہ ہوا کہ سکیورٹی کونسل میں جہاں جنگ بندی پہ بحث ہورہی تھی‘ پاکستانی وفد کے سربراہ کے طورپہ بھٹو صاحب کو بھیجا گیا‘ یعنی جو شخص چاہتا ہی نہ تھا کہ کوئی سیاسی حل نکلے اور جس کی ہر کوشش یہ تھی کہ جلتی پہ تیل چھڑکا جائے، اُسی کو امن کی کوششوں کے سلسلے میں نیویارک بھیجا گیا۔ سوویت روس ہندوستان کا حمایتی تھا اور پولینڈ اُس کا دوست تھا۔ پولینڈ والوں نے سکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کی ایک ایسی قرارداد پیش کی جو اگر قبول ہو جاتی تو پاکستان کی ڈوبتی عزت بچ سکتی تھی۔ اس قرارداد میں پاکستانی فوج کی باعزت انخلا کا بھی ذکر تھا‘ لیکن بھٹو اپنی دھن کے پکے نکلے۔ سکیورٹی کونسل میں ایک زبردست تقریر کرڈالی، بڑی طاقتوں کو بُرا بھلا کہا اور ڈرامائی انداز میں اُٹھتے ہوئے اس قرارداد‘ جس سے پاکستان کی عزت بچ سکتی تھی‘ کو پھاڑ ڈالا اور وہاں سے باہر آگئے۔ آج تک یہ بات بیشتر پاکستانیوں کو سمجھ نہیں آئی کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔
تاریخی ریکارڈ کے بھولے بسرے کونے میں اس اَمر کا بھی ذکر ہے کہ قرارداد کے اس ڈرامے سے شاید ایک دن پہلے جنرل یحییٰ خان نے بھٹو صاحب سے رابطہ کرنا چاہا۔ راولپنڈی سے کال ملائی گئی، بھٹو صاحب لائن پہ آئے اور جب جنرل یحییٰ نے بولنا شروع کیا تو بھٹو نے کہا کہ آواز نہیں آرہی۔ دوبارہ کہا: مجھے آواز نہیں آرہی۔ بیچ میں کوئی امریکن خاتون آپریٹر تھی۔ اس نے کہا کہ آواز صاف آرہی ہے، بھٹو صاحب نے کہا: shut up۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے بھٹو کو اس ٹیلی فون کال میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔
بعد میں نہ بھٹو صاحب سے کوئی سوال جواب ہوا نہ اُس وقت کے حکمران افلاطونوں سے پوچھا گیا کہ وہ کس دنیا میں رہ رہے تھے۔
اُس وقت کا پاکستان حادثے کا منتظر تھا