جاسمن

لائبریرین
ہم کو مڑ کر دیکھنے کی کیا ضرورت تھی اسے
کون رکتا ہے یہاں پر حادثہ کرنے کے بعد
بدر منیر
 

جاسمن

لائبریرین
مزدوروں کے مسائل/غربت
محنت کر کے ہم تو آخر بھوکے بھی سو جائیں گے
یا مولا تُو برکت رکھنا بچوں کی گُڑدھانی میں
ولاس پنڈت مسافر
 

جاسمن

لائبریرین
سفارش/اقربا پروری
صرف محنت کیا ہے انور کامیابی کے لیے
کوئی اوپر سے بھی ٹیلیفون ہونا چاہیے
انور مسعود
 

جاسمن

لائبریرین
مزدوروں کے مسائل
انہی حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھے ہیں وہ آنسو بھی
جو اکثر دھوپ میں محنت کی پیشانی سے ڈھلتے ہیں
جمیل مظہری
 

جاسمن

لائبریرین
مزدوروں کے مسائل
اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط
اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے
تنویر سپرا
 

جاسمن

لائبریرین
مزدوروں کے مسائل
اک عمر کی محنت کا یہ پھل پائیں گے ہم لوگ
مٹی کی ردا اوڑھ کے سو جائیں گے ہم لوگ
مسرور جالندھری
 

جاسمن

لائبریرین
مزدوروں /غریبوں کے مسائل
حقِ محنت ان غریبوں کا سمجھتے گرامیر
اپنے رہنے کا مکاں دے ڈالتے مزدور کو

منور خان غافل
 

جاسمن

لائبریرین
گیت ہریالی کے گائیں گے سسکتے ہوئے کھیت
محنت اب غارت جاگیر تک آ پہنچی ہے
پرویز شاہدی
 

جاسمن

لائبریرین
سماجی مسائل سے واقفیت
ذہن کی کھڑکی کھلی دل کا دریچہ وا ہوا
تب جہاں کے درد سے رشتہ مرا گہرا ہوا
جہانگیر نایاب
 

جاسمن

لائبریرین
بے راہ روی
پیڑ کے نیچے شکاری جال پھیلائے ہوئے
اور پرندہ شاخ پر بیٹھا ڈرا سہما ہوا
جہانگیر نایاب
 

جاسمن

لائبریرین
بندۂ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیامِ کائنات
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ جُو
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
اقبال
 

جاسمن

لائبریرین
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات
اقبال
 

جاسمن

لائبریرین
میں نے جتنے بھی سوالوں میں اسے دیکھا ہے
زندگی درد کی تصویر نظر آئی ہے

طارق نعیم
 

اربش علی

محفلین
چند روز اور مری جان

چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز!
ظلم کی چھاؤں میں دَم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے، معذور ہیں ہم

جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں!

لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں!

عرصۂ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے پہ یوں ہی تو نہیں رہنا ہے
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گراں بار ستم
آج سہنا ہے ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے

یہ ترے حسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد
اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار
چاندنی راتوں کا بے کار دہکتا ہوا درد
دل کی بے سود تڑپ، جسم کی مایوس پکار

چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز!

(فیض احمد فیض)
 

جاسمن

لائبریرین
مزدوروں کے مسائل
زاہد کو اگر فخر ہے سجدے کے نشاں پر
مزدور کے چھالے بھی بڑے غور طلب ہیں
 
Top