ناانصافی
جس دور میں لُٹ جائے غریبوں کی کمائی
اُس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے
تاحدِ نظر شعلے ہی شعلے ہیں وطن میں
پھولوں کے نگہباں سے کوئی بھول ہوئی ہے
ساغر صدیقی
سماجی کارکن
ہائے وہ دل جو دھڑکتا ہوا گھر سے نکلے
اُف وہ آنسو جو کسی دیدۂ تر سے نکلے
میں اُس آنسو کے سکھانے کو ہوا بن جاؤں
خضر کا کام کروں،راہنما بن جاؤں