جاسمن جی ، ثروت زہرہ کی ورکنگ لیڈی کی یہ شاعری ہمیں بہت پسند ، جو ہر ورکنگ لیڈی کی تر جمانی کرتی ہے
ورکنگ لیڈی
نہ چوڑی کی کھن کھن، نہ پائل کی چھن چھن
نہ گجرا ،نہ مہندی، نہ سرمہ، نہ ابٹن
میں خود کو نہ جانے کہاں بھول آئی
جو ڈیوڑھی سے نکلی تو بچے کی چیخیں
وہ چولھا، وہ کپڑے، وہ برتن، وہ فیڈر
وہ ماسی کی دیری، وہ جلدی میں بڑ بڑ
نہ دیکھا تھا خود کو، نہ تم کو سنا تھا
بس اسٹاپ پر اب کھڑی سوچتی ہوں
کسے سینت رکھا کسے چھوڑ آئی
میں خود کو نہ جانے کہاں بھول آئی
وہ چبھتی نگاہیں،وہ آفس کی دیری
سیاہی کے دھبوں میں رنگی ہتھیلی
وہ باتوں کی ہیبت جو سانسوں نے جھیلی
وہ زہری رویے، وہ الجھی پہیلی
مری مٹھیوں میں سلگتی دوپہری
میں کی بورڈ پر انگلیاں چھوڑآئی
میں خود کو نہ جانے کہاں بھول آئی!
جلی شام! پر سرمئی رُت کدھر ہے
تھکی ماندی آنکھوں میںلمبا سفر ہے
یہ دہلیز ، آنگن مگر سکھ کدھر ہے
ادھورے کئی کام رکھے ہیں، گھر ہے
ہر اک سانس اب وقت کی دھار پر ہے
وہ آسودہ لمحے کہاں چھوڑ آئی
میں خودکو نہ جانے کہاں بھول آئی!
تھکن بستروں پر پڑی اونگھتی ہے
نگاہوں کی گرمی تلک سوچکی ہے
ہر اک پل ہمیں اگلے دن کی پڑی ہے
مجھے یہ تسلی کہ خود جی سکوں گی
تمھیں یہ سہارا کہ ثروت بہت ہے
وہ فرصت کے دن میں کہاں چھوڑ آئی
میں خود کو نہ جانے کہاں بھول لائی