محمداحمد
لائبریرین
غزل
سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے
زمیں سے آسماں تک استعارے سوچتے ہوں گے
محبت سوچتی ہوگی کہ ہم دونوں جدا کیوں ہیں
مقدر درمیاں میں ہے ستارے سوچتے ہوں گے
ستاروں کے تخیّل میں تو فُرقت دوریاں ہوں گی
مگر برعکس دریا کے کنارے سوچتے ہوں گے
مِری کج فہمیاں منزل سے دوری کا سبب ٹھہریں
اشارے تو اشارے ہیں، اشارے سوچتے ہوں گے
نظارہ منظروں کی کئی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدہء بینا نظارے سوچتے ہوں گے
اُنہیں معلوم کب تھا آگ جنگل ہی نگل لے گی
شرارے مثلِ جگنو ہیں، شرارے سوچتے ہوں گے
جو پسپا ہو کے لوٹی ہیں وہ لہریں پھر سے آئیں گی
سمندر سے جڑے سوکھے کنارے سوچتے ہوں گے
محمد احمد
سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے
زمیں سے آسماں تک استعارے سوچتے ہوں گے
محبت سوچتی ہوگی کہ ہم دونوں جدا کیوں ہیں
مقدر درمیاں میں ہے ستارے سوچتے ہوں گے
ستاروں کے تخیّل میں تو فُرقت دوریاں ہوں گی
مگر برعکس دریا کے کنارے سوچتے ہوں گے
مِری کج فہمیاں منزل سے دوری کا سبب ٹھہریں
اشارے تو اشارے ہیں، اشارے سوچتے ہوں گے
نظارہ منظروں کی کئی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدہء بینا نظارے سوچتے ہوں گے
اُنہیں معلوم کب تھا آگ جنگل ہی نگل لے گی
شرارے مثلِ جگنو ہیں، شرارے سوچتے ہوں گے
جو پسپا ہو کے لوٹی ہیں وہ لہریں پھر سے آئیں گی
سمندر سے جڑے سوکھے کنارے سوچتے ہوں گے
محمد احمد