محد احمد صاحب، غزل خوب ہے۔ لیکن بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہی ہے۔ مطلع خوب ہے۔ دوسرے شعر میں درمیاں میں کے بجائے درمیاں ہونا چاہیے تھا۔ جیسے اس شعر میں دیکھیں:
محبت تیرا میرا مسئلہ ہے
زمانہ درمیاں کیوں آگیا ہے
تیسرا شعر مناسب ہے۔ چوتھے شعر میں ایسے لگ رہا ہے ( اشارے تو اشارے ہیں، اشارے سوچتے ہوں گے) جیسے اشاروں کا کام ہی سوچنا ہے۔ حالانکہ سوچنے سے اشاروں کا کوئی تعلق نہیں۔ اس غزل کا مسئلہ یہ ہے کی آپ نے ایک طویل ردیف منتخب کر لی ہے جسے نبھانا اکثر مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیےردیف میں سوچنے کا عمل کہیں کہیں واضح نہیں ہو پایا۔چوتھا شعر رواں ہے( اگر نظارے سوچتے ہوں تو)۔ چھٹے شعر مٰیں آپ شاید یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر شراروں کو پتہ ہوتا کہ آگ پورے جنگل کو نگل لے گی تو وہ یہ عمل نہ کرتے کیونکہ وہ تو جگنوؤں کی مانند ہیں جو امن کے سفیر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کون کہتا ہے کہ شرارے جگنوؤں کی مانند ہوتے ہیں اور کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ آخری شعر سے پہلے آپ مطلع کا پہلا مصرع دیکھیں۔" سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے" اب یہ مصرع تلازمے کے اعتبار سے مکمل ہے۔ لیکن آخری شعر میں آپ کہتے ہیں " سمندر سے جڑے سوکھے کنارے سوچتے ہوں گے" اب سمندر کے ساتھ کنارے کا جڑنا اس تلازمے کا حصہ نہیں کیونکہ سمند اور کنارہ بذاتِ خود لازم و ملزوم ہیں نہ کہ کنارے کو سمندر سےجوڑا جائے۔ مجموعی طور پر غزل اچھی ہے اور بحر پر آپ کی گرفت مضبوظ نظر آرہی ہے۔
شکریہ محمد احمد صاحب۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے آپ کے ذہن میں جو اشعار کے مفہوم ہیں وہ اگر عام قاری پر بھی واضح ہو جائیں تو پھر ابلاغ کا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔ اگر کہیں ابہام ہو تو پھر نظرِ ثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر واضح ہے۔ Then Well And Good.
مغل بھائی!
آداب
آپ کو اجازت کی کیا ضرورت ہے بھلا بس شروع ہو جائیے۔
رسیدیں تو آپ کی اس پہلے بھی ملتی رہیں ہیں۔ آپ جب بھی کسی کو رسید ارسال کرتے ہیں
تو مجھے بے ساختہ یہ شعر یاد آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ :
بنتے ہیں تیرے چار سو فی الحال چار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ
دعا ہے کہ KESC والے آپ کے اور ہمارے حال پر رحم کریں۔
غزل واقعی اچھی ہے احمد صاحب۔ آصف کی بات بھی درست ہے۔ اشاروں والا شعر مجھے بھی کچھ جما نہیں۔
عجب لوگوں سے پالا پڑ گیا ہے دوستو میرا
یہ سب کچھ محمداحمد، بچارے سوچتے ہوں گے
واہ جی واہ..............کیا ہم بھی شاعر تو نہیں ہوگئے...؟ کوئی بتلائے ہمیں بھی؟
اشاروں ہی اشاروں میں، گلے پڑتے ہیں دکھ کتنے
تبھی تو سارے روتے ہیں، کنوارے سوچتے ہونگے
احمد بھیا!
بھئی کیا خوب سوچتی ہوئی غزل ہےکہ ہر شعر سوچنے پر مجبور و مشغول و مامور ہے۔
مغل صاحب کی برابری تو کسی طور ممکن نہیں، تاہم پھر بھی رسیدقبول فرمائیے کہ وجہ رخصت بجلی نہیں بلکہ عجلت ہے۔
تفصیلی پھر کبھی سہی تاہم:
سمندر کتنا گہرا ہے، کنارے سوچتے ہوں گے
زمیں سے آسماں تک استعارے سوچتے ہوں گے
محبت سوچتی ہوگی کہ ہم دونوں جدا کیوں ہیں
مقدر درمیاں میں ہے ستارے سوچتے ہوں گے
مطلع اور پھر دوسرے شعر میں کیا خوب تسلسل ہے اور وجہ فراق کا خوب بیان ہے یوں قدرت کو ملوث کیا ہے آپ نے سازش میں کہ کیا کہنے۔
نظارہ منظروں کی کئی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدہء بینا نظارے سوچتے ہوں گے
گیا کہنے۔۔۔ نظاروں کا سوچنا بھی بجا ہے۔۔۔ ہر گرتا پتہ بھی اپنے اندر سبق رکھتا ہے اور شاید یہ نظارے یہی سوچتے ہوں گے جو آپ نے شعر میں بیان فرمایا۔
جو پسپا ہو کے لوٹی ہیں وہ لہریں پھر سے آئیں گی
سمندر سے جڑے سوکھے کنارے سوچتے ہوں گے
فلسفہ حیات ہی یہی ہے۔۔۔ اسی لیے تو ایک سانس کے بعد دوسرا سانس لیتے ہیں۔۔۔ شاید آج نہیں تو کل۔۔۔ کبھی تو مقدر ہوگی سحر بھی ۔۔۔۔۔ کبھی تو ٹلے گا یہ قہر بھی۔۔۔
اور جو سوکھے کنارے یہ نہیں سوچتے۔۔۔ شنید ہے خودکشی کر لیتے ہیں۔۔۔
برطور، یہ شاید کسی غزل پر ہماراپہلا سنجیدہ تبصرہ ہے، سخن فہمی کے دعویدار نہیں تاہم امید ہے ہم سے تہی دامن آدمی کے کہے کا برا نہ مانیں گے۔
میرے دوست مجھے تاخیر ہوگئی ۔۔
اور میرے لیے یہ سعادت بختی ہے کہ اس عرصے میں آصف شیخ اور آپ کے درمیان مکالمہ
نےمیرے ذہن میں اٹھنے والے سوالات اور جوابات کاوہ تشفی بھرکم منھ توڑ جواب دیا ہے۔۔
کہ مزا آگیا۔۔باقی اب آپ سے ملاقات پر ہی گفتگو ہوگی ۔۔ گو کہ ضرورت نہیں مگر آصف
شیخ صاحب کی اجازت ہو تو کچھ میں بھی عرض کرنا چاہوں گا۔
والسلام مع الکرام
م۔م۔مغل
اشاروں ہی اشاروں میں، گلے پڑتے ہیں دکھ کتنے
تبھی تو سارے روتے ہیں، کنوارے سوچتے ہونگے
مغل بھائی
دیر سویر آپ کی تشفی ہو گئی مجھے اطمینان ہو گیا۔ اُمید ہے آئیندہ بھی کرم فرماتے رہیں گے۔
یہ کہیئے کہ ملاقات کا شرف کب عطا کر رہے ہیں۔۔
میں کئی ایک بار آپ کے دولت کدے کی زیارت کرچکا ہوں۔
مگر ہمت نہیں ہوئی کہ دستک دی جائے۔۔
محسن آپ کے مراسلے کی آخری لائن پڑھنے تک میں حیرت میں غوطہ زن تھی کہ واقعی یہ محسن کا مراسلہ ہے یا میری نظر کا دھوکہ۔۔۔۔اتنا سنجیدہ تبصرہ۔۔۔۔
آخری لائن پڑھ کر یقین ہو گیا کہ واقعی آپ سنجیدہ تبصرہ فرما رہے ہیں۔۔۔۔ویسے بہت خوب وضاحت کی آپ نے۔۔۔
بہت خوبصورت غزل ہے اور میرے خیال میں تو شاعر کے خیالات کی پھرپور نمائندگی بھی کر رہی ہے۔۔۔۔ویسے مجھے بھی ہر ہر چیز ایسے ہی کسی نا کسی سوچ میں مشغول نظر آتی ہے۔۔۔۔
یہ کہیئے کہ ملاقات کا شرف کب عطا کر رہے ہیں۔۔
میں کئی ایک بار آپ کے دولت کدے کی زیارت کرچکا ہوں۔
مگر ہمت نہیں ہوئی کہ دستک دی جائے۔۔
اشاروں ہی اشاروں میں، گلے پڑتے ہیں دکھ کتنے
تبھی تو سارے روتے ہیں، کنوارے سوچتے ہونگے