اس وقت قوم کو سیاست کی نہیں بلکہ متحد ہونے کی ضرورت ہے
متحدہ اگر مہاجرین کیمپ سندھ میں نہیں لگاتی ہے، تو میری نظر میں یہ غلطی ہو گی۔
بہرحال یہ وقت قوم کے لیے متحد ہونے کا ہے سیاست کرنے کا نہیں۔ متحدہ کے اس اقدام کی مذمت کریں، مگر اس کو بنیاد بنا کر اپنی سیاست نہ کریں۔
مہاجرین کیمپ کی دوسروں صوبوں میں بندش کی تجویز سب سے پہلے پنجاب سے پیش کی گئی
یہ چیز میں کلیئر کرنا چاہ رہی تھی کہ اگرچہ کہ اس چیز کا تذکرہ اخبارات میں نہیں آ رہا ہے، مگر جو کچھ جسقم یا متحدہ نے کہا ہے [یعنی کیمپوں کو صرف سرحد میں ہونا چاہیے] اس کی تجویز سب سے پہلے پنجاب کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔
اس خبر کا لنک یہ ہے۔
اسی تجویز کے آنے کے بعد ہی سندھ میں یہ تحریک شروع ہوئی ہے۔
پنجاب حکومت کا نقطہ نظر
پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ:
1۔ مہاجرین کے روپ میں بہت سے خود کش حملہ آور پنجاب کا رخ کر سکتے ہیں کیونکہ پنجاب میں انہیں
کئی ہائی لیول کے ٹارگٹ خود کش حملوں کے لیے میسر ہیں۔
2۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے دو اقدامات کیے جائیں۔
پہلا یہ کہ مہاجرین کے سارے کیمپ صوبہ سرحد میں ہی لگائے جائیں۔ اس طرح ان متاثرین کو اپنے علاقوں سے بہت دور سفر کر کے پناہ حاصل نہیں کرنا پڑے گی اور ان پناہ گاہوں تک وہ پیدل بھی رسائی حاصل کر سکیں گے۔ نیز انکی واپسی بھی ان علاقوں سے ان کے لیے بہت آسان ہو گی۔
دوم یہ کہ جو لوگ مہاجرین کیمپوں کی بجائے انفرادی طور پر پنجاب کا رخ کر رہے ہیں، انکی جس حد تک ممکن ہو سکے رجسٹریشن کی جائے، تاکہ خود کش حملہ آوروں کے خطرے کو کسی حد تک کم کیا جا سکے۔
3۔ لیکن پنجاب حکومت نے یہ واضح کیا تھا کہ اگر یہ ممکن نہ ہو سکا تو ایمرجنسی میں وہ پنجاب میں بھی مہاجر کیمپ کھولنے کے لیے تیار ہیں۔
میرے خیال میں پنجاب حکومت کی یہ باتیں اور موقف سو فیصدی رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔
سندھ کی جماعتوں کا موقف
مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب کے اس موقف کے بعد سندھ میں بھی ان مہاجرین کیمپوں کے خلاف تحریک پیدا ہوئی ہے۔ اور چونکہ کراچی میں حالات پہلے سے ہی کشیدہ ہیں، اس لیے اس مہاجرین کیمپوں کا قیام اور زیادہ پیجدہ مسئلہ اختیار کر گیا ہے۔
کراچی میں پشتوں آبادی تقریبا 40 کے قریب بتائی جا رہی ہے، جو کہ واقعی بہت بڑی کمیونٹی ہے۔ مہاجرین کیمپ نہ ہونے کے باوجود بہت سے لوگ انفرادی طور پر کراچی آئے ہیں کیونکہ انکے رشتے دار پہلے سے ہی یہاں موجود ہیں۔
متحدہ کی طرف سے بھیجی جانی والی امداد
اگرچہ کہ متحدہ نے مہاجرین کیمپوں کو کراچی میں بنانے کی بجائے صوبہ سرحد میں ہی بنانے کا موقف اختیار کیا ہے، لیکن مثبت پہلو یہ ہے کہ کراچی میں سوات کے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے بہت دل کھول کر کام ہو رہا ہے اور معاشرے کے تمام طبقات اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
یہ فرنچ سفارتکار ہیں جو متحدہ کی خدمت خلق فاؤنڈیشن کے کاموں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
کرکٹرز راشد لطیف، سکندر بخت، فیصل اقبال وغیرہ خدمت خلق کی کاروائیوں میں ہاتھ بٹاتے ہوئے
عمر شریف اور دیگر بہت سے آرٹسٹوں نے طارق روڈ اور دیگر علاقوں میں پرسنلی جا کر لوگوں سے چندے جمع کیے
دعا کریں کہ ملک میں اچھی سپرٹ قائم رہے۔ اگر پنجاب اور سندھ کو میری رائے میں مہاجر کیمپ کھولنے چاہیے ہیں اور ملک اور قوم کو افضلیت دینی چاہیے ہے۔ بے شک وہ رجسٹریشن کا سخت ترین طریقہ کار اختیار کر لیں، مگر ہر صورت میں یہ مہاجر کیمپ کھولیں۔ سیاست برطرف، یہ وقت اپنے بھائیوں کی امداد کا وقت ہے۔