سندھی تنظیم اور متحدہ کا مہاجرین کیمپ سندھ میں لگانے پر احتجاج

زینب

محفلین
ایک بار پھر سے سارا ملبہ پنجاب پے ڈالنے کی ناکام سی کوشیش۔۔۔۔۔۔۔۔پنجابیوں کو سب کچھ بنا بنایا پلیٹ میں رکھ کے پیش نہیں کیا گیا کچھ بھی۔۔۔۔۔۔۔بھئی مھںت کرو اور پھل پاو سیدھی سی بات ہے ۔۔۔اور جہاں تک مہاجرین کا تعلق ہے تو پورا پاکستان ان کا اپنا ہے جہاں رہنا چاہیں رہیں چاہے تو میرے جہلم میں آجایئں میری طرف سے جی آیاں نوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ نے چاہا تو جلد لوٹ جایئں گے اپنے گھروں کو بے چارے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

زینب

محفلین
سوچ لیں‌خان صاحب میں نے پھر کراچی سے گمبٹ تک آپریشن کا حکم دینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اندرون سندھ مکمل ہڑتال، کراچی متاثر

سندھی قومپرست جماعت جیے سندھ قومی محاذ آریسر گروپ کی طرف سے مالاکنڈ فوجی آپریشن متاثرین کی آمد کے خلاف ہڑتال کے اعلان پر اندرون سندھ کے تمام اہم شہروں کے کاروباری مراکز بند اور سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم ہے۔

مالاکنڈ متاثرین کی آمد کے خلاف سندھ میں ایک دن کے وقفے کے بعد دوسری ہڑتال کی جا رہی ہے ہڑتال کی اپیل سندھی قومپرست جماعت جیے سندھ قومی محاذ آریسر گروپ نے دی ہے۔

دوسری جانب کراچی میں صبح سے ملیر، لیاری اور گڈاپ سمیت کئی علاقوں میں کاروبار جزوی طور پر بند رہا جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ معمول سے کم ہے۔ ٹرانسپورٹ اتحاد کی جانب سے حکومت کی یقین دہائی کے بعد آج گاڑیاں معمول کے مطابق چلانے کا اعلان کیا گیا تھا اس کے باوجود ٹریفک کم رہا ہے۔ تاہم کئی علاقوں میں پیٹرول پمپ اور سی این جی گیس سٹیشن بھی بند ہیں۔

سکھر سے ہمارے نامہ نگار نثار کھوکھر نے بتایا کہ ہڑتال کے دوران اندرون سندھ کے تمام اہم شہروں کے کاروباری مراکز بند ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم نظر آرہی ہے۔جیے سندھ کے کارکنان نے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں۔جسقم آریسر گروپ کے مطابق پولیس نے ان کے درجنوں کارکنان گرفتار کیے ہیں۔

حیدرآباد کے اہم کاروباری مراکز رشیم گلی،ٹاور مارکیٹ،گل سنٹر،قاسم آباد اور دیگر علاقوں میں دکانیں صبح سے بند ہیں۔

میرپور خاص، بدین، ٹھٹھہ، نوابشاہ، سانگھڑ، دادو، جامشور اور سیہون میں بھی کاروبار زندگی معطل رہا ہے۔ دوسری جانب خیرپور میں جیے سندھ کے کارکنان نے فیاض خمیسانی کی قیادت میں احتجاجی جلوس نکالا ہے۔جسقم کے مطابق پولیس نے خیرپور سے ان کے دس کارکنان کو گرفتار کر لیا ہے۔

لاڑکانہ، جیکب آباد، شکارپور، کشمور کندھ کوٹ اور قمبر شھدادکوٹ میں بھی ہرتال کی گئی ہے اور سڑکوں پر ٹریفک معمول سے کم نظر آرہا ہے۔

سندھ میں سوات اور مالاکنڈ میں فوجی آپریشن متاثرین کی آمد کے خلاف قومپرست جماعت جیے سندھ کی ایک دن کے وقفے کے بعد یہ دوسری ہڑتال ہے۔ پہلی ہڑتال سنیچر کےروز بشیر قریشی کی قیادت میں قائم جسقم نے کی تھی جبکہ پیر کی ہڑتال جسقم آریسر گروپ کی اپیل پر کی گئی ہے۔

جسقم چیئرمین عبدالواحد آریسر نے کہا ہے کہ سرحد سے پشتونوں کی آمد سے سندھی اپنی دھرتی پر اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ سوات اور مالاکنڈ آپریشن متاثرین کو صوبہ سرحد کے بندوبستی علاقوں اور اٹک پل کے قریب پنجاب کے علاقوں میں آباد کیا جائے تاکہ انہیں واپسی میں آسانی ہوسکے۔

آریسر کا کہنا ہے کہ سندھی پوری قوت سے اپنی دھرتی کا دفاع کریں گے اور غیر سندھیوں کی آمد کے خلاف احتجاج جاری رکھیں گے۔

کراچی سے ہمارے نامہ نگار ریاض سہیل نے بتایا کہ ہڑتال کے اعلان سے کراچی میں بھی معمولات زندگی متاثر ہورہے ہیں۔

رات گئے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اس ہڑتال سے لاتعلقی کا اظہار کردیا تھا تاہم ہڑتال کو دیگر قوم پرست جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔

ہڑتال کے باعث قومی شاہراہ، سپر ہائی وے اور انڈس ہائی وے سمیت اندرون سندھ کے تمام شاہراہوں پر پبلک ٹرانسپورٹ معمول سے کم ہے۔
کراچی میں صبح سے ملیر، لیاری اور گڈاپ سمیت کئی علاقوں میں کاروبار جزوی طور پر بند رہا جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ معمول سے کم ہے۔ ٹرانسپورٹ اتحاد کی جانب سے حکومت کی یقین دہائی کے بعد آج گاڑیاں معمول کے مطابق چلانے کا اعلان کیا گیا تھا اس کے باوجود ٹریفک کم رہا ہے۔ تاہم کئی علاقوں میں پیٹرول پمپ اور سی این جی گیس سٹیشن بھی بند ہیں۔

محکمہ تعلیم نے سوموار کے روز تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا تھا تاہم اکثر نجی اسکول بند رہے اور تمام تعلیمی اداروں میں ہونے والے امتحانات ملتوی کردیے گئے ہیں۔

دوسری جانب محکمہ داخلہ نے موٹر سائیکل پر ڈبل سواری پر پابندی میں مزید ایک ماہ کی توسیع کردی ہے۔ وزیر اعلٰی ہاؤس میں کل رات امن امان کے بارے میں ہونے والے اجلاس میں وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے بتایا کہ شرپسندوں کو گولی مارنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

وزیر اعلٰی سید قائم علی شاھ کا کہنا تھا کہ متاثرین آپریشن کو کیمپوں تک محدود رکھا جائے گا جہاں سے انہیں واپس بھیج دیا جائے گا۔ ’سندھ کے لوگوں کے حقوق پر کوئی سودے بازی نہیں کی جائے گی۔‘

سید قائم علی شاھ نے دبے لفظوں میں اھنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پر بھی تنقید کی اور کہا کہ کور کمیٹی کے اجلاس میں ڈاکٹر فاروق ستار مطمئین ہوکر گئے تھے مگر اس کے بعد بھی انہوں نے ہڑتال کی حمایت کی۔

دوسری جانب حکمران اتحاد میں شامل ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے رات گئے ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ انہوں نے سوموار کے روز کسی ہڑتال کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے مگر آپریشن متاثرین کی آمد کے حوالے سے سندھ کے لوگوں میں جو خدشات پائے جاتے ہیں وہ ان کی حمایت کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ تئیس مئی کو ایم کیو ایم کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں رابطہ کمیٹی نے جسقم آریسر گروپ کی ہڑتال کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی اور انہیں یقین دلایا کہ ایم کیوایم سندھ پر کسی صورت میں بھی طالبان کا قبضہ نہیں ہونے دےگی۔

دوسری جانب سندھی ادیبوں اور شعرا کی تنظیم سندھی ادبی سنگت نے بھی آپریشن متاثرین کی سندھ آمد کی مخالفت کی ہے اور قوم پرست جماعتوں کے جاری احتجاج میں شرکت کا اعلان کیا ہے
بشکریہ بی بی سی اردو
 
افسوسناک بات ہے
سندھی مہاجر اور پنجابی اس مرتبہ بھی پاکستان توڑنےمیں‌اکھٹے ہوگئے ہیں۔ اس طرح‌کی باتیں نہ مہاجروں‌کو زیب دیتی ہیں‌نہ سندھیوں کو۔ قوم پرستی کی سیاست نے ملک کو کہیں‌نہیں‌چھوڑا سب ملکر ملک پر کلہاڑا چلارہے ہیں‌اور سب سے بڑا کلہاڑا فوج کےپاس ہے
 
افسوسناک بات ہے
سندھی مہاجر اور پنجابی اس مرتبہ بھی پاکستان توڑنےمیں‌اکھٹے ہوگئے ہیں۔ اس طرح‌کی باتیں نہ مہاجروں‌کو زیب دیتی ہیں‌نہ سندھیوں کو۔ قوم پرستی کی سیاست نے ملک کو کہیں‌نہیں‌چھوڑا سب ملکر ملک پر کلہاڑا چلارہے ہیں‌اور سب سے بڑا کلہاڑا فوج کےپاس ہے

کل جو قومی کانفرنس ہوئی تھی اس میں سندھی قومپرستوں کے علاوہ اعتزاز احسن اور صدیق الفاروق نے بھی شرکت کی تھی۔ آپ کو حیرانگی ہوگی کہ مسلم لیگ ن قومپرستوں کو سپورٹ کررہی ہے ۔
اگر سندھی، مہاجر اور پنجابی پاکستان توڑیں گے تو باقی کون رہ گیا؟
 
کل جو قومی کانفرنس ہوئی تھی اس میں سندھی قومپرستوں کے علاوہ اعتزاز احسن اور صدیق الفاروق نے بھی شرکت کی تھی۔ آپ کو حیرانگی ہوگی کہ مسلم لیگ ن قومپرستوں کو سپورٹ کررہی ہے ۔
اگر سندھی، مہاجر اور پنجابی پاکستان توڑیں گے تو باقی کون رہ گیا؟
مسلم لیگ سب سے بڑی قوم پرست پارٹی ہے۔ فوجی پیداوار۔ وہ حمایت نہیں‌کرے گی تو جماعت اسلامی کرے گی کیا۔
یہ سندھ ، پنجاب اور مہاجر قوم پرست وہ ہے جن کی روزی روٹی فوجی ٹکڑوں سے چلتی ہے ۔ فوج کے اشاروں پر ان کے حرکات ہے۔فوج نے خود پاکستان توڑنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ اس بھاڑے کی فوج نے امریکی اور بھارتی غلامی کا تہیہ ہی کرلیا ہے۔ اتنی مشکل سے بھٹونے نوے ہزار فوجیوں‌کو چھڑوایا تھا مگر یہ توبھاگ بھاگ کر غلامی کرنا چاہتے ہیں۔
 

راشد احمد

محفلین
بے حسی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ ایک طرف تو خود کو ملک کا خیرخواہ کہتے ہیں لیکن دوسری مصیبت زدہ لوگوں کی پریشانیاں مزید بڑھاتے ہیں۔
 

راشد احمد

محفلین
متاثرین کے بھیس میں سندھ میں لینڈمافیا ،ڈرگ مافیا اور اسلحہ سپلائیرمافیا نے اپنی دوکان لگانے کی سازش کر رہی ہے۔

مالاکنڈ سے سندھ میں آنے والوں‌ کی حقیقت

1۔ مالاکنڈ سے سندھ میں آنے والے فوجی آپریشن کے متاثرین نہیں ہیں بلکہ وہ ایسے طالبان ہیں جنہوں نے داڑھیاں منڈھوا کر بھیس بدل لیا ہے اور فرار ہوکر سندھ پہنچ رہے ہیں۔ اور خدشہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ اپنا مرکز سرحد سے سندھ منتقل کر رہے ہیں۔

افغانیوں کو مالاکنڈ کے متاثرین کے بھیس میں لاکرخالی زمینوں پر جھگیوں میں بساناہے اور پھر آہستہ آہستہ اس پر جھگی کو پکے گھر میں تبدیل کرنا ہے۔

قربان جاؤں آپ کے حقائق سے۔
پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں
ایم کیوایم ڈرہی ہے کہ کہیں پٹھان کراچی میں زیادہ نہ ہوجائیں ورنہ ان کا اثرورسوخ ختم ہوجائے گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ان بہاری پاکستانیوں کو نہ لاسکنے کا الزام صرف سید شاہی کو یا ان کی پارٹی کو دینا نا انصافی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اے این پی نے کبھی بھی اتنی زیادہ طاقت نہ مرکز میں حاصل کی نہ اسمبلی میں کہ وہ ان پاکستانیوں کی بحالی میں مدد کر سکے۔ اے این پی بےچاری تو سندھ میں اپنےپٹھانوں کی مدد نہیں کر سکتی، بنگلہ دیش میں کیا کرے گی؟

کیا یہ سوال آپ نے ایم کیو ایم والوں سے انھی الفاظ میں پوچھا؟

میرے مطابق پوری قوم کے تمام کے تمام وہ لوگ محصورین پاکستان کے حوالے سے ذمہ دار ہیں جنہوں نے ان کی واپسی کی مخالفت کی ہے۔ چاہے وہ حکومت میں ہوں یا نہیں ہوں۔
اے این پی کے حوالے سے میں آپ کی بات اور لاجک سے اتفاق نہیں کرتی کیونکہ آپ اے این پی کو اس لیے اس سے بری الذمہ بنا رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس سندھ میں حکومت نہیں تھی۔

مسئلہ بہت آسان سا ہے اور وہ یہ کہ یہ حکومت کے ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ نہیں، بلکہ پارٹی موقف کا مسئلہ ہے اور اے این پی نے بطور حکومت نہیں بلکہ بطور پارٹی ہمیشہ محصورین پاکستان کی واپسی کی مخالفت کی ہے۔ مگر جب آپ انکی پارٹی کی حکومت بن گئی ہے اور مسئلہ محصورین پاکستان سے ہٹ کر انکے اوپر جا پڑا ہے تو پھر یہ اپنا ماضی بھول کر دوسروں پر اس چیز کا اعتراض کر رہے ہیں جس کے بذات خود بڑے مجرم یہ رہے ہیں۔
 

باسم

محفلین
نہ جانے کس کی دعائیں قبول ہوئی ہیں کہ کراچی مزید خونریزی سے بچ گیا ہے اور دوسرے صوبوں میں متاثرین کے کیمپوں کا معاملہ بھی خوش اسلوبی سے طے ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ صوبہ سرحد میں سوات، بونیر وغیرہ سے نقل مکانی کرنے والوں کی رجسٹریشن کر کے کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے، اس لیے سندھ میں نقل مکانی کرنے والوں کو کیمپوں تک محدود رکھا جائے گا، ان کی رجسٹریشن کی جائے گی اور حالات بہتر ہونے پر انہیں واپس باعزت طریقے سے بھیجا جائے گا۔ ماضی میں خاموش رہنے والے نقل مکانی کرنے والوں کی آمد کے خلاف ہڑتال کر رہے ہیں اور ہمارے کچھ دوست بھی ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ سندھ کے لوگوں کے حقوق پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے سوات سے نقل مکانی کرنے والوں کو سندھ آنے سے کبھی نہیں روکا ہے، صرف نقل مکانی کرنے والوں کی رجسٹریشن کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، جسے ایشو بنایا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کچھ عناصر موجودہ جمہوری نظام کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ان سے یہی کہیں گے کہ وہ انتہا پر نہ جائیں، ہڑتال کر کے لوگوں کو گھروں میں بند نہ کریں۔
جنگ اردو
مہاجر قومی موومنٹ پاکستان کے سیکریٹری اطلاعات سہیل انجم ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ سوات کے متاثرین کا حق ہے کہ وہ جہاں چاہیں رہیں۔ انہوں نے کہا اگر حکومت نے اپنے موجودہ رویہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے کراچی کی صورتحال پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا توکراچی قبائلی علاقوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا اور ملکی سالمیت خطرے سے دوچار ہوجائے گی۔
جنگ اردو
گورنر پنجاب نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ حکومت نے متاثرین کے لئے پنجاب میں کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب حکومت متاثرین کی ہر ممکن مدد کرے گی۔
آج اردو
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ پنجاب میں متاثرین سوات کو خوش آمدید کہیں گے اور ان کی بھر پور مدد کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کے متاثرین کو ملک کے کسی بھی حصے میں جانے سے روکنا ملکی یکجہتی کے منافی ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو سوات متاثرین کے پنجاب میں کیمپ لگائے جائیں گے ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کی عوام مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ہے۔
آج اردو
پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن کے متاثرین کو صوبے میں خوش آمدید کہیں گے اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھیں گے۔ پنجاب حکومت اور مسلم لیگ نواز کے ترجمان سینیٹر پرویز رشید نے دی نیوز کو بتایا کہ ہم پنجاب میں بے گھر ہونے والے افراد کے لئے خیمے قائم کرنے کو تیار ہیں۔ پرویز رشید نے کہا کہ ان بے گھر افراد کو پاکستان میں کہیں بھی جانے کا حق ہونا چاہئے اور اندرون ملک ان کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔
جنگ اردو
پنجاب حکومت کی جانب سے متاثرین کی امداد کیلیے ویب سائٹ کا قیام اور امداد کی تفصیلات
 
کراچی: سپر ہائی وے سے خیمے ہٹا دیے گئے
کراچی میں سپر ہائی وے پر جو ڈیڑہ سو کے قریب خیمے لگائے گئے تھے ان کو سوموار کے روز پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں ہٹا دیا گیا ہے۔

سپر ہائی وے پر الیاس گوٹھ کے قریب یہ ڈیڑہ سو کے قریب خیمے لگائے گئے تھے جن میں ابھی متاثرین کو آنا تھا۔

گزشتہ روز جئے سندھ قومی محاذ کے چیئرمین بشیر قریشی نے کارکنوں کے ساتھ پہنچ کر یہاں احتجاج کیا تھا اور متنبہ کیا تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے اندر ان کیمپوں کو ہٹایا جائے ورنہ وہ خود انہیں ہٹا دیں گے۔ جس کے بعد پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں ان کیمپوں کو ہٹایا گیا ۔

تاہم وہاں موجود ڈی ایس پی محمد افتخار کا کہنا ہے کہ پانی کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ان کیمپوں کو ہٹایا جارہا ہے اس کی وجہ کوئی دباؤ ہرگز نہیں ہے۔

یاد رہے کہ صوبائی حکومت بار بار یہ کہتی رہی ہے کہ متاثرین کو کیمپوں میں ٹھرایا جائے گا مگر یہ کیمپ ابھی تک مکمل طور پر تیار ہی نہیں ہوسکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق یہ کیمپ اس لیے بھی ہٹائے گئے ہیں کہ یہ علاقہ بہت ویران ہے اور انتظامیہ کو امن امان کے حوالے سے خدشات تھے۔

بی بی سی اردو
 

مہوش علی

لائبریرین
شکریہ باسم۔
اور شکر ہے خدا کہ ان لوگوں کو شاید کچھ عقل آ گئی قبل اسکے کہ مزید دیر ہوتی۔
مجھے لگتا ہے کہ قوم کے ذہنوں میں ابھی تک افغان پناگزین کیمپوں کی اذیت ناک یاداشتیں محفوظ ہیں اور یہ ابھی تک خوف میں مبتلا ہیں۔
بہرحال اس مسئلے کا فقط ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ ہ کیمپ لگائے جائیں اور پھر رجسٹریشن وغیرہ کی سختی رکھی جائے۔ ویسے مجھے یہ مشکل کام لگتا ہے کیونکہ افغان مہاجرین کے پاس تو پاکستانی شہریت نہیں تھی، مگر سوات سے آنے والے لوگوں کے پاس پاکستانی شہریت ہے اور انہیں صرف پناہ گزین کیمپوں تک محدود رکھنا بھی ممکن نہ ہو سکے گا اور اگر یہ بڑے شہروں میں رکنے کا فیصلہ کر لیں تو انہیں قانونی طور پر واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔

بے شک ہر پاکستانی شہری کو دوسرے علاقے میں جانے اور بسنے کا حق حاصل ہے، مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ چیز Mass Level پر اگر وقوع پذیر ہو اور کئی لاکھ افراد اپنا علاقہ چھوڑ کر کراچی میں ایک ہی وقت پر جا کر بس جائیں تو بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ چنانچہ یہ ہجری انفرادی طور پر آہستہ آہستہ ہو تو معاشرہ اسے قبول کرتا جاتا ہے، مگر یکدم اگر کئی لاکھ افراد ایک ساتھ ہجرت کریں تو یہ چیز یقینی طور پر بہت سے مسائل کو جنم دے گی۔
جب ڈحائی لاکھ محصورین پاکستان کو واپس لایا جا رہا تھا تو یہ شرط رکھی گئی تھی کہ وہ کراچی جا کر نہیں بسیں گے بلکہ انہیں ملک کے مختلف حصوں میں بسنا ہو گا۔ میرے خیال میں مسائل اور حالات کے اعتبار سے یہ ایک اچھی شرط تھی جس سے دیموگرافک فیکٹر متاثر نہ ہوتا۔

بہرحال دلی ہنوز دور است۔ پتا نہیں یہ طالبانی فتنہ اور کتنے فسادات پاکستان میں کروانے کا موجب بنے گا۔
یہ جنگ اتنی جلدی ختم ہونے والی نہیں، اور اگر وزیرستان اور دیگر علاقوں میں طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو پتا نہیں کتنے اور لاکھ معصوم لوگوں کو بے گھر ہونا پڑ جائے گا۔

میں کتنا کہتی تھی کہ طالبان وہ ناسور ہے کہ جسم کے اندر رہا تو قوم اپنی موت مر جائے گی، اور اگر اسے کاٹ کر علیحدہ کیا گیا تو اس میں بہت خون بہے گا۔
 
آج قمر زمان کائرہ صاحب ایک ڈونرز کانفرنس میں تقریر کے دوران بتایا کہ صرف دو لاکھ لوگ کیمپوں میں باقی اکیس لاکھ اپنے رشتہ داروں اور دیگر جگہوں پر گئے ہیں۔ سوال یہ کہ یہ لوگ کیمپس میں جانا کیوں نہیں چاہتے؟ جبکہ کافی رفاہی ادارے ان کے لئے کام کررہے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہ سوال کرنے والوں کو ایک دن ان کیمپوں میں گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
 
یہ سوال کرنے والوں کو ایک دن ان کیمپوں میں گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سوال تو اچھا ہے مگر آج جس ڈونر کانفرنس میں شریک تھا وہاں برگیڈیر آفندی، سلطان فیاض الحسن قادری اور پیر نقیب الرحمٰن نے بتایا کہ کیمپوں کی حالت بہتر ہے اور نہ صرف ان لوگوں کو کھانے کی اشیاء دی جارہی ہیں بلکہ ان کے بچوں کو کپڑے اور جوتے بھی پہنچائے جاررہے مزید برآں وہاں کیمپس میں اسکول بھی شروع کیے جارہے ہیں۔ یہاں ہر نکڑ پر ان متاثرین کے لئے فنڈز بھی جمع کیے جارہے اور ان تک پہنچائے بھی جاررہے ہیں۔
 

طالوت

محفلین
میرا تبصرہ پھر وہی ہے جو نبیل کا ہے ۔
-------------------------------------
رہی مہاجرین کے رہنے کی بات تو اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کا کسی دوسرے علاقے میں مستقل جا بسنا کوئی کھیل نہیں ۔ حکوت کے یہ دعوے کے بیس پچیس لاکھ لوگ ہجرت کر گئے ہیں اگر کیمپوں میں رکھیں جائیں تو سب کو نانی یاد آ جائے گی ۔ چند ہزار لوگوں کے کراچی آنے پر اس قدر شور ؟ باعث افسوس ہے اگرچہ اس کا جواب دیا جا سکتا ہے مگر مزید انتشار کا باعث ہو گا ۔ حالات کے اچھے ہوتے ہی میرے خیال میں 95 فیصد سے زائد لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے ۔
یہ قوم ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہے جیسے نعروں پر اس صورتحال کے بعد مجھے ہنسی آ رہی ہے ۔ خصوصا آپریشن کی حمایتی جماعتوں کا مکروہ چہرہ اور بھی واضح ہو گیا ہے ۔
وسلام
 

گرائیں

محفلین
میرا تبصرہ پھر وہی ہے جو نبیل کا ہے ۔
-------------------------------------
رہی مہاجرین کے رہنے کی بات تو اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کا کسی دوسرے علاقے میں مستقل جا بسنا کوئی کھیل نہیں ۔ حکوت کے یہ دعوے کے بیس پچیس لاکھ لوگ ہجرت کر گئے ہیں اگر کیمپوں میں رکھیں جائیں تو سب کو نانی یاد آ جائے گی ۔ چند ہزار لوگوں کے کراچی آنے پر اس قدر شور ؟ باعث افسوس ہے اگرچہ اس کا جواب دیا جا سکتا ہے مگر مزید انتشار کا باعث ہو گا ۔ حالات کے اچھے ہوتے ہی میرے خیال میں 95 فیصد سے زائد لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے ۔
یہ قوم ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہے جیسے نعروں پر اس صورتحال کے بعد مجھے ہنسی آ رہی ہے ۔ خصوصا آپریشن کی حمایتی جماعتوں کا مکروہ چہرہ اور بھی واضح ہو گیا ہے ۔
وسلام

وہ قتل بھی کریں تو چرچا نہیں ہوتا ۔۔۔
 

گرائیں

محفلین
شکریہ باسم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ مگر سوات سے آنے والے لوگوں کے پاس پاکستانی شہریت ہے اور انہیں صرف پناہ گزین کیمپوں تک محدود رکھنا بھی ممکن نہ ہو سکے گا اور اگر یہ بڑے شہروں میں رکنے کا فیصلہ کر لیں تو انہیں قانونی طور پر واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔

بے شک ہر پاکستانی شہری کو دوسرے علاقے میں جانے اور بسنے کا حق حاصل ہے، مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ چیز mass level پر اگر وقوع پذیر ہو اور کئی لاکھ افراد اپنا علاقہ چھوڑ کر کراچی میں ایک ہی وقت پر جا کر بس جائیں تو بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ چنانچہ یہ ہجری انفرادی طور پر آہستہ آہستہ ہو تو معاشرہ اسے قبول کرتا جاتا ہے، مگر یکدم اگر کئی لاکھ افراد ایک ساتھ ہجرت کریں تو یہ چیز یقینی طور پر بہت سے مسائل کو جنم دے گی۔
جب ڈحائی لاکھ محصورین پاکستان کو واپس لایا جا رہا تھا تو یہ شرط رکھی گئی تھی کہ وہ کراچی جا کر نہیں بسیں گے بلکہ انہیں ملک کے مختلف حصوں میں بسنا ہو گا۔ میرے خیال میں مسائل اور حالات کے اعتبار سے یہ ایک اچھی شرط تھی جس سے دیموگرافک فیکٹر متاثر نہ ہوتا۔ ۔۔۔۔۔۔

بالکل یہی بات بی بی سی کے ایک تبصرے میں کہی گئی تھی، تبصرے کے مطابق بی بی سی نے کہا کہ کراچی میں طالبان کا شور اس وقت اُٹھنا شروع ہوا جب اے این پی نے انتخا بات میں دو سیٹیں جیت لیں، اس پر دوسری "سیاسی جماعتوں" کو خطرہ ہوا کہ اگر پٹھان اسی طرح کراچی آتے رہے تو کہیں ان کی سیاست کی لُٹیا نہ ڈوب جائے،"

اس کے بعد جو کچھ ہوا اس پر تبصرے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔۔
 
Top