باذوق
محفلین
پوسٹ نمبر : 7
پوسٹ نمبر : 7
محترمی و مکرمی اجمل صاحب نے بالکل درست فرمایا تھا کہ : آپ کو بالکل احساس نہیں کہ آپ کیا کر (کہہ) رہے ہیں ؟
محترمی فاروق صاحب ، سورہ البقرہ کی آیات ، آپ نے بڑے آرام سے کتبِ احادیث کے مولفین پر چسپاں تو کر دیں ، کاش کہ اس عمل سے پہلے ان دو آیات کی تفسیر بھی دیکھ لیتے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ ، اپنی تفسیر میں ، ان آیات کے ضمن میں صحیح بخاری کی ایک حدیث یوں پیش کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اے مسلمانو! اہلِ کتاب سے تم کیوں سوالات کرتے ہو۔ حالانکہ تمہاری کتاب جو تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے بعد میں نازل ہوئی ہے ۔ تم اسے پڑھتے ہو اور اس میں کسی قسم کی بھی آمیزش نہیں ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ تو تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہے کہ اہلِ کتاب نے اس کتاب کو بدل دیا، جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دی تھی اور خود ہی اس میں تغیر کر دیا اور پھر کہنے لگے یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے۔ ان کا مقصد اس سے صرف یہ تھا کہ اس طرح تھوڑی پونجی (دنیا کی) حاصل کر سکیں۔
پس کیا جو علم (قرآن ) تمہارے پاس آیا ہے وہ تم کو ان (اہلِ کتاب) سے پوچھنے کو نہیں روکتا۔ اللہ کی قسم! ہم نے ان کے کسی آدمی کو کبھی نہیں دیکھا کہ وہ ان آیات کے متعلق تم سے پوچھتا ہو جو تم پر (تمہارے نبی کے ذریعہ) نازل کی گئی ہیں۔
صحيح بخاري ، كتاب الشهادات ، باب : لا يسال اهل الشرك عن الشهادة، وغيرها ، حدیث : 2726
کیا بخاری کی اس حدیث کی تفسیر سے یہ ظاہر نہیں ہو رہا کہ ان آیات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہودی علماء کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دنیا کی خاطر کتابِ الٰہی میں تحریف کرنے کا الزام لگایا ہے۔
یعنی جن آیات کا شانِ نزول کفار کے لیے تھا ، ہمارے محبی فاروق صاحب ، بغیر کسی تحقیق کے ، انہیں ان جلیل القدر مسلمان ہستیوں پر چسپاں کر رہے ہیں جنہوں نے دین کے دوسرے مآخذ (سنت) کو ہم تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔
ایسی ہی مذموم حرکت کی پیش گوئی آج سے کوئی چودہ سو سال پہلے عظیم المرتبت صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کر ڈالی تھی ، ملاحظہ فرمائیں :
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ( اس کو طبری نے وصل کیا) ، خارجی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے ، کیونکہ انہوں نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا۔
صحيح بخاري ، كتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم ، باب : قتل الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم
اوپر صحیح بخاری سے ہی حوالہ دیا جا چکا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے احادیث کی ایک کتاب ’صحیفۂ علی‘ مرتب کی تھی ، جس میں دیت اور قیدیوں کے چھڑانے کے احکام درج ہیں ۔۔۔۔
ذرا بتائیے ۔۔۔ نعوذباللہ ثم نعوذباللہ ۔۔۔ کیا خلیفۂ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محض تھوڑے سے دام کمانے کے لیے وہ کتاب لکھی تھی؟؟
کہاں ہیں وہ ثنا خوانِ تقدیسِ علی (رضی اللہ عنہ) ۔۔۔ جن کی غیرت صرف اس وقت جاگتی ہے جب باذوق ، کسی فورم پر ایسی وضعی روایات کو حذف کرتا ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گھڑی جاتی ہیں اور تب باذوق کے خلاف ساری اردو کمیونیٹی میں ہنگامہ بپا کیا جاتا ہے ، ناصبیت کا الزام لگایا جاتا ہے ، مخالف یاھو گروپ تخلیق کیے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اور جب کوئی درپردہ عظیم المرتبت صحابہ کرام ، محدثین اور ائمہ عظام کے خالف دنیا پرستی کا نازیبا الزام لگائے تو ان کی غیرت کہاں جا کر سوئی رہتی ہے؟ ان احبابِ دلنواز کی خاموشی کیا صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ بھی خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ چلو ، کوئی تو ہمنوا نکلا کہ بخاری و مسلم کی احادیث کو مشکوک بتا رہا ہے !
معذرت دوستو ! مندرجہ بالا پیراگراف میری جذباتیت صحیح ، مگر آپ کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ باذوق بھی آپ ہی کی طرح عام سا مسلمان ہے اور جس کو اردو محفل پر آزادیء رائے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ آپ احباب کو۔
پوسٹ نمبر : 7
اللہ اکبر !باقی کتب لکھ کر تھوڑے سے دام کمانے والوں کے لئے اللہ تعالی کے واضح احکامات۔
محترمی و مکرمی اجمل صاحب نے بالکل درست فرمایا تھا کہ : آپ کو بالکل احساس نہیں کہ آپ کیا کر (کہہ) رہے ہیں ؟
محترمی فاروق صاحب ، سورہ البقرہ کی آیات ، آپ نے بڑے آرام سے کتبِ احادیث کے مولفین پر چسپاں تو کر دیں ، کاش کہ اس عمل سے پہلے ان دو آیات کی تفسیر بھی دیکھ لیتے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ ، اپنی تفسیر میں ، ان آیات کے ضمن میں صحیح بخاری کی ایک حدیث یوں پیش کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اے مسلمانو! اہلِ کتاب سے تم کیوں سوالات کرتے ہو۔ حالانکہ تمہاری کتاب جو تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے بعد میں نازل ہوئی ہے ۔ تم اسے پڑھتے ہو اور اس میں کسی قسم کی بھی آمیزش نہیں ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ تو تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہے کہ اہلِ کتاب نے اس کتاب کو بدل دیا، جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دی تھی اور خود ہی اس میں تغیر کر دیا اور پھر کہنے لگے یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے۔ ان کا مقصد اس سے صرف یہ تھا کہ اس طرح تھوڑی پونجی (دنیا کی) حاصل کر سکیں۔
پس کیا جو علم (قرآن ) تمہارے پاس آیا ہے وہ تم کو ان (اہلِ کتاب) سے پوچھنے کو نہیں روکتا۔ اللہ کی قسم! ہم نے ان کے کسی آدمی کو کبھی نہیں دیکھا کہ وہ ان آیات کے متعلق تم سے پوچھتا ہو جو تم پر (تمہارے نبی کے ذریعہ) نازل کی گئی ہیں۔
صحيح بخاري ، كتاب الشهادات ، باب : لا يسال اهل الشرك عن الشهادة، وغيرها ، حدیث : 2726
کیا بخاری کی اس حدیث کی تفسیر سے یہ ظاہر نہیں ہو رہا کہ ان آیات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہودی علماء کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دنیا کی خاطر کتابِ الٰہی میں تحریف کرنے کا الزام لگایا ہے۔
یعنی جن آیات کا شانِ نزول کفار کے لیے تھا ، ہمارے محبی فاروق صاحب ، بغیر کسی تحقیق کے ، انہیں ان جلیل القدر مسلمان ہستیوں پر چسپاں کر رہے ہیں جنہوں نے دین کے دوسرے مآخذ (سنت) کو ہم تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔
ایسی ہی مذموم حرکت کی پیش گوئی آج سے کوئی چودہ سو سال پہلے عظیم المرتبت صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کر ڈالی تھی ، ملاحظہ فرمائیں :
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ( اس کو طبری نے وصل کیا) ، خارجی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے ، کیونکہ انہوں نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا۔
صحيح بخاري ، كتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم ، باب : قتل الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم
اوپر صحیح بخاری سے ہی حوالہ دیا جا چکا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے احادیث کی ایک کتاب ’صحیفۂ علی‘ مرتب کی تھی ، جس میں دیت اور قیدیوں کے چھڑانے کے احکام درج ہیں ۔۔۔۔
ذرا بتائیے ۔۔۔ نعوذباللہ ثم نعوذباللہ ۔۔۔ کیا خلیفۂ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محض تھوڑے سے دام کمانے کے لیے وہ کتاب لکھی تھی؟؟
کہاں ہیں وہ ثنا خوانِ تقدیسِ علی (رضی اللہ عنہ) ۔۔۔ جن کی غیرت صرف اس وقت جاگتی ہے جب باذوق ، کسی فورم پر ایسی وضعی روایات کو حذف کرتا ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گھڑی جاتی ہیں اور تب باذوق کے خلاف ساری اردو کمیونیٹی میں ہنگامہ بپا کیا جاتا ہے ، ناصبیت کا الزام لگایا جاتا ہے ، مخالف یاھو گروپ تخلیق کیے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اور جب کوئی درپردہ عظیم المرتبت صحابہ کرام ، محدثین اور ائمہ عظام کے خالف دنیا پرستی کا نازیبا الزام لگائے تو ان کی غیرت کہاں جا کر سوئی رہتی ہے؟ ان احبابِ دلنواز کی خاموشی کیا صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ بھی خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ چلو ، کوئی تو ہمنوا نکلا کہ بخاری و مسلم کی احادیث کو مشکوک بتا رہا ہے !
معذرت دوستو ! مندرجہ بالا پیراگراف میری جذباتیت صحیح ، مگر آپ کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ باذوق بھی آپ ہی کی طرح عام سا مسلمان ہے اور جس کو اردو محفل پر آزادیء رائے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ آپ احباب کو۔