سوات، سیاحوں کی جنت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سندباد

لائبریرین
شلخو:
[align=justify:88fae96c93]سوات اور کانڑا(داموڑئ) کے درمیان یہ ایک چوٹی ہے۔ جس پر پیدل راستہ بھی موجود ہے۔ شلخی سر یخ تنگی کے قریب غوربند اور پورن کے درمیان واقع ہے۔[/align:88fae96c93]
داموڑئ:
[align=justify:88fae96c93]یہ اُونچے پہاڑوں کے درمیان ایک خوب صورت درہ ہے۔ جس کی بیچوں بیچ ایک ندی بہہ رہی ہے۔ یہاں کافی لوگ آبادہیں۔ یہ منگورہ سے ایک نیم پختہ سڑک کے ذریعے ملا ہوا ہے۔ اس سے آگے ایک سڑک اُولندھر اور دوسری سڑک چکیسر تک چلی گئی ہے۔[/align:88fae96c93]
جبے سر:
[align=justify:88fae96c93]یہ متوڑیزی(چارباغ) اور غوربند الپورئ کے درمیان واقع ہے۔ جو سطح سمندر سے 9 ہزارفٹ بلند ہے۔ اس کی چوٹی پر ایک سرسبز میدان ہے جو سیاحوں کے لئے غیر معمولی دل کشی کا باعث ہے۔[/align:88fae96c93]
درال بانڈہ:
[align=justify:88fae96c93]یہ 10ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع میدان ہے۔ جس میں قدرتی جھیلیں ہیں۔ یہاں کا پانی بہت ٹھنڈا ،شیریں،ہاضم اور قدرتی دوائی کا سا اثر رکھتا ہے۔[/align:88fae96c93]
چکیل سر:
[align=justify:88fae96c93]12ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ایک پہاڑی بانڈہ (دیہات) ہے۔ جو بہت خوب صورت اور سیر و سیاحت کی بہترین جگہ ہے،تاہم اس درہ نما بانڈہ میں سیاحوں کے لئے سہولتوں کا فقدان ہے۔[/align:88fae96c93]
قادر سر:
[align=justify:88fae96c93]بہا،فاضل بانڈہ اور نیک پی خیل کے درمیان ایک مشہور چوٹی ہے۔تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے کیوں کہ دیر اور سوات کے مابین لڑائیوں میں اس کی حیثیت محاذِ جنگ کی سی ہوا کرتی تھی۔[/align:88fae96c93]
ڈوما:
[align=justify:88fae96c93]مداخیل اور اور سورے امازی(چملہ،بونیر) کی حدود میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈوما کافر کے دورِ حکومت میں اس چوٹی کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی جس کو تین سو سال قبل باکو خان نے شکست دی تھی۔[/align:88fae96c93]
پیر سر:
[align=justify:88fae96c93]چکیسر(شانگلہ) کی بلند تاریخی چوٹی ہے اور سکندرِ اعظم کی وجہ سے شہرت کی حامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیرسر کی بلند چوٹی پر اس وقت کے مشہور راجہ اُرنس کا مضبوط قلعہ تھا جس کو فتح کرنے کے لئے سکندراعظم نے اس پر حملہ کیا تھا۔[/align:88fae96c93]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
اخوند صاحبِ سوات
(سیدو بابا)

[align=justify:645570463b]وادئ سوات، صوبہ سرحد، آزاد قبائل اور افغانستان میں اخوند صاحبِ سوات کا نام ایک عظیم صوفی اور صاحبِ کشف وکرامت بزرگ کے طور پر مشہور ہے۔ اخوند صاحبِ سوات کااصل نام عبدالغفور اور والد کا نام عبدالوحید تھا۔ آپ سوات کے علاقہ ’’شامیزئ‘‘ میں جبڑی کے مقام پر 1794ء میں پیداہوئے۔ آپ افغان قوم کے مہمند قبیلے صافی سے تعلق رکھتے تھے۔ بچپن میں آپ نے بھیڑ بکریاں چرائیں۔ لیکن جب ہوش سنبھالا تو حصولِ علم اور تلاشِ حق کے لئے صوبہ سرحد کے فاضل علماء اور خدارسیدہ مشائخ کے پاس زانوائے تلمذ تہِ کرتے رہے۔
ابتدائی تعلیم آپ نے ’’بڑنگولا‘‘ کے ایک مولوی صاحب سے حاصل کی۔ اس وقت سوات میں تعلیم حاصل کرنے کے مؤثر ذرائع موجودنہیں تھے۔ اس لئے آپ مزید حصولِ علم کے لئے ضلع مردان کے گاؤں’’ گوجر گڑھی‘‘ چلے گئے۔ جہاں آپ نے مولانا عبدالحلیم سے باقاعدہ مزید روحانی فیض حاصل کیا۔ کچھ عرصہ آپ نے چمکنی(پشاور) اور زیارت کاکا صاحبؒ تحصیل نوشہرہ میں گزارا۔ اس کے بعد پشاور میں گنج والے حافظ حضرت جی کی خدمت میں زانوائے تلمذ تہِ کیا اور قریباً چار سال تک اُن سے سلوک و طریقت کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ بعد ازاں آپ شیخ المشائخ صاحب زادہ محمد شعیب ساکن تورڈھیری کی خدمت میںپہنچے اور وہاں ایک جھونپڑی میں رہ کر بارہ سال تک مجاہدہ اور ریاضت کرتے رہے۔
آپ نے 1816ء میں دریائے سندھ کے کنارے ایک گاؤں’’ بیکی‘‘ میں مسلسل بارہ سال تک چلہ کشی کی۔ اس ریاضت سے فارغ ہوکر آپ نے باطنی مدارج کی جومنزلیں طے کیں، اس سے آپ کی شہرت دور دراز تک پھیل گئی۔ تھوڑے ہی عرصے میں سرحد و افغانستان کے لاکھوں افراد آپ کے مرید بن گئے اور سلسلۂ قادریہ کا ایک عظیم دور جاری ہوگیا۔1828ء میں آپ نے ’’بیکی‘‘ سے رختِ سفر باندھا اور دریائے سندھ کی دوسری طرف ’’نمل‘‘ نامی مقام میں سکونت اختیار کی اور روحانی ریاضت میں مشغول رہے۔[/align:645570463b]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:7a2482be5b]چوں کہ یہ دور ایک طرف انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے غلبے، دوسری طرف سکھوں کے اقتدار اور تیسری طرف سوات میں خوانین کی سازشوں اور لاقانونیت کا تھا اور اسی علاقے میں حضرت سید احمد شہید بریلوی سکھوں کے خلاف فوج جمع کر رہے تھے، اس لئے آپ نے خوانین کی سازشوں سے لوگوں کوبچایا اور اس وقت سید احمد شہید بریلوی کی ہرممکن مدد کی۔ آپ نے سب سے پہلے جہاد1835ء میں پشاور کے قریب شیخان کے مقام پر امیر کابل دوست محمد خان کی معیت میں سکھوں کے خلاف کیا۔
ستمبر1835ء میں چوبیس سال اپنے علاقے سے باہر گزارنے کے بعد آپ اپنے گاؤں واپس آگئے۔ سوات پہنچ کر آپ کچھ عرصہ ’’ملوچ‘‘ کی ایک مسجد میں رہے۔ اس عرصہ میں آپ کے والدین چل بسے۔ ملوچ سے آپ رنگیلا چلے گئے۔ وہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد’’اوڈی گرام‘‘ کے قریب پہاڑوں کے دامن میں غازی بابا کی زیارت میں مقیم ہو گئے۔ زیارت میں کچھ عرصہ زہد و عبادت میں گزارنے کے بعد آپ مرغزار چلے گئے۔ مرغزار میں ایک غار صاف کرکے وہاں مقیم ہو گئے ۔ اس کے بعد سپل بانڈئ میںمقیم ہو کر وہاں شادی کی۔ آپ کے دو فرزند میاں گل عبدالخالق اور میاں گل عبدالحنان پیدا ہوئے۔1848ء میں سپل بانڈئ کو خیر باد کہہ کر آپ مستقل سکونت کے لئے سیدو چلے آئے۔ اس وقت سیدوکو کوئی خاص اہمیت حاصل نہ تھی لیکن جب آپ نے اسے اپنی دائمی سکونت کے لئے منتخب کیا تو اس کی اہمیت اور وقعت میں یک دم اضافہ ہوا۔ آپ کی وجہسے سیدو،سیدو شریف بن گیا۔[/align:7a2482be5b]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:2d6b11b73f]1849ء میں جب سکھوں کوشکست دے کر انگریزوں نے پشاور پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا تو اخوند صاحب نے سوات، ملاکنڈ اور بونیر کو انگریزوں کے تسلط سے بچانے کے لئے اپنے تمام وسائل جمع کئے۔ پشتونوں کی باہمی دشمنی ختم کرانے اور ایک مضبوط و مستحکم محافظ فوج ترتیب دینے کے لئے آپ نے بار بار جرگے کئے۔ شرعی حکومت کے قیام پر زور دیا۔ چناں چہ پہلی بار آپ نے ’’ستھانہ‘‘ کے سید اکبر شاہ کی نگرانی میں 1849ء میں حکومت قائم کی۔ یہ حکومت نازک اور ناگفتہ بِہ حالات میں قائم ہوئی تھی اور ابھی اچھی طرح مستحکم بھی نہ ہوئی تھی کہ 1857ء میں سید اکبر شاہ وفات پا گئے۔ اس کے بعد بھی سوات میں مستحکم حکومت قائم کرنے کے لئے آپ نے اپنی مساعی جمیلہ جاری رکھیں۔ جب ستمبر 1863ء میں انگریزی فوج کا ایک دستہ علاقہ بونیر میں شکار کا بہانہ بناکر داخل ہوا تو اخوند صاحب کا جذبۂ جہاد شدت اختیار کرگیا اور آپ 26 اکتوبر 1863ء کو باقاعدہ جنگ پر آمادہ ہوگئے۔
انگریزی فوج کے پاس ہر قسم کا جدید اسلحہ تھا اور ان کی تعداد دس ہزار تک تھی۔ اس مسلح اور منظم فوج کے مقابلے میں اخوند صاحب کی فوج معمولی دیسی ہتھیاروں یا محض لکڑی اور پتھروں سے مسلح تھی اور اس کی تعداد سات ہزار سے زائد نہ تھی۔ یہ لڑائی پوری شدت سے امبیلہ اور ملکا وادئ بونیر کے پہاڑی مورچوں میں 20 اکتوبر 1863ء سے شروع ہو کر 27 دسمبر 1863ء تک جاری رہی۔ اخوند صاحب کی فوج نے نہتے ہو کر بریگیڈئیر جنرل سرنیول چیمبر لین کی افواج کا جس جواں مردی سے مقابلہ کیا، وہ تاریخ کے صفحات میں ایک یادگار دستاویزکی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریزوں کو بہت جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ خود چیمبرلین بھی شدید زخمی ہوا۔ مجاہدین کی اکثریت بھی شہید ہوئی۔ انگریزوں کواس لڑائی میں کوئی علاقہ نہیں ملا۔ انہوں نے ملکا میں آگ لگادی۔ مجاہدین ختم نہ ہوئے اور انہوں نے اپنا مرکز دوسری جگہ بنالیا۔
12 جنوری 1877ء کو اخوند صاحبِ سوات نے وفات پائی۔ آپ کا مزار سیدو شریف میں ہے۔ جہاں دور دراز سے آنے والے ہزاروں زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔[/align:2d6b11b73f]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
بانئی سوات میاں گل عبدالودود
(بادشاہ صاحب)​
[align=justify:53d10d2ce0]میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب جدید ریاستِ سوات کے بانی تھے۔ آپ 1881 ء میں پیدا ہوئے۔ آپ صاحبِ سوات(سیدوبابا) کے پوتے تھے۔ آپ کے والد حضرت اخوند صاحب کے چھوٹے بیٹے میاں گل عبدالخالق تھے اور آپ کی والدہ سابق مہتر چترال افضل الملک کی دختر تھی۔
حضرت اخوند صاحب کی وفات( 1877ئ) سے بادشاہ صاحب کے آغازِ حکومت( 1915ئ) تک یعنی (بیالیس سال) سوات میں بدامنی اور خانہ جنگی کا دور دورہ رہا۔ اخوند صاحبِ سوات نے اپنی زندگی میں سوات اور اہلِ سوات کو متحد کرنے اور ان کے مابین چپقلش ختم کرنے کی جو کوششیں کی تھیں، وہ برباد ہو چکی تھیں۔ کئی بار مضبوط حکومت کا قیام عمل میں بھی آیا مگر بااثر خوانین کی خانہ جنگی نے پھر انتشار پھیلا دیا۔ سوات کے دوسرے حکمران عبدالجبار شاہ کے دور میںجب حالات بالکل خراب ہونے لگے تو اہلِ سوات نے ان کو معزول کرکے بادشاہ صاحب کو والی تسلیم کرلیا۔اس وقت سوات کی حدود بھی کم تھیں۔ کالام، کوہستان اور بونیر کے علاقے ریاست سوات کی حدود میں شامل نہ تھے۔
دریائے سوات کے پار کے بعض علاقے جو خاص سوات کے حصے تھے، ریاست دیر میں شامل تھے۔ بادشاہ صاحب نے ابتدائی استحکام کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ طاقتور نواب دیر کو 1919ء میں’’ ہر نائی‘‘ کی وادی میں فیصلہ کن شکست دے دی اور ہمیشہ کے لئے دریائے سوات کے دونوں کناروں کے میدان کو، مخالفانہ قبضے سے چھڑا لیا۔ بادشاہ صاحب نے خاص دیر کا ایک بڑا علاقہ بھی اس لڑائی میں فتح کرلیا مگر بعدمیں مستقل حدبندی کے دوران دیر کا مفتوحہ علاقہ دیر کو واپس کردیا گیا۔[/align:53d10d2ce0]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:d40db04e6b]بادشاہ صاحب نے اس فتح کے بعد ان خوانین کامزاج درست کیا جو کسی مستحکم حکومت کے اصول و قوانین ماننے پر آمادہ نہ تھے اور خانہ جنگی کی آگ بھڑکاتے رہتے تھے۔ بعد ازاں بادشاہ صاحب نے ریاستِ سوات کی حدود میں بونیر،کالام اور کوہستان کے علاقے بھی شامل کرلئے اور ریاستِ سوات کی سرحدیں ہر طرف سے محفوظ کرلیں۔
میاں گل عبدالودود بہت نڈر، اسلام پسند،مدبر اور روشن خیال حکمران تھے۔ انہوں نے ریاستِ سوات کے عوام کی بہبود اور بھلائی کے لئے بے شمار ترقیاتی کام کئے۔ جگہ جگہ سکول کھولے، ہسپتال قائم کئے، سڑکیں بنوائیں،دریاؤں اور ندیوں پر پل بنوائے، نہریں کھدوائیں، جنگلات کی حفاظت کی اور مزید درخت لگوائے۔ تجارتی سرگرمیوں کو وسعت دی،بے روزگاروں کو روزگار کے مواقع فراہم کئے،لوگوں میں اپنی مدد آپ کا جذبہ پیدا کیا، شرعی قوانین نافذ کئے اور انصاف کے حصول کو بہت آسان بنا دیا۔ غرض انہوں نے سوات کو امن، ترقی اور خوش حالی کا گہوارہ بنا دیا۔
12 دسمبر 1949ء کوبانئی ریاستِ سوات میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب نے خود حکومت سے کنارہ کشی اختیار کی اور عنانِ سلطنت اپنے ولی عہد شہزادہ میاں گل عبدالحق جہاں زیب کے سپرد کردی۔ آپ نے اپنی باقی زندگی عوام کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاری۔ سوات کے اس’’ مردِ آہن‘‘ نے جولائی 1971ء میں وفات پائی اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو عقبہ سیدو شریف میں سپرد خاک کردیا گیا۔[/align:d40db04e6b]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
میاں گل عبدالحق جہانزیب
(سابق والئی سوات)

[align=justify:ab84ca839f]سوات کی عظیم اور تاریخ ساز شخصیات میں سابق والئی سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب کا نامِ نامی سب سے زیادہ نمایاں اور غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی شخصیت کا پیکر تراشتے وقت ان کی بہت سی خوبیاں اوراعلیٰ صفات نظروں کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہیں۔ جن میں اُن کی اعلیٰ تعلیمی قابلیت اور روشن خیالی کا وصف سب سے نمایاں ہے۔ انہوں نے نہ صرف سوات میں تعلیم کا حصول سہل بناکر یہاں کے لوگوں کو علم و آگہی اور تہذیب و شائستگی کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ ریاستِ سوات کو بھی جدید ریاست کی شکل میں ڈھال دیا تھا۔ اس لئے صوبہ سرحد کی تمام سابق ریاستوں میں سوات کے عوام سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذب ہیں۔
سرزمینِ سوات کی یہ تاریخ ساز شخصیت 5 جون 1908ء میں پیدا ہوئی۔ جب وہ چار سال کے ہوئے تو انہیں گھر پر قرآن شریف پڑھانا شروع کیا گیا۔ جب انہوںنے عمر کے پانچویں سال میں قدم رکھا تو انہیں اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لئے اسلامیہ کالجیٹ سکول پشاور بھیج دیا گیا۔ جہاں 1926ء میں انہوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور 2 مئی 1926ء میں سوات واپس آئے۔
1924ء میں صرف15 سال کی عمرمیں ولی عہد کی بھاری ذمے داریاں اُن کے کندھوں پر ڈال دی گئیں اور وہ انٹر کرنے کے بعد اپنے والد میاں گل عبدالودود (بادشاہ صاحب) کی زیرِ نگرانی عملی سیاست اور ریاست کے نظم و نسق میں اُن کا ہاتھ بٹانے لگے۔[/align:ab84ca839f]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:80b6a28f56]1940ء میں بادشاہ صاحب نے ولی عہد جہان زیب کی ذمے داریوں میں اضافہ کرکے، انہیں ریاستی فوج کا سپہ سالار مقررکیا۔ یوں والی صاحب کی ذمے داریاں روز بروز بڑھتی گئیں اور انہیں ملکی نظم و نسق چلانے میں اپنے والد کے سنگ سنگ کئی اہم ذمے داریاں نبھانی پڑیں۔ چناں چہ 1943ء میں وزارتِ عظمیٰ کا اہم عہدہ بھی انہیں تفویض کردیا گیا۔ جب بادشاہ صاحب کو محسوس ہوا کہ اُمورِ مملکت کی تمام تر ذمے داریاں ولی عہد بہخوبی ادا کرنے کا متحمل ہو چکا ہے تو انہوں نے 12 دسمبر 1949ء کو حکومت کی تمام ذمے داریاں والئی سوات محمد عبدالحق جہان زیب کے سپردکردیں۔ اسی تاریخ کو وزیر اعظم پاکستان جناب نواب زادہ لیاقت علی خان(شہید ملت) نے اپنے ہاتھوں سے والی صاحب کی دستار بندی کی۔
14 اگست 1951ء میں والی صاحب کو پاکستان آرمی میں اعزازی بریگیڈئر کا عہدہ دیا گیا اور 1955ء میں انہیں میجر جنرل کے اعزازی عہدے سے نوازا گیا۔ والئی سوات کوکشمیر میں نمایاں خدمات انجام دینے پر حکومتِ پاکستان نے انہیں غازئ ملت کا قابلِ فخر خطاب بھی عطاکیا۔ مارچ 1959ء میں انہیں ہلالِ قائد اعظم اور 1961ء میں ہلالِ پاکستان کے اعزازات سے نوازا گیا۔ 1962ء میں اٹلی حکومت نے انہیں ایک اعلیٰ اعزاز دیا۔ اس طرح انہیں حکومتِ پاکستان نے 15 توپوں کی سلامی کے ساتھ ہزہائی نس کا خطاب بھی دیا۔ سوات کو غیر معمولی تعلیمی ترقی دینے کی وجہ سے انہیں سلطان العلوم کا خطاب دیا گیا اور پشاور یونی ورسٹی کی طرف سے انہیں ایل ایل ڈی (ڈاکٹر آف لٹریچر) کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی۔[/align:80b6a28f56]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:a80afcc27b]28 جولائی 1969ء میں جب ملک کی تمام ریاستوں کو پاکستان میں مدغم کیا گیا تو والی صاحب کوبھی حکمرانی سے دست بردار ہونا پڑا۔ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں سوات اور اہلِ سوات کو اتنا کچھ دیا، جس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ انہوں نے جدید تعلیم اور روشن خیالی کے باعث سوات کو ایک جدید ریاست بنانے کی پوری کوشش کی۔ سوات کے گوشے گوشے میں سکول وکالج قائم کئے، طبی سہولتوں کی بہتر فراہمی کے سلسلے میں جگہ جگہ شفاخانے اور ہسپتال قائم کئے، مضبوط سڑکوں کا جال بچھایا، ڈاک وتار، بجلی، جنگلات، ریاست کے نظم ونسق، غرض ہر شعبۂ زندگی میں انہوںنے خوش گوار اور انقلابی تبدیلیاں کیں۔ جس قدر ممکن تھا، انہوں نے ریاستِ سوات کو نئے دور کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اُن کے دور میں سوات نے صحیح معنوںمیں غیر معمولی ترقی کی بے مثال منزلیں طے کیں۔
ریاستِ سوات کی طرزِ حکومت اگرچہ جمہوری نہیں بلکہ شخصی تھی، ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد تھی اور ان سے اختلاف رکھنے والوں کو یاتو طاقت کے ذریعے دبایا جاتا اور یا انہیں ریاست بدر کردیا جاتا لیکن اس کے باوجود امن و امان کی صورت حال مثالی تھی اور ریاست کے عام افراد کو انصاف کے حصول میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی اور اگر انہیں مزید حکومت کرنے دیا جاتا تووہ ریاستِ سوات کو سوئٹزرلینڈ بنانے کا اپنا کیا ہوا عہد پورا کرتے۔
والئی سوات عام زندگی میں نہایت خوش خلق، ہمدرد، ملنسار اور ہر شخص کے ساتھ اخلاص ومحبت سے پیش آنے والے انسان تھے۔ انہیں کاروبارِ مملکت سے از حددلچسپی تھی۔ وہ اپنے دفتر میں وقت پر حاضری دیتے اور ان سے ہر شخص بڑی آسانی سے ملاقات کر سکتا تھا۔ حکمرانی سے سبک دوشی کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام میں ان کا رجحان مذہب کی طرف زیادہ ہوگیا تھا اوراکثر موت کو یادکیا کرتے تھے۔14 ستمبر 1987ء کو ریاستِ سوات کے یہ آخری حکمران اور اُولعزم تاج دار بالآخر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔[/align:a80afcc27b]
٭٭٭​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top