سوات، سیاحوں کی جنت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سندباد

لائبریرین
وادئ کالام کے دل کش اطراف
[align=justify:23588e1778]خاص کالام کے اطراف میں پیدل اور جیپ کے ذریعہ متعدد خوب صورت مقامات تک جایا جا سکتا ہے۔ جو سیاحوں کے لئے نہایت کشش اور دلچسپی کے حامل ہیں۔ ان میں درج ذیل مقامات سیاحوں کے لئے بہترین سیرگاہوں اور قدرتی جلوہ گاہوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔[/align:23588e1778]
وادئ گیہل
[align=justify:23588e1778]کالام کی حدود میں داخل ہوتے ہی بجلی گھر کے قریب ’’گودر جھیل‘‘ سے نکلی ہوئی چھوٹی سی زور آور ندی کے ساتھ ساتھ ایک پُختہ پہاڑی راستہ مغرب کی طرف گیا ہے۔ جو ایک تنگ سی لیکن نہایت حسین اور پُرکشش ذیلی وادی گیہل اور ہل ٹاپ کو جاتا ہے۔ گیہل میں ندی کے کنارے ایک دل کشا اور جدید طرز کا ہوٹل ہے۔ جس میں سیاحوں کے لئے بنیادی سیاحتی سہولتوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ذہنی اور جسمانی سکون و آرام کے متلاشیوں کے لئے یہ ایک بہترین مقام ہے۔ یہاں ہِل ٹاپ سے کالام ایک پیالے کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ دریائے سوات سانپ کی طرح نیچے بل کھاتا ہوا بہ رہا ہے جو بہت بھلا اور دل فریب معلوم ہوتا ہے۔ یہ جگہ پِک نِک منانے کے لئے بہت موزوں ہے۔[/align:23588e1778]
 

سندباد

لائبریرین
وادئ بیہوں
[align=justify:68283998d9]کالام خاص سے مشرق کی طرف پہاڑوں کی بلند چوٹیوں کے قریب بیہوں گاؤں واقع ہے۔ جہاں پر قریباً چار سو کے قریب خاندان آباد ہیں۔ یہاں کی زمین چکنی مٹی پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے کافی زرخیز ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لئے کالام سے بذریعہ جیپ آٹھ کلومیٹر کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے لیکن اگر کالام سے پیدل جانا مقصود ہو تو یہ مسافت قریباً ایک ڈیڑھ گھنٹہ میں طے کی جاسکتی ہے اور راستہ بھر خوب صورت اور دل رُبا مناظر سے بھی محظوظ ہوا جاسکتا ہے۔
جیسے ہی انسان اس گاؤں کی حدود میں پہلا قدم رکھتا ہے تو برف سے ڈھکا ہوا ایک دیوقامت پہاڑاس کا استقبال کرتا ہے۔ یہ پہاڑ کچھ اس طرح ابھرا ہوا ہے جیسے یہ زمین پر ابھی گرنے والا ہو۔ وادئ بیہوں کی طرف جاتے ہوئے راستے میں سرسبز وشاداب کھیت اور جگہ جگہ کھلے خوب صورت قدرتی پھول اور دور سے نظر آنے والے برف پوش پہاڑ قدرت کی صناعی کا دل کش نمونہ محسوس ہوتے ہیں۔ یہاں کھیتوں کو پانی دینے کے لئے جو نہر لائی گئی ہے، وہ بہت قدیمی ہے۔ بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ وادی کالام کے مقابلہ میں قدرے سرد ہے۔ البتہ موسمِ گرما میں یہ مقام بہت فرحت بخش محسوس ہوتا ہے۔بیہوں سے مغرب کی طرف اگر نظر ڈالی جائے تو دو پہاڑوں کی الگ الگ نوکیلی چوٹیوں کے درمیان ’’گودر جھیل‘‘ واقع ہے۔ جس کی خوب صورتی سحرزدہ کردیتی ہے۔ یہاں کے پرسکون ماحول میں ندی نالوں کے مدھم شور کی وجہ سیایک خاص طرح کی موسیقی بکھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں کے مکین بہت مہمان نواز ہیں۔ اگرچہ مالی طور پر آسودہ نہیں لیکن پھر بھی سیاحوں کو بڑے خلوص اور محبت سے چائے اور کھانے کی دعوت دیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہاں کی مرکزی مسجد کے پیش امام مولانا عبدالحق صاحب علاقے کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ بڑے عالم فاضل انسان ہیں۔ کالام کوہستان کی تاریخ کے چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ وسیع معلومات رکھتے ہیں۔ شاعر بھی ہیں۔ ساتھ ساتھ ایک دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔ ان سے ملاقات کئے بغیر وادئ بیہوں کی سیر ادھوری محسوس ہوتی ہے۔[/align:68283998d9]
 

سندباد

لائبریرین
بَنڑ کا میدان و جنگل[align=justify:1669652fb8]کالام سے اوشو جاتے ہوئے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گھنے جنگلات میں برلبِ سڑک ایک وسیع میدان واقع ہے جو محکمۂ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس سے ملحق ہے۔ یہ مقام سیاحوں کے لئے ایک دلچسپ اور پُرکشش تفریح گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں گیارہ بجے سے لے کر شام پانچ بجے تک سیاحوں کا ایک جمِ غفیر رہتا ہے۔ بچے مختلف کھیلوں سے محظوظ ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ درختوں پر رسیاں ڈال کر جھولا جھولنے، گھنے درختوں میں چہل قدمی اور چھوٹے چھوٹے کیبنوں(Cabins) میں چائے اور دیگر اشیائے خورد و نوش عجب لطف و انبساط دیتی ہیں۔ کالام میں زیادہ دنوں تک قیام کی صورت میں یہاں نہ آکر سیاح یقناً اپنی سیر ادھوری محسوس کریں گے۔[/align:1669652fb8]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
اُتروڑ، گبرال
[align=justify:b8997567ab]وادئ اُتروڑ اورگبرال جنت نظیر سوات کی تمام وادیوں میں سب سے زیادہ خوب صورت، دل فریب اور سحر انگیز وادیاں ہیں۔ کالام خاص سے جیپ، پرائیویٹ یا ذاتی گاڑی کے ذریعے اتروڑ اور گبرال پہنچنا ممکن ہے۔ کالام سے اُتروڑ اور گبرال تک بس کی سروس بھی موجود ہے۔ منگورہ سے کالام تک سارے راستے میں سوات کی فطری خوب صورتی اور رعنائی بِکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ منگورہ کے فضا گٹ پارک سے دریائے سوات کے کنارے اس کی مخالف سمت سفر کرتے ہوئے چارباغ، فتح پور، شین، خوازہ خیلہ، باغ ڈھیرئ، مدین، بحرین اور کالام کی جاں فزا وادیوں سے گزرتے ہوئے اتروڑ، گبرال، شاہی باغ، لوئے پنڈال، کالام بانڈہ، دیسان، بَٹل اور گل آباد کی مہکتی ہوئی طلسماتی خوب صورتی کی حامل وادیوں میں داخل ہواجا سکتا ہے۔
کالام میں بنڑ(جنگل) کے مقام پر سڑک دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک سڑک مشرق کی طرف سیدھی اُوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ تک چلی گئی ہے جب کہ دوسری سڑک بائیں طرف شمالاً اُتروڑ اور گبرال کی معطر خیز وادیوں کی جانب مُڑ گئی ہے۔ یہ سڑک چند کلومیٹر تک پختہ حالت میں ہے لیکن اس کے بعد گبرال تک ساری سڑک کچی حالت میں ہے، تاہم صاف موسم میں اس سڑک پر ہر قسم کی گاڑی باآسانی چلی جا سکتی ہے۔
کالام سے اُتروڑ تک کا فاصلہ 12 کلومیٹر ہے جب کہ گبرال تک 18 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پہنچا جا سکتا ہے۔ اُتروڑ کی وادی سطح سمندر سے 7300 فٹ بلند ہے اور گبرال سطح سمندر سے 7500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اُتروڑ اور گبرال کی مشترکہ آبادی قریباً 30 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔[/align:b8997567ab]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:447e602084]وادئ اُتروڑ فطری مناظر اور معطر آب وہوا کے لحاظ سے ایک نہایت خوب صورت اور دل نشیں وادی ہے جس کے چاروں جانب بلند و بالا برف پوش پہاڑ گھنے جنگلات کی قیمتی دولت سے مالا مال ہیں۔ اس کے بیچ میں ایک طرف گبرال سے اُچھلتا کودتا اور شور مچاتا ہوا دریائے گبرال بڑے بڑے پتھروں سے ٹکراتا ہوا چلا آرہا ہے جب کہ دوسری جانب کنڈلوڈنڈ اور سپین خوڑ ڈنڈ سے نکلی ہوئی ندی بُلندی سے نشیب کی طرف نہایت بے قراری کے ساتھ بہتی ہوئی اُتروڑ گاؤں کے قریب دریائے گبرال کے ساتھ مل جاتی ہے جس سے دریائے گبرال کی تُندی اور تیزی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ راستے میں اس کے ساتھ کئی ندی اور نالے بھی ملتے چلے جاتے ہیں۔ کالام پہنچ کر دریائے گبرال مہوڈنڈ سے نکلے ہوئے دریا کے ساتھ مدغم ہو جاتا ہے جودریائے سوات کے نام سے پوری وادئ سوات کو سیراب کرکے اس کی شادابی اور رعنائی کا بڑا باعث بنتا ہے۔ دریائے گبرال میں ٹراؤٹ مچھلی بھی پائی جاتی ہے جواپنی مخصوص لذت اور بے مثال ذائقہ کے لئے غیر معمولی شہرت رکھتی ہے۔ محکمہ ماہی پروری کے متعلقہ اہلکاروں سے اجازت لے کر یہاں اس کا باقاعدہ شکار بھی کیا جا سکتا ہے۔
اُتروڑ میں سیاحوں کے لئے اگرچہ بھرپور سہولتیں موجوو نہیں ہیں لیکن وادی کی سیاحتی اہمیت کے پیشِ نظرایک بڑے ہوٹل کی تعمیر جاری ہے اور سیاحوں کی سہولت کے لئے ریسٹیورنٹ اور مزید ہوٹلوں کے لئے جگہوں کا انتخاب ہوچکا ہے۔کیوں کہ اتروڑ میں قیام کرکے ہی یہاں کے صحت افزا اور مسحورکن مقامات سے صحیح لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاؤس اور خوب صورت ’’ہیون روز ہوٹل‘‘ یہاں آنے والے سیاحوں کی سیاحتی ضرورتیں بڑی حد تک پورا کرتے ہیں۔ ہیون روز ہوٹل اعلیٰ معیار کا ہے۔ جس میں دیار کی قیمتی لکڑی پر کیا گیا گل کاری اور کندہ کاری کا خوب صورت کام دل موہ لیتا ہے۔ یہاں کے مختصر بازار میں کھانے پینے کی اشیاء باآسانی مل سکتی ہیں۔
اُتروڑ اور گبرال کی وجۂ تسمیہ اور مفہوم کے متعلق صحیح طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں، تاہم بہت عرصہ قبل اُتروڑ کی وادی کوبھی گبرال کے نام سے پکارا جاتا تھا اور یہ علاقہ اُتروڑ سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وادئ گبرال کاعلاقہ سمجھا جاتا تھا۔ بعدازاں اُسے اُتروڑ کے الگ نام سے پکارا جانے لگا۔ [/align:447e602084]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:32c5d4b820]یہاں کے لوگ اُتروڑ کو’’ اُزروڑ‘‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں اور یہ نام قدیم وقتوں میں یہاں کی ایک مشہور شخصیت اُز نامی مَلَک کے نام پر رکھا گیا تھا جوبعد میں اُزروڑ اور اب اُتروڑ کے نام میں ڈھل گیا ہے۔ وادئ گبرال کی وجۂ تسمیہ کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نام یہاں کی ایک ہر دل عزیز شخصیت گبر نامی مَلَک کے نام پر رکھا گیا تھا جو بعد میں گبرال کے نام سے مشہور ہوا۔ اُتروڑ اور گبرال دونوں میں زیادہ تر کوہستانی آباد ہیں، تاہم بَر گبرال (بالائی گبرال) میں گوجر بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ کوہستانی قوم دو بڑی شاخوں میں تقسیم ہے۔ درے خیل اور نریٹ۔ یہاں دونوں شاخوں کے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں جو بہت بہادر اور ایک بات پر ڈٹ جانے والے ہیں۔ یہ لوگ بہت مہمان نوازہیں اور مہمانوں کی عزت و تکریم اپنے فرائض میں شامل سمجھتے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کا اہم رسم و رواج مضبوط اور پائیدار دوستی کی مستحکم روایت ہے۔ ایک مقامی شخص جب کسی دوسرے مقامی شخص کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو پھر دوستی کی خاطر جان تک قربان کر دیتا ہے اور دوست کو بھائی سے بڑھ کر حیثیت دے دی جاتی ہے۔ یہاں کلاشنکوف بہت عام ہے اور اُسے بلند معاشرتی حیثیت کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ اسلحہ کی فراوانی کے باوجود یہاں کے لوگ امن پسند اور انسانیت دوست ہیں ۔
اُتروڑ سے گبرال جاتے ہوئے راستے میں قدرتی مناظر اس قدر لازوال حسن و جمال کے حامل ہیں کہ انسان کو یُوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی طلسماتی سرزمین میں گھوم رہا ہو۔ ہر طرف گھنے جنگلات کے طویل سلسلے نظر آتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سُورج کی روشنی میں چمکتی ہوئی برف قو س و قزح کے حسین رنگوں کا خوب صورت امتزاج پیش کرتی ہے۔ جگہ جگہ گیلیوں کے ڈھیر اور اُن سے اُٹھنے والی مخصوص مہک انسان پر وجد آفریں کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ سڑک کے دونوں جانب واقع سرسبزو شاداب کھیت اور اِن میں کِھلے ہوئے گل رنگ اور خوش رنگ پھول آنکھوں کو طراوت بخشتے ہیں اور دل و دماغ کو فرحت و سرشاری سے لبریز کر دیتے ہیں۔ گبرال پہنچ کر وادی قدرے کشادہ ہوجاتی ہے اور اس کے مناظر اوربھی سُرور افزا اور فرحت بخش محسوس ہونے لگتے ہیں۔[/align:32c5d4b820]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:0a0f4915b6]گبرال کی وادی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ کوز گبرال(نشیبی گبرال )اور بر گبرال (بالائی گبرال) بَر گبرال کوباڑہ بھی کہا جاتا ہے۔ گبرال کی پوری وادی نہایت دِل کش، خوب صورت اور دل میں نئی اُمنگ پیدا کرنے والی ہے۔اس کے قرب و جوار میں بہت سے دِل کش اور مُعطر مقامات ہیں۔ جن میں جبہ، شاہی باغ، گل آباد اور غوائی بیلہ کافی مشہور ہیں۔ ان میں بعض مقامات تک کچی سڑک چلی گئی ہے اور بعض مقامات تک پیدل راستوں کے ذریعے پہنچنا ممکن ہے۔ غوائی بیلہ میں وسیع و عریض حسین دشت ہیں جن کو دیکھ کر انسان قدرت کی بہترین صناعی پر ورطۂ حیرت میں مُبتلا ہو جاتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ کیا منصۂ شہود پر اتنا زیادہ حُسن سمٹ کر جلوہ گر ہو سکتا ہے؟ گُلاباد سے چترال تک پیدل راستہ کے ذریعے بھی پہنچا جا سکتا ہے۔
گبرال میں ایک ہسپتال بھی ہے جس میں طبی سہولتوں کا شدید فقدان ہے۔ ایک مڈل سکول ہے جس میں مقامی اساتذہ کی عدم موجودگی کے باعث سال بھر طلبہ کو درس و تدریس کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاحتی سہولتوں کے سلسلے میں یہ وادی نہایت پس ماندہ ہے۔ ہوٹل ہے نہ ریسٹورنٹ اور نہ ہی یہاں تک پہنچنے کے لئے ہر وقت سواری مِل سکتی ہے۔ البتہ محکمۂ جنگلات کا ایک چھوٹا سا ریسٹ ہاؤس موجود ہے جو اس کے متعلقہ اہلکاروں کی اجازت سے بُک کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے یہاں آنے والے سیاحوں کو اپنے ساتھ کھانے پینے کی ا شیاء ضرور لانی چاہئیں جب کہ رات بسر کرنے کے لئے یہاں ٹینٹ بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ کیمپنگ کے لئے سوات بھر میں اس سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے۔ گبرال کے بُلند و بالا پہاڑ ہائیکنگ کے شوقین افراد کے لئے نعمتِ غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اُتروڑ اور گبرال اس لحاظ سے بھی نہایت خوب صورت اور سحر انگیز ہیں کہ یہاں کے مناظر انسانی دست بُرد سے قطعی طور پر محفوظ ہیں اور یہاں کا حُسن خالص فطری اور بے حجاب حالت میں ہے۔ پہاڑوں کے اُوپر اور اُن کے دامن میں واقع مکانات لکڑی کے بنے ہوئے ہیں اور مقامی طرزِ تعمیر کا خوب صورت نمونہ ہیں۔ اُتروڑ میں ایک تاریخی دو منزلہ مسجد ہے جس کی دوسری منزل کی تعمیر میں دیودار اور اخروٹ کی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ یہ مسجد جدید طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کی تعمیر اوراس میں دل کش گُل کاری وکُندہ کاری کے لئے برادر ملک افغانستان سے ماہرین بُلوا گئے تھے جنہوں نے اپنے فن اور مقامی فنِ تعمیر کی آمیزش سے طرزِ تعمیر کا ایک نہایت خوب صورت فن تخلیق کیا ہے۔ یہ مسجد خاص طور پر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔[/align:0a0f4915b6]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:ce1b521eb7]وادئ اتروڑ کی خوب صورتی، دل فریبی اور سحرانگیزی سے لطف اندوز ہونے کے لئے سیاحوں کو اتروڑ میں دو تین دن تک رہائش رکھنی چاہئے۔ گبرال وادی، شاہی باغ، جبہ جھیل، گل آباد(آبشار)، لدو بانڈہ (جھیل)، لوئے پنڈغال، کالام بانڈہ، اِزمِس جھیل، دیسان (چراگاہ)، کنڈلو ڈنڈ (جھیل)، خاپیرو ڈنڈ (پریوں کی جھیل)، سپین خوڑ ڈنڈ (سفید ندی والی جھیل) وغیرہ کو جیپ، گھوڑسواری اور ٹریکنگ (پیدل چلنے) کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ہے۔
جامرہ (اتروڑ و گبرال کے درمیان) کے مقام سے باڈ گوئی پاس سے ہوتے ہوئے ’’دیر‘‘ اور چترال جایا جاسکتا ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت شاہی باغ تک جیپ کا راستہ بن چکا ہے اور دیرکے لئے آٹھ کلومیٹر مجوزہ زیرِ تعمیرسڑک میں دو کلو میٹر تک سڑک مکمل ہوچکی ہے۔ یہ سارا علاقہ خوب صورت مناظر اور دل کش سبزہ زاروں سے اَٹا ہوا ہے۔ یہ تمام مقامات ہائیکنگ اور ٹریکنگ کے لئے نہایت موزوں ہیں۔
یہاں کا مشہور پہاڑ ’’دیسان‘‘ ہے جو اُتروڑمیں واقع ہے۔ اس پہاڑ کے اُوپر وسیع سرسبز و شاداب چراگاہیں اور دشت پھیلے ہوئے ہیں جن میں گُن گُناتے آبشار اور مدھ بھرے جھرنے ہیں۔ اُتروڑ، دیسان اور گبرال میں وسیع و عریض جنگلات ہیں جن کی رائلٹی اُتروڑ اور گبرال کے باشندوں کوہر سال ملتی ہے اور اس پر یہاں کے مکینوں کا گزارہ چلتا ہے۔اِن جنگلات میں دیار، فر،برج اور جیح نامی درخت پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے گھنے جنگلات میں ریچھ، جنگلی مُرغ،اعلیٰ نسل کے چکور، ہرن اور طاؤس پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ عام طور پر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ یہاں کا آلو، گوبھی،شلجم اور مٹر بہت مشہور ہیں۔ جنہیں ٹرکوں کے ذریعے راول پنڈی، لاہور اور کراچی تک بھیجا جاتا ہے۔ اس علاقہ میں سوئٹزرلینڈ کے تعاون سے کالام مربوط ترقیاتی پروگرام (کے ڈی پی) پراجیکٹ کے نام سے علاقہ کی زراعت سمیت مختلف شعبوں کوبے مثال ترقی دی گئی ہے۔ یہاں کی مقامی زبان کوہستانی اور گوجری ہے، تاہم پشتو زبان عام بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بیشتر لوگ اُردو بھی سمجھتے ہیں۔
سردی کے موسم میں یہاں خوب برف باری ہوتی ہے، برف اتنی زیادہ پڑتی ہے کہ سردیوں میں عموماً اتروڑ اور گبرال کے راستے بند ہو جاتے ہیں او ر یہاں تک آمد و رفت معطل ہو جاتی ہے۔ اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں یہاں برف باری شروع ہو جاتی ہے اور مارچ، اپریل تک جاری رہتی ہے۔ یہاں کی سیر و سیاحت کے لئے موزوں مہینے مئی، جون، جولائی، اگست اور ستمبر کے ہیں۔ اُتروڑ سے پیدل راستہ کے ذریعے ضلع دیر تک بھی باآسانی جایا جا سکتاہے۔[/align:ce1b521eb7]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
کنڈلو ڈنڈ (جھیل)
[align=justify:1d445d09d7]کنڈلوڈنڈ(کنڈلو جھیل) حسین وادئ سوات کی وہ خوب صورت اور دل کش جھیل ہے جس کے ارد گرد طلسماتی خوب صورتی اور دل لُبھا دینے والی رعنائی پھیلی ہوئی ہے۔ یہ حسین ترین جھیل اپنی لازوال خوب صورتی اور غیر معمولی سحر انگیزی کے باوجود ابھی تک سیاحوں کی نظروں سے پوشیدہ چلی آرہی ہے، حالاںکہ یہ جھیل اپنی منفرد ہئیت اور قدرتی ماحول کے لحاظ سے اس قدر وسیع اور قدرت کی بے پناہ فیاضی سے لبریز ہے کہ ایک بار اگر اس کی خوب صورتی، رعنائی اور دل کشی آنکھوں میں بسالی جائے تو اس کی دید کے لئے دل،رہ رہ کر بے چین ہو جاتا ہے۔ وادئ سوات کی یہ خوب صورت ترین جھیل اُتروڑ سے تین گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔
کنڈلو ڈنڈ تک پہنچنے کے لئے کالام سے ’’اُتروڑ‘‘ کی حسین وادی تک 24 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے جانا پڑتا ہے۔ اس کی سڑک کالام سے آگے چند کلومیٹر تک پختہ ہے جب کہ باقی سڑک ’’گبرال‘‘ تک کچی حالت میں ہے، تاہم صاف موسم میں اس پر ہر قسم کی گاڑی باآسانی چلائی جا سکتی ہے۔
کالام سے اُتروڑ تک بس، مخصوص اوقات میں ملتی ہے جب کہ یہاں تک فلائنگ کوچ کی باقاعدہ سروس موجود نہیںہے، تاہم کالام میں کرایہ پر جیپ ہر وقت مل سکتی ہے۔ مخصوص تعداد میں مختلف سواریاں موجود ہوں تو جیپ کا کرایہ سب پر یکساں تقسیم کیا جا سکتا ہے ورنہ اُتروڑ تک پہنچنے کے لئے خصوصی طور پر، جیپ بُک کرانا پڑتی ہے۔ مقامی سواریوں کے لئے کالام سے اتروڑ تک جیپ اور ڈاٹسن بھی چلتی ہیں۔ جن کا کرایہ پندرہ بیس روپے فی سواری ہوتا ہے لیکن اس صورت میں گاڑی عموماً اوور لوڈ ہوکر چلتی ہے۔[/align:1d445d09d7]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:a2a6c045c1]کنڈلوڈنڈ(کنڈلوجھیل) تک راستہ اُتروڑ بازار کے عین وسط میں ایک کچی سڑک کی شکل میں،بائیںسمت جنوب مغرب کی طرف چلا گیاہے۔ جھیل تک پہنچنے کے لئے اُتروڑ میں رات بسر کرکے صبح سویرے روانہ ہونا چاہئے۔ یہ سڑک ’’گائل‘‘ تک قابلِ استعمال ہے جب کہ آگے کا راستہ’’کنڈلوڈنڈ‘‘ تک پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔’’گائل‘‘ تک پہنچنے کے لئے گاڑی کابندوبست کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ اس مقام تک باقاعدہ ٹریفک موجود نہیں، تاہم گائل کے قُرب و جوار کے جنگلات سے گیلیاں لانے کے لئے ٹرک اور ’’گٹو‘‘(بھاری جسامت کے پستہ قامت ٹرک) جاتے رہتے ہیں، لیکن ان کے آنے جانے کا وقت متعین نہیں ہے۔ گائل تک گاڑی میں قریباً نصف گھنٹے کا سفر ہے اور اس آگے جھیل تک پیدل راستہ دو گھنٹے کا ہے۔
گائل کی سڑک میں داخل ہوتے ہی انسان ایک نئی دُنیا سے آشنا ہو جاتا ہے۔ یہاں ہر طرف گیلیوں(Logs) کے بکھرے ہوئے بڑے بڑے ڈھیر نظر آتے ہیں،جن کے بیچ میں ’’کنڈلوڈنڈ‘‘ اور ’’سپین خوڑ ڈنڈ‘‘ سے نکلی ہوئی تیز و طرار ندی، بلند وبالا برف پوش پہاڑ، چاروں طرف پھیلے ہوئے گھنے جنگلات، راستے میں جگہ جگہ دیودار کی قیمتی لکڑی سے بنے ہوئے خوب صورت مکانات اور مختلف مقامات پر ندی کے اوپر بنائے گئے لکڑی اور رسیوں کے پُل، انسان کو قدرتی مناظر اور اچھوتی خوب صورتی کی ایک نئی دُنیا سے آشنا کرتے ہیں۔ اس سڑک میں داخل ہوکر آگے بڑھتے ہوئے نئے نئے دل رُبا اور سرور افزا مناظر کی نئی نئی شکلیں وا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بِلا مبالغہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان جنت کے کسی حسین گوشے میں داخل ہو گیاہے۔ آگے بڑھتے ہوئے وہ خود کودل کش مناظر اور بے حجاب قدرتی حُسن پر مشتمل ایک ناقابلِ یقین فضا میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ قدرت نے یہاں کے مناظر تخلیق کرتے ہوئے خصوصی فیاضی سے کام لیا ہے اور اس علاقہ کو حسن و جمال کی دولت دل کھول کرعطا کی ہے۔[/align:a2a6c045c1]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:233ebc3185]بڑی بڑی چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی ندی نصف گھنٹہ کی مسافت پر واقع محکمۂ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس تک ہم سفر رہتی ہے۔ ندی کا جھاگ اُڑاتا سفید و نیلگوں پانی دل میں ایک نئی اُمنگ پیدا کرتاہے اور اس سے نکلنے والی پھوار عجب سرخوشی اور انبساط انگیزی کا باعث بنتی ہے۔یہ خوب صورت ریسٹ ہاؤس ’’گائل‘‘میں واقع ہے جس کے ساتھ ہی ندی کا صاف و شفاف پانی بہتا ہے۔ ریسٹ ہاؤس کے چاروں طرف جنگلات سے ڈھکے ہوئے بلند و بالا پہاڑ ہیں جن کے درمیان میں واقع ریسٹ ہاؤس کسی حسین نگینے کی مانند جُڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ محکمۂ جنگلات کے متعلقہ افسروں کی اجازت سے کوئی بھی شخص اپنے لئے ریسٹ ہاؤس بک کروا سکتا ہے۔ ریسٹ ہاؤس کے گرد و نواح میں ٹراؤٹ مچھلی کیبن نما چائے خانوں میں مل جاتی ہے۔
کچی سڑک اگرچہ ریسٹ ہاؤس سے ایک یا دو کلومیٹر آگے تک بھی چلی گئی ہے لیکن اس کی حالت کافی خراب ہے اور اس پر صرف جیپ یا فور وہیکل گاڑی ہی جا سکتی ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ یہاں سے آگے کا سفر پیدل شروع کیا جائے۔ریسٹ ہاؤس سے جھیل تک کا فاصلہ صرف دو گھنٹے میں طے کیا جا سکتا ہے اور اس خوب صورت اور طلسماتی جھیل تک پہنچنے کے لئے یہ کوئی بڑی قیمت نہیں ہے۔
پہاڑوں اور بعض جگہوں میں سرسبزوشاداب چراگاہوں کو پار کرتے ہوئے پہلے ’’لدھو بانڈہ‘‘ پہنچا جاتا ہے۔ جہاں سے ایک پیدل راستہ ’’سپین خوڑ ڈنڈ‘‘(سپید ندی والی جھیل) تک چلا گیا ہے جب کہ دوسراراستہ دائیں طرف ’’بٹلو ندی‘‘ کے سنگ اس کی مخالف سمت ’’کنڈلوڈنڈ‘‘ تک پہنچا دیتا ہے۔ یہاں سے ’’خاپیروڈنڈ‘‘(پریوں والی جھیل) تک بھی راستہ گیا ہے جو بہت ہی دشوار گزار اور طویل ہے۔
کنڈلوڈنڈجاتے ہوئے راستے میں انواع و اقسام کے جنگلی پھول اور خوش بودار پودے نظر آتے ہیں۔ بعض قیمتی جڑئ بوٹیاں بھی یہاں کے پہاڑوں میں پائی جاتی ہیں، جنہیں مقامی زبان میں جڑئی، تیضان،گوبگہ اور مامیخ کہا جاتاہے۔ ان میں جڑئ نامی پودے کی یہ خاصیت ہے کہ جب پہاڑوں کی بلندی پر چڑھتے ہوئے، آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سر چکرانے، سانس پھولنے اور دل متلانے لگتا ہے تواس پودے کے چھوٹے چھوٹے گھنے پتے سُونگھنے کے بعد، حیرت انگیز طور پر طبیعت فوراً بحال ہو جاتی ہے۔
جب آپ وسیع اور کُھلے میدان میں قدم رکھیں گے تو سمجھ لیجئے کہ کنڈلو ڈنڈ تک صرف آدھ گھنٹے کاراستہ رہ گیا ہے۔ اس وسیع میدان کے قرب میں واقع پہاڑوں پر جگہ جگہ برف جمی ہوئی نظر آتی ہے۔ بعض مقامات پر یہ قدرتی برف چھوٹے چھوٹے گلیشئرز کی شکل میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ جب آپ پہاڑ کی آخری چڑھائی طے کریں گے تو آپ کو ایک اور وسیع اور کُھلا میدان نظر آئے گا۔میلوں تک پھیلا ہوا یہ سرسبز و شاداب میدان برف پوش پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اور حسین و دل کش کنڈلو ڈنڈبھی اسی میدان میں پیالے کی مانند نظر آتی ہے۔[/align:233ebc3185]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:ed4a6bd2aa]آپ کی نظر جوں ہی جھیل پر پڑے گی، آپ کے دل کی دھڑکن یک دم تیز ہو جائے گی اور آپ کو عجیب طرح کی خوشی اور طمانیت کا احساس ہوگا۔ جب آپ جھیل کے نزدیک پہنچیں گے تو یہ آپ کو اپنے تمام تر حُسن اور بے پناہ خوب صورتی کے ساتھ پہاڑوں کے دامن میں جلوہ آراء نظر آئے گی ۔ چاروں طرف برف سے ڈھکی چوٹیوںکے پسِ منظر میں، اوپر نیلگوں آسمان اور نیچے ایک بڑے پیالے کی مانند کنڈلو ڈنڈ کے چاندی جیسے شفاف پانی میں آسمان، برف پوش چوٹیوں اور ڈنڈ(جھیل) کے کنارے واقع بلند درختوں کا خوب صورت عکس جھلملاتا ہوا نظر آئے گا۔ آپ کو گمان ہوگا کہ آپ کسی خواب و خیال کی سرزمین، کسی پرستان یا کسی حیرت افزا طلسماتی دیس میں جاپہنچے ہیں۔ جھیل کے اطراف میں پھیلے ہوئے حسین مناظر، پہاڑوں پر پڑی ہوئی چمکتی برف، سرسبز چراگاہیں، خنک اور صحت بخش آب و ہوا جسم و جاں کو عجیب طرح کی تازگی کا احساس دلاتی ہے۔
یہ سُہانی اور طلسماتی جھیل قریباً ڈیڑھ کلومیٹر لمبی اور ایک کلومیٹر چوڑی ہے اور محتاط اندازے کے مطابق اس کی گہرائی سو فٹ سے زیادہ ہے۔ جھیل تک پانی ایک ندی کی صورت میں آرہا ہے، تاہم یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس جھیل کا پانی صرف اس چھوٹی سی ندی کا مرہونِ منت نہ ہو بلکہ اس کے اندر گہرائی میں بھی بہت سے چشمے پھوٹ رہے ہوں جن کا پانی جمع ہوکر اس جھیل کو وجود میں لانے کا باعث بنا ہو۔ اس جھیل کی حیرت انگیز خصوصیت یہ ہے کہ بظاہر پانی، اس سے کسی سمت جاتا ہوا محسوس نہیں ہوتا بلکہ اس سے بہت دور پہاڑوں کے دامن میں چشمے کی مانند پھوٹتا ہوا محسوس ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ کنڈلو ڈنڈ مکمل طور پر ایک پیالے کی مانند بند نظر آتی ہے۔
’’کنڈلو‘‘ کا لفظ دراصل پشتو زبان کے لفظ’’کنڈولے‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ’’جام‘‘ کے ہیں اور ’’ڈنڈ‘‘ اُردو کے لفظ’’جھیل‘‘ کے ہم معنی ہے۔ چونکہ یہ جھیل قدرتی طور پر قریباً گولائی کی صورت میں واقع ہے اور ایک بڑے جام کی شکل میں ہے۔ اس لئے مقامی زبان میں یہ’’کنڈلوڈنڈ‘‘(یعنی جام والی جھیل) کے نام سے مشہور ہے۔ اس نام کی ایک توجیہہ یہ بھی کی جاتی ہے کہ جب چودھویں کے چاند کا عکس اس پر پڑتا ہے تو وہ اس میں ایک سنہرے جام کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ اس لئے اس جھیل کو ’’کنڈلوڈنڈ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتاہے۔[/align:ed4a6bd2aa]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:4e578252b6]جھیل میں کشتی رانی بہت آسانی سے کی جا سکتی ہے، لیکن یہ سہولت یہاں موجود نہیں ہے۔ اس کے لئے ذاتی موٹر بوٹ اور کشتی لانا پڑے گی۔ یہاں سیاحتی سہولتوں کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ جھیل ابھی سیاحوں اور مُہم جو افراد کی نظروں سے مکمل طور پر پوشیدہ ہے۔ بہت ہی کم لوگوں کو اس خوب صورت جھیل کے بارے میں علم ہے۔ حکومت اگر یہاں تک سڑک کی تعمیر ممکن بنائے تو یقینا یہ جھیل ’’مہوڈنڈ‘‘ اور ’’جھیل سیف الملوک‘‘ سے بھی زیادہ مقبول ہو سکتی ہے اور یہ مقام اور اس کے قُرب و جوار کے خوب صورت مناظر سیاحوں کو بہترین تفریح مہیا کر سکتے ہیں۔
جھیل تک پہنچنے کے لئے اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء ضرور لے لینی چاہئے اور کوئی مقامی باشندہ بھی اگر بطور گائیڈ اپنے ساتھ لے لیا جائے تو راستے کی تکالیف اور دشواریوں میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔گائیڈ کی موجودگی میں سیاحوں کو نہ صرف تحفظ کا احساس ملے گا بلکہ وہ راستے میں پھیلے ہوئے بعض دوسرے اہم خوب صورت تفریحی مقامات کی نشان دہی بھی کر سکے گا۔ جھیل کے کنارے مقامی گائیڈ کی موجودگی میں بلا خوف و خطر کیمپنگ کی جا سکتی ہے اور صبح و شام، اس جھیل کے حسین طلسماتی مناظر سے لطف اندوز ہو اجا سکتاہے۔ جھیل سے واپسی کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا جا سکتا ہے۔
کنڈلو ڈنڈ تک پہنچنے کے لئے پہاڑو ں پر چڑھتے ہوئے بعض مقامات پر خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے اور یہ سیاحتی مہم اگر گروپ کی شکل میں سر کی جائے تو زیادہ لطف و سُرور حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس مہم جوئی کے لئے موزوں ترین مہینے مئی، جون ، جولائی اور اگست کے ہیں۔
یہاں کے لوگ نہایت مہمان نواز اور پُرامن ہیں۔ اسلحہ اگرچہ یہاں فیشن کے طور پر قریباً ہر دوسرے تیسرے شخص کے پاس نظر آتا ہے لیکن اس کے استعمال کی نوبت خال خال ہی آتی ہے۔ کنڈلوڈنڈ کے راستے میں ایک آدھ مقام پر مقامی افراد باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کوبڑے خلوص اور تپاک کے ساتھ چائے پینے کی دعوت دیتے ہیں۔ سرسبز و شاداب پہاڑوں کے درمیان زمین پر بیٹھ کر چائے پینے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔[/align:4e578252b6]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
اُوشو،مٹلتان،گلیشئر،
آبشار،مہوڈنڈ
[align=justify:e56f1a75e0]اُوشو،مٹلتان اور مہوڈنڈ سوات کی وسیع و فراخ وادی کے حسین گوشے ہیںجہاں کالام کے دل فزا مقام سے جیپ یا پرائیویٹ گاڑی کے ذریعے دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پہلے اُوشو ، مٹلتان،گلیشئیر اورپھر مہوڈنڈ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کالام سے اُوشو قریباً10 کلومیٹر ،مٹلتان13 کلومیٹر اور مہوڈنڈ 37 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کالام میں بنڑکے مقام پر ایک پختہ سڑک مشرق کی طرف اُوشو اور مٹلتان ہوتے ہوئے مہوڈنڈ تک چلی گئی ہے جبکہ دوسری سڑک شمال مغرب کی طرف اُتروڑ اور گبرال کی سمت جاتی ہے۔
کالام سے روانہ ہو کر بنڑ(جنگل) کے مقام پر اُوشو کی سڑک میں داخل ہوتے ہی گھنے جنگلات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جس میں حسین قدرتی سبزہ زاروں میں سیاح اہل خانہ کے ساتھ آرام کرتے یا پِک نِک مناتے ہوئے جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ شاہِ بلوط کے گھنے جنگلات کے بیچوں بیچ سڑک پر آگے بڑھتے ہوئے ایک عجیب قسم کی خوشی اورشیریں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ دل میں نئی اُمنگ اور نیا ولولہ محسوس ہوتا ہے۔ مٹلتان اور مہوڈنڈ پہنچنے سے پہلے آپ اُوشو کی گل رنگ وادی میں داخل ہوں گے جو حسن و جمال کا ایک دل نشین منظر پیش کرتی ہے۔ یہاں ایک خوب صورت ہوٹل’’ اوشو‘‘ کے نام سے دریائے اُوشو کے عین کنارے پر واقع ہے۔ اُوشو کی مہکتی ہوئی وادی کے نظارے اس قدر دل فریب ہیں کہ یہاں ٹھہرنے کے لئے انسان کا دل مچل مچل جاتا ہے۔ یہاں کے بیشتر مکانات دیار کی قیمتی لکڑی سے بنائے گئے ہیں جو اس خوب صورت وادی کے طلسماتی مناظر میں کسی پرستان کی وادی کا عکس پیش کرتے ہیں۔ اُوشو سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر مٹلتان کی حسین و دل کش مہکتی ہوئی وادی سیاحوں کے لئے اپنے دامن کو وا کئے ہوئے ہے۔[/align:e56f1a75e0]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:c361d02d4f]یہ وادی چاروں جانب سے بلند و بالا اورسرسبز و شاداب پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ یہ پہاڑ اتنے اُونچے ہیں کہ آسمان سے سرگوشیاں کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ سارے پہاڑ سفید برف سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ سفید اور کالے بادلوں کے ٹکڑے اُڑتے سائبان کی مانند پھیلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ خوب صورت موسم میں بادلوں کے یہ ٹکڑے ایک انتہائی حسین اور لطیف منظر کو جنم دیتے ہیں اور جی چاہتا ہے کہ اس دل کش منظر کو مسلسل دیکھتا چلا جائے اور اس کی ساری خوب صورتی اور دل رُبائی کو آنکھوں کے ذریعے دل میں جذب کرلیا جائے۔ یہاں ہر وقت سرد ہوا چلتی ہے جس میں پُر کیف خوش بو بسی ہوئی ہوتی ہے۔ شدید گرمی کے موسم میں بھی یہاں انسان کو سردی کا احساس ہوتا ہے۔
یہ علاقہ ’’سوات کوہستان‘‘ میں شامل ہے اور یہاں کے لوگوں کی زبان کوہستانی ہے لیکن پشتو عام بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اُوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ کی کل آبادی ملا کر قریباً بیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر مکان پہاڑوں میں واقع ہیں جو تسبیح کے بکھرے دانوں کی مانند نظر آتے ہیں۔ مکانات عام طور پر دومنزلہ ہیں۔ جن میں پتھر اور لکڑی کا استعمال زیادہ ہے۔ یہاں کے لوگ بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں اور اپنی روایتی معاشرتی اقدار کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ سیاحوں کی عزت اور احترام یہاں کی روایات میں شامل ہے۔ مقامی آبادی کا گزارہ آلو کی کاشت پر ہے۔ اکتوبر ، نومبر کے مہینوں میں برف باری شروع ہو جاتی ہے اور تمام راستے دسمبر کے وسط سے فروری کے آخر تک بندہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں سردیوں میں اتنی زیادہ برف پڑتی ہے کہ اُوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ بشمول کالام اور اردگرد کے تمام علاقے سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے کٹ جاتے ہیں۔ لوگ بھیڑ بکریاں پالتے ہیں اور اُنہی سے دودھ حاصل کرتے ہیں۔ موسمِ سرما کے اوائل میں اپنے مویشیوں کی خاطر صوبہ سرحد کے میدانی علاقوں چارسدہ، مردان اور صوابی وغیرہ کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں۔
مٹلتان کی وجۂ تسمیہ کافی دلچسپ ہے۔ مٹل دراصل کوہستانی زبان میں سفید مٹی کو کہتے ہیں اور یہاں چوں کہ سفید مٹی کی بہتات ہے اس لئے اسی نسبت سے یہاں کا نام مٹلتان پڑ گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جگہ جہاں سفید مٹی زیادہ ہو۔ اس سفید مٹی کو یہاں کے لوگ بطور چونا بھی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ سردیوں میں یہاں گھروں میں آتش دانوں میں آگ مسلسل روشن رہتی ہے اور چمنیوں سے دھوئیں کی وجہ سے مکانوں کی دیواریں سیاہ ہو جاتی ہیں۔ موسم سرما کے اختتام پر مکانوں کو ’’مٹل ‘‘ سے دوبارہ اُجال لیا جاتا ہے۔[/align:c361d02d4f]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:8143a87c48]مٹلتان کا چھوٹا سا بازار کسی خاص اہمیت کا حامل نہیںہے۔ دُکانوں میں زیادہ تر مقامی لوگوں کے لئے روز مرہ ضرورت کی اشیاء دست یاب ہوتی ہیں۔ مٹلتان میںسیاحتی سہولتیں بھی ناکافی ہیں۔ صرف ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس اور ایک نچلے درجہ کا ہوٹل باغیچہ ہے لیکن کالام سے قریب ہونے کی وجہ سے قیام و طعام کے لئے کالام بھی بروقت واپسی ممکن ہے۔
اُوشو اور مٹلتان میں آلو کے علاوہ سیب اور اخروٹ بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں کے سیب اپنی لذت اور مٹھاس کے لئے خاص طور پر مشہور ہیں۔ اخروٹ تو یہاں اتنی زیادہ مقدار میں پیدا ہوتے ہیں کہ یہاں ایک مقام کا نام ہی ’’چوراٹ‘‘ مشہور ہو گیا ہے۔چوراٹ کوہستانی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی اخروٹ کے ہیں۔
مٹلتان کے ایک طرف دریائے اُوشو بڑی بڑی چٹانوں سے ٹکراتا ہوا بہہ رہا ہے اور دوسری طرف ایک ندی اچھلتی کودتی ہوئی دریائے اُوشو کی جانب بے قراری سے بہتی جا رہی ہے۔یہ دونوں آپس میں مدغم ہوکر کالام میں دریائے سوات کے ساتھ مل جاتے ہیں۔مٹلتان کے قریب ہی ایک گلیشیئر ہے جو سیاحوں کے لئے خصوصی دلچسپی اور لطف اندوزی کا باعث بنتا ہے۔ موسمِ گرما میں یہاں سیاحوں کا ایک جمِ غفیر صبح سے سہ پہر تک موجود رہتا ہے اور سیاحوں کی سہولت کے لئے یہاں اشیائے خورد و نوش کا وافر انتظام ہے۔ مٹلتان سے قریباً بیس کلومیٹر کے فاصلے پر جھیل ’’مہوڈنڈ‘‘ ہے جو ایک اور مشہور و معروف تفریح گاہ ہے۔ اس جھیل کا لاثانی حُسن اور غیر معمولی خوب صورتی انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے اور ایک ابدی احساس بخش دیتی ہے۔ ’’مہوڈنڈ‘‘ حقیقتاً سراپا حُسن ہے۔ دل کشی ہے اور قدرتی رعنائیوں سے معمور فطرت کی فیاضیوں کا ایک لاثانی شاہکار ہے۔ اگر آپ کیمپنگ کے شائق ہیں تو جھیل کے کنارے سبزہ زار پر بلاخوف و خطر اپنا خیمہ نصب کر سکتے ہیں۔ یہاں ٹراؤٹ مچھلیاں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں او ر اسی کی وجہ سے اس کا نام مہوڈنڈ (یعنی مچھلیوں کی جھیل پڑ گیا ہے)۔ ٹراؤٹ مچھلی اپنی لذت اور ذائقے کے لحاظ سے دنیا کی چار پانچ بہترین مچھلیوں میں شمار ہوتیہے۔ مچھلی کے شکار کے لئے اجازت نامہ لینا ضروری ہے جو محکمۂ ماہی پروری کے متعلقہ اہل کاروں سے باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔بعض غیر ملکی سیاحوں کا کہنا ہے کہ مہوڈنڈبہت خوب صورت جھیل ہے۔ [/align:8143a87c48]
 

سندباد

لائبریرین
[align=justify:1d67835709]مہوڈنڈ تک پہنچنے کے لئے کالام سے جیپ کرایہ پر حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ خصوصی طور پر جیپ بُک نہیں کرانا چاہتے تو چھ سات سیاح مل کر بھی جیپ کرایہ پر حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح سیاحوں کوکافی بچت ہو گی۔ کچھ عرصہ قبل مہوڈنڈ میں رات کے قیام کے لئے کوئی ہوٹل موجود نہیں تھا،اب یہاں فرانسیسی کمرشل ادارے کے تعاون سے رہائشی انتظامات کا منصوبہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ چناںچہ شب بسری کی سہولت بھی میسر آجائے گی۔ مہودنڈ کی سیر و سیاحت کے لئے صبح سویرے ہی کالام سے روانہ ہونا چاہئے اور شام کو جلد واپسی ممکن بنانی چاہئے تاکہ سیاح کالام میں اپنے ہوٹل بروقت پہنچ سکیں۔ مہوڈنڈ جاتے ہوئے راستے میں بہت خوب صورت مقامات آتے ہیں اس لئے اگر آپ ان مقامات پر تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جائیں تو آپ کا سفر مزید پُر لطف بن سکتا ہے۔ ان مقامات میں گلیشئر، پلوگا اور آبشار خصوصی طور پر شامل ہیں۔ آبشار نامی مقام اتنا خوب صورت و دل پزیر ہے کہ مہوڈنڈ جانے والی گاڑیاں کچھ دیر کے لئے اس مقام پر بے اختیار رُک جاتی ہیں اور سیاح پندرہ سو فٹ کی بلندی سے گرتے ہوئے اس طویل اور پُر عظمت آبشار کا نظارہ کرنے لگتے ہیں۔ یہ آبشار اس قدر دل فریب اور مسحور کُن ہے کہ بعض سیاح محض اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے کھٹن فاصلہ طے کرکے آتے ہیں اس مقام کا نام بھی اس طویل آبشار کی وجہ سے ’’آبشار‘‘ پڑ گیا ہے۔
کالام سے مٹلتان تک سڑک کی حالت کسی حد تک عمدہ ہے لیکن مہوڈنڈ تک کا سارا راستہ بہت خستہ اور خراب ہے جگہ جگہ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے اور جیپ، ڈاٹسن یا بس کے ذریعے ہی یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ہلکی پھلکی گاڑی کا اس سڑک پر چلے جانا ناممکن ہے۔ وادئ سوات کا یہ گوشہ بلاشبہ فطرت کے اصل رنگ و روپ میں ہے اور اس کی بے پناہ خوب صورتی جمالیاتی ذوق کے حامل سیاحوں کوتسکین اور سیرابی کا ایک بھرپُور احساس دلاتی ہے۔[/align:1d67835709]
٭٭٭​
 

سندباد

لائبریرین
پہاڑ،درے اور چوٹیاں

[align=justify:c27960f078]سوات کی بے پناہ خوب صورتی میں اگر ایک طرف یہاں کا صاف و شفاف پانی کارفرما ہے تو دوسری جانب اس کا حسن دوبالا کرنے میں یہاں کے بلند و بالا برف پوش پہاڑوں کی موجودگی بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ کیوں کہ ان پہاڑوں پر سردیوں میں برف پڑتی ہے اور وہ گرمیوں میں پگھل کر دریا، ندی اور نالوں کی صورت میں پوری وادئ سوات کو سرسبز و شاداب بناتی ہے۔ یہی برف پگھل کر چشموں،جھرنوں اور آبشاروں کی صورت میں سوات کے حسن اور رعنائی کو سُرور افزا اور دل پزیر بناتی ہے۔ اس طرح سوات کا موسم اگر معتدل ،صحت بخش اور خوش گوار ہے تو وہ یہاں کے سرسبز پہاڑوں اور سر بہ فلک چوٹیوں کی بہ دولت ہے۔
وادئ سوات کے چاروں جانب اُونچے اُونچے پہاڑوں کے طویل سلسلے ہیں ۔اس کے شمالی اطراف کے پہاڑ بہت بلند ہیں۔ ان میں بیشتر پہاڑ سال بھر برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ سوات کے مشرق کی طرف بھی پہاڑوں کے طویل سلسلے ہیں۔ سوات کے مغربی پہاڑ بھی بہت بلند و بالا ہیں جو ضلع سوات اور ضلع دیر کے درمیان حدبندی کاکام دیتے ہیں۔ ان پہاڑوں میں جا بہ جا خوب صورت درے ہیں جن پر لوگوں کی پیدل آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ ان پہاڑوں میں گھنے جنگلات بھی ہیں ۔جن کی لکڑی بہت مضبوط،قیمتی اور کار آمد ہے۔ ان پہاڑی سلسلوں میں بہت سے آبشار،چشمے اور جھیلیں ہیں جن کی وجہ سے وادئ سوات سیاحوں کی جنت کہلاتی ہے۔
وادئ سوات کے چند مشہور پہاڑ یہ ہیں۔[/align:c27960f078]
 

سندباد

لائبریرین
ایلم:
یہ پہاڑ سطح سمندر سے 9250 فٹ بلند ہے۔ جو بونیر اور سوات کے درمیان حد فاصل کاکام دیتا ہے۔ سوات میں سب سے زیادہ سرسبز یہی پہاڑ ہے۔ رام تخت اس پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے جو ہندوؤں کی ایک عبادت گاہ (تیرتھ) ہے۔ جس کی زیارت کے لئے متحدہ ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے ہندو یاتری آیا کرتے تھے۔
دوہ سرے:
[align=justify:e1f5f384c0]یہ پہاڑ سطح سمندر سے10 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ بھی ایلم کی طرح زرخیز ہے جو ’’ایلم‘‘ سے ملحق سوات اور بونیر کے درمیان واقع ہے۔ دوہ سری بانڈہ اس پہاڑ کا درہ ہے۔ جس پر مخوزی اور سوات کے لوگ آتے جاتے ہیں۔[/align:e1f5f384c0]
فلک سیر:
[align=justify:e1f5f384c0] فلک سیر سوات کے شمالی پہاڑوں کے سلسلے کالام میں واقع ہے۔ اس کی بلندی قریباً20 ہزار فٹ ہے۔ اس کا قدیم نام پالا سر بتایا جاتا ہے۔[/align:e1f5f384c0]
مانکیال(مانڑکیال):
[align=justify:e1f5f384c0]سوات کوہستان میں یہ ایک مشہور پہاڑ ہے۔ جو وادئ بحرین میں واقع ہے۔ یہ پہاڑ سطح سمندر سے 18750 فٹ بلند ہے۔ قدرتی مناظر اور خوب صورتی کے لحاظ سے یہ سوات کا حسین ترین پہاڑ ہے۔ یہاں مرغ زریں کے علاوہ دوسرے پہاڑی مرغ بھی پائے جاتے ہیں جو حسن اور دل کشی میں لاثانی ہیں۔ اس کی چوٹی ہمیشہ برف کی سپید چادر سے ڈھکی رہتی ہے۔[/align:e1f5f384c0]
کڑاکڑ:
[align=justify:e1f5f384c0]یہ سوات اور بونیر(اباخیل اور سالارزی) کے درمیان واقع ہے۔ اس کی چوٹی سطح سمندر سے 4500 فٹ بلند ہے۔ اس کے درہ میں ایک پختہ سڑک بنائی گئی ہے۔ جس کے پیچ و خم ہر سیاح کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالیتے ہیں۔ یہ سڑک سوات اور بونیر کو ملاتی ہے۔ اس پہاڑ کی برف پوش چوٹی پشاور سے باہر ترناب فارم کے قریب سے بھی نظر آتی ہے۔[/align:e1f5f384c0]
جواڑے:
[align=justify:e1f5f384c0]یہ سطح سمندر سے7 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ بابوزو اور گوکند درہ کے درمیان اس کے اُوپر راستہ چلا گیا ہے۔ پیدل آمد و رفت کے لئے یہ موزوں راستہ ہے۔[/align:e1f5f384c0]
 

سندباد

لائبریرین
کلیل کنڈؤ:
[align=justify:160864dd66]یہ بھی سطح سے 7 ہزارفٹ کی اُونچائی پر واقع ہے۔ بابوزو اور گوکند درہ (بونیر) کے درمیان اس کے اُوپر راستہ گیا ہے۔ پیدل آمد و رفت کے لئے یہ بہت آسان راستہ ہے۔[/align:160864dd66]
گاڈوا:
[align=justify:160864dd66]یہ سوات اور غوربند کے درمیان واقع ہے۔[/align:160864dd66]گنہگار:
[align=justify:160864dd66]یہ پہاڑ ضلع سوات اور دیر کے درمیان سطح سمندر سے 15ہزارفٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس پہاڑ کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہاں سبز، سرخ ، سفید اور دیگر کئی رنگوں کی برف نظر آتی ہے جو سیاحوں کے لئے یقینا باعث حیرت اور دلچسپی ہے۔ اگرچہ عام طور پر برف سپید رنگ کی ہوتی ہے لیکن یہاں چوں کہ ہمیشہ برف جمی رہتی ہے اوربہت کم پگھلتی ہے، اس لئے اس کا رنگ بدلتا رہتا ہے۔ یہ دل کش پہاڑ سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ اس کی وجۂ تسمیہ کے بارے میں مشہور ہے کہ قدیم زمانے میں اس سے ایک بزرگ نے پتھر مانگے تھے تاکہ وہ اسے تعمیراتی کام میں استعمال کر سکے لیکن اس پہاڑ نے دینے سے انکار کیا تھا جس کی پاداش میں بزرگ نے اُسے بددُعا دی اور اس وجہ سے یہ پہاڑ ہمیشہ برف کی سپید چادر اُوڑھے رہتا ہے۔[/align:160864dd66]
کروڑہ:
[align=justify:160864dd66]یہ لیلونئی کے قریب واقع ہے۔ جو پہاڑوں سے گراہوا ایک تنگ درہ (وادی) ہے۔ یہ منگورہ اور لیلونئی (ضلع شانگلہ) کے مابین رابطے کا راستہ بھی ہے۔ جو کہیں کچی اور کہیں پختہ سڑک کے ذریعے سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے ملا ہوا ہے۔[/align:160864dd66]
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top