نوعمر لڑکی کو سرعام کوڑوں کی سزا
صوبہ سرحد کے ضلع سوات سے پہلی مرتبہ ایک ایسی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں حلیے سے طالبان معلوم ہونے والے افراد ایک لڑکی کو سرعام کوڑوں کی سزا دے رہے ہیں۔تاہم حکومت اور طالبان نے اس خاص واقعہ کی تردید کی ہے تاہم اس بات کی تصدیق کی کہ ماضی میں خواتین کو کوڑوں کی سزائیں دینے کے واقعات پیش آئے ہیں۔
موبائل فون سے بنائی گئی یہ دو منٹ کی ویڈیو اب سرعام دستیاب ہے۔ ویڈیو میں سرخ جوڑے میں ملبوس ایک جوان سال لڑکی کو دکھایا گیا ہے جسے زمین پر الٹا لِٹاکر کوڑے مارے جارہے ہیں۔
ویڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ طالبان کے حُلیے میں ایک شخص لڑکی کو پشت پر کوڑے برسارہا ہے جبکہ ایک شخص اس کے پیروں اور دوسرے نے جسم کے اوپر کے حصے کو دبوچا ہوا ہے۔ اس موقع پر درجنوں افراد دائرے میں کھڑے اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔
سزا دینے والے افراد آپس میں پشتو زبان میں بات کرتے ہیں اور لڑکی چیختی چلاتی پشتو میں فریاد کرتی ہے کہ ’میرے باپ کا توبہ ، میرے دادا کا توبہ آئندہ ایسا نہیں کرونگی۔‘ وہ شدت درد سے بار بار التجا کرتی ہے کہ ’خدا کے لیے کچھ صبر کرو‘ مگر مارنے والا شخص کہتا ہے کہ ’تم نے کہا تھا مجھے ماردو مگر اب تو میرے پاس چھری بھی نہیں ہے۔‘
پندرہ سے زائد کوڑے مارنے کے بعد وہ لوگ لڑکی کو چھوڑ دیتے ہیں اور اٹھتے ہی لڑکی شٹل کاک برقعہ میں ملبوس نظر آتی ہے۔ اس وقت ان میں سے بڑی داڑھی والا ایک شخص اس سے قریب واقع ایک کمرے میں لے جاتا ہے۔ چیخ و پکار اور باتوں سے وہ تقریباً بارہ سے سترہ سال کے درمیان کی عمر کی معلوم ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں دس کے قریب مقامی لوگوں سے رابطہ کیا گیا تو کافی مشکلات کے بعد انہوں نے صرف واقعہ کی تصدیق کی اور کہا کہ واقعہ سوات کی تحصیل کبل کے کالا کلی میں پیش آیا ہے۔ مقامی لوگ بظاہر خوف کی وجہ سے مزید معلومات دینے سے انکار کررہے ہیں۔ یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ لڑکی کون ہے اور انہیں کس بات پر سزا دی جارہی ہے۔
طالبان ترجمان مسلم خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ خواتین کو کوڑے مارنے کی سزا کا واقعہ حالیہ دنوں میں پیش نہیں آیا ہے۔ انہوں نے اس خاص واقعہ سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا البتہ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ امن معاہدے سے قبل مولانا فضل اللہ کے حکم پر خواتین کو سزائیں دی جاتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں خواتین کو سرعام سزائیں نہیں دی گئیں بلکہ مولانا فضل اللہ نے حکم دیا تھا کہ خواتین کو جب بھی سزا دینی ہو تو انہیں کمرے کے اندر کوڑے مارے جائیں۔ مسلم خان کے بقول انہوں نے ماضی میں ایسی خواتین کو سزائیں دی ہے جو بقول ان کے گھر سے بھاگ گئی تھیں یا پھر انہیں مبینہ طور پر ' غیر اخلاقی حرکات' میں ملوث پایا گیا تھا۔
ملاکنڈ ڈویژن کے کمشنر سید محمد جاوید سے بھی جب اس بابت رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی اس طالبان ترجمان مسلم خان کے مؤقف کی تائید کی اور کہا ممکن ہےماضی میں خواتین کو ایسی سزائیں دی گئی ہوں۔ان کے بقول امن معاہدے کے بعد طالبان نے اپنی نجی عدالتیں ختم کردی ہیں۔
ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ آیا یہ واقعہ حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے سے پہلے یا بعد میں پیش آیا ہے لیکن یہ اس لحاظ بہت ہی سنگین واقعہ ہے کہ سوات میں ایک خاتون کو سرعام کوڑوں کی سزادی جارہی ہے۔اس سے قبل طالبان نے کئی دفعہ ان مرد حضرات کو لوگوں کے سامنے کوڑوں کی سزائیں دی تھیں جن پر مختلف نوعیت کے الزامات لگائے گئے تھے
بشکریہ بی بی سی اردو