باسل احمد
محفلین
اسلام آ باد: بات بڑی عجیب ہے کہ ایک طرف دنیا بھر کی حکومتیں، لوگ اورادارے ’’عالمی تپش‘‘ گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن زمین ہے کہ گرم ہونے کی بجائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ یہ بات بھی اب سائنس دان ہی کہتے ہیں کہ سورج پر اٹھنے والے شمسی طوفان زمین پر اثرا ت مرتب کرتے ہیں اور 2014 میں سورج نے اونگھنا شروع کردیا ہے۔
آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ دنیا کو سورج کی سطح پر غیرمعمولی سکون یا ٹھہراؤ کا سامنا ہے۔ اب سورج کی سرگرمی میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ آنے والی کئی دہائیوں تک زمین انتہائی سرد ہو سکتی ہے۔ سائنس دانوں کے لیے یہ صورت حال انتہائی حیران کن ہے۔ ماضی کے تجربات سے ظاہر ہے کہ جب بھی سورج پر شمسی طوفان آنا بند یا کم ہوئے تو دنیا سردی کی لپیٹ میں آ گئی۔ اس مرتبہ سورج کی سطح پر شمسی طوفانوں میں کمی کے گلوبل وارمنگ پر کیا اثرات مرتب ہوئے ؟ اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق سورج کی شعائیں، جن کو ہم سولر ونڈز بھی کہتے ہیں، جب زمین کے اردگرد کے ماحول سے ٹکراتی ہیں تو شمالی روشنائیاں (Aurora Boroealis) معرض وجود میں آتی ہیں لیکن خدشہ یہ بھی ہے کہ جلد ہی یہ حیرت انگیز مناظر نظر آنا بند ہو جائیں گے کیوں کہ یہ سب کچھ سورج کی سطح پر آنے والے تغیرات کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
ردرفورڈ ایپلٹن لیبارٹری کے پروفیسر رچرڈ ہیرسن کا کہنا ہے کہ آپ کچھ بھی کرلیں ’’سولر پیکس‘‘ میں کمی ہو رہی ہے اور سورج کی سطح پر بلند ہونے والے شعلوں سے یہ بات واضح ہے۔ یونی ورسٹی کالج آف لندن کی ڈاکٹر لوسی گرین نے اس صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ شمسی طوفانوں کے دورانیے میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی سطح پر جو ارتعاش ہے وہ کم ہو رہا۔ سورج پر ایک مستقل طوفان کی کیفیت کی بہت مختلف نوعیتیں ہوسکتی ہیں مثلاً سورج پر پائے جانے والے دھبے بہت زیادہ مقناطیسیت کے حامل ہوتے ہیں، جو زمین سے دیکھیں تو سیاہ دھبوں جیسے نظر آتے ہیں، جب سورج کی بنفشئی شعاعیں زمین کی طرف آتی ہیں تو سورج کی سطح سے اٹھنے والے شعلے اربوں ٹن برقی ذرات خلا میں بکھرا دیتے ہیں۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ سورج پر برپا ہونے والا یہ ارتعاش ہر گیارہ برس بعد کم یا زیادہ ہوتا ہے۔ جب سورج پر ارتعاش کا زمانہ ہو تو اسے سائنسی اصطلاح میں ’’سولر میکسیمم‘‘ کہا جاتا ہے اور جب سورج پر غیر معمولی ٹہھراؤ ہو تو یہ ’’ سولر مینیمم‘‘ کہلاتا ہے۔
تیس سال سے سورج کا مطالعہ کرنے والے پروفیسر رچرڈ ہیرسن نے حال ہی میں بتایا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ایسی صورت حال نہیں دیکھی البتہ سو سال قبل ایسی صورت حال رونما ہوئی تھی۔ سورج کی سطح پر دھبوں کی تعداد توقعات سے انتہائی کم ہو چکی ہے اور اس کے شعلے متوقع تعداد سے آدھے ہوچکے ہیں۔ سترہویں صدی میں کئی دہائیوں تک سورج کی سطح کے دھبے غائب رہے تھے جس کی وجہ سے کرۂ شمالی میں شدید سردی ہوگئی تھی اور لندن کا دریائے ٹیمز منجمد ہو گیاتھا۔
سترہویں صدی کے اس دور کی پینٹنگز سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ منجمد دریائے ٹیمز پر ’’سرمائی بازار‘‘ لگا کرتے تھے۔ 1684 کے معروف ’’گریٹ فروسٹ‘‘ میں دریا دو ماہ تک مسلسل منجمد رہا تھا اور اس پر ایک فٹ دبیز برف کی تہہ جمی رہی، یورپ کی تاریخ کے اس سرد ترین دور کو ’’مونڈر مینیمم‘‘ کا نام اس سائنس دان کے نام پر رکھا گیا تھا جس نے سورج کی سرگرمی میں کمی کا مشاہدہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ مونڈر مینیمم کے دوران ٹیمز ہی منجمد نہیں ہوا تھا بل کہ بحیرۂ بالٹک بھی جم گیا تھا۔ شمالی یورپ میں فصلیں تباہ ہوگئی تھیںاور قحط پڑ گیا تھا۔ ڈاکٹر لوسی گرین نے بتایا کہ 1609 کے بعد سورج کے دھبوں کا مستقل یا اس پر اٹھنے والے شعلوں کا مشاہدہ جاری ہے اور دنیا کے پاس چار سو سال کے مشاہدات کا ریکارڈ موجود ہے۔ سورج کی موجودہ کیفیت وہی ہے جو سولر مینیمم آنے سے پہلے تھی تاہم شمسی سرگرمی کم ہونے پر کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی کہ اس کا زمین پر کیا اثر پڑے گا؟ البتہ کچھ سائنس دان تحقیق میں کئی ہزار سال پیچھے گئے ہیں اور انھوں نے برف کی تہ میں دبے ایسے ذرات کا مشاہدہ کیا ہے جو کبھی زمین کی فضا میں پائے جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان ذرات سے سورج پر ہونے والی سرگرمی کے اتار چڑہاو کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور سائنس دان مائک لویکورتھ نے ان ذرات کا مشاہدہ کرکے کہا ہے کہ دس ہزار سال میں پہلی مرتبہ سورج کی سرگرمی میں اتنی تیزی سے کمی ہو رہی ہے، برف کی تہ اور سورج پر سرگرمی میں واقع ہونے والی کمی کا مشاہدہ کیا جائے تو بیس سے تیس فی صد تک امکان ہے کہ آئندہ چالیس برس میں دنیا سولر مینیمم کا شکار ہو جائے گی اور جیٹ اسٹریم میں تبدیلی سے شمالی یورپ کو آنے والی گرم ہوائیں بند ہو سکتی ہیں۔
شدید سردی کے انسانی جسم پر ممکنہ اثرات: شدید سردی سے فروسٹ بائیٹ یا ہائی پوتھرمیا میں مبتلا ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ امریکا کی مشرقی ریاستیں آج کل شدید برفانی موسم کی لپیٹ میں ہیں اور درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے کئی درجے نیچے گرنے پر عوام کو موسم کی سختی سے خبردارکیا جا رہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ شدید سردی اور برفانی ہواؤں سے انسان کو کئی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ شدید سردی سے انسان فروسٹ بائیٹ (شدید سردی سے انسانی جلدکاگلنا) یا پھر ہائی پوتھرمیا (شدید سردی میں انسانی جسم کا درجۂ حرارت نارمل سے کم ہوجانا) میں مبتلا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ ہائی پوتھرمیا ایسی صورت حال ہے جس میں انسان کا جسمانی ٹمپریچر 35 سینٹی گریڈ سے نیچے چلاجاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کی طبعیت ہائی پوتھرمیا میں مبتلا ہونے کے بعد بہ حال ہوتی ہے، ان میں گردوں، جگر اور پتے کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خدشہ بہ ہرحال برقرار رہتا ہے۔ تھرمامیٹر کے بغیر اس بیماری کی تشخیص کے لیے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر انسان کو ختم نہ ہونے والی کپکپاہٹ کا عارضہ ہو جائے، یادداشت خراب ہو جائے، زبان سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کرنکلتے ہوں، غنودگی اور تھکاوٹ کی کیفیت طاری ہو تو اس بات کا قوی احتمال ہوتا ہے کہ ہائی پوتھرمیا ہو چکا ہے جب کہ فروسٹ بائیٹ وہ کیفیت ہوتی ہے جس میں شدید سردی کے باعث انسانی جلد اور جلد کے نیچے موجود ریشے تباہ ہو جاتے ہیں۔ ماہرین موسمیات کے مطابق منفی 29 سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت میں انسانی جلد محض30 منٹ میں فروسٹ بائیٹ کا نشانہ بن سکتی ہے۔ فروسٹ بائیٹ زیادہ تر جسم کے ان حصوں پر ہوتا ہے جو ننگے ہوں جیسا کہ کانوں کی لویں، ہاتھ، ناک وغیرہ۔ فروسٹ بائیٹ سے متاثرہ حصے سفید ہو جاتے ہیں، متاثرہ شخص کو اپنے اعضا جھڑنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔
سورج کی ماہیئت:سورج کی کمیت اپنے نظام کی کل کمیت کا 99.86 فی صد بنتی ہے۔ اس کا قْطر 13 لاکھ 92 ہزارکلومیٹر ہے، اس کی کل کمیت کا تین چوتھائی ہائیڈروجن پر اور باقی کا زیادہ تر ہیلیئم پر مشتمل ہے، کچھ مقدار میں لوہا، آکسیجن، کاربن اور نے اون عناصر بھی ہیں۔سورج کا اپنا رنگ سفید ہے تاہم زمین سے دیکھنے پر پیلا یا نارنجی دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی روشنی کی سپیکٹرم کلاس جی ٹو وی ہے۔ سورج کی سطح کا درجۂ حرارت تقریبا پانچ ہزار پانچ سو دس درجے سینٹی گریڈ ہے، اس کا باعث جوہری عمل، فیوژن ری ایکشن ہے۔ سورج سے زمین کا اوسط فاصلہ ایک سو انچاس اعشاریہ چھ ملین کلومیٹر ہے اور یہ فاصلہ روشنی آٹھ منٹ انیس سیکنڈ میں طے کرتی ہے۔ سورج کا مرکز (Core)تھرمو نیوکلیئر ری ایکشن کی وجہ سے سب سے زیادہ گرم ہے اور وہاں کا درجۂ حرارت ایک کروڑ درجے سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہے۔ کور اور سطح کے درمیان کا درجۂ حرارت بیس لاکھ درجے سینٹی گریڈ ہے۔
سورج کا مستقبل: سورج پر جاری یہ فیوژن ری ایکشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک وہاں ہائیڈروجن ایٹم موجود ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورج پر کتنی ہائیڈروجن موجود ہے؟ کیا یہ ہائیڈروجن ختم ہو جائے گی؟ ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟ ماہرین کے مطابق سورج جیسے ستارے کی عمومی عمر دس بلین سال ہوتی ہے، جب سورج پر موجود تمام ہائیڈروجن ہیلیئم میں تبدیل ہو جائے گی تو سورج کا مرکز ٹوٹ کر درجۂ حرارت میں اضافے کا باعث بنے گا، اس کا حتمی نتیجے یہ نکلے گا کہ سورج پر موجود ہیلیئم، کاربن ایٹموں میں تبدیل ہونا شروع ہوجائے گی۔ ہائیڈروجن ایٹم کے ہیلیئم ایٹم میں تبدیل ہونے سے جتنی توانائی خارج ہوتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ حرارت اس وقت خارج ہوتی ہے جب ہیلیئم ایٹم کاربن میں تبدیل ہوتا ہے، اس لیے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سورج کا درجۂ حرارت آج کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جائے گا لہٰذا آج سے کئی سو ملین سال بعد مادے کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں تمام ہائیڈروجن کے ختم ہونے کے بعد سورج کی کمیت کچھ کم ہوگی تاہم حجم بڑھ جائے گا اور یہ حجم اتنا ہو گا کہ اس وقت زمین اور مریخ کے موجودہ مدار اس کے اندر آجائیں گے لیکن کمیت میں کمی کی وجہ سے سورج کی کشش میں کمی کے باعث زمین، مریخ اور دیگر سیارے اپنے مدار سے دور چلے جائیں گے۔ اس وقت سورج سرخ دکھائی دے گا۔ اب تک کئی ستاروں پر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ان کی کمیت ختم ہوجانے کے باعث فیوژن ری ایکشن رک گیا اور آہستہ آہستہ یہ ستارے سرد ہونا شروع ہو گئے ایسی صورت میں ان کے حجم میں کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے اور ان پر موجود باقی کمیت مرکز کی جانب سکڑنے لگتی ہے، مزید ٹھنڈا ہونے پر آہستہ آہتسہ ان کا رنگ مکمل طور پر سیاہ ہو جاتا ہے تاہم ان ستاروں کی کشش میں انتہائی اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے ہاں کمیت میں اضافے کے لیے آس پاس موجودہ چھوٹے ستاروں اور سیاروں کو نگلنے لگتے ہیں۔ ایسے ستاروں کو ’’بلیک ہولز‘‘ کہاجاتا ہے سو ایسا بھی ممکن ہے کہ آج سے کرڑوں برس بعد سورج بلیک ہول بن جائے اورزمین سورج کے اندر گم ہوجائے۔
سورج کی سطح کے معائنے اور اس سے حاصل ہونے والے ان اعداوشمار کو 1755 سے محفوظ رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس ڈیٹا کے مطابق اب تک سورج پر سستی اور تیزی کے 24 ادوار دیکھے گئے ہیں۔ ان میں سب سے قلیل دورانیہ 10.7 برسوں پر مشتمل تھا۔ سورج کی سرگرمی کا 23 واں دور 2008 میں مکمل ہوا اور یہ تیزی کا دور تھا۔ واضح رہے کہ زمین پر دیکھی جانے والی ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی سورج کی سطح پر جاری عوامل سے وابستہ سمجھا جاتا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کرۂ ارض پر رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا سورج پر جاری تعاملاتی سرگرمیوں سے یقینی طور پر تعلق موجود ہے۔ ابھی حال میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ براعظم یورپ میں طویل اور سخت سردی کی ایک وجہ سورج پر جاری سست تعاملاتی عمل ہے۔ سورج کی سطح پر کالے رنگ کے دھبے پائے جاتے ہیں جو گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں اور ان کی جسامت 80 ہزار کلومیٹر تک ہے، انہیں ’’سن سپاٹ‘‘ کہاجاتاہے۔ ماضیِ قریب میں ایک دور ایسا آیا جب شمسی دھبے ( 1650 تا 1700) غائب رہے، اسے زمین پر ’’منی آئس ایج‘‘ قرار دیا جاتاہے۔ ارضیاتی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر متعدد برفانی دور گزرچکے ہیں۔ آج سے 12 ہزار برس قبل بھی زمین ایک برفانی دور سے گزری جو یک لخت شروع ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں شمالی بحرِ اوقیانوس پانچ ڈگری سنٹی گریڈ تک ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ ایک روسی ماہرِ شمسیات اولگ سوروختِن کے مطابق سورج کی پوشیدگی کا مطلب اس بات کی نشان دہی ہے کہ دنیا سرد ہو رہی ہے، وہ کہتے ہیں کہ انسان کی طرف سے ماحول یا زمین کے درجۂ حرارت میں پیدا کی جانے والی تبدیلی قدرتی عوامل کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ دنیا کو سورج کی سطح پر غیرمعمولی سکون یا ٹھہراؤ کا سامنا ہے۔ اب سورج کی سرگرمی میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ آنے والی کئی دہائیوں تک زمین انتہائی سرد ہو سکتی ہے۔ سائنس دانوں کے لیے یہ صورت حال انتہائی حیران کن ہے۔ ماضی کے تجربات سے ظاہر ہے کہ جب بھی سورج پر شمسی طوفان آنا بند یا کم ہوئے تو دنیا سردی کی لپیٹ میں آ گئی۔ اس مرتبہ سورج کی سطح پر شمسی طوفانوں میں کمی کے گلوبل وارمنگ پر کیا اثرات مرتب ہوئے ؟ اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق سورج کی شعائیں، جن کو ہم سولر ونڈز بھی کہتے ہیں، جب زمین کے اردگرد کے ماحول سے ٹکراتی ہیں تو شمالی روشنائیاں (Aurora Boroealis) معرض وجود میں آتی ہیں لیکن خدشہ یہ بھی ہے کہ جلد ہی یہ حیرت انگیز مناظر نظر آنا بند ہو جائیں گے کیوں کہ یہ سب کچھ سورج کی سطح پر آنے والے تغیرات کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
ردرفورڈ ایپلٹن لیبارٹری کے پروفیسر رچرڈ ہیرسن کا کہنا ہے کہ آپ کچھ بھی کرلیں ’’سولر پیکس‘‘ میں کمی ہو رہی ہے اور سورج کی سطح پر بلند ہونے والے شعلوں سے یہ بات واضح ہے۔ یونی ورسٹی کالج آف لندن کی ڈاکٹر لوسی گرین نے اس صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ شمسی طوفانوں کے دورانیے میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی سطح پر جو ارتعاش ہے وہ کم ہو رہا۔ سورج پر ایک مستقل طوفان کی کیفیت کی بہت مختلف نوعیتیں ہوسکتی ہیں مثلاً سورج پر پائے جانے والے دھبے بہت زیادہ مقناطیسیت کے حامل ہوتے ہیں، جو زمین سے دیکھیں تو سیاہ دھبوں جیسے نظر آتے ہیں، جب سورج کی بنفشئی شعاعیں زمین کی طرف آتی ہیں تو سورج کی سطح سے اٹھنے والے شعلے اربوں ٹن برقی ذرات خلا میں بکھرا دیتے ہیں۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ سورج پر برپا ہونے والا یہ ارتعاش ہر گیارہ برس بعد کم یا زیادہ ہوتا ہے۔ جب سورج پر ارتعاش کا زمانہ ہو تو اسے سائنسی اصطلاح میں ’’سولر میکسیمم‘‘ کہا جاتا ہے اور جب سورج پر غیر معمولی ٹہھراؤ ہو تو یہ ’’ سولر مینیمم‘‘ کہلاتا ہے۔
تیس سال سے سورج کا مطالعہ کرنے والے پروفیسر رچرڈ ہیرسن نے حال ہی میں بتایا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ایسی صورت حال نہیں دیکھی البتہ سو سال قبل ایسی صورت حال رونما ہوئی تھی۔ سورج کی سطح پر دھبوں کی تعداد توقعات سے انتہائی کم ہو چکی ہے اور اس کے شعلے متوقع تعداد سے آدھے ہوچکے ہیں۔ سترہویں صدی میں کئی دہائیوں تک سورج کی سطح کے دھبے غائب رہے تھے جس کی وجہ سے کرۂ شمالی میں شدید سردی ہوگئی تھی اور لندن کا دریائے ٹیمز منجمد ہو گیاتھا۔
سترہویں صدی کے اس دور کی پینٹنگز سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ منجمد دریائے ٹیمز پر ’’سرمائی بازار‘‘ لگا کرتے تھے۔ 1684 کے معروف ’’گریٹ فروسٹ‘‘ میں دریا دو ماہ تک مسلسل منجمد رہا تھا اور اس پر ایک فٹ دبیز برف کی تہہ جمی رہی، یورپ کی تاریخ کے اس سرد ترین دور کو ’’مونڈر مینیمم‘‘ کا نام اس سائنس دان کے نام پر رکھا گیا تھا جس نے سورج کی سرگرمی میں کمی کا مشاہدہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ مونڈر مینیمم کے دوران ٹیمز ہی منجمد نہیں ہوا تھا بل کہ بحیرۂ بالٹک بھی جم گیا تھا۔ شمالی یورپ میں فصلیں تباہ ہوگئی تھیںاور قحط پڑ گیا تھا۔ ڈاکٹر لوسی گرین نے بتایا کہ 1609 کے بعد سورج کے دھبوں کا مستقل یا اس پر اٹھنے والے شعلوں کا مشاہدہ جاری ہے اور دنیا کے پاس چار سو سال کے مشاہدات کا ریکارڈ موجود ہے۔ سورج کی موجودہ کیفیت وہی ہے جو سولر مینیمم آنے سے پہلے تھی تاہم شمسی سرگرمی کم ہونے پر کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی کہ اس کا زمین پر کیا اثر پڑے گا؟ البتہ کچھ سائنس دان تحقیق میں کئی ہزار سال پیچھے گئے ہیں اور انھوں نے برف کی تہ میں دبے ایسے ذرات کا مشاہدہ کیا ہے جو کبھی زمین کی فضا میں پائے جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان ذرات سے سورج پر ہونے والی سرگرمی کے اتار چڑہاو کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور سائنس دان مائک لویکورتھ نے ان ذرات کا مشاہدہ کرکے کہا ہے کہ دس ہزار سال میں پہلی مرتبہ سورج کی سرگرمی میں اتنی تیزی سے کمی ہو رہی ہے، برف کی تہ اور سورج پر سرگرمی میں واقع ہونے والی کمی کا مشاہدہ کیا جائے تو بیس سے تیس فی صد تک امکان ہے کہ آئندہ چالیس برس میں دنیا سولر مینیمم کا شکار ہو جائے گی اور جیٹ اسٹریم میں تبدیلی سے شمالی یورپ کو آنے والی گرم ہوائیں بند ہو سکتی ہیں۔
شدید سردی کے انسانی جسم پر ممکنہ اثرات: شدید سردی سے فروسٹ بائیٹ یا ہائی پوتھرمیا میں مبتلا ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ امریکا کی مشرقی ریاستیں آج کل شدید برفانی موسم کی لپیٹ میں ہیں اور درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے کئی درجے نیچے گرنے پر عوام کو موسم کی سختی سے خبردارکیا جا رہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ شدید سردی اور برفانی ہواؤں سے انسان کو کئی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ شدید سردی سے انسان فروسٹ بائیٹ (شدید سردی سے انسانی جلدکاگلنا) یا پھر ہائی پوتھرمیا (شدید سردی میں انسانی جسم کا درجۂ حرارت نارمل سے کم ہوجانا) میں مبتلا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ ہائی پوتھرمیا ایسی صورت حال ہے جس میں انسان کا جسمانی ٹمپریچر 35 سینٹی گریڈ سے نیچے چلاجاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کی طبعیت ہائی پوتھرمیا میں مبتلا ہونے کے بعد بہ حال ہوتی ہے، ان میں گردوں، جگر اور پتے کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خدشہ بہ ہرحال برقرار رہتا ہے۔ تھرمامیٹر کے بغیر اس بیماری کی تشخیص کے لیے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر انسان کو ختم نہ ہونے والی کپکپاہٹ کا عارضہ ہو جائے، یادداشت خراب ہو جائے، زبان سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کرنکلتے ہوں، غنودگی اور تھکاوٹ کی کیفیت طاری ہو تو اس بات کا قوی احتمال ہوتا ہے کہ ہائی پوتھرمیا ہو چکا ہے جب کہ فروسٹ بائیٹ وہ کیفیت ہوتی ہے جس میں شدید سردی کے باعث انسانی جلد اور جلد کے نیچے موجود ریشے تباہ ہو جاتے ہیں۔ ماہرین موسمیات کے مطابق منفی 29 سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت میں انسانی جلد محض30 منٹ میں فروسٹ بائیٹ کا نشانہ بن سکتی ہے۔ فروسٹ بائیٹ زیادہ تر جسم کے ان حصوں پر ہوتا ہے جو ننگے ہوں جیسا کہ کانوں کی لویں، ہاتھ، ناک وغیرہ۔ فروسٹ بائیٹ سے متاثرہ حصے سفید ہو جاتے ہیں، متاثرہ شخص کو اپنے اعضا جھڑنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔
سورج کی ماہیئت:سورج کی کمیت اپنے نظام کی کل کمیت کا 99.86 فی صد بنتی ہے۔ اس کا قْطر 13 لاکھ 92 ہزارکلومیٹر ہے، اس کی کل کمیت کا تین چوتھائی ہائیڈروجن پر اور باقی کا زیادہ تر ہیلیئم پر مشتمل ہے، کچھ مقدار میں لوہا، آکسیجن، کاربن اور نے اون عناصر بھی ہیں۔سورج کا اپنا رنگ سفید ہے تاہم زمین سے دیکھنے پر پیلا یا نارنجی دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی روشنی کی سپیکٹرم کلاس جی ٹو وی ہے۔ سورج کی سطح کا درجۂ حرارت تقریبا پانچ ہزار پانچ سو دس درجے سینٹی گریڈ ہے، اس کا باعث جوہری عمل، فیوژن ری ایکشن ہے۔ سورج سے زمین کا اوسط فاصلہ ایک سو انچاس اعشاریہ چھ ملین کلومیٹر ہے اور یہ فاصلہ روشنی آٹھ منٹ انیس سیکنڈ میں طے کرتی ہے۔ سورج کا مرکز (Core)تھرمو نیوکلیئر ری ایکشن کی وجہ سے سب سے زیادہ گرم ہے اور وہاں کا درجۂ حرارت ایک کروڑ درجے سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہے۔ کور اور سطح کے درمیان کا درجۂ حرارت بیس لاکھ درجے سینٹی گریڈ ہے۔
سورج کا مستقبل: سورج پر جاری یہ فیوژن ری ایکشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک وہاں ہائیڈروجن ایٹم موجود ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورج پر کتنی ہائیڈروجن موجود ہے؟ کیا یہ ہائیڈروجن ختم ہو جائے گی؟ ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟ ماہرین کے مطابق سورج جیسے ستارے کی عمومی عمر دس بلین سال ہوتی ہے، جب سورج پر موجود تمام ہائیڈروجن ہیلیئم میں تبدیل ہو جائے گی تو سورج کا مرکز ٹوٹ کر درجۂ حرارت میں اضافے کا باعث بنے گا، اس کا حتمی نتیجے یہ نکلے گا کہ سورج پر موجود ہیلیئم، کاربن ایٹموں میں تبدیل ہونا شروع ہوجائے گی۔ ہائیڈروجن ایٹم کے ہیلیئم ایٹم میں تبدیل ہونے سے جتنی توانائی خارج ہوتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ حرارت اس وقت خارج ہوتی ہے جب ہیلیئم ایٹم کاربن میں تبدیل ہوتا ہے، اس لیے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سورج کا درجۂ حرارت آج کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جائے گا لہٰذا آج سے کئی سو ملین سال بعد مادے کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں تمام ہائیڈروجن کے ختم ہونے کے بعد سورج کی کمیت کچھ کم ہوگی تاہم حجم بڑھ جائے گا اور یہ حجم اتنا ہو گا کہ اس وقت زمین اور مریخ کے موجودہ مدار اس کے اندر آجائیں گے لیکن کمیت میں کمی کی وجہ سے سورج کی کشش میں کمی کے باعث زمین، مریخ اور دیگر سیارے اپنے مدار سے دور چلے جائیں گے۔ اس وقت سورج سرخ دکھائی دے گا۔ اب تک کئی ستاروں پر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ان کی کمیت ختم ہوجانے کے باعث فیوژن ری ایکشن رک گیا اور آہستہ آہستہ یہ ستارے سرد ہونا شروع ہو گئے ایسی صورت میں ان کے حجم میں کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے اور ان پر موجود باقی کمیت مرکز کی جانب سکڑنے لگتی ہے، مزید ٹھنڈا ہونے پر آہستہ آہتسہ ان کا رنگ مکمل طور پر سیاہ ہو جاتا ہے تاہم ان ستاروں کی کشش میں انتہائی اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے ہاں کمیت میں اضافے کے لیے آس پاس موجودہ چھوٹے ستاروں اور سیاروں کو نگلنے لگتے ہیں۔ ایسے ستاروں کو ’’بلیک ہولز‘‘ کہاجاتا ہے سو ایسا بھی ممکن ہے کہ آج سے کرڑوں برس بعد سورج بلیک ہول بن جائے اورزمین سورج کے اندر گم ہوجائے۔
سورج کی سطح کے معائنے اور اس سے حاصل ہونے والے ان اعداوشمار کو 1755 سے محفوظ رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس ڈیٹا کے مطابق اب تک سورج پر سستی اور تیزی کے 24 ادوار دیکھے گئے ہیں۔ ان میں سب سے قلیل دورانیہ 10.7 برسوں پر مشتمل تھا۔ سورج کی سرگرمی کا 23 واں دور 2008 میں مکمل ہوا اور یہ تیزی کا دور تھا۔ واضح رہے کہ زمین پر دیکھی جانے والی ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کو بھی سورج کی سطح پر جاری عوامل سے وابستہ سمجھا جاتا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کرۂ ارض پر رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا سورج پر جاری تعاملاتی سرگرمیوں سے یقینی طور پر تعلق موجود ہے۔ ابھی حال میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ براعظم یورپ میں طویل اور سخت سردی کی ایک وجہ سورج پر جاری سست تعاملاتی عمل ہے۔ سورج کی سطح پر کالے رنگ کے دھبے پائے جاتے ہیں جو گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں اور ان کی جسامت 80 ہزار کلومیٹر تک ہے، انہیں ’’سن سپاٹ‘‘ کہاجاتاہے۔ ماضیِ قریب میں ایک دور ایسا آیا جب شمسی دھبے ( 1650 تا 1700) غائب رہے، اسے زمین پر ’’منی آئس ایج‘‘ قرار دیا جاتاہے۔ ارضیاتی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر متعدد برفانی دور گزرچکے ہیں۔ آج سے 12 ہزار برس قبل بھی زمین ایک برفانی دور سے گزری جو یک لخت شروع ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں شمالی بحرِ اوقیانوس پانچ ڈگری سنٹی گریڈ تک ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ ایک روسی ماہرِ شمسیات اولگ سوروختِن کے مطابق سورج کی پوشیدگی کا مطلب اس بات کی نشان دہی ہے کہ دنیا سرد ہو رہی ہے، وہ کہتے ہیں کہ انسان کی طرف سے ماحول یا زمین کے درجۂ حرارت میں پیدا کی جانے والی تبدیلی قدرتی عوامل کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
(ماخوذ از ایکسپریس نیوز)