سوریه جہاد النکاح عروج پر!

حسینی

محفلین
آج کل سوریہ (شام) میں تیسری عالمی جنگ جاری ہے۔۔۔ اس جنگ میں ایک طرف تو دنیا بھر کی مقاومتی طاقتیں ہیں۔۔۔ جبکہ دوسری طرف امریکہ اور اس کے حواری ہیں۔۔ دنیا بھر سے دہشت گردوں کو سوریہ میں جمع کیا گیا۔۔۔ جھیلوں سے لا کر سوریہ میں چھوڑ دیا گیا۔۔۔ کہ اگر بشار کی حکومت گرتی ہے تو بہت اچھا۔۔۔۔ اور اگر دہشت گرد مرتے ہیں تو بھی ان کا کیا جاتا ہے۔۔۔
لیکن مسئلہ ان دہشت گردوں " جہادیوں" کی جنسی خواہشات پوری کرنے کا تھا۔۔۔ تو اس حوالے سے پہلے تو یہ دہشت گرد جس علاقے کو فتح کرتے تھے اس علاقے کی خواتین کو کنیز بنا کر اپنی خواہشات پوری کرتے تھے۔۔
لیکن ابھی کچھ عرصہ پہلے کچھ "سلفی" مولویوں کے اس فتوی نے ان دہشت گردوں کا کام اور آسان کردیا۔۔ کہ جس فتوی میں "جہادیوں" کے لیے جہاد النکاح کے نام پر عورتوں کی سپلائی کو جائز قرار دیا گیا۔۔۔ اب یہ عورتیں ہر مرد کے ساتھ چند گھنٹے گزاد یا کریں گی۔۔۔ اور جنسی خواہشات پوری کر کے جھاد میں اپنا حصہ ڈال دیا کریں گی۔۔۔۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس حوالے سے بہت سے خواتین کو مجبور بھی کیا گیا۔۔۔ ابھی کچھ دن پہلے ترکی کے ایک مہاجر کیمپ نے ان مجاہدین کے خوف سے ایک شامی عورت نے خود کو اور اپنی تین بیٹیوں کو آگ لگا دی اور ہمیشہ کی موت سو گئیں۔۔۔۔ اور اپنی عزت پر حرف نہ آنے دی۔۔۔
تازہ "القدس العربی" کی خبر کی مطابق تیونس کی دسیوں خواتین شام میں جھاد النکاح کا کام انجام دے رہی ہیں۔
http://www.alquds.co.uk/index.asp?fname=data\2013\03\03-28\28qpt997.htm
 
قرن الشیطان کے حواری دین کا نام استعمال کرتے ہوئے، اس سے بھی زیادہ نیچ کام کرسکتے ہیں۔ ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں کہ دمشق کی مسجد میں ریموٹ کنٹرولڈ بم دھماکہ کرکے شیخ رمضان البوطی اور کئی نمازیوں کو عین اس وقت شہید کردیا گیا جب وہ خطبہ دے رہے تھے۔
 
دمشق میں ایرانی طیارے میں سوار پاسداران انقلاب کے متعدد کمانڈر زخمی
شامی حزب اختلاف کی فوجی کونسل کے ترجمان کا دعویٰ
جمعہ 17 جمادی الاول 1434ه۔ - 29 مارچ 2013م
1
جیش الحر کے حملے میں پاسداران انقلاب کے متعدد کمانڈروں کے زخمی ہونے کی اطلاع سامنے آئی ہے۔
دبئی۔العربیہ ڈاٹ نیٹ -
شامی حزب اختلاف کی فوجی کونسل کے ترجمان علاء الباشا نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ روز دمشق کے ہوائی اڈے پر جیش الحر کے حملے میں تباہ شدہ ایرانی طیارے میں سوار پاسداران انقلاب کے متعدد کمانڈر زخمی ہوگئے ہیں۔
جیش الحر نے جمعرات کو دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ایران کے ایک فوجی مال بردار طیارے کو اترتے ہوئے تباہ کردیا تھا۔سانا انقلابی نیٹ ورک نے اطلاع دی تھی کہ اس واقعے کے بعد شامی حکومت نے دمشق کے ہوائی اڈے پر اترنے والی تمام پروازوں کا رخ پندرہ کلومیٹر دور واقع سویدہ کے ہوائی اڈے کی جانب موڑ دیا تھا۔
لیکن شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا نے اس رپورٹ کی تردید کی ہے اور اس کا کہنا تھا کہ ہوائی اڈے پر معمول کے مطابق سرگرمیاں جاری تھیں لیکن حکومت مخالف کارکنان نے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں ایرانی طیارے کو ہوائی اڈے پر اترتے ہوئے آگ لگی ہوئی ہے۔
مختلف میڈیا ذرائع سے یہ اطلاعات سامنے آچکی ہیں کہ ایران ہر ہفتے قریباً پانچ ٹن اسلحہ اور گولہ بارود شام بھیج رہا ہے اور یہ اسلحہ مبینہ طور پر مال بردار طیارے کے خفیہ خانوں میں چھپایا جاتا ہے۔دمشق میں گذشتہ روز تباہ ہونے والے طیارے میں بھی مبینہ طور پر اسلحہ بھیجا گیا تھا۔تاہم العربیہ ڈاٹ نیٹ کو ان اطلاعات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
http://urdu.alarabiya.net/ur/middle-east/2013/03/29/دمشق-میں-تباہ-شدہ-ایرانی-طیارے-میں-سوار-پاسداران-انقلاب-کے-متعدد-کمانڈر-زخمی.html
 
آخری اشاعت: جمعرات 16 جمادی الاول 1434ه۔ - 28 مارچ 2013م KSA 17:25 - GMT 14:25
شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال، یواین آزادانہ رسائی کی منتظر
شام کا عالمی تحقیقات کاروں کو بلا روک ٹوک رسائی دینے سے انکار
جمعرات 16 جمادی الاول 1434ه۔ - 28 مارچ 2013م
1

نیویارک ۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ، ایجنسیاں -
شام نے ابھی تک اقوام متحدہ کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کے لیے آزادانہ رسائی دینے سے اتفاق نہیں کیا ہے۔

عالمی سفارت کاروں کے مطابق اقوام متحدہ چاہتی ہے کہ اس کی ٹیم آیندہ ہفتے شام پہنچ کر اپنے کام کا آغاز کردے لیکن عالمی ادارے کا ابھی تک اس ضمن میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ کوئی سمجھوتا طے نہیں پایا ہے اور معائنے کے کام کے شرائط وضوابط طے ہوسکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان مارٹن نیسرکی نے نیویارک میں صحافیوں کو بتایا کہ شامی حکومت کا اجازت نامہ مشن کے کام کے آغاز کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔اقوام متحدہ کی ٹیم کو شام میں تحقیقات کے لیے آزادانہ رسائی دینے کے بارے میں ابھی تک بات چیت جاری ہے اور اس کے بعد ہی ٹیم بھیجی جا سکے گی۔
شامی حکومت نے اقوام متحدہ سے شمالی صوبے حلب میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کی درخواست کی تھی۔اس نے باغی جنگجوؤں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عاید کیا تھا جبکہ باغیوں نے اس الزام کی تردید کی تھی اور الٹا شامی فوج پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عاید کیا تھا۔برطانیہ اور فرانس نے باغیوں کے اس الزام کی بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بین کی مون نے منگل کو سویڈن سے تعلق رکھنے والے سائنس دان ایکے سیل سٹرام کو شام میں تحقیقات کے لیے جانے والی ٹیم کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ وہ عراق میں 1990ء کے عشرے میں سابق صدر صدام حسین کے مبینہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کی تحقیقات کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم میں بھی شامل رہے تھے۔شام نے ان کے تقرر کا خیرمقدم کیا تھا۔
بین کی مون شام سے متعدد مرتبہ یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ طبیعات ،کیمیا اور صحت کے ماہرین کو بلا روک ٹوک رسائی دی جائے تا کہ وہ گذشتہ دوسال سے جاری خانہ جنگی کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی آزادانہ تحقیقات کرکے حقائق سامنے لاسکیں۔
عالمی سفارت کاروں کے مطابق اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی ٹیم میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک ،ترکی اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو معاملے کی نزاکت کے پیش نظر شامل نہیں کیا جائے گا بلکہ لاطینی امریکا ،بعض یورپی اور ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین شامل ہوں گے اور عالمی ادارے کی معائنہ ٹیم میں آٹھ سے دس ارکان شامل ہوں گے۔
http://urdu.alarabiya.net/ur/middle...-کا-استعمال،یواین-آزادانہ-رسائی-کی-منتظر.html
 
لگے رہو ایران ۔ شام ۔ سلفی ۔ امریکہ کھیلتے رہو ۔ اور اسکی کھیل میں نقصان صرف امت کا۔ ایک مسلمان ملک میں بغاوت کو ہوا دے کر اسے آزادی کا نام دینا اگر ناجائز ہے تو بے گناہ شہریوں کا قتل عام بھی ناجائز ہے ۔ اسی طرح مارے جانے والے باغیوں کو اگر بے گناہ شہری کہنا غلط ہے تو بے گناہ شہریوں کو باغیوں کا نام دینا بھی ناجائز ہے۔ مرتاکون ہے۔ کیا امت مسلمہ کبھی یہ سمجھ پائے گی کہ نہ سوری ۔ نہ ایرانی ۔ نہ عربی اور افغانی ۔ حقیقت بس مسلمانی ۔ مگر کیوں اور کسے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔

الھم انی اسئلک رحمتک و کرمک و ھدایہ منک و اعوذبک من کل ضلالہ و شر
اللھم ارحم علینا و علیٰ ملۃ الاسلام
اللھم نجینا من جمیع الفتن
یامالک الملک یا مالک الملک
 
آج کل سوریہ (شام) میں تیسری عالمی جنگ جاری ہے۔۔۔ اس جنگ میں ایک طرف تو دنیا بھر کی مقاومتی طاقتیں ہیں۔۔۔ جبکہ دوسری طرف امریکہ اور اس کے حواری ہیں۔۔ دنیا بھر سے دہشت گردوں کو سوریہ میں جمع کیا گیا۔۔۔ جھیلوں سے لا کر سوریہ میں چھوڑ دیا گیا۔۔۔ کہ اگر بشار کی حکومت گرتی ہے تو بہت اچھا۔۔۔ ۔ اور اگر دہشت گرد مرتے ہیں تو بھی ان کا کیا جاتا ہے۔۔۔
لیکن مسئلہ ان دہشت گردوں " جہادیوں" کی جنسی خواہشات پوری کرنے کا تھا۔۔۔ تو اس حوالے سے پہلے تو یہ دہشت گرد جس علاقے کو فتح کرتے تھے اس علاقے کی خواتین کو کنیز بنا کر اپنی خواہشات پوری کرتے تھے۔۔
لیکن ابھی کچھ عرصہ پہلے کچھ "سلفی" مولویوں کے اس فتوی نے ان دہشت گردوں کا کام اور آسان کردیا۔۔ کہ جس فتوی میں "جہادیوں" کے لیے جہاد النکاح کے نام پر عورتوں کی سپلائی کو جائز قرار دیا گیا۔۔۔ اب یہ عورتیں ہر مرد کے ساتھ چند گھنٹے گزاد یا کریں گی۔۔۔ اور جنسی خواہشات پوری کر کے جھاد میں اپنا حصہ ڈال دیا کریں گی۔۔۔ ۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس حوالے سے بہت سے خواتین کو مجبور بھی کیا گیا۔۔۔ ابھی کچھ دن پہلے ترکی کے ایک مہاجر کیمپ نے ان مجاہدین کے خوف سے ایک شامی عورت نے خود کو اور اپنی تین بیٹیوں کو آگ لگا دی اور ہمیشہ کی موت سو گئیں۔۔۔ ۔ اور اپنی عزت پر حرف نہ آنے دی۔۔۔
تازہ "القدس العربی" کی خبر کی مطابق تیونس کی دسیوں خواتین شام میں جھاد النکاح کا کام انجام دے رہی ہیں۔
http://www.alquds.co.uk/index.asp?fname=data\2013\03\03-28\28qpt997.htm
واہیات ہیں۔ حسینی صاحب وہ وقت بہت قریب ہے جب وحشی، داغ دار دامن کے مالک بشارالاسد اور ایرانی دہشت گرد کے خونی چنگل سے شامی مسلمانوں کو آزادی ملے گی۔ بہت ہو چکا۔ بہت۔
 
آج کل سوریہ (شام) میں تیسری عالمی جنگ جاری ہے۔۔۔ اس جنگ میں ایک طرف تو دنیا بھر کی مقاومتی طاقتیں ہیں۔۔۔ جبکہ دوسری طرف امریکہ اور اس کے حواری ہیں۔۔ دنیا بھر سے دہشت گردوں کو سوریہ میں جمع کیا گیا۔۔۔ جھیلوں سے لا کر سوریہ میں چھوڑ دیا گیا۔۔۔ کہ اگر بشار کی حکومت گرتی ہے تو بہت اچھا۔۔۔ ۔ اور اگر دہشت گرد مرتے ہیں تو بھی ان کا کیا جاتا ہے۔۔۔
لیکن مسئلہ ان دہشت گردوں " جہادیوں" کی جنسی خواہشات پوری کرنے کا تھا۔۔۔ تو اس حوالے سے پہلے تو یہ دہشت گرد جس علاقے کو فتح کرتے تھے اس علاقے کی خواتین کو کنیز بنا کر اپنی خواہشات پوری کرتے تھے۔۔
لیکن ابھی کچھ عرصہ پہلے کچھ "سلفی" مولویوں کے اس فتوی نے ان دہشت گردوں کا کام اور آسان کردیا۔۔ کہ جس فتوی میں "جہادیوں" کے لیے جہاد النکاح کے نام پر عورتوں کی سپلائی کو جائز قرار دیا گیا۔۔۔ اب یہ عورتیں ہر مرد کے ساتھ چند گھنٹے گزاد یا کریں گی۔۔۔ اور جنسی خواہشات پوری کر کے جھاد میں اپنا حصہ ڈال دیا کریں گی۔۔۔ ۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس حوالے سے بہت سے خواتین کو مجبور بھی کیا گیا۔۔۔ ابھی کچھ دن پہلے ترکی کے ایک مہاجر کیمپ نے ان مجاہدین کے خوف سے ایک شامی عورت نے خود کو اور اپنی تین بیٹیوں کو آگ لگا دی اور ہمیشہ کی موت سو گئیں۔۔۔ ۔ اور اپنی عزت پر حرف نہ آنے دی۔۔۔
تازہ "القدس العربی" کی خبر کی مطابق تیونس کی دسیوں خواتین شام میں جھاد النکاح کا کام انجام دے رہی ہیں۔
http://www.alquds.co.uk/index.asp?fname=data\2013\03\03-28\28qpt997.htm

یہی کام جب عراق میں اہل تشیع صادق الصدر کے قتل کے بعد اسلامک سپریم کونسل آف عراق کے جھنڈ ے تلے کررہے تھے جب سب ٹھیک تھا۔
 
لاجواب ہیں وہ حکمران اور عمال جو سیدھی سادھی اقتدار اور قبضہ کی جنگ کو فرقہ وارانہ یا نسلی رنگ دیتے ہیں اور عوام الناس بھیڑ چال کا شکار ہو کر گمراہ ہوجاتی ہے۔۔
 

ساجد

محفلین
تماشہ دیکھئے اس امتِ مسلمہ کا جو فرقوں میں یوں بٹی ہے کہ اغیار کا کام آسان تر ہو گیا ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے نظریاتی خدا کو پوجتا ہے اور نام لیتا ہے اسلام کا۔ کاش ہم اسلام کو عربوں اور ایرانیوں کی حاشیہ برداری سے باہر نکل کر سمجھیں۔ شاید اسی طرح سے اتفاق و اتحاد کا کوئی راستہ نکل آئے۔
 

حسینی

محفلین
تیسری عالمی جنگ :cautious: کیوں عالمی جنگوں کی بے عزتی خراب کر رہے ہیں میاں

عسکری بھائی شاید آپ شام کے حالات سے آگاہ نہ ہوں۔۔۔
کیا آپ کو معلوم ہے اس جنگ میں کتنے ممالک ملوث ہیں؟؟
شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ہو جو بلاواسطہ یا بالواسطہ اس جنگ کے فریق نہ ہو۔۔۔ تو کیا عالمی جنگ کے سینگ ہوتے ہیں کیا؟؟
 

حسینی

محفلین
یہی کام جب عراق میں اہل تشیع صادق الصدر کے قتل کے بعد اسلامک سپریم کونسل آف عراق کے جھنڈ ے تلے کررہے تھے جب سب ٹھیک تھا۔
کونسا کام؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اگر آپ نکاح والی بات کر رہے ہیں تو شیعہ تو اس حوالے سے ویسے ہی مستثنی ہیں۔۔۔ کیوں کہ ان کے مذہب میں متعہ جائز ہے۔۔۔ لہذا شرعی راستہ کھلا ہوا ہے۔۔۔
مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو متعہ کو حرام اور کرنے والوں پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔۔۔
 

حسینی

محفلین
واہیات ہیں۔ حسینی صاحب وہ وقت بہت قریب ہے جب وحشی، داغ دار دامن کے مالک بشارالاسد اور ایرانی دہشت گرد کے خونی چنگل سے شامی مسلمانوں کو آزادی ملے گی۔ بہت ہو چکا۔ بہت۔

بھائی جی منہ سنبھال کر بات کیا کریں! واہیات کہنے والے خود۔۔۔۔ میں اپنی زبان کو گندی نہیں کرنا چاہتا۔۔۔
دم ہے تو دلائل سے بات کریں!
کیوں سعودی عرب، قطر اور ترکی اپنے ہی برادر اسلامی ملک کو کھنڈر میں تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟؟
کیوں یہ نام نہاد اسلامی ممالک امریکہ اور اسرائیل کی گود میں بیٹھ کر عالم اسلام کے قلب میں خنجر گھونپ رہے ہیں؟؟
کیوں دہشت گردوں کو کیمیائی اسلحے دیے جا رہے ہیں؟؟
کیوں معتدل سنی علماء جیسے رمضان البوتی جیسے شریف النفس لوگوں کو شہید کیا جا رہا ہے؟؟
 
کونسا کام؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اگر آپ نکاح والی بات کر رہے ہیں تو شیعہ تو اس حوالے سے ویسے ہی مستثنی ہیں۔۔۔ کیوں کہ ان کے مذہب میں متعہ جائز ہے۔۔۔ لہذا شرعی راستہ کھلا ہوا ہے۔۔۔
مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو متعہ کو حرام اور کرنے والوں پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔۔۔

متعہ اور نکاح کی بحث میں پڑے بغیر صرف اس بات کا جواب دیں کہ تکفیراور تکفیری کی رٹ لگانے والے یہی کام عراق ، قطر اور سعودی عرب میں کرتے ہیں پھر وہ تکفیر نہیں جہاد بن جاتا ہے۔۔
 

حسینی

محفلین
دمشق میں ایرانی طیارے میں سوار پاسداران انقلاب کے متعدد کمانڈر زخمی
شامی حزب اختلاف کی فوجی کونسل کے ترجمان کا دعویٰ
جمعہ 17 جمادی الاول 1434ه۔ - 29 مارچ 2013م
1
جیش الحر کے حملے میں پاسداران انقلاب کے متعدد کمانڈروں کے زخمی ہونے کی اطلاع سامنے آئی ہے۔
دبئی۔العربیہ ڈاٹ نیٹ -
شامی حزب اختلاف کی فوجی کونسل کے ترجمان علاء الباشا نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ روز دمشق کے ہوائی اڈے پر جیش الحر کے حملے میں تباہ شدہ ایرانی طیارے میں سوار پاسداران انقلاب کے متعدد کمانڈر زخمی ہوگئے ہیں۔
جیش الحر نے جمعرات کو دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ایران کے ایک فوجی مال بردار طیارے کو اترتے ہوئے تباہ کردیا تھا۔سانا انقلابی نیٹ ورک نے اطلاع دی تھی کہ اس واقعے کے بعد شامی حکومت نے دمشق کے ہوائی اڈے پر اترنے والی تمام پروازوں کا رخ پندرہ کلومیٹر دور واقع سویدہ کے ہوائی اڈے کی جانب موڑ دیا تھا۔
لیکن شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا نے اس رپورٹ کی تردید کی ہے اور اس کا کہنا تھا کہ ہوائی اڈے پر معمول کے مطابق سرگرمیاں جاری تھیں لیکن حکومت مخالف کارکنان نے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں ایرانی طیارے کو ہوائی اڈے پر اترتے ہوئے آگ لگی ہوئی ہے۔
مختلف میڈیا ذرائع سے یہ اطلاعات سامنے آچکی ہیں کہ ایران ہر ہفتے قریباً پانچ ٹن اسلحہ اور گولہ بارود شام بھیج رہا ہے اور یہ اسلحہ مبینہ طور پر مال بردار طیارے کے خفیہ خانوں میں چھپایا جاتا ہے۔دمشق میں گذشتہ روز تباہ ہونے والے طیارے میں بھی مبینہ طور پر اسلحہ بھیجا گیا تھا۔تاہم العربیہ ڈاٹ نیٹ کو ان اطلاعات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
http://urdu.alarabiya.net/ur/middle-east/2013/03/29/دمشق-میں-تباہ-شدہ-ایرانی-طیارے-میں-سوار-پاسداران-انقلاب-کے-متعدد-کمانڈر-زخمی.html

بھائی جی۔۔۔۔ شاید آپ کو معلوم ہو العربیہ کن کا چینل ہے اور کن کے حق میں اور کن کے خلاف کام کرتا ہے۔۔۔
لہذا اس جھوٹے چینل کی خبریں فورم پر نہ لایا کریں تو بہتر ہے۔۔۔۔
اگر بات کرنی ہے تو کسی معتدل اخبار یا ٹی وی کا حوالہ دیں۔۔۔۔
 
جو چیز شام اور ایران میں ناجائز اور حرام ہوتی ہے وہ عراق، قطر، بحرین اور سعودی عرب میں جائز کیسے ہوجاتی ہے؟؟؟؟؟
 
بھائی جی۔۔۔ ۔ شاید آپ کو معلوم ہو العربیہ کن کا چینل ہے اور کن کے حق میں اور کن کے خلاف کام کرتا ہے۔۔۔
لہذا اس جھوٹے چینل کی خبریں فورم پر نہ لایا کریں تو بہتر ہے۔۔۔ ۔
اگر بات کرنی ہے تو کسی معتدل اخبار یا ٹی وی کا حوالہ دیں۔۔۔ ۔
پہلے خود کو معتدل اور غیر جانبدار بنا لیں حضرت۔۔۔
 
آج سے ۴۲برس قبل انسانیت کے ماتھے پر یہ بدنُما داغ اس وقت لگا تھا جب حافظ الاسد خاندان نے سرزمینِ شام کے آمرمطلق کے روپ میں نظامِ حکومت سنبھالا تھا۔ اسدکے اقتدار سنبھالنے سے لے کر آج تک شامی قوم مسلسل اس قصاب خاندان کے ہاتھوں ذبح ہورہی ہے۔ اسد کی حکمرانی اُس کی شخصی آمریت اور اکثریت پر علوی فرقے کا اقلیتی تسلط تھا، جسے عالمی ضمیر نے بھی قریباً نصف صدی سے ظلم وستم کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ حافظ الاسد کو ملنے والے اقتدار کا آغاز گولان کے علاقے سے شام کی محرومی کی قیمت پر ہوا۔ اسرائیل سے اپنی شکست اور افواج کی پسپائی کا خودساختہ اعلان کرنے والے اُس وقت کے شامی وزیردفاع حافظ الاسدکا یہ فیصلہ اُس کی ذات اور خاندان کے لیے شاہانہ زندگی کی ضمانت فراہم کرگیا۔ ۴۲برس سے شام باپ بیٹے کی آمریت میں سلگ رہا ہے۔ باپ نے ۳مارچ ۱۹۷۱ء کو اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام کو طرح طرح کے تعذیب و تشدد اور قتل و غارت کے ذریعے اپنا محکوم بنائے رکھا۔ ۲۷جون ۱۹۸۰ء میں تدمر کے مقام پر قتلِ عام سے حافظ الاسد کے خونریز تاریخی سلسلے کا آغاز ہوا۔ پھر ۱۰مارچ ۱۹۸۰ء کو جسرالشغور کے مقام پر، ۵۔۱۲؍اپریل ۱۹۸۰ء کو حماۃ شہر میں، ۱۱؍اگست ۱۹۸۰ء کی صبح عیدالفطر کے روز حلب شہر کے محلے المشارفہ میں قتل و غارت کا اعادہ کیا گیا۔ ۲فروری ۱۹۸۲ء کو تو حماۃ کے ایک بہت بڑے قتلِ عام کا تحفہ قوم کو دیا گیا۔ یہ قتل عام مسلسل ۲۰دن رہا اور اس میں ۳۰سے ۴۰ہزار نفوس نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ۱۵ہزار افراد لاپتا ہوگئے جن کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ ایک لاکھ شہری اپنے گھر
وں سے ہجرت کرجانے پر مجبور کردیے گئے کیونکہ حماۃ کے ایک تہائی مکانوں کا مکمل طور پر صفایا کردیا گیا تھا۔

الجزیرہ نیٹ کے ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ کسی کو توقع نہیں تھی کہ شام کی صورت حال اس قدر خراب ہوجائے گی اور اسلحہ ہی فیصلہ کن قوت بن جائے گا۔ ہرآواز جنگ کی آواز میں دب جائے گی،حُریت و حقوق کے علَم بردارِ سیاست اسلحہ اُٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ عوامی مزاحمت کے عسکریت پسندی کی طرف جانے کی وجوہات یہ ہیں کہ جب مظاہرین اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹتے دکھائی نہ دیے تو حکومت نے انھیں اسلحے کے زور سے کچلنے کی کوشش کی۔ اسلحے کا یہ استعمال یقینی بات ہے کہ فوج اور پولیس ہی کو کرنا تھا، لہٰذا فوج اور پولیس کی کثیرتعداد نے اپنی ہی قوم اور اپنے ہی خاندانوں پر اسلحہ چلانے سے انکار کر دیا اور اس جنگ میں فوج کی شرکت پر اعتراض کیا۔ جب یہ لوگ حکومت کی رخصتی کے واحد نکتے پر متفق ہوگئے تو عوام اور قوم کے ساتھ مل گئے۔ ادھر ’آزاد لشکر‘ یعنی عوامی لشکر اپنے بڑے بڑے گروپ تشکیل دے کر مظاہروں کااہتمام کر رہے تھے جن کے ساتھ وہ لوگ ملتے گئے جنھیں اپنے گھربار اور اہل و عیال کے دفاع کی فکر تھی۔ اس کے ساتھ تیسری قوت اُن افراد کی شامل ہوگئی جو تشدد پسند مذہبی انقلابی رجحان رکھتے ہیں۔ان لوگوں کی شمولیت کے باعث حکومت کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ چوتھی طاقت اس تحریک میں اُن لوگوں کی شامل ہوگئی جو جیلوں سے رہا ہوئے تھے یا جو جرائم پیشہ عناصر تھے۔ ان قیدیوں کو حکومت نے تحریکِ بیداری کے آغاز میں رہا کیا تھا۔ اس عوامی قوت میں بعض کمزور دل اور مُردہ ضمیر لوگ جب شریک ہوگئے تو لُوٹ مار اور چوری، ڈکیتی کی وارداتوں کا سلسلہ بھی بڑھ گیا۔
اس میں شک نہیں کہ بشارحکومت نے تحریکِ مزاحمت کا رُخ خود مسلح جدوجہد کی طرف موڑا ہے مگر اُسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ ’جیش حر‘ (آزاد لشکر) اُس کے گلے کی پھانس بن جائے گا اور انتظامیہ کی تمام تر قوتوں کو بھی اس معرکے میں جھونک کر کامیابی کی اُمید دکھائی نہیں دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بشاری قوتیں شہریوں کو اجتماعی تشدد و تعذیب کے ذریعے انھیں آزاد لشکر سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کرر ہی ہیں۔ (الجزیرہ نیٹ، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۲ء)
الشرق الاوسط کی ایک رپورٹ سوریا: ’جمہوریۃ الخوف‘ (شام: خوف کی ریاست) میں حافظ الاسد خاندان کے حکومتی تسلط کے جاری رہنے کی ایک وجہ اُس کے جاسوسی نظام کو بتایا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق بشارانتظامیہ میں شامل افراد نے پورے ملک میں مخبری اور جاسوسی کا ایسا نظام قائم کر رکھا تھا کہ ہرشخص اپنے ساتھ رہنے اور کام کرنے والے آدمی پر اعتبار نہیں کرتاتھا۔ وہ یہی سمجھتا تھا کہ شاید یہ حکومتی ایجنسیوں کے لیے مخبری کرتا ہو۔ اس مقصد کے لیے بے روزگار نوجوانوں اور معاشی طور پر زبوں حال خاندانوں کے افراد استعما ل ہوتے رہے۔ رپورٹ میں کئی فرضی ناموں سے اُن افراد کی گواہیاں پیش کی گئی ہیں جو اس نیٹ ورک کے لیے کام کرتے رہے۔
صرف حکومتی ایجنسیاں ہی یہ کام نہیں کرتی رہیں بلکہ بعث پارٹی کا ہرکارکن یہ دھندہ کرتا رہا اور معصوم و مجبور لوگوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔ مخبری کا یہ نظام اس قدر وسیع تھا کہ یہ جملہ زبان زدعام عوام تھا کہ ’’احتیاط سے بات کرو، دیواروں کے بھی کان ہیں‘‘۔
بتایا گیا کہ بشارالاسد کا بھائی جنرل ماہر الاسد فوج کے اندر بہت زیادہ اثر رکھتا ہے۔ مخبرین کا ایک گروہ ا س کی حرکات و سکنات نوٹ کرنے کے لیے بھی کام کرتاہے کہ کہیں وہ ’الدنیا چینل‘ تو نہیں دیکھتا جس میں حکومتی طرزِعمل پر تنقید کی جاتی ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ کہیں ماہر الاسد عوام کے ساتھ نہ جاملے۔ جب صورت حال اس قدر بے اعتمادی اور خودغرضی کی حدوں کو چھونے لگے تو وہاں عوام کے خون، عزت و آبرو اورحقوق کی کیا وقعت ہوسکتی ہے۔ عوام تو عوامی مقامات، ہوٹلوں، قہوہ خانوں، گلیوں، بازاروں میں بات کرتے ہوئے بھی سوبار سوچتے ہیں کہ جس آدمی سے بات کی جارہی ہے یہ بعثی جاسوس تو نہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحریکِ مزاحمت کے مسلح رُخ اختیار کرجانے میں اس نظامِ جاسوسی کا خاصا دخل ہے۔ جاسوسی نظام نے ہراُس شہری کو مشکوک سمجھا جو واقعتا حکومت کے خلاف سرگرم نہیں تھا مگر انتظامیہ کے بے جا تشدد اور اذیت رسانی نے اسے ’جیشِ حُر‘ کے ساتھ جاملنے پر مجبور کیا۔ (الشرق الاوسط، ۲۸ستمبر۲۰۱۲ء)
ہفت روزہ المجتمع نے شام کی اس داخلی جنگ کے متاثرین میں سے چند خواتین کے تاثرات اور اُن کی الَم ناک روداد شائع کی ہے۔ یہ خواتین شام کے ہمسایہ ممالک اُردن، ترکی، لبنان، الجزائر اور عراق کی سرحدوں پر موجود مہاجر کیمپوں میں ناقابلِ بیان حالات میں سانس لے رہی ہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق شام کی اس اندرونی جنگ کے باعث اپنے گھربار چھوڑ کر محض اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچانے کی خاطر ۱۰لاکھ سے زائد لوگ ہجرت کرچکے ہیں۔ یقیناًہمسایہ ممالک کا اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرنے اور انھیں سنبھالنے کا مسئلہ معمولی نہیں ہے۔ پھر ان کیمپوں کے اندر مہاجرین کو ضروریات فراہم کرنے کا کام بھی آسان نہیں۔
اُردن کے صحرا میں زعتری، ذنبیہ اور رمثا کیمپوں میں موجود مہاجر خواتین سے المجتمع کے نمایندے نے صورت حال کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ بنیادی انسانی ضروریات بھی یہاں فراہم نہیں ہورہی ہیں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ میں اپنے شیرخوار بچے کے لیے تین دن سے دودھ کے ایک پیکٹ کے لیے گھوم رہی ہوں مگر مجھے وہ دستیاب نہیں ہوسکا۔خواتین سے خوف و ہراس کی اس صورت حال میں ان سرحدوں کی طرف فرار کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ کوئی معمول کا سفر نہیں تھا۔ ہم پیدل چل کر ۱۰ر وز کے بعد یہاں پہنچی ہیں۔ خواتین کے یہ چھوٹے چھوٹے گروپ اپنی بچیوں بچوں کے ساتھ شام کے بڑے شہروں حمص، حماۃ،درعا، حلب وغیرہ سے جان بچاکر بھاگے اور اب ہمسایہ مالک کی سرحدوں پر یا اپنے ہی ملک کے اندر موجود کیمپوں میں بے بسی کے لمحات گزار رہی ہیں۔ سفر کی صعوبتوں کے ساتھ اب کیمپوں کے اندر ناکافی ضروریات نے ان پناہ گزینوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ وہ خواتین جو ہمسایہ ممالک میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئیں اُن کے مسائل اور مصائب کو کسی حد تک کم کرنے کی سماجی کوششیں جارہی ہیں۔
ترکی اس اعتبار سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے کہ اُس کی سرحدی آبادی کے شام کے گرد قبائل کے ساتھ رشتہ داری کے مراسم ہیں، اور بہت بڑی تعداد اس سرحد پر موجود ہے۔ ترکی اپنی کوشش کر رہا ہے کہ مہاجرین کے مسائل بھی حل کیے جائیں اور جلد سے جلد شامی صورت حال معمول پر لائی جائے، مگر بدقسمتی سے ترکی کو اس اندرونی جنگ میں گھسیٹنے کی پوری کوشش ہورہی ہے، بلکہ اسے ترکی کے خلاف جنگ کا بہانہ بناکر بشارانتظامیہ اپنا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش میں ہے۔ شام کو اسلحہ و بارود سپلائی کرنے والے طیارے کو جب ترکی نے اپنی سرحدوں میں داخل ہونے پراُتار لیا تومعلوم ہوا کہ روس کی طرف سے یہ اسلحہ بشارانتظامیہ کی مدد اور شامی قوم کی تباہی کے لیے جارہا تھا۔
حکومت کی تبدیلی کے لیے شروع ہونے والی تحریک عوامی مظاہروں سے جنگی کارروائیوں کی طرف منتقل ہوگئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق بشارانتظامیہ روس و ایران سے کمک لے رہے ہیں، اور عوامی مزاحمت عسکریت کے ذریعے اُس کا جواب دے رہی ہے۔ شام کے دُوردراز علاقوں میں بسنے والے کاشت کار بھی اس تحریک میں شامل ہوکر اپنا ’فرض‘ ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بشارانتظامیہ ملک کے بڑے شہروں کے بیش تر حصوں پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ حمص، حماۃ، حل، درعا، وہ شہر ہیں جہاں بشار کا زور ٹوٹ چکا ہے مگر حالات مکمل طور پر ’جیش حُر‘ کے قابو میں بھی نہیں آسکے۔
الشرق الاوسط کے تجزیہ نگار عبدالرحمن الراشد کے مطابق: ’’دارالحکومت دمشق کے بجاے حلب کا فتح ہونا عوامی مزاحمت کی کامیابی اور بشار کی ناکامی کا حتمی اعلان ہوگا۔ حلب انسانی تاریخ کا قدیم ترین شہر ہے۔ اس کی عمر ۱۰ہزار سال کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ دنیا کی ہرشہنشاہیت کا یہاں سے گزر ہوا اور اس شہر کی خاطر اُس نے جنگ لڑی۔ دنیا کی آخری سلطنت خلافتِ عثمانیہ نے آستانہ و قاہرہ کے بعد اسے اپنا تیسرا دارالخلافہ بنایا۔یہی وجہ ہے کہ دونوں متحارب گروپوں کا زیادہ زور حلب کے اندر صَرف ہورہا ہے۔
دمشق کی صورت حال حلب کی نسبت مختلف ہے۔ یہ دارالحکومت ہونے کی بنا پر ہرطرح کے دفاعی حصار میں محفوظ ہے۔ تاہم کارروائیاں تو یہاں بھی جاری ہیں مگر یہ وقفے وقفے اور بڑی تکنیکی منصوبہ بندی کے بعد ممکن ہوتی ہیں۔ یہاں زیادہ تر کارروائیاں گوریلا ہوتی ہیں۔ ان کارروائیوں پر قابو پانا انتظامیہ کے لیے نسبتاً آسان ہے۔ دمشق کے مشکل ہدف ہونے کی بنا پر جیش حُرکا زیادہ ارتکاز حلب پر ہے۔ اگست میں حلب عوامی مزاحمت کے کنٹرول میں آنے ہی والا تھا کہ روس اور ایران کی بہت بڑی مددد نے اسے ناممکن بنادیا۔ ۱۹۵۳ء کے عسکری انتفاضہ میں بھی جب سقوطِ حلب عمل میں آیا تو پھر جلد ہی دیگر شہر جبل الدروز اور حمص بھی انتظامیہ گرفت سے آزاد ہوگئے۔ حلب کا سقوط خونریز معرکے، مزاحمت کاروں کی مردانہ وار جرأت مندی اور زخمی اہلِ شہر کے صبر کے ساتھ ہی ممکن ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ انتظامیہ فوراً بے بس ہوجائے تو یہ حلب کے سقوط کے ذریعے ہی ممکن ہے، کیونکہ یہ شام کا سب سے بڑا شہر ہے اوراس کے سقوط کے بعد ہی روس اور ایران شام کے قصاب، بشارالاسد کی پشت پناہی سے ہاتھ روکنے پر مجبور ہوں گے‘‘۔ (الشرق الاوسط ،۲۹ستمبر ۲۰۱۲ء)
ان حالات میں اخوان المسلمون مصر کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے شامی عوام کی مزاحمت کو عزیمت و استقامت اور قربانی کا معرکہ کہا ہے۔ عالمِ اسلام سے شامی قوم کی مادی و اخلاقی مدد کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے کہا: اگرچہ حالات بہت دگرگوں ہیں، سازشیں خوف ناک اور پے درپے ہیں، اور قربانی و شہادت کی مثالیں دلدوز اور اَلم ناک ہیں لیکن غلبہ قانونِ الٰہی کو ہی حاصل ہے۔ گھڑی کی سوئیوں کو اُلٹا نہیں چلایا جاسکتا۔ بے گناہ اور پاکیزہ خون رائیگاں نہیں جائے گا، بلکہ یہ عن قریب نصیب ہونے والی فتح کی بہت بڑی قیمت ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ پوری شامی قوم خالص اور مخلص ہوکر اللہ کی طرف رجوع کرچکی ہے اور رنجیدہ دلوں کی گہرائیوں سے اُٹھنے والی یہ سچی آواز ہم سن رہے ہیں: یاَاللّٰہ مَا لَنَا غَیْرَکَ یَا اللّٰہ (اللہ تیرے سوا ہمارا کوئی نہیں، اے اللہ!)۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ سچی آہ و زاری اللہ کی رحمت، تائید اور نصرت کے حصول میں کامیاب ہوکر رہے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے:’’اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقیناًان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے: ’’ہمارارب اللہ ہے‘‘۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کرڈالی جائیں۔ اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اُس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقت ور اور زبردست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ (الحج ۲۲:۳۹۔۴۱)
 
کونسا کام؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اگر آپ نکاح والی بات کر رہے ہیں تو شیعہ تو اس حوالے سے ویسے ہی مستثنی ہیں۔۔۔ کیوں کہ ان کے مذہب میں متعہ جائز ہے۔۔۔ لہذا شرعی راستہ کھلا ہوا ہے۔۔۔
مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو متعہ کو حرام اور کرنے والوں پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔۔۔
بھائی جی۔۔۔ ۔ شاید آپ کو معلوم ہو العربیہ کن کا چینل ہے اور کن کے حق میں اور کن کے خلاف کام کرتا ہے۔۔۔
لہذا اس جھوٹے چینل کی خبریں فورم پر نہ لایا کریں تو بہتر ہے۔۔۔ ۔
اگر بات کرنی ہے تو کسی معتدل اخبار یا ٹی وی کا حوالہ دیں۔۔۔ ۔
یار آپ کو تو شرم آنی چاہیے۔ العربیہ والےجھوٹے اور ایرانی فنڈ سے چلنے والا القدس سچا؟ کمال کا مذاق ہے۔۔۔۔
 
Top