سوچ کا سفر

نور وجدان

لائبریرین
حرف گریہ! حرفِ گریہ! حرفِ گریہ
محذوف دائرے! لامکان کے پنچھی چلے پرواز کو، جانب عدم جانے کس کا پہرا ہے! اکہر ہے! اکہر ہے! جی شام سے سویرا ہے! نوید ہوئی ہے کسی نے کہا کہ نوید ملی ہے! کسی نے جبین جھکی ہے! کسی نے کہا سجدہ ہوا ہے! گگن پر لالی ہے، افق کے ماتھے پر چاند ہے ۔ سجاد وہ ہے جس نے سجدہ کِیا ہے ۔ یہ سُحاب جو چھائے ہیں، یہ ساون برسنے کی نشانی ہے ۔ یہ جو برس رہا ہے یہ کیا ہے؟ یہ فرض کیا کہ یار ملا ہے مگر ملا نَہیں ۔ یہ قاف جو عشق کا ہے، جو سین ہے وہ "ن " سے نکلا ہے، قلم لوح جب اصل کاتب سے ملنے لگے تو وصل ہوتا ہے ۔ یہ مگر درد ہے ۔ عارف کی زمین پر درد بہت ہے، کرشمہ ہے! کرشمہ ہے! کرشن بھی وہی، رام بھی وہی، خدا بھی وہی. حرف مگر اک ہے، حرفِ دل نے کتنے نام دیے ہیں اسکو، وہ نام سے مبراء ذات ہے! وہ حال سے مجلی عین بات ہے. تم اس سے بات کرنا چاہتے ہو تو اس انسان سے بات کرو جو اس سے اتصال میں ہے. حقیقت میں وہ وسیلہ ہے اور مخلوق بنا وسیلے کے نہیں ہے. اسکی کرسی جس کے دل میں مقرر ہو جائے، وہ اس کا کان، ہے وہ خود سناتا ہے اور خود سنتا ہے خدا نے درد میں سرگوشی کی ہے کہ مخلوق درد میں ہے، جذب نہیں تو انجذاب نہیں! تقسیم ہے انتقال کی! یہ ہم ہیں جو منقسم ہو رہے ہیں، یہ ہم ہیں جو قرطاس ہیں، یہ ہم ہیں جو قلم ہیں، قرطاس کی چاندی نور ہے، اس کے ورق ورق میں وہ ظہور ہے! شبیر و شبر کی بات کرو تو جلال میں جو ہو، اسکا وظیفہ بھاری ہوتا ہے اس کی قربانی عظیم ہوتی ہے. قبلہ عشق کا ملتا ہے اسے، جس کی رگ دل سے چھری سے جاری خون کسی مینڈھے کو نہیں دیکھا جاتا، بلکہ دید ہوتی ہے ۔ یہی حج ہے! خلقت چاہے سوا لاکھ کالے کپڑے کے گرد پھیرے مارے، گر دید والے سے نہ ملے تو شریعت قائم رہ جاتی، ظاہر کا بھرم رہ جاتی. اندر خالی رہ جاتا ۔ اندر نور نہ ہو تو فائدہ نہیں نماز کا ۔ افسوس ایسے نمازیوں پر جن کی نمازیں ان کے منہ پر مار دی جائیں گی ۔ افسوس ایسے نامی حاجیوں پر جن کا کالا رنگ نہ اترا، افسوس اس وقت پر، جس کو رنگینی میں ضائع کردیا گیا ۔ ہائے! وہ ملنے آیا تم سے، تم نے برتن میں نجاست بھرلی. وہ تو مرج البحرین یلتیقان کی مثال قائم رہتا ہے جب تک کہ نور بجھ نہ جائے. اللہ تو نور کی تکمیل چاہتا مگر جو نور کو خود بجھا دے. ان پر افسوس کیا جاتا ہے. آج خدا نے افسوس کیا ایسے دلوں پر جنہوں نے اس کو زبان کے پھیرے سے مطلب کے لیے رکھا، جنہوں نے خیال میں سجائی کائنات ۔ وہی اصل ذاکرین ہیں. انہی ذاکرین نے الکرسی کی مثالیں بنانی ہوتی ہیں جلال والے نینوں میں. کرسی والا چلا جاتا ہے ذاکر کے دل میں اور الحی القیوم کی صدا آتی ہے ۔ ھو الباری ۔ اس نے میرے عناصر کو ترتیب دے دیا ہے، میرے اجزاء میں خاص لعل ہیں، کہیں عقیق ہیں تو کہیں نیلم. یہ نشان روح پر پڑتے ہیں جبکہ روح امر ربی ہے جو صدائے کن کی واجب ہے. وجود اس کی ہیبت سے لرز جاتا ہے اور رگ میں جان نکالی گئی باقی جان نے ھو ھو کہا گویا اک رگ سے جو پانی نکلا باقی وسیلے بنے ھو، ھو کہتے رہے
 

نور وجدان

لائبریرین
عشق آسمان سے جب اُترا، جتنے دلوں پر اترا، وہ محبوب ہوگئے. باقی دلوں نے عشاق کے در و دیوار میں چھپے سیپوں کو ڈھونڈنے کی خواہش میں زندگی گزار دی.

محبت آسمانی صحیفہ ہے، پاک دلوں پَر اُترتا ہے. محبت صدق دل میں لاتا ہے یا صادق کو لقب عطا کرتا ہے.

اس میں جسم زمین پر ہے
روح گردش میں میری، آنکھ میں نمی،
زمین وضو میں

تب سب لفظ بھول گئے
عشق، عشق
دل پکارتا رہتا ہے
عشق کسی روپ میں.صدیوں کے بعد نمودار ہوتا ہے
تن، من کی لاگی میں لگن بڑھانے کو ...
.کوئی جان سکتا ہے جب روح عشق کی.تسبیح پڑھے تو عالم یک ٹک سو ہو کے اس پکار کو سنتا ہے.

زندگی، بندگی میں ..
.اے دل ، بتا کیسے سجدہ ادا کریں؟
اے دل، اے عشق! بَتا کیسے حق ادا کریں؟
اے دل وضو کی جاری نہر میں خمِ دل سے کچھ نکلا. پتا ہے کیا نکلا؟
آیتِ کوثر

سسکیاں، آہوں سے پرے عشق ہے جلن اور سوز ...سوزش ہجر سے نکلیں سسکیاں اور دل کرے ہائے ہائے

,

میرے پاؤں کی زنجیرعشق نے تھام رکھی ہے اور مجھے حکم دیے جائے کہ چل جانب منزل میں کہتی جارہی ہوں منزل تو ہی تو ہے

تو نے تھام مجھے رکھا ہے اور میں نے خود میں اک یہی آیت پائی

جب بھی من میں جھانکا، اک نَیا جلوہ پایا. تری ہستی میں عالم کی نمود ہے اور ساجد کے ہزار سجدے اور بیخودی کا اک سجدہ برابر نہیں.

اس رقص میں بسمل کی تڑپ ہوتی ہے ، اسکی صدا میں کوئل کی چہک ہوتی ، پھر لفظ میں روشنی ہوتے ہیں ...
من و تو سے ذات پرے ہوتی ہے

تو رقص میں ہے، تو ہی کوئل کی صدا ہے ...

عشق زَمین پر اُترا ہے، اور چھپ گیا ہے. جب اسے اُسے دیکھا گیا تو وہ اک درخت کی اوٹ میں تھا. لکا چھپی کی رسم پرانی ہے اور عشق ازل سے اَلوہیت کا ساز ہے

شجر کے پتے پتے کا نغمہ سنا تھا. وہ تکبیریں "اللہ اکبر، اللہ اکبر" تھیں ..عشق کا جلوہ عالم ہر سو بکھر کے "محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم" میں سمٹ گیا

.. اے مری راہ کے خورشید. سلام. اے عالی ہست ...جلوہ ہزار اک میں جامع ہو گیا اوریہ خوش نصیبی کہ اس مبارک ہاتھ نے تھام لیا ہے.

لمحہ نَہیں ایسا کوئی، جس میں وہ نہیں. لمحہ ہی وہ ہے، لمحہ کچھ بھی نَہیں ...

غیب سے ہاتھ نَمودار ہوا، اسکی جھلک میں خُدا کی بات تھی،
وہ ہاتھ جو آیتِ کوثر کی جاری نہر ہے
وہ ہاتھ جس کی تقدیس کو سلام صبح شام خود کریں

وہ مثلِ موسی بن کے روشن ہوا...
یہ یدبیضاء،
جس ے سحر کے سارے اندھیرے ختم ہوئے.

عشق اور میں اک کشتی میں سوار تھے، جب بحر کی نمی کو خشکی سے چاک کیا گیا تھا، تو اسکے وجود میں سلیمانی مہک نے مسحور کردیا تھا ..

کیٹس نے خدا کو بُلبل میں، شیکسپیر نے پراسراریت میں، شیلے نے پانی، ہوا میں، ورڈورتھ نے پتے بوٹے میں، غالب نے دستِ غیب میں، اقبال نے رومی میں پایا اور میں نے خُدا کو تجھ میں پایا ....

اک جانب جنت، اک جانب دوذخ اور عاشق رہ پر چلے جائے ...

نغمہ ء گُل ہے صدا تری
جذب ہوتی ہے کائنات میری.
تو تبحر علم اور میں خالی کاسہ ...
فقیر بن کے کھڑا کوئ در پہ ترے ...

راز الف کیا ہے، صیغہ ء میم کیا ہے، لام میں چھپا راز اسکو جان لیا اور پہچان لیا. امر کے نقارے سے پہلے، نگاہ کا سجدہ اور وہ رحم بھری نگاہ سے ... ...

عشق کے شین، قاف میں الجھ کے عین سے گئے تھے، وہ جو یقین کی راہ پر آزماگئے تھے ....
فرعون بن کے ندیاں بہائیں تھیں،
چنگیز بن کے نیل کو سرخ کردیا،
دجلہ و فرات لہو لہو تھے ...
خدا کی رونمائی کے جلوے تھے
دیکھا گیا تھا، جب آگ گلنار ہوئی تھی
تو آیت کوثر بھی اک نشانی ہوئی



راکھ ہوتی اناؤں کو جب خاک میں ملتے دیکھا تھا، مریم بی بی علیہ سلام سے روح اللہ کی شاخ کو پنپتے دیکھا تھا،
جب درد سے وجود لبریز ہوا تھا،
اس درد میں خدا کی مامتا ابھرتے دیکھا تھا ...
وہ جو تقسیم الفت ہے..، وہ یہیں سے ہے ... جبفرشتہ وحی لے کے آیا مادر مریم کے پاس آیا،
تب اس روح مقدس میں نشانی تھی....
انا اعطینک الکوثر

قم باذن کی صدا کائنات نے سنی
اک وجود نے خود کو زندہ ہوتے دیکھا ...
اے مردہ دلوں کی مسیحا، سلام ...
جب سلمان فارس سے تلاش کو نکلے تھے،
اس تڑپ کی تپش میں جلوے تھے
انا اعطینک الکوثر

تسبیح میں جسطرح اک دھاگے سے بنتی ہے، مری روح کے دانوں کا وہ اک دھاگہ یہ ہی تو ہے!

میں نے پہاڑوں میں اس آیت کو حرکت میں پایا
ہر دل میں اس آیت کا نقش پایا
جہان کو اس آیت کے گرد رقص میں پایا
انا اعطینک الکوثر
.

جناب ادھم کو غیب کی صدا نے تخت چھوڑنے پر مجبور کیا تھا،
اس صدا میں، میں نے یہ آیت سنی تھی
زندگی اک گِل، کھنکھناتی مٹی سے وجود کہاں آئی ہے.
یہ تو الواحد کے نشان تھے
یہی نشان تو روح میں پڑچکے ہیں

آدم صورت خدا ہے اور صورت صورت میں جلوہ ہے ...وہ صورت نگاہوں میں ایسے ابھرے
جیسے نور کی ضیا پوشی ہے ...
داؤدی نغمہ کی سی دل میں درد کی مٹھاس...
یہ آواز وہ جگاتا ہے
جو عشق کا ساز بناتا ہے

.محبوب کے چہار سُو جلوے بکھرے ہیں، کبھی دریا، کبھی جنگل، کبھی پربت تو کبھی فلک، کبھی رنگ میں تو کبھی سنگ میں، کبھی آگ تو کبھی پانی، کبھی سورج تو کبھی چاند تو کبھی چاندنی میں پھیلتی کثرت میں وحدت ... محبوب کے سو روپ ہیں اور ہر روپ میں دلنشین مہک لیے ہے ..کبھی وہ جھلک دکھلا کے چھپ جاتا ہے تو کبھی پتھر میں ہل ہل کے چونکا دیتا ہے. کائنات کی کل کثرت اس کی وحدت ہے

وہ مظہر مظہر میں آیت ہے
مظہر مظہر اس کا شاہد ہے
اللہ ھو

. جبین جھکتی ہے، جب جد کی تخلیق کو دیکھے جائے. صدر میں صدر تلک کی فصل گل ہے، لالہ ہے تو کَہیں عنبر ہے ....

صورت میں آدم، سیرت میں احمد میں، حسن میں حَسن، کلام میں حسینیت لیے عشق سامنے آیا
عشق کوکو اک جا یکجا دیکھا
دل میں یکجائی کے سارے عالم بکھر گئے
محبوب سامنے مسکراتے تکی جائے

زندگی کی معنویت سے رنگ نکال دیے جائیں تو رنگ اک بچ جاتا ہے اور رنگ رنگ میں بے رنگی دکھ جاتی ہے ..

یقین نہ تھا دل میں
پیمان کو مانتا نہ دل
کسی دوست کی تلاش میں دل
اور دوست کی تلاش نے چکر پر چکر دیے ہیں
درد میں رقص در رقص کیے
بانسری ھو والی بجتی رہی
اللہ ہے، آواز آتی رہی
اللہ کہاں، خلجان میں جاتی رہی
اللہ اک ہے، کیسے ہے
اللہ مظہر مظہر میں، یہی کہتی رہی
پھر جب دل ٹوٹ سا گیا
تو چاند نے گود میں لیا
خورشید نے جیسے دلاسہ دیا
امید کا اک کاسہ دیا
رنگ مجھ پر ڈالے گئے
چنر محبوب کی پہنائی گئی
مجھے نشان خدا ملے
جانے کتنے نشانوں میں عیاں نکلا
ہر جگہ میں نہاں نکلا
اندر کے خانوں میں
باہر کے آئنوں میں
خدا خدا کی صدا ہے
ہر شے کی تسبیح اللہ اللہ ہے
رک رک کے سنتی ہے
خوشبو میں اس کی نشانی
جب بھی خوشبو کو سونگھا تو گم خود کو پایا
مہک خراماں خراماں چلتی رہی
میں ساکن ساکن رہی
یہی خدا ہے،وہ جو اک خیال ہے

خدا یہی تھا جس نے جان دی تھی مجھے
خدا یہی تھا جس نے مجھے پہچان دی
عشق کی نگہ خیر سے دل میں حیات پذیر ہوئی ہے
گویا کائنات کی بود، نہ بود کی بات ہے
شاہد، نہ شہود کی بات ہے
فنا نہ بقا کی بات ہے
خدا ابتدا ہے،
خدا انتہا ہے،
خدا منصور کا نعرہ تھا
نعرہ مگر وحدت سے پرے تھا
کثرت کا دعوی کیسے جامع ہوتا
گاہ میں فلک میں، گاہ میں سمندر میں
کائنات کا ردھم سمجھ کوئے
برف پگھلتی دیکھے کوئی
صدائے جرس سنائی کہاں دی؟
جو نہ سنا گیا، وہ سننا ہے
جو نہ دکھے، وہ دیکھتا ہے
جو نہ بولا گیا، وہ بولنا ہے
پھر وہ ہم کلام ہوتا ہے
پھر وہ دلدار کی سنتا.ہے

سن وہ صدا جو کان سے کان تک آتی ہے
سن وہ صدا جو دل سے جان تک آتی ہے
دیکھ وہ سکوت جس میں شور میں پنہاں ہے
دیکھ وہ شور جس کے سکوت میں وہی عیاں یے
عدم سے لایا گیا ہے
لباس وجودیت دیا گیا ہے
رہتی ہے ساز نگر میں خاموشی کی صدا

اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ

اللہ ہے
اللہ باقی ہے
باقی ہے کس میں
وہی تو ہر شے میں
جانا اسے یار کی صحبت میں
سادہ ہے وہ، سچ ہے، حق ہے
صدائے انا الاکبر سنائی دیتی ہے
جب آیت کوثر دکھائی دیتی ہے

سنگ سنگ میں رنگ ہے
رنگ برنگ جس کی ذات ہے
ذات میں وہ بلند ہے
وہ العالی کی مثال کی ہے

دوا کام نہ آئے گی
درد بڑھ جائے گا
روگ لگ جائے گا
عشق ہو جائے گا
عشق میں نعرہ لگ جائے گا
جذب وہ ہوگا، جس کا جذاب ہوگا
مومن وہ ہوگا، جس کا یقین پاس ہوگا
ستم کے سو سوال پاس رکھے ہیں
جدائی بس اک جواب ہوگا
خدا سب مصلحتوں سے پرے ہے
خدا عشق میں ظاہر ہے
عشق کی نمود اور نارِ گلنار
آگ سے دل فگار ہے
رات جیسے اشکوں کا بار ہے
دل شوریدہ کا سر دیکھتے ہیں

موجود ہے لہر لہر میں
موجود ہے دھارے دھارے میں
موجود ہے پربت پربت میں
موجود ہے جمتی کائی میں
موجود ہے پگھلتی برف میں
موجود ہے بنتی بھاپ میں
موجود ہے برستے بادل میں
موجود ہے بہتی گنگا میں
موجود ہے راگ میں سرگم میں

موجود ہے ذات پات میں
موجود ہے خیال خیال میں
خدا خیال ہے
میرا خیال ہے
ترا خیال ہے
خیال وہم سے بالاتر ہے
مرا ہونے ترا ہونے، شک سے پرے ہے
عدم سے خیال آیا یے
وہ مجھ میں سمایا ہے
وہ شہ رگ سے قریب ہے

راگ ہے نہ صدا ہے
وجود کی بہتی گنگا ہے
ھو ھو ھو ھو کہے جائے
ھو میں کون ہے
سبزے سبزے میں،
گلی گلی میں،
مظہر مظہر میں کون یے
خیال تھی یہ کائنات
اس نے سوچا، بس سوچنے کی دیر تھی
خیال مجسم ہوگیا

بس سوچنے کی دیر تھی
خیال نے نمود پکّڑی
وجود نے وہ رو پکڑی
ہر شے نے برقی رو پکڑی
اسکی لہریں لہریں ہر شے میں بہنے لگیں
ہم وجود دیکھنے لگے
ہم موجود نہ تھے
ہم خاکی نہ تھے
اسکو لطف نہ ملا
پھر کیا ہوا،
خیال کو کن سے خاک میں ملا دیا
وجود کو اضطراب میں مبتلا کیا
خیال کے ہزار ہا ٹکرے ہوتے گئے
میں اور تو بنتے گئے

یہ دنیا میری تیری کہانی ہے
خیال میں دنیا سجانی ہے
خیال میں رہنا ہے،
خیال میں جینا ہے،
خدا خیال ہے
ہاں خدا خیال کی طاقت کی پیچھے ہے
دل میں اسکی طاقت نے وجود پکڑا ہے
جیسے بیج نے وجود کو ظاہر کیا
پھول کی خوشبو پھیلنے لگی ہے
زندگی رنگ رنگ مہکنے لگی یے
رات کے آنگن میں سو کلیاں ہیں
دل میں بہتی سو ندیاں ہیں
ہر ندی کی صدا میں یہی سنا ہے

اللہ ..ہے، اللہ، ہے، اللہ ... ہے، اللہ ..ہے، اللہ
اللہ ہے ..اللہ ہے اللہ ہے اللہ ہے اللہ ہے

رقص میں روح ہے
جیسے لٹو کوئی روبرو ہے
چکر کم نہیں ہوتے ہیں
عکس پیکر میں ڈھلتے جاتے ہیں
سائے وجود میں ڈھلتے ہیں
نور ہی نور ہے
نور ولا میں نور علی ہے
نور علی میں چشم نم ہے
چشم نمی دل کی کہانی ہے
کہانی بنتی جارہی،

خُدا درد ہے،
نوح کا نوحہ ہے،
جب کشتی کنارے لگی تھی،
چشم تر سے خُدا کا نشان ملا،
خدا ضد میں موجود ہے،
جیسے نوح کا کنبہ ہوا تھا اندھا،
جیسے نمرود کے تیر بے نشان ہوئے،
جیسے فرعون کو تَری، خشکی لے ڈوبی ...
خدا، جھوٹی ضدوں کی ضد میں تھا،
تیرگی کا لبادہ جب الٹا کیا
خدا روشن ہوا تھا ....

اضداد سے کائنات کا چلتا سلسلہ
ابلیس کا تکبر، آدم کی توبہ
نمی ہستم سے کجا رفتم کا سفر
من دانم کا دعوی جس نے کیا، تباہ ہوا
خدا اس تباہی سے بڑی قوت ہے
حسن بن صباح کی جنت میں،
غلمان، حوروں میں گھرے میں،
انسان نما بندروں میں،
بظاہر روشن مگر سیاہی سیاہی میں،
قلعہ الموت میں خواب و خیال کی قوت میں
خدا موجود تھا
خدا موجود ہے
خدا ضد میں ظاہر تھا
خدا ضد میں ظاہر ہے
پہلے جو آدم میں مجلی ہوا
منتہائے نور محمد میں ہوئی
اُس ماہی آب میں
جس میں یونس نے گھر گئے،
خدا موجود تھا
خدا موجود ہے،

جہل کی جہالت جب بڑھ گئی تھی
جناب عمر کی جلالت میں نمود ہوا
فکر میں، افکار میں، اسرار میں ...
جناب بوذر کی گواہی میں
خدا موجود تھا
خدا موجود ہے

زہے نصیب! خدا سرناموں میں موجود ہے
زہے نصیب! خدا رہنماؤں کی روشنی میں یے
زہے نصیب! خدا محبتوں کا امین ہے
زہے نصیب! خدا راز کی سرزمین یے
خدا ضد کی سرزمین میں شاعروِں کا یاس ہے

رنگین ہوتی داستانوں میں
آسمان کے سویروں میں
رات کی تیرگی میں
سرمدی دھوئیں میں
راکھ ہوتی خواہشوں میں
واحد خیال موجود ہوتا ہے
جب سیف الملوک نے شاہی کا کاسہ پھینکا تھا
بدیع الجمال کے حسن میں کون تھا؟
واحد خیال کائنات کا حسن ہے
واحد خیال حسن میں پنہاں ہے
واحد خیال حسن یوسف میں تھا
بازار حسن میں غلام بنا کے لائے گئے
شاہ مصر خریدار ہوئے
غلام سے شاہ مصر جب ہوئے
واحد خیال کی شاہی تھی
خدا موجود تھا
خدا موجود ہے

درود پڑھنے میں
درود بانٹنے سے
درود میں جھانکنے سے
درود کی خیالات میں
خدا موجود ہے
خدا کا ذکر درود ہے
فاذکرونی اذکرکم
اس ذکر میں رب شامل ہے
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت ہے
اللہ ھو، اللہ ھو، اللہ ھو، اللہ ھو
نبی کی سنت میں خدا،
خدا کی سنت میں نبی،
پورا کلمہ دو سنتوں میں موجود
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

خدا تلاش میں مضمر ہے،
خدا جستجو میں ہے،
جستجو ڈھلمل یقین کو معصم کرتی ہے
مٹی کو آہن کرتی ہے
میں نے اپنے محبوب کی تلاش میں
اسکی جستجو میں، سسکیوں میں،
دل میں بستے اجیاروں میں
آہن ہوتے یقین میں دیکھا ہے
محبوب جس کو میں کہتی ہوں
وہ پنجتن پاک کی خوشبو ہے
میری نہ بود میں انکی بود ہے
مری بے نشانی میں انکے نشان ہے
درود مسیحاؤں کے مسیحا پر
درود ذات علی پر
درود حسنین پر
درود خاتون جنت پر

قران صحیفہ ہے
مرشد کا سینہ قران ہے
قران پڑھنا اصل ایقان ہے
پہچان کا سلیقہ آتا جاتا ہے
دل جب دل میں فنا ہوتا جاتاہے

الم سے والناس کی داستان بتائی جاتی ہے
رازوں کے صیغے کھولے جاتے ہیں
عرش پر لوح و قلم کی کنجیاں
الم کی آیت

تو دل کہتا ہے
خدا ہادی کا سینہ ہے
نور کا پراسرار گنجینہ ہے
گاہ میں الم، گاہ میں طسم
گاہ میں حم، گاہ میں یسین
کھلتے جاتے ہیں اسرار ہے
الرحمان کی سمجھ آتی ہے
الرحیم سے شروعات ہوتی ہے
بسمل کی ابتدا بسم اللہ سے ہوتی ہے
خدا کی پہچان کا سفر شروع ہوتا ہے

ختم نہیں ہوتے جذبات
ختم کیسے ہوں الفاظ
لامتناہی سلسلوں میں
چلتی تلواروں کی ضربوں میں
قم باذن کی داستانوں میں،
رقم ہوتی داستانوں میں
خدا موجود ہے
شمس کی کھال کھینچی گئی تھی
یہ کس نے سوچا تھا
سورج زمین کو سجدہ کرے گا
قم باذن اللہ، سے قم باذن کا تھا سفر
سزا کے بعد عطا کی ادا
قربان ہوگئے لوگ ادائے شمس
ملتان کی گرمی میں موجود ہے
کون موجود ہے؟
آیتِ الہی

شمس رومی کا منتظر رہا
رومی درس شرع میں محو رہا
لفظ خالی تھے عشق سے،
خدا کے نشان کو کیا پاتے!
شمس نے رومی کو پایا
عشق کا ہنر سکھایا
لا الہ سے الا اللہ کا.سفر کرایا
اک پل میں کائنات کے ٹکرے ہوئے
نعرے میں ضرب حق تھی
عشق اک حقیقت ہے
پاک دلوں پر اترتا ہے
آسمانی صحیفہ جب اترا دل پر
مثنوی لکھی گئی تھی ...
شمس کو رومی نے لکھا تھا
خدا کا خیال ظاہر ہوا
خدا موجود ہے

خدا آتش عشق ہے
سوز ہجر ہے
شوق وصل ہے
دام موت ہے
خدا کے سو روپ ہیں
پانی آنکھ سے بہتا ہے
خدا دل میں اترتا ہے
خدائی چار سو ہے
دکھائی دے وہی ہر جا، ہر سو
کو بہ کو یہ رشنائی ہے
خدا حق کی گواہی ہے
خدا ظاہر جا بجا رہا ہے
خدا ہر جگہ موجود رہا ہے
خدا تھا
خدا ہے
خدا ہر جانب یے

خدا ماں کی لوری ہے
غنود کا درس دیتی ماں کی صدا میں کون ہے؟
خدا ہے
جب تک موت نہ ہوگی
زندہ نہ ہوں گے
فنا کی لذت وصال ملے
مجھے عشق میں کمال ملے
وہ روشنی لازوال ملے
چمکے جس سے سینہ
لکھوں روز و شبینہ
چڑھوں زینہ بہ زینہ
آئے بندگی کا قرینہ



بسم اللہ بسم اللہ بسم اللہ
اسم اللہ سے سفر کی ابتدا ہے
جبین جھکی ہے، ساکن سجدہ ہے
لہو صامت ہے، دل شاہد ہے
خدا دل بن کے دھڑک رہا ہے
بانسری کی صدا سنائی دیتی ہے
بانگ مرغ میں سحر دکھائی دیتی ہے
نہیں بنائی کائنات میں کوئی شے
مگر جوڑے جوڑے
جھوٹ کا سچ سے
زمین کا فلک سے
پربت کا سمندر سے
شاہد کا شہید سے
شہد کا کڑواہٹ سے
بینا کا نابینا سے
عاشق کا معشوق سے
مدار میں رواں ہرشے کے دائرے ہیں
نہیں لیل نہار سے آگے
نہیں نہار لیل سے آگے
شمس و قمر کی گواہی
دینے طلعت آئی ہے
درد ہے، درد میں خدا ہے

تن میں سرد لہریں ہیں
فاراں سے چشمے پھوٹے ہیں
اسم حرا سے لکھے ناطے ہیں
لطف درد کے واسطے ،
دوا سے چھوڑے ناطے،
مرگ زیست کے مرحلے ہیں
درد کے نئے ساز نے کوئ دوا دی
یکجائی اچھی ہے،
دوئی جھوٹی ہے

دل کو رکھا گیا زمین و فلک کے مابین
سینہ ہے، پتھر نہ تھا
بہنے لگا اک چشمہ
جھوٹ کو زوال ہے
حق لازوال ہے

شوق جلا رہا ہے
جیسے شمع گھلتی ہے،
جیسے پروانہ آگ میں جل جاتا ہے،
جیسے پتیاں بکھر جاتی ہیں،
خوشبو پھیل جاتی ہے،
جیسے باد کے جھونکے چھوتے ہیں تو اچھے لگتے ہیں،
بکھرنے، جڑنے کے نشان لیے ہوئے
آنکھ وضو میں ہے، کس کا گداز ہے؟
یہ کیسا مقام ہے؟
یہ کیسا حال ہے؟
دل میں کیسا بھونچال ہے؟
رنگ بکھر رہے ہیں
ھو ھو ھو کی صدا ہے

خرد سے ایسے مقام کہاں آتے ہیں
لا میں فنا کو دوام کہاں آتے ہیں
جو نفی میں گم رہیں
ان پر اثبات کے مقام کہاں آتے ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
قم باذن کی صدا کائنات نے سنی
اک وجود نے خود کو زندہ ہوتے دیکھا ...
اے مردہ دلوں کی مسیحا، سلام ...
جب سلمان فارس سے تلاش کو نکلے تھے،
اس تڑپ کی تپش میں جلوے تھے
انا اعطینک الکوثر
رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نہ صرف بیٹی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا بلکہ بیٹی کو رحمت کہا۔ یہ بیٹی رسول اللہ صل اللّہ علیہ والہ وسلم کو اس وقت عطا کی گئی جب دشمن آنحضرت کو بے اولاد قرار دیتے تھے۔ خداوند کریم نے سیدہ کی ذات پر سورۃ الکوثر عطا کی یہ قرآن کریم کی 108 ویں اور مکی سورتوں میں تیسویں نمبر پر ہے اور اس میں حکم فرمایا۔ ہم نے آپکو کوثر عطا کی، پس اپنے رب کی عبادت کریں اور قربانی دیں، بیشک آپکا دشمن ہی نسل بریدہ ہوگا۔
 
Top