نور وجدان
لائبریرین
ابھی ٹھہر کہ جلوے کے انداز باقی ہیں
میں خاموش ہوں ، طلب بڑھتی جائے ہے ، ہواؤں کی سنگت دھوپ میں ہستی جلتی جائے ، اتنی آہ و زاری کی ہے ، اتنی کہ زمین بھی حیرت سے گرنے والے قطروں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ فلک سے گر رہے ہیں یا دل سے ، جی ! دل کیوں ہوں نالاں ، عاجز ، پاگل ، دیوانہ ، روتا ہے اتنا کہ صبر نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ جلوہ ِ ہست ------ نمود کب ہوگی ، جلوہ جمال سے صورت کامل کب ہوگی ، جلوہ پرستی کی انتہا ہے ، جلوہ سے بڑھ کے کیا ہوگا ! دید سے بڑھ کے کیا ہوگا ! یہی ہوگا کہ قریب اتنا کرلے کہ نہ رہے کہ کوئی فاصلہ ، نہ رہے کوئی سلسلہ ، بس تو رہے !
عشق میں بندگی نے خاموشی اختیار کی مگر تیری اجازت نے لہروں کو شور دیا ہے ! مجھے پلا پلا کے مدہوش کیا! اے بادشاہ اے ذو الجلال! الجمیل ، اے عالی حشمت ، اے صاحب الرحیم ، اے میرے پیا ! میرے دل کے دربار پہ ایک دیے نے سو نئے دیے جلا لیے ، دل چاند کی مانند روشن ہے اور رات ناچ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
''وہ جو تشریف لائے ہیں شہباز کو پرواز ملے
پارہ آئنے سے نکلے تو کام بنے ، بات بنے ''
روشنی ہماری ہے ، جلال ہمارا ہے ،کمال کیا ہے
عشق پروانہ ، موم کے اڑے رنگ ، اک میں ہی بچا
قربتیں ---فرقتیں --وقت کی قید سے عشق نکلا
''نور کو شہِ ابرار کے در سے نوری نگینہ ملا
یہ سرمئی ، نیلا ، شفاف سا نگینہ کیا تھا
یہ صاحب ِ جمال کے دل کے آئنہ کے آئنہ
جس پہ لکھا: کالا رنگ اترنے میں کتنی دیر باقی
دل کے ساتھ نگینہِ سرمئی، شفاف لگایا جب
نور کی شعاعوں میں خود کو گھرا پایا تب
سب پردے ازل کے اٹھنے لگے ہیں
کالے حجاب کا کلمہ لا ہے ، لا لا لا لا لا لا
دل پر مکین نے دیا ہے اسم اعظم الا اللہ
شاہِ حجاز، شاہِ نجف ، شاہِ ہند سب کھڑے ہیں
دل جھکا ،مقام ادب ہے ، روح میں نوری شعلے ہیں
ادب نے کہا دل سے: سرخی کہاں سے آئی ہے
فلک سے اتری یا زمین نے گلابوں کی چادر تانی
کمال کی شرافت سے حسن کی بات مانی
دِل نے قلب کے گردش کی پھر ٹھانی
سبحانی ھو ! سبحانی ھو ! سبحانی ھو ! سبحانی ھو!
نم ڈالتے ہیں ہم ، وصل کرتے ہیں ہم
نور دیتے ہیں ہم ، جلوہ کرتے ہیں ہم
''آئنے کو آئنے میں سجانے والے النور
آئنے کو قلب سے نکالنے والے النور
آئنے کو چمکانے ، ضو دینے والے النور
دل طور تھا ، کعبہ بنانے والے النور
قلندر کو دنیا میں بٹھانے والے النور
مطلب دنیا سے نَے خاکی جسد سے
یہ مٹی کیا ہے ، اسکو ہٹانے والے النور
لا الہ الا اللہ ھو الرحمن الرحیم
زمانے کو خاکی لباس دینے والے النور
کب ہوگا جلوہ تیرا ، سرمہِ ہستی ہے
سوال کرنے والی نبی ﷺ کی امتی ہے
فانوس جس پہ الباری کا نام لکھا ہے
وہ روشنی جس پر النور کا چشمہ ہے
قلب معطر ہے اس پر محمدﷺ لکھا ہے
قلب کے قلب پہ علی ؑ کا نام ہے
نامِ علی سے پرے بی بی فاطمہ کا نام
جن کے در سے ملنے ہیں بڑے کام
سیارہِ حسینی اس ہالے کے گرد گردش میں
یا حسین ! یا حسین ! یا حسین ! یاحسین!
حسینی چراغ ہوں ! ان کے در کی ادنی غلام
جامِ لبالب ہیں ، پیمانہ منتظر ہے
دِل نے قلب کے گرد کی گردش
شعرِ رجزیہ ان کی خدمت میں کہے
ابھی کہ ٹھہر کہ وقت اس محفل کا نہیں
ابھی کہ ٹھہر وقت ابھی حمد کا بھی نہیں
ابھی کہ ٹھہر ، خلعت سے نوازا جانا ہے
ابھی کہ ٹھہر بیعت کا حلف اٹھانا ہے
ابھی کہ ٹھہر تیرا ذکر اٹھایا جانا ہے
ابھی کہ ٹھہر تیری فکر سے پردہ اٹھے
ابھی کہ ٹھہر حجاب ازل کے سب اٹھیں
ابھی کہ ٹھہر کچھ نقاب ڈالنا سیکھ لے
ابھی کہ ٹھہر زبان پر تالے ڈالنا سیکھ
ابھی کہ ٹھہر طوفِ والہانہ سیکھ
ابھی کہ ٹھہر سرخ چولا پہننا سیکھ
ابھی کہ ٹھہر جوش ، ہوش کا یارانہ سیکھ
ابھی کہ ٹھہر ، تیرے ذمے بڑے ہیں کام
ابھی کہ ٹھہر ، ذکر میں گزرے صبح و شام
ابھی کہ ٹھہر ، حسینی نگینہ پہننا سیکھ
سر جھکا اٹھا تھا اک پل کو مگر پھر جھک گیا ، ان کے در سے یاقوت کو اپنی دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت میں پہنا ہوا پایا ، احساس نے سارا خاکی لباس سرخ کردیا ، دِل نے جلال کی کملی میں پناہ لی جس پہ لکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
لا الہ الا اللہ ------- یہ ہے حسینی تلوار
دل نے کی گردش ذرا زور سے ، ارض و سماء سہم گئے ،
اے غارِ حرا کے مالک سلام
اے مالک میرے اے آقا میرے
اے میرے محمدؐ ، آپ ہر ہزاوروں سلام
خواب نوری کی جانب سے بشارت ہیں ، جب خوشخبریاں ملیں تب شکر واجب ہوجاتا ہے ۔ شکر کو ذکر سے درود سے بھرپور رکھنا ہوتا ہے ، ذکر کی محافل سجانی ہوتی تب جاکے بات بنتی ہے ، اگر جلوہِ محمدی ﷺ کی تڑپ دِل میں ہو تو سیرت بھی محمدؐ کی سی ہونی چاہیے، جسکو بشارت اک دفعہ مل جائے ، اسکا کام بن جاتا ہے ، جسکو بار بار ہوجائے اسکا نام بن جاتا ہے ، جسکی طلب نہ مٹے ، اسکو دوام مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری تدوین: