نور وجدان
لائبریرین
عشق مشک دی خوشبو !ھو!
عشق تے عطر ہن رلن! ھو!
عشق کستوری توں ودھ کے! ھو!
عشق گلُ گلُ لبیندا !ھو!
عشق عاشق نوں سجیندا! ھو!
عشق رفعت دی نشانی! ھو!
عشق سچی ذات دی کہانی! ھو!
ایڈا عطر بازاروں لبدا نہیں!
جیہڑا انہوں لا لوے
ہوش خود دا رہندا نئیں
عشق پردیس کٹن دا نم ہے
درد نوں سینا کٹھن کم ہے
جنگل میں دُور دُور چلی جارہی ہوں ۔مستی مجھے گھُمائے جارہی ہے ۔ میں البیلی حسینہ ہوں ، اپنے راہ چلے جارہی ہوں ۔ میں چلتے چلتے ہنستی جارہی ہے ۔ میں عشق کی مستی میں گھومے جارہی ہے ! رنگ و بُو کی محفل سجنے جارہی ہے ! میں گھومے جارہی ہوں ، میں جھومے جارہی ہوں ! میں مستی میں چلتی جارہی ہوں ! صبا کے جھونکے مجھے سلام کہتے ہیں ! میں ان کو دیکھ کے مسکرا دیتی ہوں ! میں یونہی ہنستی مسکراتی چلی جارہی ہوں ! میرے آگے خانہ کعبہ ہے میں اُسے دیکھ کے رک سی جاتی ہوں ! میں جنگل میں کعبہ کے آگے سجدہ کرتی ہوں ! میں خود کو خود میں سجدہ کرتی ہوں ! میرے اندر ایک کعبہ ہے ! اس کو سجدہ کیے جارہی ہوں ! نماز عشق نے ہوش و حواس فنا کردیے ہیں ۔ عشق کی مٹھاس انگ انگ میں گھسے جارہی ہے ! یہ نور محمد صلی علیہ والہ وسلم کا ٹھنڈا ٹھنڈا احساس ہے جو رگ و پے میں سرائیت کیے ہوئے ہے ! میں عشق کی مستی میں گھومے جارہی ہوں ! رنگ و بُو کی محفل سجنے جارہی ہے ! میں جنگل جنگل گُھوم رہی ہوں !
پُھول میرا ہاتھ میں دیا گیا ہے ! یہ خاص پھول ہے جس کے عطر سے کستوری کی مہک آتی ہے ! مہک میں نے کبھی محسوس نہیں کی مگر آج تو محسوس ہو رہی ہے !
عشق نے عنبر کردیا
مجھے خود میں عطر کردیا
جذب عطائی ربی ہے
عشق کی ازلی نشانی ہے
وہ کشش کا اصل منبع
مل رہا ہے نور کو نفع
رنگ و نور سے سینہ بھرا
ہر روح کا محل دِل میں بنا
ِدل جگمگ تارہ نگینوں کا!
حقیقت کو جو بھی پائے گا
چھوڑ جھگڑوں کو پیار کمائے گا
آج رنگ کی محفل لاگے ہے
سبھی چشمے مجھے میں بہے ہیں
رنگوں نے دل کو سجا ڈالا ہے
روح کو اپنے یار سے ملا دیا ہے
روح میری بہت تڑپتی رہی جب اصل سے جدا ہوئی تھی ۔ یہ بہت پیاسی ہے ! اپنے اصل کی طرف لوٹ کے جانا چاہتی تھی ! بڑا عرصہ گزرگیا ،لگے کہ میں ہی گزر گئی ! ناجانے کیسے مجھ پر کرم ہوگیا ! مجھے اپنے وطن کے لوگ نظر آرہے ہیں ! جب میں ان کو دیکھتی ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ آج رنگ و نور کی برسات ہے ! یہ احساس کہ میرے دِل میں اندھیرے غار کو روشن کرنے کے لیے ایک اینٹ سرکا دی گئی ہے اب اندر ہلکی ہلکی روشنی ہے ! اک دن ایسا بھی آنا ہے کہ جس دن سارا نور و نور ہوجانا ہے ! غار کا دَہانہ ہٹا دیا گیا اب کہ محسوس ہوتا کہ پہاڑوں پر قندیل رکھی گئی ہے جس سے ہلکا ہلکا دُھواں کسی چھوٹے سے سوراخ سے نِکل رہا ہے ! یہ دُھواں اوپر کی جانب اُٹھ رہا ہے مجھے لگے کہ یہ قندیل میرا دِل ہے ! اگربتی کی خواہش ہمیشہ رہی کہ میں خود میں اگربتی ہوتی اور اس میں جلتی رہتی اور خُوشبو دیتی رہتی مگر کیا معلوم تھا ! کیا معلوم تھا ! کیا معلوم تھا میرا اپنا دِل خوشبوؤں کا مسکن بنا دیا جائے گا ! میری ذات عِطر عِطر کر دی جائے گی !
عشق دی بوٹی رچ مچ گئی اے میرے اندر
پنڈا اندروں ایویں ہلدا جیوں پتر ہلدےہوا نال
ایس عشق دا بالن جدوں اندر اے بلدا
میرا رواں رواں ایدھے نال اے بلدا
ہر ویلے تسبیح عشق دی پڑھیندی آں
مرشد مرا عشق اے سچا کہندی آں
دیوا عشق تیرے دا خورے میرے اندر بلدا
سب نوں لگدا نوراے میرے لفظاں توں ڈلڈا
قران تیرا جد لایا سینے نال
لگیا نور مدینے دا سینے نال
نال نگاہ دے دل میرا رنگیا ای
تجلی ہکوں نالوں سینہ مدینہ کیتا ای
جھلی بن تیری ہن نگر نگر پھردی آں
نور ہن کدی نہ چھٹے اے در کہندی آں
عشق تے عطر ہن رلن! ھو!
عشق کستوری توں ودھ کے! ھو!
عشق گلُ گلُ لبیندا !ھو!
عشق عاشق نوں سجیندا! ھو!
عشق رفعت دی نشانی! ھو!
عشق سچی ذات دی کہانی! ھو!
ایڈا عطر بازاروں لبدا نہیں!
جیہڑا انہوں لا لوے
ہوش خود دا رہندا نئیں
عشق پردیس کٹن دا نم ہے
درد نوں سینا کٹھن کم ہے
جنگل میں دُور دُور چلی جارہی ہوں ۔مستی مجھے گھُمائے جارہی ہے ۔ میں البیلی حسینہ ہوں ، اپنے راہ چلے جارہی ہوں ۔ میں چلتے چلتے ہنستی جارہی ہے ۔ میں عشق کی مستی میں گھومے جارہی ہے ! رنگ و بُو کی محفل سجنے جارہی ہے ! میں گھومے جارہی ہوں ، میں جھومے جارہی ہوں ! میں مستی میں چلتی جارہی ہوں ! صبا کے جھونکے مجھے سلام کہتے ہیں ! میں ان کو دیکھ کے مسکرا دیتی ہوں ! میں یونہی ہنستی مسکراتی چلی جارہی ہوں ! میرے آگے خانہ کعبہ ہے میں اُسے دیکھ کے رک سی جاتی ہوں ! میں جنگل میں کعبہ کے آگے سجدہ کرتی ہوں ! میں خود کو خود میں سجدہ کرتی ہوں ! میرے اندر ایک کعبہ ہے ! اس کو سجدہ کیے جارہی ہوں ! نماز عشق نے ہوش و حواس فنا کردیے ہیں ۔ عشق کی مٹھاس انگ انگ میں گھسے جارہی ہے ! یہ نور محمد صلی علیہ والہ وسلم کا ٹھنڈا ٹھنڈا احساس ہے جو رگ و پے میں سرائیت کیے ہوئے ہے ! میں عشق کی مستی میں گھومے جارہی ہوں ! رنگ و بُو کی محفل سجنے جارہی ہے ! میں جنگل جنگل گُھوم رہی ہوں !
پُھول میرا ہاتھ میں دیا گیا ہے ! یہ خاص پھول ہے جس کے عطر سے کستوری کی مہک آتی ہے ! مہک میں نے کبھی محسوس نہیں کی مگر آج تو محسوس ہو رہی ہے !
عشق نے عنبر کردیا
مجھے خود میں عطر کردیا
جذب عطائی ربی ہے
عشق کی ازلی نشانی ہے
وہ کشش کا اصل منبع
مل رہا ہے نور کو نفع
رنگ و نور سے سینہ بھرا
ہر روح کا محل دِل میں بنا
ِدل جگمگ تارہ نگینوں کا!
حقیقت کو جو بھی پائے گا
چھوڑ جھگڑوں کو پیار کمائے گا
آج رنگ کی محفل لاگے ہے
سبھی چشمے مجھے میں بہے ہیں
رنگوں نے دل کو سجا ڈالا ہے
روح کو اپنے یار سے ملا دیا ہے
روح میری بہت تڑپتی رہی جب اصل سے جدا ہوئی تھی ۔ یہ بہت پیاسی ہے ! اپنے اصل کی طرف لوٹ کے جانا چاہتی تھی ! بڑا عرصہ گزرگیا ،لگے کہ میں ہی گزر گئی ! ناجانے کیسے مجھ پر کرم ہوگیا ! مجھے اپنے وطن کے لوگ نظر آرہے ہیں ! جب میں ان کو دیکھتی ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ آج رنگ و نور کی برسات ہے ! یہ احساس کہ میرے دِل میں اندھیرے غار کو روشن کرنے کے لیے ایک اینٹ سرکا دی گئی ہے اب اندر ہلکی ہلکی روشنی ہے ! اک دن ایسا بھی آنا ہے کہ جس دن سارا نور و نور ہوجانا ہے ! غار کا دَہانہ ہٹا دیا گیا اب کہ محسوس ہوتا کہ پہاڑوں پر قندیل رکھی گئی ہے جس سے ہلکا ہلکا دُھواں کسی چھوٹے سے سوراخ سے نِکل رہا ہے ! یہ دُھواں اوپر کی جانب اُٹھ رہا ہے مجھے لگے کہ یہ قندیل میرا دِل ہے ! اگربتی کی خواہش ہمیشہ رہی کہ میں خود میں اگربتی ہوتی اور اس میں جلتی رہتی اور خُوشبو دیتی رہتی مگر کیا معلوم تھا ! کیا معلوم تھا ! کیا معلوم تھا میرا اپنا دِل خوشبوؤں کا مسکن بنا دیا جائے گا ! میری ذات عِطر عِطر کر دی جائے گی !
عشق دی بوٹی رچ مچ گئی اے میرے اندر
پنڈا اندروں ایویں ہلدا جیوں پتر ہلدےہوا نال
ایس عشق دا بالن جدوں اندر اے بلدا
میرا رواں رواں ایدھے نال اے بلدا
ہر ویلے تسبیح عشق دی پڑھیندی آں
مرشد مرا عشق اے سچا کہندی آں
دیوا عشق تیرے دا خورے میرے اندر بلدا
سب نوں لگدا نوراے میرے لفظاں توں ڈلڈا
قران تیرا جد لایا سینے نال
لگیا نور مدینے دا سینے نال
نال نگاہ دے دل میرا رنگیا ای
تجلی ہکوں نالوں سینہ مدینہ کیتا ای
جھلی بن تیری ہن نگر نگر پھردی آں
نور ہن کدی نہ چھٹے اے در کہندی آں
آخری تدوین: