سُنی عسکریت پسندوں کا بس اور ہسپتال پر حملے کا دعوی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ساجد

محفلین
0,,16885136_303,00.jpg
سنی شدت پسند گروپ لشکرِ جھنگوی نے آج اتوار کے روز دعوی کیا ہے کہ گزشتہ کل کوئٹہ میں ہونے والے خود کش بس حملے کے لئے اس نے خاتون خود کش بمبار کو بھیجا تھا ، یہ حملہ جو شیعی مضافاتی علاقے میں واقع یونیورسٹی کی بس میں ہوا اس میں یونیورسٹی کی 14 طالبات جاں بحق ہو گئی تھیں۔​
اس حملے کے 90 منٹ بعد اس ہسپتال پر حملہ کیا گیا جہاں ان طالبات کو منتقل کیا جا رہا تھا بعد ازاں سیکورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان ہونے والی خون ریز لڑائی میں مزید 11 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
لشکرِ جھنگوی کے ترجمان ابو بکر صدیق نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ
" طالبات کی بس میں ہماری ایک بہن نے خود کش حملہ کیا وہ دیگر طالبات کے ساتھ بس میں سوار ہو گئی اور خود کو بم سے اڑا دیا۔ اس کے بعد ہم نے ہسپتال پر دوسرا خود کش حملہ کر دیا جس میں ہمارے حملہ اوروں نے متعدد لوگوں کو مار دیا۔ ہم نے یہ سب اس لئے کیا کہ خروٹ آباد آپریشن میں سیکورٹی فورسز نے ہمارے جنگجوؤں اور ان کی بیویوں کو قتل کیا تھا
مزید تفصیلات یہاں موجود ہیں۔
-----------------------
http://www.nytimes.com/2013/06/16/w...baluchistan-province-shake-pakistan.html?_r=0
http://www.presstv.ir/detail/2013/06/16/309281/lashkarejhangvi-tied-to-pakistan-blast/
http://online.wsj.com/article/SB10001424127887324520904578549304009105788.html
http://www.france24.com/en/20130616-sunni-militants-claim-twin-pakistan-attacks
http://www.hindustantimes.com/world...ehind-Quetta-bus-attack/Article1-1077313.aspx
http://www.bbc.co.uk/news/world-asia-22925058
 

ساجد

محفلین
انتخابات کے دوران اردو محفل پر مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت و مخالفت کے حوالے سے خاصی گرمی رہی ۔ لیکن یہ کسی نے نہیں دیکھا کہ ن لیگ ، پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام ان مذہبی شدت پسندوں کے بارے میں ہمدردی کا یکساں رویہ رکھتے ہیں اور ن لیگ نے تو ان کے بڑے سپورٹر کو پنجاب کا وزیر قانون بنا رکھا تھا ادھر عمران ان کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر دلائل پیش کر رہا تھا مولانا فضل الرحمن کے مؤقف کو ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نسل در نسل مسلم لیگی ہونے کے باوجود اس بار میں نے ن لیگ سے کنارہ کر کے تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن جب عمران بھی انہی شدت پسندوں کے لئے نرمی دکھانے لگا تو اسے بھی خدا حافظ کہہ دیا۔ یوں کوئی بھی پارٹی مجھے ایسی نظر نہیں آتی تھی جو پاکستان کو بھنور سے نکالنے کے لئے متوازن پالیسی کی حامل ہوتی اس لئے میں نے کسی کو ووٹ نہ دیا۔ اب جنہوں نے ان کو ووٹ دیا ہے وہ بالغ نظری کا ثبوت دیں ،ان کا گریبان پکڑیں اور انہیں مجبور کریں کہ اس شدت پسندی کی حمایت سے خود کو الگ کر لیں ورنہ ملک کو مزید نقصان پہنچے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ کسی مسلمان، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے، اس کا کام ہی نہیں۔ کُجا کہ وہ اپنے آپ کو سُنی مسلمان کہلواتا ہو۔

اللہ کی لعنت ہو ایسے لوگوں پر۔
 

عسکری

معطل
یہ کسی مسلمان، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے، اس کا کام ہی نہیں۔ کُجا کہ وہ اپنے آپ کو سُنی مسلمان کہلواتا ہو۔

اللہ کی لعنت ہو ایسے لوگوں پر۔
نہیں یہ فلپین سے عیسائیوں نے کرایا ہے :grin: یا پھر میرا شک روس پر ہے وہاں بہت ملحد رہتے ہیں انہوں نے خود کش ملحد بھیجا ہو گا :rolleyes:
 

ساجد

محفلین
نہیں یہ فلپین سے عیسائیوں نے کرایا ہے :grin: یا پھر میرا شک روس پر ہے وہاں بہت ملحد رہتے ہیں انہوں نے خود کش ملحد بھیجا ہو گا :rolleyes:
آج صبح پاکستان کے بعض ٹیلیویژن اسٹیشنز پر یہ پٹی چل رہی تھی کہ بس میں خود کش حملہ کرنے والی ایک عورت تھی اور اس کا نام عائشہ صدیقہ تھا۔ پھر اچانک ہی پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ نمودار ہوئے اور باقاعدہ زور دے کر یہ بات فرمانے لگے کہ ابھی اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حملہ خود کش تھا یا ریموٹ کنٹرولڈ۔ اس کے بعد اس پٹی کو بند کروا دیا گیا ۔ اب ان واقعات کو 36 گھنٹے گزر چکے ہیں لیکن وفاقی حکومت پر ایک پراسرار خاموشی طاری ہے۔ خبری حلقوں کو اس بارے لاعلم رکھا جا رہا ہے ۔
کوئٹہ اور زیارت میں ہونے والے واقعات اب تک ہونے والے کارروائیوں میں سب سے زیادہ سنگین ہیں خود وفاقی وزیر داخلہ کل اعتراف کر چکے ہیں کہ یہ حملے کرنے والے باہر سے نہیں آئے تھے اندر کے ہی لوگ ہیں۔ بہت قوی شکوک اور سوالات سیکیورٹی ایجنسیز اور ان میں موجود مذہبی شدت پسندوں اور علیحدگی پندوں کے ہمدردوں کے بارے میں بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ حامد میر نے بھی کل زور دے کر یہ بات کہی تھی کہ ہمارے سوالات سے بعض لوگ ناراض ہوتے ہیں لیکن اب ان کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیاں نا کام کیوں ہوئیں؟۔ رات کے ٹاک شوز میں بھی اکثر تجزیہ نگار اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ جس دن ڈاکٹر عبدالمالک حلف اٹھاتے ہیں اسی دن بلوچستان کے مختلف حصوں سے مسخ شدہ لاشیں ملنا کیا پیغام دیتا ہے اور ڈاکٹر عبدالمالک لوگوں کے غیاب اور پراسرار قتل پر جس مؤقف کے حامی ہیں اس کا موجودہ حملوں سے کیا تعلق ہے؟ وہ کونسی طاقتیں ہیں جو بلوچوں کے حقوق کی بات کرنے والے ڈاکٹر عبدالمالک کو ناکام ثابت کرنا چاہتی ہیں ؟ بین الاقوامی تناظر میں کن قوتوں کو ایسے حالات پیدا کرنے سے تقویت ملی ہے اور ان طاقتوں کے لئے کام کرنے والوں کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں۔
 

میر انیس

لائبریرین
یہ کسی مسلمان، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے، اس کا کام ہی نہیں۔ کُجا کہ وہ اپنے آپ کو سُنی مسلمان کہلواتا ہو۔

اللہ کی لعنت ہو ایسے لوگوں پر۔

شمشاد تمہاری بات سو فیصد درست ہے پر ہم کئی سالوں سے صرف یہی جملہ بول کر اپنی جان چھڑالیتے ہیں کہ یہ سب کرنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا۔ کسی میں اتنی ہمت کیوں نہیں ہوتی کہ وہ برملا کہے کہ یہ لشکر جھنگوی والے اور یہ سپاہ صحابہ اور طالبان مسلمان نہیں ہیں۔ کیوں سارے سنی مسلمان ان سے تعلقات نہیں توڑ لیتے جو کھلم کھلا دہشت گردی کے بعد بڑی دلیری سے اسکی ذمہ داری بھی قبول کر لیتے ہیں اگر سب مسلمان یک زبان ہوکر کہیں کہ یہ ایک مخصوص گروہ جو فرقہ واریت کے نام پر کبھی شیعوں کا اور کبھی بریلویوں کا قتل عام کر رہا ہے اسکا نہ تو اسلام سے تعلق ہے نا ہی یہ پاکستان کے محب وطن شہری ہیں۔ یہ بات میں جانتا ہوں بلکہ میرے کئی دوستوں کو بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ سب امریکہ اور پاکستان کی حکومت کا کیا دھرا ہے بعض اسکو وانا اور وزیرستان پر ڈرون حملوں کا ردَ عمل کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ سب طالبان یا کوئی لشکر یا سپاہ نہیں کر وارہی بلکہ اس میں بھی امریکہ کے بلیک واٹر تنظیم کے لوگوں کا ہاتھ ہے ۔ اور یہ جو لوگ ذمہ داری قبول کرتے ہین یہ دراصل ان تنظیموں کے لوگ ہی نہیں ہوتے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر ان تنظیموں کے اصل رہبر سامنے آکر یا وڈیو پیغام کے ذریعے تردید کیوں نہیں کرتے۔ لشکر جھنگوی یا طالبان کوئی خیالی تنظیمیں نہیں ہیں انکا وجود ہے ۔ دوسرے ایسے لوگوں کے جلسے اور جلوس سب لوگ آئے دن دیکھتے رہتے ہیں جن میں شیعہ مسلمانوں کو اتنا زیادہ قتل کرنے کے باوجود خون کے پیاسے رہتے ہوئے شیعہ کافر کے نعرے لگائے جاتے ہیں تو عام مسلمانوں کو کیا یہ منافرت پھیلانے کا حق دینا چاہیئے ۔ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ابھی بھی معاملہ اپنے ہاتھوں میں ہے کوئی ایسی حکمت عملی اپنائی جائے جس سے یہ آپس کی کدورتیں دور ہوں اور سارے مسلمان ایک دوسرے کے قریب آئیں ۔ جب مرض بڑھنا شروع ہوتا ہے تو اسکی دوا کی جاتی ہے صرف عیادت کرنے سے کام نہیں چلتا ورنہ بات تعزیت تک پہنچ جاتی ہے۔
 

میر انیس

لائبریرین
انتخابات کے دوران اردو محفل پر مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت و مخالفت کے حوالے سے خاصی گرمی رہی ۔ لیکن یہ کسی نے نہیں دیکھا کہ ن لیگ ، پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام ان مذہبی شدت پسندوں کے بارے میں ہمدردی کا یکساں رویہ رکھتے ہیں اور ن لیگ نے تو ان کے بڑے سپورٹر کو پنجاب کا وزیر قانون بنا رکھا تھا ادھر عمران ان کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر دلائل پیش کر رہا تھا مولانا فضل الرحمن کے مؤقف کو ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نسل در نسل مسلم لیگی ہونے کے باوجود اس بار میں نے ن لیگ سے کنارہ کر کے تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن جب عمران بھی انہی شدت پسندوں کے لئے نرمی دکھانے لگا تو اسے بھی خدا حافظ کہہ دیا۔ یوں کوئی بھی پارٹی مجھے ایسی نظر نہیں آتی تھی جو پاکستان کو بھنور سے نکالنے کے لئے متوازن پالیسی کی حامل ہوتی اس لئے میں نے کسی کو ووٹ نہ دیا۔ اب جنہوں نے ان کو ووٹ دیا ہے وہ بالغ نظری کا ثبوت دیں ،ان کا گریبان پکڑیں اور انہیں مجبور کریں کہ اس شدت پسندی کی حمایت سے خود کو الگ کر لیں ورنہ ملک کو مزید نقصان پہنچے گا۔

ساجد گو کہ کڑوا ہی صحیح پر یہ سچ ہے کہ پاکستان کی اکثریت ایسے لوگوں کو ہی پسند کرتی ہےجو طالبان کے حامی ہیں انکے دل میں چونکہ امریکہ کیلئے نفرت ہے اسلئے یہ برملا نہیں تو اندر سے یہی چاہتے ہیں کہ طالبان کی حکومت یہاں بھی آجائے جو ملک کو اسلامی خطوط پر چلائے اور امریکہ سے بیزاری ظاہر کرے پر قسم خدا کی یہ لوگ بہت ہی بھولے ہیں اب آگے کچھ کہوں گا تو بات میری روایات کے خلاف چلی جائے گی۔بس ایک چھوٹی سی بات کہ دیتا ہوں اگر لوگوں کو ناگوار نہ گزرے باوجود اسکے کہ کراچی میں رہنے والوں کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ ہم فرقہ واریت کے خلاف ہیں لیکن آپ کرایہ کیلئے مکان لینے نکلیں اور جب سب طے ہوجائے تو یہ کہ دیں کہ میں آپ کو یہ بتادوں کہ میں شیعہ ہوں تو یقین جانیں وہ آپ سے یہ کہ کر معذرت کرلے گا کہ ہم شیعوں کو مکان کرائے پر نہیں دیتے یعنی بات اب یہاں تک پہنچ گئی ہے ۔ کل کا ہی واقعہ سناؤں کہ میرے ایک آفس کے ساتھی جنکی سات سال سے پرموشن رکی ہوئی ہے مجھ کو سنا رہے تھے کہ میں نے اپنے باس سے کسطرح شکوہ کیا اس میں وہ جذبات میں مجھ کو یہ بھی سنا گئے کہ" آخر میں میں نے ان سے کہ دیا اگر اس دفعہ میری پرموشن نہیں ہوئی تو میں یہودی قادیانی یا پھر شیعہ ہوجاؤں گا جب اللہ میری سنتا ہی نہیں ہے تو پھر اسکو ماننے سے کیا فائدہ" جس پر میں نے کہا واہ بھائی واہ ہمارا کیا قصور تھا جو آپ ہم کو بھی کافر بنا گئے تو شرمندہ ہوکر زور زور سے ہنسنے لگے۔ جبکہ وہ ایک عام اہلِ حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والے انسان ہیں ۔ جب عام انسان کا یہ حال ہو تو پھر تنظیموں والے تو ایک دوسرے کا گلا کاٹیں گے ہی۔
 

نایاب

لائبریرین
ہم دہشت گردی کا سد باب کیوں نہیں کر پاتے؟…نجم سیٹھی

پاکستان کو دو طرح کے دہشت گردوں نے نقصان پہنچایا ہے ایک گروہ ”تحریک ِ طالبان پاکستان“ ہے جس کے درجنوں مختلف کمانڈر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سیکورٹی فورسز کے مقابلے پر مورچہ زن ہیں۔ دوسرا گروہ ”لشکر ِ جھنگوی“ ہے جو ملک میں اہل ِ تشیع کا خون بہا رہا ہے۔تحریک ِ طالبان پاکستان کے دہشت گرد 2008ء سے لے کر اب تک مختلف تخریبی کارروائیوں میں تیس ہزار شہریوں اور تین ہزار کے قریب سیکورٹی کے جوانوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ یہ تحریک پہلے سوات میں منظر ِعام پر آئی ۔ آج یہ تمام وزیرستان ایجنسی میں پھیل چکی ہے۔ لشکر ِ جھنگوی بنیادی طور پرپنجاب کے شہر جھنگ میں اپنی اساس رکھتا ہے لیکن گزشتہ برس سے، جب اس نے پانچ سو سے زیادہ اہل ِ تشیع کا خون بہایا، اس نے اپنی کارروائیوں کا سلسلہ کراچی سے لے کر کوئٹہ تک پھیلا دیا ہے۔
اگرچہ تحریک ِ طالبان اور لشکر ِ جھنگوی کا طریقہ ٴ کار ایک سا ہے… خودساختہ دھماکہ خیز مواد، خودکش حملے، گھات لگاکر فائرنگ … لیکن ان کے مقاصد مختلف ہیں۔ تحریک ِ طالبان پاکستان بنیادی طور پر پاکستان، اس کے شہریوں، اس کے آئینی، قانونی اور سیاسی نظام، اس کی حکومت اور ریاستی ایجنسیوں کے خلاف جنگ کر رہی ہے ۔ اس کی قوت کا زیادہ تر ارتکاز فاٹا اور خیبر پختونخوا میں ہے لیکن یہ ملک کے دیگرصوبوں میں بھی اپنی خطرناک موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ دوسری طرف لشکر ِ جھنگوی کا ہدف صرف اہل ِ تشیع ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس کی کارروائیاں زیادہ تر سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں دیکھنے میں آئی ہیں جبکہ پنجاب، جہاں اس کی بنیادیں ہیں اس نے صرف دس فیصد کارروائیاں کی ہیں۔ ترجیحات میں اس تفاوت کے باوجود تحریک ِ طالبان پاکستان اور لشکر ِ جھنگوی میں اشتراک ِ عمل پایا جاتا ہے اور وہ کارروائیوں کے لئے ایک دوسرے کو ”افرادی اور تکنیکی“ معاونت فراہم کرتے رہتے ہیں جبکہ اس دوران مشرق ِ وسطیٰ اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے آنے والے القاعدہ کے ”ماہرین“ کی فنی خدمات بھی ان کو حاصل رہتی ہیں۔ ان میں مسلکی ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے ۔ یہ دونوں گروہ نظریاتی طور پر انتہا پسند سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دونوں کی صفوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے جہادی عناصر موجود رہتے ہیں۔ ان دونوں کا ماضی یا حال میں فاٹا یا افغانستان میں سرگرم ِ عمل افغان طالبان سے تعلق رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں کی فعالیت میں پاکستان کے خفیہ اداروں کا کسی نہ کسی سطح پر ہاتھ ہے کیونکہ وہ ان کو کشمیر میں بھارت کو زک پہنچانے اور موجودہ دور میں افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف بر سرپیکار افغان طالبان کی معاونت کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔
اگر ہم اس انتہا پسندی سے نمٹنا چاہتے ہیں تو ان تنظیموں کے اسٹرٹیجک روابط پر غور کرنا ضروری ہے۔ لشکر ِ جھنگوی کے خلاف روایتی دکھاوے کی کارروائیوں کے بجائے سیاسی اتفاق ِ رائے، موثر پولیس فورس،انسداد ِ دہشت گردی کے لئے بنائے گئے موثر قوانین، سول اور ملٹری اداروں کے درمیان معلومات کے تبادلے کے ساتھ میدان میں اترنا ضروری ہے تاکہ شہریوں کی جان کو محفوظ بنایا جا سکے۔ تاہم فاٹا میں مورچہ بند طالبان سے نمٹنے کیلئے باقاعدہ فوجی کارروائی، جس کو سیاسی اور انتظامی معاونت حاصل ہو، کی ضرورت ہے۔ تاہم آج جبکہ پاکستان لہو رنگ ہے، ان دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنے کے لئے قومی سیاسی سطح پر کوئی اتفاق ِ رائے نہیں پایا جاتا۔ ان کے خلاف جاری فوجی کارروائی کسی واقعے کے رد ِ عمل میں نیم دلی سے کی جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سست آئینی اور انتظامی مشینری بھی مطلوبہ نتائج کے راستے میں رکاوٹ ہے۔
ہمارے ہاں سول ملٹری تعلقات میں موجود مسائل کا اظہار حالیہ دنوں پیش آنے والے دو واقعات سے ہوتاہے۔ فوج تحریک ِ طالبان پاکستان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا چاہتی ہے لیکن وہ عوام اور حکومت کی حمایت کے بغیر ان جنگجوؤں کے خلاف دستوں کو متحرک نہیں کرنا چاہتی لیکن حکومت اس ضمن میں فوج کے ساتھ کھڑی ہونے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ فوجی آپریشن کے لئے اسے عوام سے حمایت نہیں ملے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زیادہ تر لوگ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اپنانے کے حق میں ہیں کیونکہ ان کو غلط فہمی ہے کہ پاکستانی طالبان کی اندرون ملک کارروائیاں دراصل امریکی ڈرون حملوں کا ردِعمل ہیں۔ اس لئے جب 2014ء میں امریکی اس خطے سے چلے جائیں گے تو یہ تحریک بھی تحلیل ہو جائے گی۔ اس غلط سوچ کو پھیلانے میں عمران خان اور میڈیا کے ایک دھڑے کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اے این پی جو کہ ایک سیکولر پارٹی ہے اور اس نے ہمیشہ سے ہی ان اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی بات کی ہے، کوگزشتہ ہفتے پشاور میں ہونے والی ” کل جماعتی کانفرنس“ بلانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ تاہم اس کانفرنس کے شرکاء نے بھی متفقہ طور پر طالبان کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کرنے پر زور دیا۔ گویا سیاسی قیادت ابھی بھی ان کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں عام انتخابات ہوا چاہتے ہیں اور…کوئی سیاسی جماعت طالبان کو مشتعل کرکے اس کا ہدف بننے کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس سے زیادہ موقع پرستی کا مظاہرہ دیکھنا محال ہے۔
لشکر ِ جھنگوی کے خلاف درکارآپریشن کے حوالے سے بھی اسی طرح کا تذبذب پایا جاتا ہے۔ کسی صوبے کے پاس انتظامی سطح پر لشکر سے نمٹنے کے لئے مالی اور افرادی قوت، جو دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کیلئے تربیت یافتہ ہو، موجود نہیں ہے بلکہ ان کے روایتی پولیس کے نظام کے پاس موثر تفتیش کی سہولت بھی موجود نہیں ہے چنانچہ پنجاب پولیس اور یہاں کے سیاست دانوں نے لشکر کی کارروائیوں سے اغماض برتنے کا طریقہ اپنایا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور لشکر ِ جھنگوی کے حامیوں کے درمیان سیاسی مفاہمت بھی اس حد تک پائی جاتی ہے کہ وہ کم از کم چالیس حلقوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی انتخابی حمایت کریں گے اور یہ کہ اس کے سیاسی قائدین کو ہدف نہیں بنایا جائے گا۔
یہ صورتحال کراچی میں اور زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ اس عظیم شہر میں پولیس اور حکومت مکمل طور پر غیر فعال ہیں اور یہاں جرائم پیشہ گروہ، دہشت گرد تنظیمیں اور انتہا پسند معاملات کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہاں انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ بلوچستان میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء، پائپ لائن کی سیاست، مختلف اسلامی ممالک کی پراکسی جنگ ، فرقہ وارانہ کشیدگی اور علیحدگی پسندوں نے ریاست کی عملداری کے لئے سنگین چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ ان حالات میں بدترین بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج کو شک ہے کہ بلوچستان میں مقیم ہزارہ برادری کے لوگ طالبان مخالف ہیں اور ان کا جھکاؤ ایران کی طرف ہے۔
ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے حکومت کو محض اشک شوئی کی خاطر کچھ تبادلے وغیرہ کرنے پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ محض دکھاوے کی خاطر کچھ چھاپے بھی مارے گئے تاکہ عوام کو لگے کہ حکومت کچھ کررہی ہے۔ تاہم خاطر جمع رکھیں، کچھ نہیں ہورہا ہے اور اب شاید ان نیم دلی سے کئے گئے اقدامات کی ضرورت بھی نہیں ہے…بہت دیر ہو چکی ہے۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ پوری سیاسی قیادت ایک صف میں کھڑی ہوکر سیکورٹی اداروں کی حمایت کرے اور صوبائی سطح پر متحرک اور فعال فورس قائم کی جائے جو دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے تربیت یافتہ ہو۔ اگر روایتی طرز ِ عمل جاری رہا تو پاکستانیوں کا خون بہتا رہے گا۔

http://search.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=68609
 

ساجد

محفلین
ساجد گو کہ کڑوا ہی صحیح پر یہ سچ ہے کہ پاکستان کی اکثریت ایسے لوگوں کو ہی پسند کرتی ہےجو طالبان کے حامی ہیں انکے دل میں چونکہ امریکہ کیلئے نفرت ہے اسلئے یہ برملا نہیں تو اندر سے یہی چاہتے ہیں کہ طالبان کی حکومت یہاں بھی آجائے جو ملک کو اسلامی خطوط پر چلائے اور امریکہ سے بیزاری ظاہر کرے پر قسم خدا کی یہ لوگ بہت ہی بھولے ہیں اب آگے کچھ کہوں گا تو بات میری روایات کے خلاف چلی جائے گی۔بس ایک چھوٹی سی بات کہ دیتا ہوں اگر لوگوں کو ناگوار نہ گزرے باوجود اسکے کہ کراچی میں رہنے والوں کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ ہم فرقہ واریت کے خلاف ہیں لیکن آپ کرایہ کیلئے مکان لینے نکلیں اور جب سب طے ہوجائے تو یہ کہ دیں کہ میں آپ کو یہ بتادوں کہ میں شیعہ ہوں تو یقین جانیں وہ آپ سے یہ کہ کر معذرت کرلے گا کہ ہم شیعوں کو مکان کرائے پر نہیں دیتے یعنی بات اب یہاں تک پہنچ گئی ہے ۔ کل کا ہی واقعہ سناؤں کہ میرے ایک آفس کے ساتھی جنکی سات سال سے پرموشن رکی ہوئی ہے مجھ کو سنا رہے تھے کہ میں نے اپنے باس سے کسطرح شکوہ کیا اس میں وہ جذبات میں مجھ کو یہ بھی سنا گئے کہ" آخر میں میں نے ان سے کہ دیا اگر اس دفعہ میری پرموشن نہیں ہوئی تو میں یہودی قادیانی یا پھر شیعہ ہوجاؤں گا جب اللہ میری سنتا ہی نہیں ہے تو پھر اسکو ماننے سے کیا فائدہ" جس پر میں نے کہا واہ بھائی واہ ہمارا کیا قصور تھا جو آپ ہم کو بھی کافر بنا گئے تو شرمندہ ہوکر زور زور سے ہنسنے لگے۔ جبکہ وہ ایک عام اہلِ حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والے انسان ہیں ۔ جب عام انسان کا یہ حال ہو تو پھر تنظیموں والے تو ایک دوسرے کا گلا کاٹیں گے ہی۔
آپ نے درست اور بر وقت بات کہی جناب۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمارا معاشرہ انتہائی برے طریقے سے مختلف طبقات میں تقسیم ہو چکا ہے ۔ یہ طبقاتی و گروہی تقسیم معاشی ، معاشرتی ، لسانی اور فقہی صورت میں ہر جگہ دکھائی دیتی ہے لیکن کیا کریں کہ ہماری اکثریت شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر درپیش خطرات سے خود کو مامون سمجھ رہی ہے۔ شاید ہم ان خطرات کا ادراک اس وقت کریں گے جب خدا نخواستہ ہم ان کے آگے بے بس ہو چکے ہوں گے اور اس پہ مستزاد سیاسی جماعتوں کا ناقابلِ فہم حد تک شدت پسند جماعتوں کے ساتھ بڑھتا ہوا پیار۔ یہ جماعتیں اب بالکل اسی انداز میں ان مسلحین سے مدد لے رہی ہیں جس طرح سے جرائم پیشہ گروہ پچھلے چند برسوں سے ان کو اپنے ساتھ ملا چکے ہیں یا اپنے افراد ان میں شامل کر چکے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔
جس بات کو آج صبح ہمارے وزیر داخلہ نے دبانے کی کوشش کی تھی وہ اب حکومت ہی کی جاری کردہ ابتدائی رپورٹ میں تسلیم کر لی گئی ہے کہ بس میں خود کش حملہ ایک عورت نے ہی کیا تھا اور اسی عورت کو لشکر جھنگوی کا ترجمان اپنی بہن بتا رہا ہے ، جس کا نام عائشہ صدیقہ بتایا جاتا ہے۔ میرا ننھیال جھنگ میں ہے اور بچپن سے اب تک میں جھنگ کو اور لشکر جھنگوی کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ تنظیم خود کو سنی مسلمانوں کی نمائندہ کہلواتی ہے لیکن حقیقت میں یہ شیعہ کے ساتھ ساتھ سنی عقیدے کے بریلیویوں کو بھی کافر گردانتی ہے۔ اب اگر تمام حقیقت سامنے ہونے کے باوجود ہم یہ کہیں کہ کوئٹہ کی قتل و غارت کسی مسلمان کا کام نہیں ہو سکتی یا کسی سنی کا عمل نہیں ہو سکتا تو پھر ہم حقائق سے نظر چرا رہے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ میں نے کوئٹہ واقعے کے بعد جذبات میں کسی گروپ پر انگلی اٹھائی ہے یاد فرمائیے کہ میں نے الیکشن کے دنوں میں بھی دو تین مرتبہ اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ اس الیکشن میں فرقہ پسند جماعتوں سے کچھ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لئے بہت پیار جتا رہی ہیں جو پاکستان کے لئے کوئی نیک شگون نہیں۔ پھر دو بڑی جماعتیں تو کھل کر ان کی حمایت میں اتر آئیں ۔ اب ان شدت پسندوں کو یہ حکومت دھمکیاں تو بہت دے رہی ہے لیکن عملی طور پر ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں بھی ہے۔ چوہدری نثار کے بیانات کا ذرا باریک بینی سے جائزہ لیجئے اور حکومتی اہلکاروں کی خاموشی سے اندازہ کیجئے کہ حکومت اپنے ابتدائی ایام میں ہی ان "مہربان دوستوں" کی حرکتوں سے کس مخمصے میں پھنس چکی ہے۔
 

صرف علی

محفلین
ھھم بھائی یہ لفظ سنی کا استعمال کرکے آپ اہل سنت کا دل دکھا رہے ہیں یہ لوگ کوئی سنی نہیں ہیں ان کو ان کے اپنے نام سے کیوں نہیں بولا جاتا یہ وہابی ہیں اگر ان کے اندر غیرت نام کی کوئی چیز ہوتی تو یہ لوگ اپنے آپ کو اہل سنت کے اندر نہیں چھوپاتے۔
 

arifkarim

معطل
یہی وجہ ہے کہ نسل در نسل مسلم لیگی ہونے کے باوجود اس بار میں نے ن لیگ سے کنارہ کر کے تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن جب عمران بھی انہی شدت پسندوں کے لئے نرمی دکھانے لگا تو اسے بھی خدا حافظ کہہ دیا۔۔
عمران خان ایک لبرل نے کب ان اسلامی جنگجوؤں اور دہشت گردوں کی حمایت کی ہے؟ کیا آپ ہر سیاسی جماعت کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں؟
 

یوسف-2

محفلین
جب سے پاکستان (قادیانی پرویز مشرف کی حکومت کے ماتحت انتطامیہ، فوج، و دیگر سیکیوریٹی ادارے) امریکہ کی نام نہاد وار اگینسٹ ٹیررزم (اور عملاً مسلمانوں کے خلاف جنگ، جسے بش سرکار نے کروسیڈ قرار دیا تھا) میں ”شامل“ ہوا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں (امریکی ، ناٹو) کے ساتھ مل کر مسلمانوں (افغانی اور پاکستانی شہریوں،) کے ”قتل عام“ میں شریک ہوا ہے، پاکستانی شہری (مسلمان) دونوں طرف سے مارے جارہے ہیں۔ ایک طرف سیکیوریٹی ایجنسیز بمباری کرکے، آپریشن کرکے پاکستانی مسلمانوں کو قتل کر رہی ہے، ڈروں حملوں کےذریعہ مسلمانو کا صفایا کیا جارہا ہے تو اس کے ”جواب“ میں امریکن سی آئی اے اپنے ہی تخلیق کردہ القاعدہ، طالبان (یا ان کی صفگوں میں داخل کردہ اپنے ریمنڈ ڈیوس جیسے سینکڑوں ایجنٹوں کے ذریعہ) کو اسلحہ، خود کش جیکٹ اور سرمایہ فراہم کرکے بے گناہ قتل ہونے والوں کے ورثاء کو ”بدلہ“ لینے کے لئے ”تیار“ کر رہی ہے۔ سی آئی اے یہ جنگ ”دو طرف“ سے لڑ رہی ہے۔ وہ سب سے بڑا احمق ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ جی ایچ کیو اور پاکستان کے سیکیوریٹی اداروں پر ”کامیاب ترین حملے“ طالبان ازخود کر رہی ہے یا کرنے کی ”صلاحیت“ رکھتی ہے۔ ہزارون بے گناہ مقتولین کے ان ورثاء کو سی آئی اے، بھارتی راء کی دامے درمے قدمے سخنے حمایت حاصل ہے۔ ناٹو نے کراچی سے لے کر چمن تک اپنے کئ سو ” گمشدہ کنٹینرز“ کے ذریعہ بھاری مقدار میں اسلحہ، بارود اور دیگر جنگی سازو سامان پاکستان کے ہر ”گروپ“ کو فراہم کیا ہے تاکہ یہ ہر ”ناپسندیدہ مواقع“ پر ان اسلحہ کا بھرپور استعمال کرسکیں۔ ایم کیو ایم، اے این پی، لیاری امن کمیٹی کو پاکستان کے معاشی حب کراچی کے ”قتل عام“ کے لئے ”سپورٹ“ فراہم کیا ہے۔ ایران میں بی ایل اے کے پیچھے سی آئی اے، راء کے ساتھ ساتھ ایرانی حکومت اور فوج بھی برابر کی شریک ہے۔ وہاں پاکستانی سیکیریٹی ادارون نے متعدد بار ایرانی مداخلت کار پکڑے جسے مشرف اور زرداری حکومتون نے خامشی سے ایران کے ھوالہ کردیا اور کوئی احتجاج تک نہیں کی۔ یہ سب کچھ پاکستانی میڈیا میں شائع شدہ ہے۔ منور حسن، عمران خان اور نواز شریف کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ جب تک پاکستان اس نام نہاد دہشت گردی (عملاً) مسلمانوں کے خلاف جنگ سے علیحدہ نہین ہوتا، پاکستانی حکومت اور فوج طالبان اور القاعدہ کو چن چن کر مارنے کی بجائے امریکی، بھارتی، ایرانی مداخلت کار ایجنٹوں کے خلاف کھل کر کاروائی کا آغاز نہین کرتی، پاکستان میں جاری خانہ جنگی کے خاتمہ کا کوئی امکان نہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
شمشاد تمہاری بات سو فیصد درست ہے پر ہم کئی سالوں سے صرف یہی جملہ بول کر اپنی جان چھڑالیتے ہیں کہ یہ سب کرنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا۔ کسی میں اتنی ہمت کیوں نہیں ہوتی کہ وہ برملا کہے کہ یہ لشکر جھنگوی والے اور یہ سپاہ صحابہ اور طالبان مسلمان نہیں ہیں۔ کیوں سارے سنی مسلمان ان سے تعلقات نہیں توڑ لیتے جو کھلم کھلا دہشت گردی کے بعد بڑی دلیری سے اسکی ذمہ داری بھی قبول کر لیتے ہیں اگر سب مسلمان یک زبان ہوکر کہیں کہ یہ ایک مخصوص گروہ جو فرقہ واریت کے نام پر کبھی شیعوں کا اور کبھی بریلویوں کا قتل عام کر رہا ہے اسکا نہ تو اسلام سے تعلق ہے نا ہی یہ پاکستان کے محب وطن شہری ہیں۔


بہت اچھی بات کی آپ نے انیس بھائی۔۔۔۔!

اگر حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو تمام مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو جمع کرے اور اُن سے واضح رائے لے۔

تمام ایسے مسلح گروپوں کے بارے میں جو پاکستانیوں کے قتل میں ملوث ہیں اور جو کسی بھی قومی سانحے کی ذمہ داری فخریہ قبول کرتے ہیں۔

تاکہ یہ گومگوں کی کیفیت ختم ہو اور ایسی دہشت گرد جماعتیں عوامی حمایت سے محروم ہو جائیں اور حکومت اُن کے خلاف یکسو ہو کر کاروائی کر سکے۔

اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو یقیناً حکومت اس مسئلے کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔
 

ساجد

محفلین
جب سے پاکستان (قادیانی پرویز مشرف کی حکومت کے ماتحت انتطامیہ، فوج، و دیگر سیکیوریٹی ادارے) امریکہ کی نام نہاد وار اگینسٹ ٹیررزم (اور عملاً مسلمانوں کے خلاف جنگ، جسے بش سرکار نے کروسیڈ قرار دیا تھا) میں ”شامل“ ہوا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں (امریکی ، ناٹو) کے ساتھ مل کر مسلمانوں (افغانی اور پاکستانی شہریوں،) کے ”قتل عام“ میں شریک ہوا ہے، پاکستانی شہری (مسلمان) دونوں طرف سے مارے جارہے ہیں۔ ایک طرف سیکیوریٹی ایجنسیز بمباری کرکے، آپریشن کرکے پاکستانی مسلمانوں کو قتل کر رہی ہے، ڈروں حملوں کےذریعہ مسلمانو کا صفایا کیا جارہا ہے تو اس کے ”جواب“ میں امریکن سی آئی اے اپنے ہی تخلیق کردہ القاعدہ، طالبان (یا ان کی صفگوں میں داخل کردہ اپنے ریمنڈ ڈیوس جیسے سینکڑوں ایجنٹوں کے ذریعہ) کو اسلحہ، خود کش جیکٹ اور سرمایہ فراہم کرکے بے گناہ قتل ہونے والوں کے ورثاء کو ”بدلہ“ لینے کے لئے ”تیار“ کر رہی ہے۔ سی آئی اے یہ جنگ ”دو طرف“ سے لڑ رہی ہے۔ وہ سب سے بڑا احمق ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ جی ایچ کیو اور پاکستان کے سیکیوریٹی اداروں پر ”کامیاب ترین حملے“ طالبان ازخود کر رہی ہے یا کرنے کی ”صلاحیت“ رکھتی ہے۔ ہزارون بے گناہ مقتولین کے ان ورثاء کو سی آئی اے، بھارتی راء کی دامے درمے قدمے سخنے حمایت حاصل ہے۔ ناٹو نے کراچی سے لے کر چمن تک اپنے کئ سو ” گمشدہ کنٹینرز“ کے ذریعہ بھاری مقدار میں اسلحہ، بارود اور دیگر جنگی سازو سامان پاکستان کے ہر ”گروپ“ کو فراہم کیا ہے تاکہ یہ ہر ”ناپسندیدہ مواقع“ پر ان اسلحہ کا بھرپور استعمال کرسکیں۔ ایم کیو ایم، اے این پی، لیاری امن کمیٹی کو پاکستان کے معاشی حب کراچی کے ”قتل عام“ کے لئے ”سپورٹ“ فراہم کیا ہے۔ ایران میں بی ایل اے کے پیچھے سی آئی اے، راء کے ساتھ ساتھ ایرانی حکومت اور فوج بھی برابر کی شریک ہے۔ وہاں پاکستانی سیکیریٹی ادارون نے متعدد بار ایرانی مداخلت کار پکڑے جسے مشرف اور زرداری حکومتون نے خامشی سے ایران کے ھوالہ کردیا اور کوئی احتجاج تک نہیں کی۔ یہ سب کچھ پاکستانی میڈیا میں شائع شدہ ہے۔ منور حسن، عمران خان اور نواز شریف کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ جب تک پاکستان اس نام نہاد دہشت گردی (عملاً) مسلمانوں کے خلاف جنگ سے علیحدہ نہین ہوتا، پاکستانی حکومت اور فوج طالبان اور القاعدہ کو چن چن کر مارنے کی بجائے امریکی، بھارتی، ایرانی مداخلت کار ایجنٹوں کے خلاف کھل کر کاروائی کا آغاز نہین کرتی، پاکستان میں جاری خانہ جنگی کے خاتمہ کا کوئی امکان نہیں۔
یوسف بھائی ، آپ کی رائے سے بڑی حد تک متفق ہوں کہ بیرونی ہاتھ اس خانہ جنگی میں ملوث ہے لیکن اس ہاتھ کو تقویت ہمارے ہی لوگ پہنچا رہے ہیں۔ ان لوگوں کا مؤقف یہ ہے کہ اپنے دشمن کے خلاف اس کے دشمن سے مدد لینا جائز ہے۔
ایران اور عرب تو برصغیر میں اپنی جنگ صدیوں سے لڑ رہے ہیں اس میں نئی معلوماتی بات کوئی نہیں ہے ، برصغیر کی مسکم حکومت کے زوال میں اس ایران عرب کشمکش کا ایک بڑا کردار رہا ہے اور یہی کشمکش آج بھی پاکستان میں جاری ہے۔
لیکن!!!!
یہاں جس نکتے پر بات ہو رہی ہے وہ اس بحث سے قطعی مختلف ہے۔ میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ تمام مکاتیبِ فکر کے لوگ میرے بہت اچھے دوست ہیں اور ان میں سے کچھ دینی مدارس کے طالبعلم بھی ہیں۔ آپ نے جو پرویز مشرف کے دور کی بات کی ہے تو عرض کرتا چلوں کہ 90 کی دہائی کے آغاز میں جب پرویز مشرف کا حکومت میں نام و نشان نہ تھا تب بھی میں نے ، انہی دوستوں کے توسط سے ، اپنی آنکھوں سے تمام مکاتیبِ فکر کے پاس جدید ترین اسلحے کے ذخائر دیکھے ہیں اور ان کو مدارس و مساجد میں رکھا جاتا تھا۔ اب ہم ان کی اس واردات کو جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں سے اس لئے جوڑ کر نہیں دیکھ سکتے کہ جرائم پیشہ تو اپنے کام کے لئے جانے جاتے ہیں اور جرائم کرتے ہیں لیکن دینی مدارس اور مساجد تو تعلیم و عبادت کے لئے بنائے جاتے ہیں وہاں اسلحہ جمع کرنے کا کیا مطلب ہے؟۔ ان مساجد و مدارس کے ذمہ داروں نے ہمارے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی بجائے ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوف ، ہینڈ گرنیڈ ، راکٹ لانچر اور دستی بم کس لئے دئیے؟ ظاہر ہے کہ مدارس کے اندر آ کر ان کے طلباء کو یہ اسلحہ امریکہ ، بھارت اور اسرائیل نے نہیں دیا تھا اور نہ ہی ان کے مدارس و اسلحہ خانے ان ممالک کی سر زمین میں تھے۔ انہیں کس سے جنگ لڑنا تھی؟ اور پھر ان کے ذہنوں میں دیگر مکاتیب فکر کے خلاف اس قدر زہر کیوں بھرا کہ وہ اپنے سوا ہر کسی کو کافر اور واجب القتل گردانتے ہیں؟۔ جب تک ہم یہ مان نہیں لیتے کہ خون ریزی کی فصل ہم نے خود کاشت کی ہے جو اپنی آبیاری کے لئے ہمارا خون پیتی ہے تب تک ہم جتنی چاہے لن ترانیوں سے کام لے لیں ، جس ملک پر چاہیں الزام لگا لیں یہ خون ریزی بڑھتی ہی جائے گی۔
اور آخری بات یہ کہ اگر شک کی زد میں آنے والے مذہبی عناصر خود کو اس الزام سے پاک ثابت کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان دشمن طالبان کے خلاف مؤقف کیوں نہیں اپناتے؟ بلکہ اس کے برعکس بے گناہ پاکستانی عوام کا خون بہانے پر ان کی حمایت کے لئے دور دراز کی دلیلیں پیش کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہوتا ہے جس طرح امریکہ اپنی بربریت کے لئے دنیا کے سامنے پھسڈی و بودے دلائل پیش کر رہا ہوتا ہے۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
اسلام نہ تو کسی کی عبادت گاہ کو نشانہ بنانے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی بچوں ، عورتوں، اور بوڑھوں حتی کہ غیر مسلم مذہبی راہنماؤں کے قتل کا روا دار ہے۔ یہاں تک کہ دشمنوں کے کھیتوں اور باغات کو جلانے سے بھی منع کرتا ہے۔ جو دین اپنے دشمنوں کے پودوں کا نقصان کرنا اچھا نہیں سمجھتا اس دین کے نام لینے والے کیسے اپنے کلمہ گو بھائیوں کو قتل کر سکتے ہیں۔ کوئی مانے نہ مانے! یہ نشانات قتل کسی اور کمین گاہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
  1. 90 کی دہائی کے آغاز میں جب پرویز مشرف کا حکومت میں نام و نشان نہ تھا تب بھی میں نے ، انہی دوستوں کے توسط سے ، اپنی آنکھوں سے تمام مکاتیبِ فکر کے پاس جدید ترین اسلحے کے ذخائر دیکھے ہیں اور ان کو مدارس و مساجد میں رکھا جاتا تھا۔
  2. اب ہم ان کی اس واردات کو جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں سے اس لئے جوڑ کر نہیں دیکھ سکتے کہ جرائم پیشہ تو اپنے کام کے لئے جانے جاتے ہیں اور جرائم کرتے ہیں لیکن دینی مدارس اور مساجد تو تعلیم و عبادت کے لئے بنائے جاتے ہیں وہاں اسلحہ جمع کرنے کا کیا مطلب ہے؟۔ ان مساجد و مدارس کے ذمہ داروں نے ہمارے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی بجائے ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوف ، ہینڈ گرنیڈ ، راکٹ لانچر اور دستی بم کس لئے دئیے؟
  3. ظاہر ہے کہ مدارس کے اندر آ کر ان کے طلباء کو یہ اسلحہ امریکہ ، بھارت اور اسرائیل نے نہیں دیا تھا اور نہ ہی ان کے مدارس و اسلحہ خانے ان ممالک کی سر زمین میں تھے۔ انہیں کس سے جنگ لڑنا تھی؟ اور پھر ان کے ذہنوں میں دیگر مکاتیب فکر کے خلاف اس قدر زہر کیوں بھرا کہ وہ اپنے سوا ہر کسی کو کافر اور واجب القتل گردانتے ہیں؟۔
  4. جب تک ہم یہ مان نہیں لیتے کہ خون ریزی کی فصل ہم نے خود کاشت کی ہے جو اپنی آبیاری کے لئے ہمارا خون پیتی ہے تب تک ہم جتنی چاہے لن ترانیوں سے کام لے لیں ، جس ملک پر چاہیں الزام لگا لیں یہ خون ریزی بڑھتی ہی جائے گی۔
  5. اور آخری بات یہ کہ اگر شک کی زد میں آنے والے مذہبی عناصر خود کو اس الزام سے پاک ثابت کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان دشمن طالبان کے خلاف مؤقف کیوں نہیں اپناتے؟ بلکہ اس کے برعکس بے گناہ پاکستانی عوام کا خون بہانے پر ان کی حمایت کے لئے دور دراز کی دلیلیں پیش کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہوتا ہے جس طرح امریکہ اپنی بربریت کے لئے دنیا کے سامنے پھسڈی و بودے دلائل پیش کر رہا ہوتا ہے۔
ساجد بھائی! آپ نے بہت اہم نکات اٹھائے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر جب کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ اٹھایا گیا ہے تو یہ صرف اور صرف سنی اور شیعہ مسالک کے گروہوں کے درمیان ہے۔ دیگر مسالک کے درمیان فقہی اختلاف جتنا مرضہ شدید رہا ہو، ایک دوسرے پربھلے کفرکے فتویٰ دئے گئے ہوں، لیکن انہوں نے کبھی ایک دوسرے پر اسلحہ نہین اٹھایا (بحیثیت مسلکی گروہ)
  1. آپ نے 90 کے آغاز میں مدارس میں یہ اسلحہ دیکھا۔ آپ کی یہ بات درست ہے۔ لیکن آپ یہ بتلائے کہ پاکستان میں شیعہ آبادی کا تنا سب کیا ہے؟ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ جمہوری کا مطلب اکثریت کی حکومت۔ پھر ایران مین خمینی کے انقلاب کے بعد ”تحریک نفاذ فقہ جعفریہ“ نامی مذہبی اور سیاسی تنظیم کے اغراض و مقاصد کیا تھے؟ کیا اسے ایران سے بھر پور سیاسی، مالی اور دیگر سپورٹ حاصل نہ تھا۔ ایک اقلیتی مسلک اگر کسی ملک میں بیرونی امداد سے اپنے مسلک کی حکومت کے لئے کوشاں ہوگی تو کیا وہ جمہوری ووٹ کے ذریعہ برسر اقتدار آئے گی یا ”خونی انقلاب“ کے ذریعہ
  2. سنیوں کی جماعت سپاہ صحابہ اور سنی تحریک کو سعودیہ سمیت سنی عرب ممالک سے مالی اور دیگر سپورٹ ملی تاکہ وہ ایک اکثریتی سنی ملک میں اقلیتی شیعہ انقلاب کا ”مقابلہ“ کر سکے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں شیعہ آبادی کا تناسب ایران میں شیعہ آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ لیکن ایران خمین انقلاب کے بعد ایک شیعہ اسٹیٹ بن کر ابھرا ہے۔ خمینی انقلاب کے دوران ایران کے دو سو سے زائد سنی علماء کو شاہ کا وفادار قرار دے کر پھانسی دے دی گئی۔ اس خبر کا پاکستانی اخبارات نے مجموعی طور پر ”بائیکاٹ“ کیا اس کے باوجود پاکستان کے قومی بڑے اخبارات بشمول جنگ میں یہ خبر اندرونی صفحات پر شائع ہوئی۔ خمینی انقلاب کے بعد ہی پاکستان کے شیعہ اور سنی مسالک میں اسلحہ کی دوڑ کا آغاز ہوا۔ اور مدارس اور امام بارگاہوں کی پشت پناہی مین ان دونوں کے باقاعدہ عسکری ونگ تیار ہوئے۔ دونوں گروپ کے مشہور ٹارگٹ کلرز پکڑے گئے۔ دونوں گروپ کے مشہور علماء کو قتل کیا گیا وغیرہ وغیرہ
  3. اب آتے ہیں ”پاکستان دشمن طالبان“ کی طرف۔ یہ طالبان کون ہیں؟؟؟ یہ پاکستان دشمن کب بنے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے افغنستان میں روسی حملہ کا مقابلہ کیا۔ سپر پاور سویت یونین کے سامنے ان نہتے افغانیوں کی کیا اوقات تھی؟ ولی خان کمیونسٹ جماعت نیپ نے تو پشاور میں روسی فوجیوں کے لئے خیر مقدمی پوسٹرز تک آویزاں کردئے تھے۔ یہ تو تاریخ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ سویت یونین کی منزل افغانستان نہیں بلکہ گرم پانیوں تک رسائی تھی۔ اور اس منزل تک پہنچنے کی راہ میں پاکستان کھڑا تھا۔ افغانستان کے بعد اگر روسی فوجیں پاکستان مین داخل ہوجاتیں تو اسے نہ تو پاکستانی قوم روک سکتی تھی اور نہ ہی پاکستان آرمی۔ پاکستان دو لخت ہوچکا تھا اور پاکستان آرمی بھارت سے 1971 کی جنگ شرمناک طریقہ سے ہار کر کسی قابل نہ تھی۔ لہٰذا پاک آرمی نے اپنی عزت بچانے اور خود روسی فوج کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے انہی افغان (طالبان) کو ہر قسم کا جنگی سپورٹ فراہم کیا۔ ”خوش قسمتی“ سے اس وقت پاکستان پر آرمی کی ہی حکومت تھی۔ لہٰذا حکومت اور آرمی دونوں نے افغانیوں کو روسیون سے لڑنے کے لئے ہر طرح کی امداد دی۔ امریکہ بہت بعد میں اس جنگ مین کودا اور امریکہ نے بھی پیسہ اور اسلحہ فراہم کیا۔ (جس سے پاک آرمی بھی مضبوط ہوئی) ان افغانیوں کا تو پاکستانیوں کو شکر گذار ہونا چاہئے تھا کہ انہی کے جہاد کی بدولت پاکستان سویت یونین کی ایک مقبوضہ ریاست بننے سے بچ گیا۔ ورنہ ہم اور آپ انگریزوں سے بھی بد تر غلامی کا مزہ چکھ رہے ہوتے۔ سویت یونین کے دور میں جن وسط ایشیائی مسلم ریاستوں پر سویت یونین کا قبضہ رہا ہے، ان کی غلامی کی تاریخ بھی پڑھ لیجئے۔
  4. پھر اچانک نائن الیون ہوجاتا ہے۔ ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دو تہائی سے جیتی ہوئی مسلم لیگ جمہوری حکومت کو ختم کروایا جاتا ہے (نام نہاد جمہوریت کے عالمی چیمپینز کے ہاتھوں)۔ جس ملک نے قادیانیوں کو سرکاری طور پر غیر مسلم قرار دیا تھا، اسی ملک میں ایک جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر ایک قادیانی پرویز مشرف کا مارشل لاء لایا جاتا ہے جو ایک اور قادیانی شوکت عزیز کی وزارت عظمیٰ کے ذریعہ کنٹرولڈ جمہوریت قائم کرتا ہے۔ امریکہ پاکستان کے اس سیٹ اَپ میں افغانستان کی ایک آزاد مسلم ریاست پر حملہ کرتا ہے اور پاکستانی حکومت اور آرمی امریکہ کو ہر قسم کی سپورٹ فراہم کرتا ہے تاکہ ایک مسلم ریاست کو کریش کرکے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا جاسکے۔ ان سب کے بعد یہی طالبان کا اب بھی پاکستان کے دوست رہین گے یا دشمن۔ آج بھی طالبان کے وہ گروہ جو امن اور پاکستان سے مذاکرات پر تیار ہوتے ہیں، امن معاہدہ کرتے ہیں، انہین یا تو ڈرون حملوں سے مار دیا جاتا ہے یا پاکستان آرمی اور حکومت انہیں ان کے بیوی بچوں اور خنادان سمیت اڑا دیتے ہیں۔ اور یہی امریکہ کے یہودی اور کافروں اور پاکستان مین سرکاری طور پر کافر قرار دئے گئے لوگوں کی ”کامیابی“ ہے۔
  5. اسی فورم پر چاوید چوہدری کا کالم ”این کاؤنٹر“ اور ”حویلی کا راز“ پوسٹ ہوچکے ہیں (لنک مجھے نہیں مل رہا) ذرا انہین ایک بار پھر پڑھئے اور دیکھئے کہ انگریز کس طرح دور بیٹھ کر پاکستان میں مسلکی فرقہ واریت کو استعمال کرتا ہے۔ اب تو آپ کے اپنے شہر لاہور میں انہی عیسائیوں نے مسلمانوں کے بچوں کو قرآن پڑھوانے کا آغاز کردیا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا انگریز عیسائی ہمارے دین سے اور ہم سے اتنی ”محبت“ کرتے ہین کہ وہ اپنے خرچے سے ہمارے بچوں کو قرآن پڑھوائیں۔ یا یہ بھی ان کی لانگ ٹرم پلاننگ کا حصہ ہے۔ یہ تینوں تحریریں اس محفل پر بھی ہیں لیکن مجھے لنک نہیں مل رہا لہٰذا یہاں پڑھئے اوقر سر دھنئے کہ ہم پاکستانی اور مسلمان یہود و نصاریٰ اور قادیانی (جسے انگریز نے تشکیل دیا تھا) کے شکنجہ مین کس طرح جکڑے جارہے ہیں
1. http://forum.mohaddis.com/threads/لاہور-میں-عیسائی-قرآن-پڑھوانے-لگے-؟؟؟.9700/این کاؤنٹر، حویلی کا راز اور لاہور میں عیسائیوں کا قرآن پڑھوانا
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی! آپ نے بہت اہم نکات اٹھائے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر جب کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ اٹھایا گیا ہے تو یہ صرف اور صرف سنی اور شیعہ مسالک کے گروہوں کے درمیان ہے۔ دیگر مسالک کے درمیان فقہی اختلاف جتنا مرضہ شدید رہا ہو، ایک دوسرے پربھلے کفرکے فتویٰ دئے گئے ہوں، لیکن انہوں نے کبھی ایک دوسرے پر اسلحہ نہین اٹھایا (بحیثیت مسلکی گروہ)
  1. آپ نے 90 کے آغاز میں مدارس میں یہ اسلحہ دیکھا۔ آپ کی یہ بات درست ہے۔ لیکن آپ یہ بتلائے کہ پاکستان میں شیعہ آبادی کا تنا سب کیا ہے؟ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ جمہوری کا مطلب اکثریت کی حکومت۔ پھر ایران مین خمینی کے انقلاب کے بعد ”تحریک نفاذ فقہ جعفریہ“ نامی مذہبی اور سیاسی تنظیم کے اغراض و مقاصد کیا تھے؟ کیا اسے ایران سے بھر پور سیاسی، مالی اور دیگر سپورٹ حاصل نہ تھا۔ ایک اقلیتی مسلک اگر کسی ملک میں بیرونی امداد سے اپنے مسلک کی حکومت کے لئے کوشاں ہوگی تو کیا وہ جمہوری ووٹ کے ذریعہ برسر اقتدار آئے گی یا ”خونی انقلاب“ کے ذریعہ
  2. سنیوں کی جماعت سپاہ صحابہ اور سنی تحریک کو سعودیہ سمیت سنی عرب ممالک سے مالی اور دیگر سپورٹ ملی تاکہ وہ ایک اکثریتی سنی ملک میں اقلیتی شیعہ انقلاب کا ”مقابلہ“ کر سکے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں شیعہ آبادی کا تناسب ایران میں شیعہ آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ لیکن ایران خمین انقلاب کے بعد ایک شیعہ اسٹیٹ بن کر ابھرا ہے۔ خمینی انقلاب کے دوران ایران کے دو سو سے زائد سنی علماء کو شاہ کا وفادار قرار دے کر پھانسی دے دی گئی۔ اس خبر کا پاکستانی اخبارات نے مجموعی طور پر ”بائیکاٹ“ کیا اس کے باوجود پاکستان کے قومی بڑے اخبارات بشمول جنگ میں یہ خبر اندرونی صفحات پر شائع ہوئی۔ خمینی انقلاب کے بعد ہی پاکستان کے شیعہ اور سنی مسالک میں اسلحہ کی دوڑ کا آغاز ہوا۔ اور مدارس اور امام بارگاہوں کی پشت پناہی مین ان دونوں کے باقاعدہ عسکری ونگ تیار ہوئے۔ دونوں گروپ کے مشہور ٹارگٹ کلرز پکڑے گئے۔ دونوں گروپ کے مشہور علماء کو قتل کیا گیا وغیرہ وغیرہ
  3. اب آتے ہیں ”پاکستان دشمن طالبان“ کی طرف۔ یہ طالبان کون ہیں؟؟؟ یہ پاکستان دشمن کب بنے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے افغنستان میں روسی حملہ کا مقابلہ کیا۔ سپر پاور سویت یونین کے سامنے ان نہتے افغانیوں کی کیا اوقات تھی؟ ولی خان کمیونسٹ جماعت نیپ نے تو پشاور میں روسی فوجیوں کے لئے خیر مقدمی پوسٹرز تک آویزاں کردئے تھے۔ یہ تو تاریخ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ سویت یونین کی منزل افغانستان نہیں بلکہ گرم پانیوں تک رسائی تھی۔ اور اس منزل تک پہنچنے کی راہ میں پاکستان کھڑا تھا۔ افغانستان کے بعد اگر روسی فوجیں پاکستان مین داخل ہوجاتیں تو اسے نہ تو پاکستانی قوم روک سکتی تھی اور نہ ہی پاکستان آرمی۔ پاکستان دو لخت ہوچکا تھا اور پاکستان آرمی بھارت سے 1971 کی جنگ شرمناک طریقہ سے ہار کر کسی قابل نہ تھی۔ لہٰذا پاک آرمی نے اپنی عزت بچانے اور خود روسی فوج کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے انہی افغان (طالبان) کو ہر قسم کا جنگی سپورٹ فراہم کیا۔ ”خوش قسمتی“ سے اس وقت پاکستان پر آرمی کی ہی حکومت تھی۔ لہٰذا حکومت اور آرمی دونوں نے افغانیوں کو روسیون سے لڑنے کے لئے ہر طرح کی امداد دی۔ امریکہ بہت بعد میں اس جنگ مین کودا اور امریکہ نے بھی پیسہ اور اسلحہ فراہم کیا۔ (جس سے پاک آرمی بھی مضبوط ہوئی) ان افغانیوں کا تو پاکستانیوں کو شکر گذار ہونا چاہئے تھا کہ انہی کے جہاد کی بدولت پاکستان سویت یونین کی ایک مقبوضہ ریاست بننے سے بچ گیا۔ ورنہ ہم اور آپ انگریزوں سے بھی بد تر غلامی کا مزہ چکھ رہے ہوتے۔ سویت یونین کے دور میں جن وسط ایشیائی مسلم ریاستوں پر سویت یونین کا قبضہ رہا ہے، ان کی غلامی کی تاریخ بھی پڑھ لیجئے۔
  4. پھر اچانک نائن الیون ہوجاتا ہے۔ ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دو تہائی سے جیتی ہوئی مسلم لیگ جمہوری حکومت کو ختم کروایا جاتا ہے (نام نہاد جمہوریت کے عالمی چیمپینز کے ہاتھوں)۔ جس ملک نے قادیانیوں کو سرکاری طور پر غیر مسلم قرار دیا تھا، اسی ملک میں ایک جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر ایک قادیانی پرویز مشرف کا مارشل لاء لایا جاتا ہے جو ایک اور قادیانی شوکت عزیز کی وزارت عظمیٰ کے ذریعہ کنٹرولڈ جمہوریت قائم کرتا ہے۔ امریکہ پاکستان کے اس سیٹ اَپ میں افغانستان کی ایک آزاد مسلم ریاست پر حملہ کرتا ہے اور پاکستانی حکومت اور آرمی امریکہ کو ہر قسم کی سپورٹ فراہم کرتا ہے تاکہ ایک مسلم ریاست کو کریش کرکے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا جاسکے۔ ان سب کے بعد یہی طالبان کا اب بھی پاکستان کے دوست رہین گے یا دشمن۔ آج بھی طالبان کے وہ گروہ جو امن اور پاکستان سے مذاکرات پر تیار ہوتے ہیں، امن معاہدہ کرتے ہیں، انہین یا تو ڈرون حملوں سے مار دیا جاتا ہے یا پاکستان آرمی اور حکومت انہیں ان کے بیوی بچوں اور خنادان سمیت اڑا دیتے ہیں۔ اور یہی امریکہ کے یہودی اور کافروں اور پاکستان مین سرکاری طور پر کافر قرار دئے گئے لوگوں کی ”کامیابی“ ہے۔
  5. اسی فورم پر چاوید چوہدری کا کالم ”این کاؤنٹر“ اور ”حویلی کا راز“ پوسٹ ہوچکے ہیں (لنک مجھے نہیں مل رہا) ذرا انہین ایک بار پھر پڑھئے اور دیکھئے کہ انگریز کس طرح دور بیٹھ کر پاکستان میں مسلکی فرقہ واریت کو استعمال کرتا ہے۔ اب تو آپ کے اپنے شہر لاہور میں انہی عیسائیوں نے مسلمانوں کے بچوں کو قرآن پڑھوانے کا آغاز کردیا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا انگریز عیسائی ہمارے دین سے اور ہم سے اتنی ”محبت“ کرتے ہین کہ وہ اپنے خرچے سے ہمارے بچوں کو قرآن پڑھوائیں۔ یا یہ بھی ان کی لانگ ٹرم پلاننگ کا حصہ ہے۔ یہ تینوں تحریریں اس محفل پر بھی ہیں لیکن مجھے لنک نہیں مل رہا لہٰذا یہاں پڑھئے اوقر سر دھنئے کہ ہم پاکستانی اور مسلمان یہود و نصاریٰ اور قادیانی (جسے انگریز نے تشکیل دیا تھا) کے شکنجہ مین کس طرح جکڑے جارہے ہیں
1.این کاؤنٹر، حویلی کا راز اور لاہور میں عیسائیوں کا قرآن پڑھوانا
یوسف بھائی ، ایران نے جن مقاصد کے لئے شیعہ تنظیموں کی مدد کی بعینہ انہی مقاصد کے لئے عرب ممالک نے وہابی تنظیموں کی مدد کی۔ میں نے ہمیشہ دونوں فریقین کی پاکستان میں اس در اندازی کی کھل کر مزمت کی ہے۔ کبھی ایک فریق کی طرف ڈنڈی نہیں ماری کہ اس نے "دفاع" کے طور پر یہ بد معاشی کی۔
آپ نے ایک بار پھر بات کی ہے بیرونی طاقت کی عیاری کی تو اس کے لئے اتنا طویل مضمون لکھے بغیر ہی کہہ دیتے کہ عرب قوم پرستی میں برطانیہ کی لارنس آف عریبیہ کے ذریعے کی گئی عیاری کا مطالعہ کر لیں۔ اگر ہم اس سے بھی پچھلی تاریخ میں جائیں گے تو شاید میرے بہت سارے دوست تاریخ کی بہت ساری سچائیوں کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ خلافت کا خاتمہ اور عرب قوم پرستی پر ہی غور فرما لیں تو بات آپ کے اپنائے گئے مؤقف کے خلاف جاتی ہے۔
آپ اپنی بات کہنے میں آزاد ہیں لیکن جن نکات کی بنیاد پر آپ طالبان کی حمایت میں لکھنا چاہ رہے ہیں میں اس سے اختلاف رکھتا ہوں۔ دنیا کی حربی تاریخ اٹھائیے اور دیکھئے کہ پراکسی وار اور وار لارڈز کے ذریعے جنگیں لڑنے والوں کا کیا انجام ہوتا رہا ہے۔ روس کہاں تک پہنچا اور کہاں تک جا سکتا تھا اس کا پاکستان کے بے گناہ عوام کا شدت پسند گروہ کے ہاتھوں ہونے والے قتل کے جرم کے دفاع سے کیا تعلق؟۔
کیا یہ ٹھیک نہ ہو گا کہ ہم قاتلین کی دو حرفی مذمت کریں اور ان کے اس عمل کو کھلے لفظوں میں اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دینے کی ہمت کر لیں؟ ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top