سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن معطل کردیا

کسی بھی وزارت یعنی محکمہ میں چیف کا انتخاب، اس محکمہ کے وزیر کی سفارش پر ہوتا ہے، وزیر اعظم اس سفارش کی سفارش پر ہوتا ہے۔ جس کی توژیق صدر کرتا ہے،
وزیر دفاع، کسی بی مناسب ملازم (جنرل) کو عارضی چیف بنا سکتا ہے۔ لہذا کوئی وجہ نہیں کہ حکومت ، 29 نومبر 2019 کو جنرل باجوہ کو عارضی چیف بنا کر ایک بار پھر یہی فیصلہ کر لے۔

اس وقت ضرورت ہے کہ ، چیف جسٹس آصف کھوسہ کو ، پاکستان کی اسمبلی اور سینٹ، سمن دے کر طلب کرے اوروضاحت طلب کرے کہ عدلیہ کو ، آنتظامیہ کے فیصلے معطل کرنے کا اختیار کس نے دیا اور وضاحت طلب کرے کہ اس عمل کو کیوں کر سنگین غداری کا عمل کیوں نا سمجھا جائے۔

کیا اسی طرح انتظامیہ، عدلیہ کے فیصلے معطل کرنے کا حق رکھتی ہے؟

پاکستان کی مقننہ اس قسم کی دخل اندازی کے لئے مناسب قانوں سازی کرے تاکہ منتخب نمائندوں ، وزیروں، وزیر اعظم پر کوئی دوسرا ادارہ حکم اندازی نا کرسکے۔
 
بولے تو اگر عدالت ٹال مٹول کرتے کرتے 30 نومبر تک لے جائے تو باجوہ صاب ایکس ہو جائیں گے اور شاید پھر عہدہ چھوڑنا ہی پڑے؟
نہیں لیکر جاتے، ورنہ ویڈیوز نکل آنی ہیں یا پھر مفتی کفایت اللہ اور صحافی احمد نوارنی صاحبان کی طرح کوئی گاڑی ٹکر بھی مار جائے گی اور آہنی راڈوں سے لڑکی کے بھائی پیار محبت کا اظہار بھی فرما سکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
نہیں لیکر جاتے، ورنہ ویڈیوز نکل آنی ہیں یا پھر مفتی کفایت اللہ اور صحافی احمد نوارنی صاحبان کی طرح کوئی گاڑی ٹکر بھی مار جائے گی اور آہنی راڈوں سے لڑکی کے بھائی پیار محبت کا اظہار بھی فرما سکتے ہیں۔
آج کی مضحکہ خیز عدالتی کاروائی کے بعد بھی یہ آپ کو کہیں سے جج لگتے ہیں؟
2019-11-27-15-29-39.jpg
 

محمد وارث

لائبریرین
اس سارے ڈرامائی پیش منظر کا ایک پسِ منظر مقصد مجھے یہ لگ رہا ہے کہ اگر آئین میں سروس چیفس کی تعینانی کا طریقہ درج ہے اور ایکسٹینشن وغیرہ کا نہیں ہے تو چونکہ تعیانی اور توسیع کا یہ اختیار حکومت ہی کا ہے اور اس اختیار کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی اور آئین میں ترمیم اپوزیشن کی منت سماجت اور لینے دینے کے سوا ممکن نہیں ہے سو۔۔۔دیکھتے ہیں!
 
تے فئیر کیانی صاب دی ایکسٹنشن کداں ہو گئی سی؟
دونوں ہاتھوں سے سر کھجانے والی سمائیلی

چونکہ تعیانی اور توسیع کا یہ اختیار حکومت ہی کا ہے اور اس اختیار کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی
 
No. Under no circumstances will the office be left unoccupied. Primarily, because it has never happened before in the history of Pakistan, and it unlikely to happen now. In my opinion, neither the army nor the government and neither, I think, the judiciary would want this to happen.

Right now the senior most general in Pakistan is General Nadeem Raza, who has been recently named the Chairman Joint Chief of Staff Committee (CJCSC). If the court hearings were to be extended beyond Nov. 29, Gen. Nadeem could be given the acting charge of the COAS office, until the court’s verdict.

There are precedents of this in the past. The additional charge of CJCS were given to then army chiefs General Ashfaq Parvez Kayani, General Jehangir Karamat and General Pervez Musharraf. Musharraf, in fact, was a full army chief and CJCS. This would be the only constitutional way out, if such a crisis were to emerge.

بشکریہ جیو
بولے تو اگر عدالت ٹال مٹول کرتے کرتے 30 نومبر تک لے جائے تو باجوہ صاب ایکس ہو جائیں گے اور شاید پھر عہدہ چھوڑنا ہی پڑے؟
 

جاسم محمد

محفلین
اس سارے ڈرامائی پیش منظر کا ایک پسِ منظر مقصد مجھے یہ لگ رہا ہے کہ اگر آئین میں سروس چیفس کی تعینانی کا طریقہ درج ہے اور ایکسٹینشن وغیرہ کا نہیں ہے تو چونکہ تعیانی اور توسیع کا یہ اختیار حکومت ہی کا ہے اور اس اختیار کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی اور آئین میں ترمیم اپوزیشن کی منت سماجت اور لینے دینے کے سوا ممکن نہیں ہے سو۔۔۔دیکھتے ہیں!
صدر پاکستان بذریعہ آرڈیننس بھی آرمی چیف کو توسیع دے سکتے ہیں۔ جسٹس کھوسہ نے صرف عمران خان کی حکومت کو متنازعہ بنانے کیلئے یہ سارا ڈرامہ کیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تے فئیر کیانی صاب دی ایکسٹنشن کداں ہو گئی سی؟
دونوں ہاتھوں سے سر کھجانے والی سمائیلی
کسی کام کا طریقہ کار اگر مبہم ہے یا معلوم ہی نہیں ہے اور اگر بعد میں اس کو واضح یا وضع کر لیا جائے تو پچھلے فیصلوں پر کچھ اثر نہیں پڑتا یا نہیں پڑنا چاہیئے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ہماری دانست میں، مسٹر باجوہ مستعفی ہونے کو ترجیح دیں گے تاہم حکومت انہیں منا لے تو ممکن ہے کہ ٹک جائیں تاہم وہ پہلے سا جاہ و جلال قائم نہ رہے گا۔ بطور ادارہ، فوج کی بھی خوب سبکی ہو چکی۔ درونِ خانہ خوب ہنگامے بپا ہوں گے! شہر اقتدار کے بڑے محلات میں خدا جانے کیا سازشیں ہو رہی ہوں گی۔ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!
 
ہمیں یقین ہے کہ باجوہ صاحب کو بچانے کے لیے 29 کی رات بارہ بجے سے پہلے کوئی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس مشکل صورتحال کا حل نکل لیا جائے گا لیکن یہ کیس وزیر اعظم اور ان کی معزز کابینہ کی نالائقی پر مہر ثبت کرچکا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہمیں یقین ہے کہ باجوہ صاحب کو بچانے کے لیے 29 کی رات بارہ بجے سے پہلے کوئی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس مشکل صورتحال کا حل نکل لیا جائے گا لیکن یہ کیس وزیر اعظم اور ان کی معزز کابینہ کی نالائقی پر مہر ثبت کرچکا۔
کیا معلوم یہ بحران جان بوجھ کر پیدا کیا گیا ہو تاکہ آرمی چیف کو ترسا ترسا کر ملی ہوئی ایکسٹینشن کی قدر معلوم ہو سکے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
ہماری دانست میں، مسٹر باجوہ مستعفی ہونے کو ترجیح دیں گے تاہم حکومت انہیں منا لے تو ممکن ہے کہ ٹک جائیں تاہم وہ پہلے سا جاہ و جلال قائم نہ رہے گا۔ بطور ادارہ، فوج کی بھی خوب سبکی ہو چکی۔ درونِ خانہ خوب ہنگامے بپا ہوں گے! شہر اقتدار کے بڑے محلات میں خدا جانے کیا سازشیں ہو رہی ہوں گی۔ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!
اب بات مستعفی ہونےسے بہت آگے چلی گئی ہے۔ سب سے پہلے اس وکیل کو پکڑا جائے گا جس نے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے خلاف عدالت میں درخواست دے کر واپس لی۔ پھر جسٹس کھوسہ کو جس نے جان بوجھ کر اس کیس پر سو موٹو ایکشن لیا تاکہ حکومت اور فوج کو میڈیا میں متنازعہ بنایا جا سکے۔ اس کھیل میں شامل تمام کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچا جائے گا۔
 
اگر آئین میں سروس چیفس کی تعینانی کا طریقہ درج ہے
آئین صاف طور پر انتظامیہ کو حکومت کرنے کے اختیارات دیتا ہے، انتظامیہ کٓی طرف سے تعیناتی اور توسیع، اس آئینی حق کا استعمال ہے۔

ہم اس کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ جسٹس کھوسہ صاحب ، انار کلی لاہور تھانے ٓکو فون کرکے کہیں کہ اس چھوٹے والے سپاہی کو ملازمت سے فارغ کردو۔ یہ اختیار چیف جسٹس صاحب کے پاس بناء کسی معقول وجہ کے نہیں ہے۔۔ ابھی تک جسٹس کھوسہ صاحب ناکام ہیں کہ مناب وجہ ٓبتائیں کہ ان کے وہ کون سے اختیارات اور حقوق ہیں ، جس کی بنیاد پر جناب نے انتظامیہ کے آیینی اختیارات معطل کئے ہیں؟

انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیٓہ ، آزاد ادارے ہیں، یہ پاکستان کے آئین اور قانون کے پابند ہیں۔ انتظامیہ کے پاس اختیارات ہیں کہ وہ عدلیہ سے ثابت شدہ مجرم کی جاں بخشی کرکے ، عدلیہ کے احکامات معطل قرار دے دیں ۔ لیکن ایسا کوئی آئینی اختیار ، مفاد عامہ کی آڑ میں ، عدلیہ کے پاس نہیں ہے۔ یہ صاف صاف انتظامی کے آئینی اختیار میں مداخلت ، حکومت کے احکامات کی معطلی یعنی آئینی اختیارات سے تجاوز کرجانے کا معاملہ ہے۔
 
ہمیں یقین ہے کہ باجوہ صاحب کو بچانے کے لیے 29 کی رات بارہ بجے سے پہلے کوئی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس مشکل صورتحال کا حل نکل لیا جائے گا لیکن یہ کیس وزیر اعظم اور ان کی معزز کابینہ کی نالائقی پر مہر ثبت کرچکا۔

یہ جسٹس آصف کھوسہ کی نالائقٓی ہے کہ ان کو اپنے اور انٹطامیہ کے آئینی اختیارات کا علم نہیں ۔

آرٹیکل 184، (3)
Article: 184 Original jurisdiction of Supreme Court
184. Original jurisdiction of Supreme Court.-(1) The Supreme Court shall, to the exclusion of every other Court, have original jurisdiction in any dispute between any two or more Governments.
Explanation.-In this clause, “Governments” means the Federal Government and the Provincial Governments.

(2) In the exercise of the jurisdiction conferred on it by clause (1), the Supreme Court shall pronounce declaratory judgments only.

(3) Without prejudice to the provisions of Article 199, the Supreme Court shall, if it considers that a question of public importance with reference to the enforcement of any of the Fundamental Rights conferred by Chapter I of Part II is involved, have the power to make an order of the nature mentioned in the said Article.




اس آرٹیکل کی شق نمبر 3 عدالت عالیہ کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ مفاد عامہ کے معاملات پر از خود نوٹس لے۔

یہاں معاملہ ، مفاد ٓعامہ کا نہیں ہے بلکہ ، انتظامیہ کے آئینی اختیارات کا ہے ، اس اختیار کی بنیاد پر جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی ہے، جس پر ٓعوام نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
 
آخری تدوین:
Top