سر باجوہ، ویلکم بیک!
سر باجوہ کہیں گے یو بلڈی فول، میں گیا ہی کہاں تھا۔ میں تو سرحدوں پر پہرہ دے رہا تھا۔ بس کچھ وقت نکال کر اپنے عمران خان اور اس کی بچہ پارٹی کو ٹیوشن پڑھانے گیا تھا کیونکہ وہ املا کی غلطیاں زیادہ کرنے لگے تھے۔
استادوں سے ڈانٹ پڑ رہی تھی، میں نے کہا سر گھر پر بیٹھ کر ہوم ورک کرواتا ہوں۔
سر باجوہ کو کون بتائے کہ ہم انھیں دوبارہ خوش آمدید کیوں کہہ رہے ہیں۔ نہ وہ کہیں گئے، نہ جانا تھا اور انشااللہ نہ کہیں جائیں گے۔
خوشی کا پہلا شادیانہ تو قصر صدارت سے بجا، پھر مبارک سلامت کا ایسا شور اٹھا جیسے مغل بادشاہوں کے ہاں ولی عہد کی ولادت پر ہوتا تھا۔
ہم بھلے لوگ ہیں، اپنے ہاتھوں سے ووٹ ڈالتے ہیں لیکن امید کرتے ہیں کہ کوئی رحم دل بادشاہ آ جائے جو رات کو ٹوپیاں سی کر روزی کمائے اور دن کو شہر کے چوک پر چوروں، لٹیروں کو اپنے ہاتھ سے پھانسی دے۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ بادشاہوں اور ولی عہدوں کا زمانہ گیا۔ اب عدالتیں آزاد ہیں، میڈیا حب وطنی کے جذبوں میں غوطے کھا رہا ہے۔ ان بلڈی فولز کو کون سمجھائے کہ سر باجوہ کے ولی عہد بھی سر باجوہ ہی ہیں۔
آپ کی واپسی پر (سر ہمیں پتا ہے کہ آپ کہیں نہیں گئے تھے لیکن چونکہ بی بی سی نے لکھا ہے کہ
’آپ ایک کھلے ڈلے جرنیل ہیں‘ تو جان کی امان دیں بات جاری رکھنے دیں) سب سے بڑا بھونپو عمران خان نے بجایا کہ دشمنوں کو شکست ہوئی، ملک کے اندر بھی اور باہر بھی۔ ان کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ انھیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ایک دفعہ پھر ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں۔
کچھ ستم ظریفوں کو یہ بھی لگا کہ وہ پرانی اردو فلموں کے 55 سالہ محمد علی ہیں جو ہاتھ میں کتاب پکڑے تیزی سے دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوتا ہے اور چیخ کر کہتا ہے امی میں بی اے میں پاس ہو گیا۔ اب امی کو شکرانے کے آنسو نہیں آئیں گے تو کیا آئے گا۔
لیکن سر باجوہ کو اس مبارک سلامت کے شور سے پرے ہی رہنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ تین دن تھرتھلی میں کون کیا کر رہا تھا اور کیا کہہ رہا تھا۔ آپ کے تربیت یافتہ دفاعی تجزیہ نگار، ریٹائرڈ جنرل، ریٹائرڈ بریگیڈیئر سب ایک دم خاموش کیوں ہو گئے تھے، کیا عدالت سے ڈر گئے تھے؟ دل نہیں مانتا۔
کیا ان کے دلوں میں یہ شک تو نہیں پیدا ہو گیا تھا کہ کوئی نیا ولی عہد آیا چاہتا ہے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ وفاداری کے امتحان میں کس کے کتنے نمبر بنتے ہیں کیونکہ لگ تو یہ رہا تھا:
وہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
حالانکہ کئی حاسدین نے سر غفور کی خاموشی پر بھی سوال اٹھائے لیکن وہ اپنا فلسفہ پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ خاموشی بھی ایک بیان ہوتی ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی خاموشی ان کے بیان سے زیادہ خوفزدہ کرتی ہے۔ وہ ان تین دنوں میں اس شعر کی تصویر بنے رہے:
سی کے لب ایک قیامت سی اٹھا دی جائے
رہ کے خاموش ذرا دھوم مچا دی جائے
سر باجوہ سے عدالت نے، حکومت نے اور جیلوں کے اندر اور باہر سے اپوزیشن کے سیاستدانوں نے عہد کیا ہے کہ ہم چھ مہینے کے اندر اندر ایک ایسا قانون بنا کر آپ کے قدموں میں پیش کریں گے جیسے تُھڑے ہوئے عاشق اپنا دل محبوب کے قدموں میں رکھ کر کہتے ہیں اب تو اس پر پیر رکھ کر جا۔
اب سر باجوہ کو بھی قوم سے ایک وعدہ کرنا ہو گا کہ اب چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ آپ کی خدمات کا اعتراف پوری قوم کے ساتھ ساتھ عمران خان نے بھی کیا ہے کہ جس طرح آپ نے سفارت کاری، دفاع اور اقتصادیات کے شعبوں میں قوم کی خدمت کی ہے، کاش سویلین حکومت اس کا عشر عشیر بھی کر سکتی۔
عمران خان نے جس بات کا اعتراف نہیں کیا وہ یہ ہے کہ آپ باقی سارے کاموں کے ساتھ عمران خان کی تربیت کر رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح عمران خان عثمان بزدار کی تربیت کر رہے ہیں۔
باقی قوم سیانی ہے، اس نے خود ہی کمر پر پٹھو باندھ کر رنگروٹوں کی طرح بھاگنا شروع کر دیا۔ بس اب کھلے دل کے ساتھ وعدہ کریں کہ اب آپ نے نہیں جانا جب تک ملک سے آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، جب تک آخری چور، لٹیرا سیاستدان سلاخوں کے پیچھے نہیں کر دیا جاتا، جب تک افغانستان میں اور ہانگ کانگ میں مکمل امن قائم نہیں ہو جاتا، جب تک کشمیر، فلسطین آزاد نہیں ہو جاتے، ڈی ایچ اے کوئٹہ کا آخری پلاٹ نہیں بک جاتا۔
آپ نے اس وقت تک نہیں جانا جب تک عثمان بزدار ٹریننگ کر کے وسیم اکرم پلس پلس نہیں بن جاتا اور ایک دن تخت لاہور پر کھڑا ہو کر یہ نہیں کہتا کہ آج ایسا لگ رہا ہے جیسے ایک بار پھر ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔
محمد حنیف