اس احقر کی حقیر پرتقصیررائے کچھ یوں ہے۔
- اسکول کھولنے کی بجائے ”اکیڈمی“ کھولئے۔ اگر اسکول کھولا گیا اور اسے رجسٹرڈ و رکگنائزڈ کرایا گیا (جو کرانا ہی پڑے گا) توپھر قانوناً اسکول کو حکومت پاکستان کی پالیسی کے مطابق چلانا پڑے گا اور آپ اس میں کوئی ”نیا کارنامہ“ دکھلانے سے قاصر رہیں گے)
- ایک ایسی ”اکیڈمی“ کھولئے جس میں چوتھی جماعت پاس بچے “داخل“ کئے جائیں اور بچوں کو 6 سال میں میٹرک سائنس اے گریڈ کی ”گارنٹی“ دی جائے۔
- اکیڈمی کے پہلے سال صرف تین مضامین پڑھائے جائیں اردو، انگریزی اور قرآنی عربی ۔ اردو اور انگریزی کے مضامین میں پانچویں، چھٹی، وغیرہ کا نصاب پڑھایا جائے۔
- اکیڈمی کے دوسرے سال گورنمنٹ کے منظور شدہ نصاب برائے پانچویں+ چھٹی اور تیسرے سال ساتویں + آٹھویں کے نصاب کو ”یکجا“ کرکے پڑھایا جائے۔ یعنی سلیکٹیڈ اسباق اس طرح پڑھایا جائے کہ دو سال کا نصاب ایک سال میں۔ ہر سال کے نصاب کے ساتھ ساتھ قرآنی عربی لازماً ہو۔ حتیٰ کہ اکیڈمی کے چار سال کی تعلیم کے بعد طالب علم قرآن کو عربی میں پڑھ کر اس کے سادہ معنی کو اسی طرح سمجھ سکے، جیسا کہ مڈل کلاس کا طالب علم اردو اور انگریزی کی کتابیں پڑھ کر ”سمجھ“ لیتا ہے۔
- اکیڈمی کے چوتھے سال، نویں + دسویں جماعت سائنس کے کورسز پڑھائے جائیں۔ سائنس اور میتھ لازماً انگریزی میں پڑھائے جائیں۔
- اکیڈمی کے پانچویں اور چھٹے سال کے (یعنی نویں اور دسویں کے طالب علموں) کا کسی منظور شدہ اسکول کی معرفت بورڈ سے رجسٹریشن کروایا جائے۔ ایسی کسی بھی درمیانے درجے کے نجی اسکول سے پہلے سے معاہدہ کرلیا جائے کہ ”ہماری اکیڈمی“ کی نویں اور دسویں جماعت اُن کے اسکول کے ایک الگ ”سیکشن“ کی حیثیت سے ہو۔ جس کا حاضری رجسٹر بھی اسی اسکول کا ہو۔ یہ طالب علم ”پریکٹیکل“ وغیرہ اسی اسکول سے کریں۔ مگر ان کی ”کلاسز“ اکیڈمی میں ہی ہوں۔
- اکیڈمی کے نویں جماعت کا طاب علم، نویں جماعت کا کورس سابقہ سال بھی پڑھ چکا ہوگا۔ لہٰذا اس سال وہ ابتدا ہی سے امتحان کی تیاری کرے گا۔ یہی حال دسویں جماعت کا بھی ہوگا۔ وہ بھی یہ کورسز پہلے پڑھ چکا ہوگا
- اگر اساتذہ کی ٹیم اچھی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس اکیڈمی کے بیشتر طالب علم چھ سالہ کورسز کے اختتام پر: اے گریڈ سائنس میں پاس ہوں۔ انگریزی میں اتنے رواں ہون کہ انٹر اور اس سے آگے پروفیشنل کلاسز میں روانی سے تعلیم حاصل کرسکیں۔ اور عربی میں بھی اتنی قابلیت ھاصل کر سکیں کہ قرآن، اور بخاری و مسلم مختصر کو براہ راست عربی میں پڑھ سکیں
- جب تک پاکستان مین اردو کو سرکاری زبان قرار نہین دیا جاتا، طالب علمون کو اردو میں پڑھانا، اسے ناکارہ بنانے کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ یہ احقر اردو کالج (اب یونیورسٹی) کے کلیہ فنون و سائنس دونوں میں ماسٹرز کا طالب علم رہا ہے۔ اور کالج مجلہ کا مدیر بھی۔ اس دوران ہم نے ”اردو ذریعہ تعلیم“ کی حمایت مین بہت کچھ لکھا بھی۔ لیکن اس مادر علمی سے فراغت کے بعد گزشتہ 35 برسوں کی عملی زندگی (جو بیشتر کثیر القومی اداروں میں گزری) سے یہ سبق سیکھا کہ موجودہ صورتحال میں اگر ایک ”کامیاب زندگی“ گزارنا ہے، اچھی ملازمت ھاصل کرنا ہے، فوج، سول بیوروکریسی میں جانا ہے، کامیاب وکیل بننا ہے یا کثیر القومی اداروم میں جانا ہے تو آپ کی انگریزی میں قابلیت (تحریر و تقریر دونوں) کا عمدہ ہونا ضروری ہے۔
- اس کاکہ میں رنگ بھرکر ، چوتھی جماعت کے طالب علم کو 6 سال کے ”معمول کے عرصے“ میں آپ اسے قرآن سے جورے رکھ کر ایک اچھا مسلمان بھی بنا سکتے ہیں اور انگریزی + میٹرک سائنس میں اے گریڈ کی تعلیمی قابلیت دلوا کر اسے آئندہ داکٹر، انجیئر، وکیل، ایم بی اے وغیرہ کے کسی بھی شعبہمین کامیاب انسان بنا سکتے ہیں۔
- یہ ایک ”دیوانے کا خواب“ ہے۔ اگر زندگی نے وفا کی تو ریٹائرمنٹ کے بعد ایسا ہی ایک پروجیکٹ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ ہمارے اس ”خیال“ سے ایک شیخ القرآن و حدیث بھی متفق ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں سے ایک دارالعلوم سے وابستہ ہین۔ اور چاہتے ہیں کہ درس نظامی + میٹرک سائنس کو ملا کر ایسے طلبا تیار کئے جائیں جو دینی اور عصری دونوں تعلیم سے بہرہ ور ہون۔
- واضح رہے کہ کچھ اسی قسم کا پروجیکٹ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی چلا رہے ہیں۔ ان کے اسکول مین او لیول اور اے لیول کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کے اسکول سے اے لیول کرنے والا آکسفورڈ یونیورسٹی مین بھی داکلہ کا ”اہل“ ہوتا ہے اور مدینہ یونیورسٹی میں بھی۔ آکسفورڈ جاکر وہ کسی بھی عصری علم میں مہارت حاصل کرسکتا ہے اور مدینہ یونیورسٹی جاکر کسی بھی دینی شعبہ علم کا عالم بن سکتا ہے۔ مزید تفصیلات ڈاکٹر ذاکر کے ادارے سے حاصل کی جاسکتی ہیں
تفصیلی جواب کے لیے شکرگزار ہوں یوسف بھائی ۔
دلچسپ ترتیب سامنے لائے ہیں آپ۔
یہ ڈاکٹر ذاکر صاحب والے ادارہ والی بات بھی دل کو لگی ہے، کیونکہ ان کے ادارے کے طلبا ء و طالبات کافی پراعتماد اور مطلوب خصوصیات کے حامل دکھائی دیے ہیں مجھے ۔ لیکن یہ کہیے، کہ آپ نے اس ضمن میں ابتدائی کام کا کوئی خاکہ ترتیب دیا ہے ابھی تک؟
یا اوپر والے خاکہ میں کہیں تھوڑے بہت رنگ بھرے ہوئے آپ نے دیکھے ہوں؟