سکول کیسا ہو؟

فلک شیر

محفلین
السلام علیکم!
ایک سوال ان لوگوں کے سامنے رکھ رہا ہوں، جو یہ چاہتے ہیں یا سوچتے ہیں کہ ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہونا چاہیے، جس میں دینی اور دنیاوی تعلیم اور اسلامی آداب و تہذیب کی تربیت کا مثالی نظام موجود ہو، وہ لوگ جو اپنے بچوں کی سکولنگ کے حوالہ سے مختلف تلخ یا شیریں تجربات رکھتے ہیں، ان سے درخواست ہے کہ اس ضمن میں ایک مثالی سکول کے خدوخال ، جو ان کے ذہن میں موجود ہیں، بیان
فر مائیں۔ براہ کرم اسے مناقشہ و مناظرہ قسم کی چیز بنانے سے پرہیز فرمائیں۔
 

arifkarim

معطل
جس میں دینی اور دنیاوی تعلیم
پہلے آپ یہ طے کر لیں کہ دینی اور دنیاوی تعلیم سے کیا مراد ہے؟ میرے خیال میں دنیاوی تعلیم میں درج ذیل مضامین آتے ہیں:
  • حسابیات
  • سائنس(فزکس، کمسٹری، بیالوجی وغیرہ)
  • تاریخ (دنیاوی اقوام کی تاریخ)
  • معاشرتی علوم (جغرافیہ، سیاسیات وغیرہ)
جبکہ دینی تعلیم میں:
  • اسلامیات (دینی تاریخ)
  • بین المذاہب کا مطالعہ (مختلف مذاہب کی تاریخ)
  • آداب و تہذیب (اسلامی روایات پر مبنی معاشرتی اقدار کی تعلیم)
یہ وہ ماڈل ہے جو عموماً اسلامی ممالک جیسے پاکستان میں رائج ہے۔ جبکہ اسکے مقابلہ میں یہاں مغرب میں دینی و دنیاوی تعلیم کا سیٹ اپ سیکولر ہے اور اس میں درج ذیل مضامین ہوتے ہیں:
  • حسابیات
  • سائنس(فزکس، کمسٹری، بیالوجی وغیرہ)
  • تاریخ (اقوام عالم کی تاریخ اور مذہب و دین کا اس سے رشتہ)
  • معاشرتی علوم (جغرافیہ، سیاسیات وغیرہ)
  • بین المذاہب کا مطالعہ (مختلف مذاہب کی تاریخ اور انکی حالیہ اشکال)
  • آداب و تہذیب (مختلف مذاہب کی اقدار سے متعلق تعلیم اور حالیہ معاشرے کی اقدار کا مطالعہ)
 

فلک شیر

محفلین
پہلے آپ یہ طے کر لیں کہ دینی اور دنیاوی تعلیم سے کیا مراد ہے
میرے خیال میں اس سے پہلے یہ طے کرنے کی ضرورت ہے، کہ تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے۔ صرف مروج معنوں میں "ایک کامیاب آدمی کی تعمیر " یا "دین پر کاربند ایک مفید اور متوازن صاحب علم اور عامل "۔۔
میں جس نکتہ نظر سے متعلق احباب کو تجربات اور خیالات کی شراکت کے لیے انگیخت کر رہا ہوں، وہ ثانی الذکر ہے ۔
 

arifkarim

معطل
میرے خیال میں اس سے پہلے یہ طے کرنے کی ضرورت ہے، کہ تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے۔
تعلیمی کا بنیادی مقصد تو آگہی ہی ہے۔ یعنی اپنے گرد و نواح، ماحول، معاشرے اور پھر پورے عالم کی جانکاری۔ چونکہ ان علوم کا احاطہ بہت وسیع ہو گیا ہے یوں محض بنیادی معلومات عامہ حاصل کر لینا کافی نہیں۔ پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کیلئے کسی ایک یا ایک سے زیادہ علوم میں ماہر ہونا غیر دانستہ طور پر واجب ہو گیا ہے۔
ایک وقت تھا کہ تعلیم محض امراء کی جاگیر تھی اور باقی عوام کھیتی باڑی کرتی تھی۔ لیکن پھر صنعتی انقلاب اور اسکے نتیجے میں آنے والی یکدم معاشرتی تبدیلیوں کے بعد ہر فرد پر تعلیم حاصل کرنا لازم قرار پایا۔ اگر آپ غور کریں تو اس جدید اکیسویں صدی میں بھی کسان بغیر کسی تعلیم کے اپنا گزر بسر چلا سکتا ہے پر جاہل آدمی اگر کھیتی باڑی نہ کرے تو اسکا روزگار چلنا بہت مشکل ہے۔ وجہ یہی ہے کہ معاشی تقاضے بدل گئے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے بغیر ایک اچھی پیشہ ور زندگی گزارنا ناممکن۔
 
السلام علیکم۔ سب سے پہلے تو عرصے بعد آپ کے "طلوع" ہونے پر اظہارِ مسرت۔ اللہ کرے سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا ہو۔
دوسرے یہ کہ غالباً محمد علم اللہ اصلاحی نے یا کامران غنی صبا نے ایسا ہی ایک سوال اٹھایا تھا، اس کے جواب میں بہت کچھ الٹا سیدھا لکھا تھا۔ تلاش کروں گا؛ امید ہے مل جائے گا۔
 

فلک شیر

محفلین
السلام علیکم۔ سب سے پہلے تو عرصے بعد آپ کے "طلوع" ہونے پر اظہارِ مسرت۔ اللہ کرے سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا ہو۔
دوسرے یہ کہ غالباً محمد علم اللہ اصلاحی نے یا کامران غنی صبا نے ایسا ہی ایک سوال اٹھایا تھا، اس کے جواب میں بہت کچھ الٹا سیدھا لکھا تھا۔ تلاش کروں گا؛ امید ہے مل جائے گا۔
وعلیک السلام آسی صاحب۔
انتظار ہے آپ کی تحاریر کا ۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
ایک سکول کا بنیادی مقصد وہی ہونا چاہیے جو ہماری آپکی زندگی کا ہے۔اللہ کا اچھا بندہ بننا۔
 

x boy

محفلین
اسکول یواے ای میں ہے، اسطرح ہونا چاہیے
اسلام کا دروازہ دنیا و آخرت کی کامیابی کے لئے ہے اس لئے یہاں
دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ دینیات جس کا تعلق روز مرہ سے ہے سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے بارہویں کے بعد طالب علم اپنی منزل بدل کسی ایک جانب حصوصی کرسکتا ہے
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
سکول کو سکول ہی لگنا چاہیے گھر نہیں۔ یعنی سکول کے لئے باقاعدہ عمارت تعمیر کی جائے۔ ہمارا مخصوص طرزِ تعمیر ہے کہ کھلے کھلے،کشادہ کمرۂ جماعت،کھلے صحن ،برآمدے اور بڑے بڑے میدان ہوں۔
 

جاسمن

لائبریرین
ماحول انسان کی شخصیت پہ بہت زیادہ اثر کرتا ہے۔اور ماحول میں مادی چیزیں بھی شامل ہیں جن میں سرِ فہرست عمارت ہے۔ اس لئے سکول سکول ہی لگے یعنی سکول کے لئے ایک اچھی عمارت ہو۔ ہمارا اپنا بہت اچھا طرزِ تعمیر ہے۔ کھلُلے،کھُلے کشادہ کمرے،بڑے بڑے برآمدے اور صحن،بڑے بڑے میدان ہوں۔
 
آپ کے سوال کا رخ تربیت کی طرف ہے، ایسا ہی ہے نا؟

تربیت کے دو اہم عنصر: (1) زبان یا جیسے میڈیم کہتے ہیں۔ اور (2) نصاب، کہ پڑھانا کیا ہے۔
یہ دیکھ لیجئے کہ ان دونوں کے بیچ میں سرکار بہر طور موجود ہے۔ آج اسکول بنائیں گے تو کل اس کو رجسٹر بھی کرائیں گے۔ سرکار تو اپنا نظام چاہے گی (جو بھی سرکار ہو، مجھے نون قاف پی کیو آر سے کچھ نہیں لینا)؛ تو پھر آپ کی ترجیحات کا کیا ہو گا؟
 
آپ اسکول کیوں کھولنا چاہ رہے ہیں؟ (1) پیسہ کمانے کے لئے؟ (2) قومی اور ملی زندگی میں مؤثر انسان پیدا کرنے کے لئے؟ (3) اور وہ مؤثر انسان جو آپ کے ذہن میں ہے، اس کا ناک نقشہ کیا ہے؟
اگر پیسہ کمانا ہے تو یہ واقعی ایک اچھا کاروبار ہے، ہینگ پھٹکڑی لگتی ہے پر بہت زیادہ نہیں۔
قومی اور ملی زندگی میں مؤثر کردار ادا کر سکنے والے بھی جب موجودہ جمہوری جلیبی کا مزہ چکھ لیتے ہیں تو قوم کا معنیٰ بدل کر "میری ذات" اور ملت کا معنیٰ بدل کر "میرا مفاد" بن جاتا ہے۔ اپنا تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ عام آدمی بے چارہ ہمیشہ "پرچی" رہا ہے، وہ بھی بے قیمت۔
ناک نقشہ سے میری مراد ہے کہ اس کا رخ کس طرف ہو؟ کعبہ کی طرف یا جینیوا کی طرف؟ اور وہ مسلمان ہو یا دیوبندی بریلوی وہابی شیعہ وغیرہ؟ یا کسی نام نہاد "دینی سیاسی جماعت" کا پرجوش کارکن؟ (ہوش کی شرط نہیں ہے)
 
جیسا آپ نے افتتاحی پیراگراف میں لکھا:
یک ایسا تعلیمی ادارہ ہونا چاہیے، جس میں دینی اور دنیاوی تعلیم اور اسلامی آداب و تہذیب کی تربیت کا مثالی نظام موجود ہو
اس کے لئے عصرِ رواں میں رائج سب نظاموں کو چھوڑ کر اپنا راستہ بنانا پڑے گا۔ یہ دیکھ لیجئے کہ آپ کو "سر پھرے لوگ" میسر بھی ہیں کیا؟ اور کیا آپ کے پاس اتنی قوت ہے کہ نظاموں کی ان "اقطار" سے نفوذ کر سکیں؟ جو لوگ آپ کے لئے کام کریں گے، ان کی ضروریات والی بات تو ہے ہی، ان کا "دفاع" بھی آپ کو کرنا ہو گا۔
 
آپ جب تک اپنی ترجیحات کا اعلان تیار کرتے ہیں؛ ایک "کثیفہ" سن لیجئے!

کسی نے کہا: اوئے انگریزوں کے بچے بڑے ذہین ہوتے ہیں۔
جواب ملا: ہاں ہوتے ہیں
"اچھا، وہ کیوں"
"کیوں کہ وہ شروع سے انگریزی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں"
"اچھا سچی؟! ٹھیک ہے ہم بھی اپنے بچوں کو شروع سے انگریزی میں تعلیم دیں گے"
۔۔۔۔
یار، خدا کے بندو! انگریزی اُن کی مادری زبان ہے، ہمارے بچوں کی نہیں۔ اگر کوئی ایک ڈیڑھ فی صد لوگ باہر چلے گئے ہیں اور ان کا ایک ڈیڑھ فی صد امریکا برطانیہ وغیرہ میں رہ رہا ہے تو اُن کے لئے ان کی اپنی ترجیحات ہیں، سو وہ اپنا لیں؛ پوری قوم کے بچوں کو تو مشقت میں نہ ڈالیں۔
۔۔۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ذریعۂ تعلیم
جب کوئی زبان آتی ہے،اپنے ساتھ اپنی ثقافت ضرور لاتی ہے۔ہم سب موجودہ صورتحال سے بخوبی واقف ہیں ۔ ہم آدھے تیتر آدھے بٹیر بن گئے ہیں۔ اِس صورتحال میں اگر ہم ایک ایسا سکول بناتے ہیں جہاں ذریعۂ تعلیم اردو ہو اور انگریزی سکھانے کا انتظام نہ ہو تو ۔۔۔۔پُورے ملک میں مختلف صورتحال کی وجہ سے بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا کرے گا،کرنا پڑتا رہے گا۔اِس سکول سے فارغ ا لتحصیل بچے زندگی کے جس میدان میں جائیں گے،ان کا سامنا "ؐدوسرے" گروہ سے ہو گا اور یقیناََ اُنہیں کم تر سمجھا جائے گا۔
اِس لئے ذریعۂ تعلیم اردو ہی ہو لیکن انگریزی زبان سکھانے کا جامع نظام ہو۔
 
آخری تدوین:
اللہ تہاڈا بھلا کرے، جاسمن! سیانے بندے سیانیاں گلاں۔
انگریزی سے نفرت وغیرہ جیسی کوئی بات میرے ذہن میں بھی نہیں تھی، نہ ہے۔ خود میں نے ایم اے انگریزی ادب کی تیاری کی، وہ الگ بات کہ امتحان نہ دے سکا، کہ زندگی کئی اور امتحانات لے آئی تھی۔
میرا مؤقف یہ ہے کہ صوبائی اور علاقائی سطحوں پر ابتدائی تعلیم انہی صوبائی اور علاقائی زبانوں میں دی جائے اور اردو کو ساتھ ساتھ چلایا جائے۔ سیاسی نعروں اور رسمی اعلانات سے قطع نظر اردو ہماری سانجھ ہے۔ تقریباً چھٹی جماعت سے اردو کو ذریعہ تعلیم بھی بنا دیا جائے؛ انگریزی بطور مضمون (یا اضافی زبان) شامل کی جائے۔ عربی اور فارسی کی بجا اہمیت کو تسلیم کیا جائے، ان کو بھی متوازی طور پر لایا جائے؛ طالب علم کو چناؤ کا موقع دیا جائے۔ ریاضی اور دیگر سائنسی علوم کا تعارف پرائمری سکول میں ہو جانا چاہئے، مفصل تعلیم ہائی سکول میں دی جائے۔ کالج میں پہنچ کر طالبِ علم کو اپنے مستقبل کے میدان کا چناؤ کرنے کا موقع دیا جائے۔ یونیورسٹی میں جا کر تخصیص ہو جاتی ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
اس احقر کی حقیر پرتقصیررائے کچھ یوں ہے۔
  1. اسکول کھولنے کی بجائے ”اکیڈمی“ کھولئے۔ اگر اسکول کھولا گیا اور اسے رجسٹرڈ و رکگنائزڈ کرایا گیا (جو کرانا ہی پڑے گا) توپھر قانوناً اسکول کو حکومت پاکستان کی پالیسی کے مطابق چلانا پڑے گا اور آپ اس میں کوئی ”نیا کارنامہ“ دکھلانے سے قاصر رہیں گے)
  2. ایک ایسی ”اکیڈمی“ کھولئے جس میں چوتھی جماعت پاس بچے “داخل“ کئے جائیں اور بچوں کو 6 سال میں میٹرک سائنس اے گریڈ کی ”گارنٹی“ دی جائے۔
  3. اکیڈمی کے پہلے سال صرف تین مضامین پڑھائے جائیں اردو، انگریزی اور قرآنی عربی ۔ اردو اور انگریزی کے مضامین میں پانچویں، چھٹی، وغیرہ کا نصاب پڑھایا جائے۔
  4. اکیڈمی کے دوسرے سال گورنمنٹ کے منظور شدہ نصاب برائے پانچویں+ چھٹی اور تیسرے سال ساتویں + آٹھویں کے نصاب کو ”یکجا“ کرکے پڑھایا جائے۔ یعنی سلیکٹیڈ اسباق اس طرح پڑھایا جائے کہ دو سال کا نصاب ایک سال میں۔ ہر سال کے نصاب کے ساتھ ساتھ قرآنی عربی لازماً ہو۔ حتیٰ کہ اکیڈمی کے چار سال کی تعلیم کے بعد طالب علم قرآن کو عربی میں پڑھ کر اس کے سادہ معنی کو اسی طرح سمجھ سکے، جیسا کہ مڈل کلاس کا طالب علم اردو اور انگریزی کی کتابیں پڑھ کر ”سمجھ“ لیتا ہے۔
  5. اکیڈمی کے چوتھے سال، نویں + دسویں جماعت سائنس کے کورسز پڑھائے جائیں۔ سائنس اور میتھ لازماً انگریزی میں پڑھائے جائیں۔
  6. اکیڈمی کے پانچویں اور چھٹے سال کے (یعنی نویں اور دسویں کے طالب علموں) کا کسی منظور شدہ اسکول کی معرفت بورڈ سے رجسٹریشن کروایا جائے۔ ایسی کسی بھی درمیانے درجے کے نجی اسکول سے پہلے سے معاہدہ کرلیا جائے کہ ”ہماری اکیڈمی“ کی نویں اور دسویں جماعت اُن کے اسکول کے ایک الگ ”سیکشن“ کی حیثیت سے ہو۔ جس کا حاضری رجسٹر بھی اسی اسکول کا ہو۔ یہ طالب علم ”پریکٹیکل“ وغیرہ اسی اسکول سے کریں۔ مگر ان کی ”کلاسز“ اکیڈمی میں ہی ہوں۔
  7. اکیڈمی کے نویں جماعت کا طاب علم، نویں جماعت کا کورس سابقہ سال بھی پڑھ چکا ہوگا۔ لہٰذا اس سال وہ ابتدا ہی سے امتحان کی تیاری کرے گا۔ یہی حال دسویں جماعت کا بھی ہوگا۔ وہ بھی یہ کورسز پہلے پڑھ چکا ہوگا
  8. اگر اساتذہ کی ٹیم اچھی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس اکیڈمی کے بیشتر طالب علم چھ سالہ کورسز کے اختتام پر: اے گریڈ سائنس میں پاس ہوں۔ انگریزی میں اتنے رواں ہون کہ انٹر اور اس سے آگے پروفیشنل کلاسز میں روانی سے تعلیم حاصل کرسکیں۔ اور عربی میں بھی اتنی قابلیت ھاصل کر سکیں کہ قرآن، اور بخاری و مسلم مختصر کو براہ راست عربی میں پڑھ سکیں
  9. جب تک پاکستان مین اردو کو سرکاری زبان قرار نہین دیا جاتا، طالب علمون کو اردو میں پڑھانا، اسے ناکارہ بنانے کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ یہ احقر اردو کالج (اب یونیورسٹی) کے کلیہ فنون و سائنس دونوں میں ماسٹرز کا طالب علم رہا ہے۔ اور کالج مجلہ کا مدیر بھی۔ اس دوران ہم نے ”اردو ذریعہ تعلیم“ کی حمایت مین بہت کچھ لکھا بھی۔ لیکن اس مادر علمی سے فراغت کے بعد گزشتہ 35 برسوں کی عملی زندگی (جو بیشتر کثیر القومی اداروں میں گزری) سے یہ سبق سیکھا کہ موجودہ صورتحال میں اگر ایک ”کامیاب زندگی“ گزارنا ہے، اچھی ملازمت ھاصل کرنا ہے، فوج، سول بیوروکریسی میں جانا ہے، کامیاب وکیل بننا ہے یا کثیر القومی اداروم میں جانا ہے تو آپ کی انگریزی میں قابلیت (تحریر و تقریر دونوں) کا عمدہ ہونا ضروری ہے۔
  10. اس کاکہ میں رنگ بھرکر ، چوتھی جماعت کے طالب علم کو 6 سال کے ”معمول کے عرصے“ میں آپ اسے قرآن سے جورے رکھ کر ایک اچھا مسلمان بھی بنا سکتے ہیں اور انگریزی + میٹرک سائنس میں اے گریڈ کی تعلیمی قابلیت دلوا کر اسے آئندہ داکٹر، انجیئر، وکیل، ایم بی اے وغیرہ کے کسی بھی شعبہمین کامیاب انسان بنا سکتے ہیں۔
  11. یہ ایک ”دیوانے کا خواب“ ہے۔ اگر زندگی نے وفا کی تو ریٹائرمنٹ کے بعد ایسا ہی ایک پروجیکٹ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ ہمارے اس ”خیال“ سے ایک شیخ القرآن و حدیث بھی متفق ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں سے ایک دارالعلوم سے وابستہ ہین۔ اور چاہتے ہیں کہ درس نظامی + میٹرک سائنس کو ملا کر ایسے طلبا تیار کئے جائیں جو دینی اور عصری دونوں تعلیم سے بہرہ ور ہون۔
  12. واضح رہے کہ کچھ اسی قسم کا پروجیکٹ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی چلا رہے ہیں۔ ان کے اسکول مین او لیول اور اے لیول کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کے اسکول سے اے لیول کرنے والا آکسفورڈ یونیورسٹی مین بھی داکلہ کا ”اہل“ ہوتا ہے اور مدینہ یونیورسٹی میں بھی۔ آکسفورڈ جاکر وہ کسی بھی عصری علم میں مہارت حاصل کرسکتا ہے اور مدینہ یونیورسٹی جاکر کسی بھی دینی شعبہ علم کا عالم بن سکتا ہے۔ مزید تفصیلات ڈاکٹر ذاکر کے ادارے سے حاصل کی جاسکتی ہیں
 

فلک شیر

محفلین
اس احقر کی حقیر پرتقصیررائے کچھ یوں ہے۔
  1. اسکول کھولنے کی بجائے ”اکیڈمی“ کھولئے۔ اگر اسکول کھولا گیا اور اسے رجسٹرڈ و رکگنائزڈ کرایا گیا (جو کرانا ہی پڑے گا) توپھر قانوناً اسکول کو حکومت پاکستان کی پالیسی کے مطابق چلانا پڑے گا اور آپ اس میں کوئی ”نیا کارنامہ“ دکھلانے سے قاصر رہیں گے)
  2. ایک ایسی ”اکیڈمی“ کھولئے جس میں چوتھی جماعت پاس بچے “داخل“ کئے جائیں اور بچوں کو 6 سال میں میٹرک سائنس اے گریڈ کی ”گارنٹی“ دی جائے۔
  3. اکیڈمی کے پہلے سال صرف تین مضامین پڑھائے جائیں اردو، انگریزی اور قرآنی عربی ۔ اردو اور انگریزی کے مضامین میں پانچویں، چھٹی، وغیرہ کا نصاب پڑھایا جائے۔
  4. اکیڈمی کے دوسرے سال گورنمنٹ کے منظور شدہ نصاب برائے پانچویں+ چھٹی اور تیسرے سال ساتویں + آٹھویں کے نصاب کو ”یکجا“ کرکے پڑھایا جائے۔ یعنی سلیکٹیڈ اسباق اس طرح پڑھایا جائے کہ دو سال کا نصاب ایک سال میں۔ ہر سال کے نصاب کے ساتھ ساتھ قرآنی عربی لازماً ہو۔ حتیٰ کہ اکیڈمی کے چار سال کی تعلیم کے بعد طالب علم قرآن کو عربی میں پڑھ کر اس کے سادہ معنی کو اسی طرح سمجھ سکے، جیسا کہ مڈل کلاس کا طالب علم اردو اور انگریزی کی کتابیں پڑھ کر ”سمجھ“ لیتا ہے۔
  5. اکیڈمی کے چوتھے سال، نویں + دسویں جماعت سائنس کے کورسز پڑھائے جائیں۔ سائنس اور میتھ لازماً انگریزی میں پڑھائے جائیں۔
  6. اکیڈمی کے پانچویں اور چھٹے سال کے (یعنی نویں اور دسویں کے طالب علموں) کا کسی منظور شدہ اسکول کی معرفت بورڈ سے رجسٹریشن کروایا جائے۔ ایسی کسی بھی درمیانے درجے کے نجی اسکول سے پہلے سے معاہدہ کرلیا جائے کہ ”ہماری اکیڈمی“ کی نویں اور دسویں جماعت اُن کے اسکول کے ایک الگ ”سیکشن“ کی حیثیت سے ہو۔ جس کا حاضری رجسٹر بھی اسی اسکول کا ہو۔ یہ طالب علم ”پریکٹیکل“ وغیرہ اسی اسکول سے کریں۔ مگر ان کی ”کلاسز“ اکیڈمی میں ہی ہوں۔
  7. اکیڈمی کے نویں جماعت کا طاب علم، نویں جماعت کا کورس سابقہ سال بھی پڑھ چکا ہوگا۔ لہٰذا اس سال وہ ابتدا ہی سے امتحان کی تیاری کرے گا۔ یہی حال دسویں جماعت کا بھی ہوگا۔ وہ بھی یہ کورسز پہلے پڑھ چکا ہوگا
  8. اگر اساتذہ کی ٹیم اچھی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس اکیڈمی کے بیشتر طالب علم چھ سالہ کورسز کے اختتام پر: اے گریڈ سائنس میں پاس ہوں۔ انگریزی میں اتنے رواں ہون کہ انٹر اور اس سے آگے پروفیشنل کلاسز میں روانی سے تعلیم حاصل کرسکیں۔ اور عربی میں بھی اتنی قابلیت ھاصل کر سکیں کہ قرآن، اور بخاری و مسلم مختصر کو براہ راست عربی میں پڑھ سکیں
  9. جب تک پاکستان مین اردو کو سرکاری زبان قرار نہین دیا جاتا، طالب علمون کو اردو میں پڑھانا، اسے ناکارہ بنانے کے مترادف ہے۔ واضح رہے کہ یہ احقر اردو کالج (اب یونیورسٹی) کے کلیہ فنون و سائنس دونوں میں ماسٹرز کا طالب علم رہا ہے۔ اور کالج مجلہ کا مدیر بھی۔ اس دوران ہم نے ”اردو ذریعہ تعلیم“ کی حمایت مین بہت کچھ لکھا بھی۔ لیکن اس مادر علمی سے فراغت کے بعد گزشتہ 35 برسوں کی عملی زندگی (جو بیشتر کثیر القومی اداروں میں گزری) سے یہ سبق سیکھا کہ موجودہ صورتحال میں اگر ایک ”کامیاب زندگی“ گزارنا ہے، اچھی ملازمت ھاصل کرنا ہے، فوج، سول بیوروکریسی میں جانا ہے، کامیاب وکیل بننا ہے یا کثیر القومی اداروم میں جانا ہے تو آپ کی انگریزی میں قابلیت (تحریر و تقریر دونوں) کا عمدہ ہونا ضروری ہے۔
  10. اس کاکہ میں رنگ بھرکر ، چوتھی جماعت کے طالب علم کو 6 سال کے ”معمول کے عرصے“ میں آپ اسے قرآن سے جورے رکھ کر ایک اچھا مسلمان بھی بنا سکتے ہیں اور انگریزی + میٹرک سائنس میں اے گریڈ کی تعلیمی قابلیت دلوا کر اسے آئندہ داکٹر، انجیئر، وکیل، ایم بی اے وغیرہ کے کسی بھی شعبہمین کامیاب انسان بنا سکتے ہیں۔
  11. یہ ایک ”دیوانے کا خواب“ ہے۔ اگر زندگی نے وفا کی تو ریٹائرمنٹ کے بعد ایسا ہی ایک پروجیکٹ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ ہمارے اس ”خیال“ سے ایک شیخ القرآن و حدیث بھی متفق ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں سے ایک دارالعلوم سے وابستہ ہین۔ اور چاہتے ہیں کہ درس نظامی + میٹرک سائنس کو ملا کر ایسے طلبا تیار کئے جائیں جو دینی اور عصری دونوں تعلیم سے بہرہ ور ہون۔
  12. واضح رہے کہ کچھ اسی قسم کا پروجیکٹ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی چلا رہے ہیں۔ ان کے اسکول مین او لیول اور اے لیول کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کے اسکول سے اے لیول کرنے والا آکسفورڈ یونیورسٹی مین بھی داکلہ کا ”اہل“ ہوتا ہے اور مدینہ یونیورسٹی میں بھی۔ آکسفورڈ جاکر وہ کسی بھی عصری علم میں مہارت حاصل کرسکتا ہے اور مدینہ یونیورسٹی جاکر کسی بھی دینی شعبہ علم کا عالم بن سکتا ہے۔ مزید تفصیلات ڈاکٹر ذاکر کے ادارے سے حاصل کی جاسکتی ہیں
تفصیلی جواب کے لیے شکرگزار ہوں یوسف بھائی ۔
دلچسپ ترتیب سامنے لائے ہیں آپ۔
یہ ڈاکٹر ذاکر صاحب والے ادارہ والی بات بھی دل کو لگی ہے، کیونکہ ان کے ادارے کے طلبا ء و طالبات کافی پراعتماد اور مطلوب خصوصیات کے حامل دکھائی دیے ہیں مجھے ۔ لیکن یہ کہیے، کہ آپ نے اس ضمن میں ابتدائی کام کا کوئی خاکہ ترتیب دیا ہے ابھی تک؟
یا اوپر والے خاکہ میں کہیں تھوڑے بہت رنگ بھرے ہوئے آپ نے دیکھے ہوں؟
 

فلک شیر

محفلین
اللہ تہاڈا بھلا کرے، جاسمن! سیانے بندے سیانیاں گلاں۔
انگریزی سے نفرت وغیرہ جیسی کوئی بات میرے ذہن میں بھی نہیں تھی، نہ ہے۔ خود میں نے ایم اے انگریزی ادب کی تیاری کی، وہ الگ بات کہ امتحان نہ دے سکا، کہ زندگی کئی اور امتحانات لے آئی تھی۔
میرا مؤقف یہ ہے کہ صوبائی اور علاقائی سطحوں پر ابتدائی تعلیم انہی صوبائی اور علاقائی زبانوں میں دی جائے اور اردو کو ساتھ ساتھ چلایا جائے۔ سیاسی نعروں اور رسمی اعلانات سے قطع نظر اردو ہماری سانجھ ہے۔ تقریباً چھٹی جماعت سے اردو کو ذریعہ تعلیم بھی بنا دیا جائے؛ انگریزی بطور مضمون (یا اضافی زبان) شامل کی جائے۔ عربی اور فارسی کی بجا اہمیت کو تسلیم کیا جائے، ان کو بھی متوازی طور پر لایا جائے؛ طالب علم کو چناؤ کا موقع دیا جائے۔ ریاضی اور دیگر سائنسی علوم کا تعارف پرائمری سکول میں ہو جانا چاہئے، مفصل تعلیم ہائی سکول میں دی جائے۔ کالج میں پہنچ کر طالبِ علم کو اپنے مستقبل کے میدان کا چناؤ کرنے کا موقع دیا جائے۔ یونیورسٹی میں جا کر تخصیص ہو جاتی ہے۔
اتنی زبانوں (اردو،عربی، فارسی،انگریزی۔۔۔اور بعض کے بقو ل چینی بھی ) کو کیسے ایڈجسٹ کیا جائے مختلف مراحل میں؟
اس پہ کچھ رہنمائی فرمائیں آسی صاحب ۔۔۔براہ کرم
 
Top