سہرے کے پھول

دوئم : میرے پیش نظر صرف یہ مقصد تھا کہ اگر شرعیت نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے تو اس کے ساتھ کڑی شرائط عاید کی ہیں کہ ”اگر تم انصاف کر سکتے ہو“ ممکن کے کہ کم علمی کی وجہ سے میں اپنا ماضی الضمیر وضاحت سے بیان نہ کر پایا ہوں
سوم: آپ کی بات بجا ہے یہ کم علمی کی وجہ سے ہوا اور میں نے اسے حذف کروا دیا ہے اس کی وجہ میں ایک مراسلے میں بیان کر چکا ہوں۔
چہارم: استاد جی عروض سے ہمیں معاف ہی رکھیں یہ ہمارے بس کی بات نہیں :noxxx:


دوم: وہی اس فقیر نے عرض کیا تھا کہ بات بن نہیں پائی، اور کوئی گرفت کرنا مقصود نہیں تھا۔
سوم: اس نکتے پر اس فقیر کی فروگزاشتیں بھی احباب دیکھ چکے۔ اللہ کریم ہمارا حامی و ناصر ہو۔
چہارم: محمد خلیل الرحمٰن صاحب کا شکریہ ادا کر دیجئے گا۔
 
سید شہزاد ناصر صاحب کا خوبصورت اور پُر مزاح مضمون حاضر ہے۔ ٹائیپوز کی درستی کے بعد۔ ان کی اجازت ہوگی تو اشعار پر ہماری صلاح بھی اس میں شامل کردیں گے۔




مرزا کو لاکھ سمجھایا، مرزا اب تم پچاس سے اوپرہو، ماشاءاللہ آٹھ بچوں کے متفق علیہ باپ اور ایک عدد تندرست اور پائیدار بیوی کے باضابطہ شوہر بھی۔تو پھرآخر کیا سنک سمائی جو شادی کی جی میں آئی وہ بھی کمسن اور کنواری سےجبکہ تمہارے اپنے گھر میں جوان بیٹیاں ناکتخدا بیٹھی ہیں۔


میاں ان کی شادی کی فکر کرو جن کا وقت ہے، اور تمہاری مذہبی اور سماجی ذمہ داری بھی ہےاور تم ہو کہ دولہا بننے کے شوق میں چلے ہو عقد ثانی کرنے، سبحان اللہ سٹھیا گئے ہو کیا؟ بھئی سوچو! دنیا کیا کہے گی، بناوٹی بتسی منہ میں ٹھونس، سفید بگلا سر خضابوں پتوا چلے ہو بیتی جوانی کو ڈھونڈنے اور عمر رفتہ کو آواز دینے۔ میری مانو تو اب عقبیٰ کی سوچو۔ نماز روزہ میں دل لگاؤ اور بھائی! بہت ہی لاچار ہو تو حج کو چلے جاؤ ، جی سنبھل جائے گا۔ ویسے اگر سہرے بارات باجے گاجے کی ہی دل کو لگی ہے تو لڑکوں کی شادی کر ڈالو، بہویں لاؤ ، چہل پہل ہو جائے گی ، گھر بھر دمک جائے گا ۔بس دیکھا کرنا ۔پوتے پوتیاں ہوں گی ،کھلایا کرنا۔ اس عمر کی یہ ہی دلچسپیاں ہوتی ہیں۔ خدار اِ س جہالت سے باز آو یہ تمہارا سہرا سجانے اور دولہا بننے کا وقت نہیں ہے ، ہرگز نہیں ہے۔


مگر مرزا کہاں ماننے والے تھے ۔مسکرائے اور منہ پوپلا کر کہنے لگے ، ’’واہ ! ’جن پتوں پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘ ، میاں مجھے تو تم سے بہت امیدیں تھیں اور تم ہو کہ بات بات میں اُچھالتے ہو میرے بڑھاپے کو اور یوں اعلانیہ میری جوانی کے دشمن ہوئے ہو ۔کبھی بچوں کو گنتے ہو ،کبھی بیوی کو، کوئی تو ڈھنگ کی بات کیا کرو نا!، لو میں پوچھتا ہوں خدا نے انسان کو جنت بدر کیوں کیا دنیا بسانے کے لئے نا، پھر تم کون ہوتے ہو منع کرنے والے۔


مداخلت فی الدین ہوئی یہ تو صریحاً،اور پھر میری تو محض ابھی تیسری شادی ہے، پہلی تم جانو، زچگی میں مر گئی ”انا للہِ وانا اِلیہ راجعون“ دوسری اللہ رکھے ہے ، مگر کب تک چلے گی ؟ قلت خون کی مریض ہے اور دل کی بھی، آٹھ بچے کون سنبھالے گا؟ کیا پتہ کب کیا ہو جائے اسی لئے سوچا ہے پہلے ہی ایک اور شادی کر ڈالوں جانیوالی کے بچے آنے والی ماں سے مانوس ہو جائیں گے اور کوئی دقت نہیں ہو گی۔ ہاں چار دن میری خدمت کی سعادت اور کما لے گی، ہی ہی ہی ۔ اور سنو مجھے بوڑھا مت سمجھو،۔ روز کسرت کرتا ہوں۔ ابھی رگ پٹھوں میں بہت دم ہے ، دانت نزلے سے گر گئے ، اسی کمبخت نے بال بھی سفید کر دئے۔ بال تو اجکل دس سال کے بچے کے بھی سفید ہو جاتے ہیں ، غذاجو خالص نہ ہوئی نا! نہ آٹا گھی ڈھنگ کا، نہ دودھ مکھن ۔بال سفید نہ ہوں تو کیا ہو؟ اور میاں بڑھاپا نام ہے آرزوں کی موت کا اور تمناؤں کے فقدان کا ۔ اس لئے تم نصحیتوں سے ہاتھ اٹھاؤ، نہ کار خیر میں روڑے اٹکاؤ اور نہ ہی مجھے تارکِ دنیا بناؤ ۔ اللہ کو تخریب پسند نہیں۔ گھر میں اللہ کا فضل ہے کھانے دانے کی کمی نہیں ، ایک نفر اور سہی ۔ ہم تو شادی ضرور کریں گے۔ ہم جان گئے کہ مرزا تُل گئے ہیں ، اب نصیحت لاحاصل اور دلیل بیکار ہے۔ مرزا ہمیشہ سے دھن کے پکے تو تھے ہی ، بس خاموش ہوتے ہی بنی۔


اس جوابِ جاہلاں باشد خموشی کو مرزا ”الخاموشی نیم رضا“ سمجھ بیٹھے اور چمک کر بولے ای شاباش! یہ ہوئی نا بات، اب آئے ہو راہِ راست پر،سن لو کہ سب انتظام تمہیں اور خان صاحب کو کرنے ہوں گے ۔کہہ دینا ان سے ، بس اب کچھ نہیں سنوں گا اور میر صاحب سہرا لکھیں گے ۔ سہرا ضرور ہو گا ۔ وہی پھڑکتا ہوا ”جوان دُولہا جوان سہرا“ والا جس کا مقطع تھا ”دولہا دلہن کے سر ہو شیر و شکر کا سہرا“ یہ ہوئی نا بات ، ہی ہی ہی۔ سہرا بھی تم ہی باندھو گے ۔سارا انتظام بھی تم کو ہی کرنا ہو گا ۔میں کچھ نہیں کروں گا دولہا جو ٹہرا ،ہی ہی ہی۔


خان صاحب میر صاحب شیخ جی سبھی نے مرزا کو وقتاً فوقتاً ، اشارہ کنایہ سے سمجھایا مگر وہ مرزا ہی کیا جو مان کر دیتے اور باز آ جاتے۔ جب یقین ہو گیا کہ مرزا یہ تیسرا عقدِ شرعی کر کے ہی چھوڑیں گے اور جب سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھتے بھالتے ایک جگہ لڑکی والے بھی تیار ہو گئے مرزا کو رشتہ دینے پر ، تو سب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔گویا میدان مرزا کے ہاتھ رہا۔


شادی کی تیاریاں خوب زورو شور سے شروع ہو گئیں ۔بارات دوستوں نے دھوم دھام سے نکالی ۔موٹروں گاڑیوں ، پھولوں ہاروں، باجوں روشنیوں، قندیلوں ، گولوں پٹاخوں کی وہ ریل پیل کہ ”دیکھا کرے کوئی“۔ اور سچ تو یہ ہے کہ مرزا بہت ہی ”دولہا“ لگ رہے تھے ۔ یاروں نے اپنے ہاتھ سے وہ میک اپ کرایا کہ سبحان اللہ ۔ مجال کیا جو بالوں میں سے ایک بھی سفید کھونٹی جھانک رہی ہو۔ ابٹنوں غازوں اور کریموں کے سینکڑوں قدیم و جدید نسخے مرزا خود ہی جانتے تھے جو انہوں نے اسی دن کے لئے رکھ چھوڑے تھے،۔ اس قدیم اور جدید امتزاج نے واقعی”جوان دولہا کے ساتھ جوان سہرا“ والی بات پیدا کر دی تھی، سہرا رُخِ مرزا پر جھول رہا تھا اور سہروں کی روایتی اصطلاح کے مطابق رُخِ نوشہ کو چوم رہا تھا۔

سہرے کی لڑیوں کی اوٹ سے رخُ مرزا کی جلوہ پاشی اور حسنِ پچاس سالہ کی تجلی چھن چھن کردیکھنے والوں کو ”ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ“پر آمادہ کر رہی تھی۔ دیکھنے والے حیران تھے کہ یا مظہر العجائب کیا یہ وہی اپنے اصلی اور خالص مرزا صاحب ہیں کہیں بدل تو نہیں گئے۔بارات کی روانگی میں ابھی تاخیر تھی۔ خان صاحب بولے ”ہاں بھئی میر صاحب ذرا سہرا ہو جائے“۔


میر صاحب نے جھک کر مرزا سے اجازت لی ، جیسے پٹھے اکھاڑے میں اترتے وقت استاد سے اِذن مانگتے ہیں اور بعد تمکنت سٹیج پر لگے ہوئے مائکروفون کی طرف بڑھے۔ حاضرین پر ایک نگاہِ غلط انداز ڈالی ، ذرا تن کر شیروانی کے بٹنوں پر ہاتھ پھیرا ، پھر دائیں جیب سے ایک کاغذ نکالا، داڑھی کو قدرے کھجلایا ، مجمع پر ایک پھرپور نظر ڈالی، دولہا کو میٹھی میٹھی نظروں سے گھورا ، کھنکارے ، مائکروفون کو چٹکی سے بجایا، کھنکارے اور کھنکتی ہوئی آواز میں گویا ہوئے ”حضرات سہرا عرض کرتا ہوں“۔

دیکھ کر میک اپ نوشاہ کا مسکرائے سہرے کے پھول

کھلکھلا کر ہنس پڑے غنچے بن گئے سہرے کے پھول

دیکھو قدرت کا تماشا آج یہ سہرے کے پھول

بن رہے ہیں عقد ثالث کے گواہ سہرے کے پھول

ایک بیوی آٹھ بچے سات ماہ کا پیٹ میں

اتنی مخلوقات کے ہو گئے ہیں دشمن سہرے کے پھول

بیوی بچے سب پریشان، احباب حیران ہیں

پھول تھے جو لحد کے، آ بنے سہرے کے پھول

سہرا باندھے اک بڈھا بیٹھا ہے کیسے پھول پھول

شرم سے پانی پانی ہیں سہرے کے پھول


سہرا تو ابھی ڈھیروں باقی تھا مگر مرزا کی برداشت جواب دے گئی ، آداب نوشاہی کو یکسربھلاکر، ایک ہی جھٹکے سے سہرا نوچ کر پھینک دیا اور بے تحاشا میر صاحب پر کوندے کی طرح لپکے۔


میر صاحب بھی غافل نہیں تھے ۔ مائک چھوڑ کر چوکڑیاں بھرنے لگے ۔ شیخ جی نے مرزا کو پکڑنا چاہا مگر ایک زبردست دو ہتھڑ کھایا ۔ دوسرے کی نوبت ہی نہ آئی ۔ مرزا بری طرح ہانپنے لگے اور لگے اول فول بکنے۔ ”ارے تم سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہو، سب بدمعاش ہو، دوست کے پائجامے میں ۔۔نہیں نہیں جامے میں دشمن ہو، سب گیدی ہو ، گیدی کے بچے ہو ، نالت ہے تم سب پر ، نالت ہے ایسی دوستی پر“۔ الغرض جو منہ میں آیا بکتے رہے ۔ خانصاحب، میر صاحب، شیخ جی وغیرہ کا کہیں پتہ نہ تھا باقی دوست احباب بھی سٹک گئے ۔ ہم نے بھی فلاح اسی میں پائی کہ مرزا کے ہتھے نہ چڑھ جائیں ۔


اس قصے میں مرزا کا کافی خرچہ ہو گیا اورمرزاایک عرصہ تک ناراض رہے ۔ بہرحال دو کام خیر کے ہو گئے ۔ایک تو یہ کہ ایک نوخیز دوشیزہ ، عقد ثالث کے آتش کدے پر شرعی طور پر ستی ہونے سے بچ گئی دوسرا یہ کہ مرزا نے پلٹ پلٹ کر عمر رفتہ کو آواز دینا چھوڑ دیا ، عطر سرمہ وسمہ کاجل ، مہندی پان ، قوام بیڑی، سگریٹ اور جوانی کے کایا کلپ والے نسخوں اور معجونوں کے اسراف سے ہمیشہ کے لئے نجات مل گئی ۔ خرچ اخراجات، گھر سے غیر حاضری ، بیوی بچوں سے بے توجہی ، گھریلو ذمہ داریوں سے پہلوتہی اور دروازے کھڑکیوں سے تاکا جھانکی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جھگڑوں اور گھریلو تن تناؤ میں خاصا فرق آ گیا اور مرزا پھر سے بچوں کو شفقت کی نگاہ اور بیوی کو شرارت کی نظر سے دیکھنے لگے گویا ایک اجڑتا ہوا گھر پھرسے بس گیا۔


موج ہوائے تیز رو ریت کو گُد گُدا گئی
مجھ کو بھٹکتے دیکھ کر ہنسنے لگے سراب بھی
 

شوکت پرویز

محفلین
دیکھ کر نوشہ کا میک اپ ہنس دئیے سہرے کے پھول
کھلکھلا کر ہنس پڑے غنچہ بنے سہرے کے پھول

عمدہ !!
دیکھو قدرت کا تماشا آج سہرےمیں سجے

عقدِ ثالث کی گواہی دے چکے سہرے کے پھول
زبردست!!
یہاں شاید "رہے" زیادہ مناسب ہو، کیونکہ عقدِ ثالث ابھی پورا نہیں ہوا ہے، سیریمونی جاری ہے۔۔۔ :)
ایک بیوی سات بچے آٹھواں ہے پیٹ میں
دشمن اتنے دوستوں کے ہو گئے سہرے کے پھول
زبردست !!
بیوی بچے سب پریشاں دوست بھی حیران ہیں
پھول تھے جو لحد کےوہ آ بنے سہرے کے پھول
بہت ہی اعلیٰ !!
شاید یہاں قبر کرنا پڑے۔۔۔ :)
سہرا باندھے اک بڈھا شان سے بیٹھا ہوا
شرم سےہیں پانی پانی یہ مرے سہرے کے پھول
طنزپر خاتمہ، زبردست !!
اسے ایک کر دیں :)
 
عمدہ !!

زبردست!!
یہاں شاید "رہے" زیادہ مناسب ہو، کیونکہ عقدِ ثالث ابھی پورا نہیں ہوا ہے، سیریمونی جاری ہے۔۔۔ :)

زبردست !!

بہت ہی اعلیٰ !!
شاید یہاں قبر کرنا پڑے۔۔۔ :)

طنزپر خاتمہ، زبردست !!
اسے ایک کر دیں :)


شوکت پرویز بھائی!
آپ کی اصلاح کا شکریہ ، لیکن داد تو سید شہزاد ناصر بھائی کے حصے میں آنی چاہیے کہ ان ہی کا کلام ہے۔ہم نے تو بس اپنی صلاح دی ہے۔
 
دوم: وہی اس فقیر نے عرض کیا تھا کہ بات بن نہیں پائی، اور کوئی گرفت کرنا مقصود نہیں تھا۔
سوم: اس نکتے پر اس فقیر کی فروگزاشتیں بھی احباب دیکھ چکے۔ اللہ کریم ہمارا حامی و ناصر ہو۔
چہارم: محمد خلیل الرحمٰن صاحب کا شکریہ ادا کر دیجئے گا۔
ممنون ہوں استاد جی اس رہنمائی کے لئے
اللہ آپ کو دنیا جہاں کی سعادتیں عطا فرمائے آمین
 
سید شہزاد ناصر صاحب کا خوبصورت اور پُر مزاح مضمون حاضر ہے۔ ٹائیپوز کی درستی کے بعد۔ ان کی اجازت ہوگی تو اشعار پر ہماری صلاح بھی اس میں شامل کردیں گے۔








مرزا کو لاکھ سمجھایا، مرزا اب تم پچاس سے اوپرہو، ماشاءاللہ آٹھ بچوں کے متفق علیہ باپ اور ایک عدد تندرست اور پائیدار بیوی کے باضابطہ شوہر بھی۔تو پھرآخر کیا سنک سمائی جو شادی کی جی میں آئی وہ بھی کمسن اور کنواری سےجبکہ تمہارے اپنے گھر میں جوان بیٹیاں ناکتخدا بیٹھی ہیں۔




میاں ان کی شادی کی فکر کرو جن کا وقت ہے، اور تمہاری مذہبی اور سماجی ذمہ داری بھی ہےاور تم ہو کہ دولہا بننے کے شوق میں چلے ہو عقد ثانی کرنے، سبحان اللہ سٹھیا گئے ہو کیا؟ بھئی سوچو! دنیا کیا کہے گی، بناوٹی بتسی منہ میں ٹھونس، سفید بگلا سر خضابوں پتوا چلے ہو بیتی جوانی کو ڈھونڈنے اور عمر رفتہ کو آواز دینے۔ میری مانو تو اب عقبیٰ کی سوچو۔ نماز روزہ میں دل لگاؤ اور بھائی! بہت ہی لاچار ہو تو حج کو چلے جاؤ ، جی سنبھل جائے گا۔ ویسے اگر سہرے بارات باجے گاجے کی ہی دل کو لگی ہے تو لڑکوں کی شادی کر ڈالو، بہویں لاؤ ، چہل پہل ہو جائے گی ، گھر بھر دمک جائے گا ۔بس دیکھا کرنا ۔پوتے پوتیاں ہوں گی ،کھلایا کرنا۔ اس عمر کی یہ ہی دلچسپیاں ہوتی ہیں۔ خدار اِ س جہالت سے باز آو یہ تمہارا سہرا سجانے اور دولہا بننے کا وقت نہیں ہے ، ہرگز نہیں ہے۔




مگر مرزا کہاں ماننے والے تھے ۔مسکرائے اور منہ پوپلا کر کہنے لگے ، ’’واہ ! ’جن پتوں پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘ ، میاں مجھے تو تم سے بہت امیدیں تھیں اور تم ہو کہ بات بات میں اُچھالتے ہو میرے بڑھاپے کو اور یوں اعلانیہ میری جوانی کے دشمن ہوئے ہو ۔کبھی بچوں کو گنتے ہو ،کبھی بیوی کو، کوئی تو ڈھنگ کی بات کیا کرو نا!، لو میں پوچھتا ہوں خدا نے انسان کو جنت بدر کیوں کیا دنیا بسانے کے لئے نا، پھر تم کون ہوتے ہو منع کرنے والے۔




مداخلت فی الدین ہوئی یہ تو صریحاً،اور پھر میری تو محض ابھی تیسری شادی ہے، پہلی تم جانو، زچگی میں مر گئی ”انا للہِ وانا اِلیہ راجعون“ دوسری اللہ رکھے ہے ، مگر کب تک چلے گی ؟ قلت خون کی مریض ہے اور دل کی بھی، آٹھ بچے کون سنبھالے گا؟ کیا پتہ کب کیا ہو جائے اسی لئے سوچا ہے پہلے ہی ایک اور شادی کر ڈالوں جانیوالی کے بچے آنے والی ماں سے مانوس ہو جائیں گے اور کوئی دقت نہیں ہو گی۔ ہاں چار دن میری خدمت کی سعادت اور کما لے گی، ہی ہی ہی ۔ اور سنو مجھے بوڑھا مت سمجھو،۔ روز کسرت کرتا ہوں۔ ابھی رگ پٹھوں میں بہت دم ہے ، دانت نزلے سے گر گئے ، اسی کمبخت نے بال بھی سفید کر دئے۔ بال تو اجکل دس سال کے بچے کے بھی سفید ہو جاتے ہیں ، غذاجو خالص نہ ہوئی نا! نہ آٹا گھی ڈھنگ کا، نہ دودھ مکھن ۔بال سفید نہ ہوں تو کیا ہو؟ اور میاں بڑھاپا نام ہے آرزوں کی موت کا اور تمناؤں کے فقدان کا ۔ اس لئے تم نصحیتوں سے ہاتھ اٹھاؤ، نہ کار خیر میں روڑے اٹکاؤ اور نہ ہی مجھے تارکِ دنیا بناؤ ۔ اللہ کو تخریب پسند نہیں۔ گھر میں اللہ کا فضل ہے کھانے دانے کی کمی نہیں ، ایک نفر اور سہی ۔ ہم تو شادی ضرور کریں گے۔ ہم جان گئے کہ مرزا تُل گئے ہیں ، اب نصیحت لاحاصل اور دلیل بیکار ہے۔ مرزا ہمیشہ سے دھن کے پکے تو تھے ہی ، بس خاموش ہوتے ہی بنی۔




اس جوابِ جاہلاں باشد خموشی کو مرزا ”الخاموشی نیم رضا“ سمجھ بیٹھے اور چمک کر بولے ای شاباش! یہ ہوئی نا بات، اب آئے ہو راہِ راست پر،سن لو کہ سب انتظام تمہیں اور خان صاحب کو کرنے ہوں گے ۔کہہ دینا ان سے ، بس اب کچھ نہیں سنوں گا اور میر صاحب سہرا لکھیں گے ۔ سہرا ضرور ہو گا ۔ وہی پھڑکتا ہوا ”جوان دُولہا جوان سہرا“ والا جس کا مقطع تھا ”دولہا دلہن کے سر ہو شیر و شکر کا سہرا“ یہ ہوئی نا بات ، ہی ہی ہی۔ سہرا بھی تم ہی باندھو گے ۔سارا انتظام بھی تم کو ہی کرنا ہو گا ۔میں کچھ نہیں کروں گا دولہا جو ٹہرا ،ہی ہی ہی۔




خان صاحب میر صاحب شیخ جی سبھی نے مرزا کو وقتاً فوقتاً ، اشارہ کنایہ سے سمجھایا مگر وہ مرزا ہی کیا جو مان کر دیتے اور باز آ جاتے۔ جب یقین ہو گیا کہ مرزا یہ تیسرا عقدِ شرعی کر کے ہی چھوڑیں گے اور جب سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھتے بھالتے ایک جگہ لڑکی والے بھی تیار ہو گئے مرزا کو رشتہ دینے پر ، تو سب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔گویا میدان مرزا کے ہاتھ رہا۔




شادی کی تیاریاں خوب زورو شور سے شروع ہو گئیں ۔بارات دوستوں نے دھوم دھام سے نکالی ۔موٹروں گاڑیوں ، پھولوں ہاروں، باجوں روشنیوں، قندیلوں ، گولوں پٹاخوں کی وہ ریل پیل کہ ”دیکھا کرے کوئی“۔ اور سچ تو یہ ہے کہ مرزا بہت ہی ”دولہا“ لگ رہے تھے ۔ یاروں نے اپنے ہاتھ سے وہ میک اپ کرایا کہ سبحان اللہ ۔ مجال کیا جو بالوں میں سے ایک بھی سفید کھونٹی جھانک رہی ہو۔ ابٹنوں غازوں اور کریموں کے سینکڑوں قدیم و جدید نسخے مرزا خود ہی جانتے تھے جو انہوں نے اسی دن کے لئے رکھ چھوڑے تھے،۔ اس قدیم اور جدید امتزاج نے واقعی”جوان دولہا کے ساتھ جوان سہرا“ والی بات پیدا کر دی تھی، سہرا رُخِ مرزا پر جھول رہا تھا اور سہروں کی روایتی اصطلاح کے مطابق رُخِ نوشہ کو چوم رہا تھا۔


سہرے کی لڑیوں کی اوٹ سے رخُ مرزا کی جلوہ پاشی اور حسنِ پچاس سالہ کی تجلی چھن چھن کردیکھنے والوں کو ”ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ“پر آمادہ کر رہی تھی۔ دیکھنے والے حیران تھے کہ یا مظہر العجائب کیا یہ وہی اپنے اصلی اور خالص مرزا صاحب ہیں کہیں بدل تو نہیں گئے۔بارات کی روانگی میں ابھی تاخیر تھی۔ خان صاحب بولے ”ہاں بھئی میر صاحب ذرا سہرا ہو جائے“۔




میر صاحب نے جھک کر مرزا سے اجازت لی ، جیسے پٹھے اکھاڑے میں اترتے وقت استاد سے اِذن مانگتے ہیں اور بعد تمکنت سٹیج پر لگے ہوئے مائکروفون کی طرف بڑھے۔ حاضرین پر ایک نگاہِ غلط انداز ڈالی ، ذرا تن کر شیروانی کے بٹنوں پر ہاتھ پھیرا ، پھر دائیں جیب سے ایک کاغذ نکالا، داڑھی کو قدرے کھجلایا ، مجمع پر ایک پھرپور نظر ڈالی، دولہا کو میٹھی میٹھی نظروں سے گھورا ، کھنکارے ، مائکروفون کو چٹکی سے بجایا، کھنکارے اور کھنکتی ہوئی آواز میں گویا ہوئے ”حضرات سہرا عرض کرتا ہوں“۔


دیکھ کر میک اپ نوشاہ کا مسکرائے سہرے کے پھول


کھلکھلا کر ہنس پڑے غنچے بن گئے سہرے کے پھول


دیکھو قدرت کا تماشا آج یہ سہرے کے پھول


بن رہے ہیں عقد ثالث کے گواہ سہرے کے پھول


ایک بیوی آٹھ بچے سات ماہ کا پیٹ میں


اتنی مخلوقات کے ہو گئے ہیں دشمن سہرے کے پھول


بیوی بچے سب پریشان، احباب حیران ہیں


پھول تھے جو لحد کے، آ بنے سہرے کے پھول


سہرا باندھے اک بڈھا بیٹھا ہے کیسے پھول پھول


شرم سے پانی پانی ہیں سہرے کے پھول




سہرا تو ابھی ڈھیروں باقی تھا مگر مرزا کی برداشت جواب دے گئی ، آداب نوشاہی کو یکسربھلاکر، ایک ہی جھٹکے سے سہرا نوچ کر پھینک دیا اور بے تحاشا میر صاحب پر کوندے کی طرح لپکے۔




میر صاحب بھی غافل نہیں تھے ۔ مائک چھوڑ کر چوکڑیاں بھرنے لگے ۔ شیخ جی نے مرزا کو پکڑنا چاہا مگر ایک زبردست دو ہتھڑ کھایا ۔ دوسرے کی نوبت ہی نہ آئی ۔ مرزا بری طرح ہانپنے لگے اور لگے اول فول بکنے۔ ”ارے تم سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہو، سب بدمعاش ہو، دوست کے پائجامے میں ۔۔نہیں نہیں جامے میں دشمن ہو، سب گیدی ہو ، گیدی کے بچے ہو ، نالت ہے تم سب پر ، نالت ہے ایسی دوستی پر“۔ الغرض جو منہ میں آیا بکتے رہے ۔ خانصاحب، میر صاحب، شیخ جی وغیرہ کا کہیں پتہ نہ تھا باقی دوست احباب بھی سٹک گئے ۔ ہم نے بھی فلاح اسی میں پائی کہ مرزا کے ہتھے نہ چڑھ جائیں ۔




اس قصے میں مرزا کا کافی خرچہ ہو گیا اورمرزاایک عرصہ تک ناراض رہے ۔ بہرحال دو کام خیر کے ہو گئے ۔ایک تو یہ کہ ایک نوخیز دوشیزہ ، عقد ثالث کے آتش کدے پر شرعی طور پر ستی ہونے سے بچ گئی دوسرا یہ کہ مرزا نے پلٹ پلٹ کر عمر رفتہ کو آواز دینا چھوڑ دیا ، عطر سرمہ وسمہ کاجل ، مہندی پان ، قوام بیڑی، سگریٹ اور جوانی کے کایا کلپ والے نسخوں اور معجونوں کے اسراف سے ہمیشہ کے لئے نجات مل گئی ۔ خرچ اخراجات، گھر سے غیر حاضری ، بیوی بچوں سے بے توجہی ، گھریلو ذمہ داریوں سے پہلوتہی اور دروازے کھڑکیوں سے تاکا جھانکی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جھگڑوں اور گھریلو تن تناؤ میں خاصا فرق آ گیا اور مرزا پھر سے بچوں کو شفقت کی نگاہ اور بیوی کو شرارت کی نظر سے دیکھنے لگے گویا ایک اجڑتا ہوا گھر پھرسے بس گیا۔



موج ہوائے تیز رو ریت کو گُد گُدا گئی
مجھ کو بھٹکتے دیکھ کر ہنسنے لگے سراب بھی
اس محبت کے لئے ممنون ہوں جناب
اجازت لے کر کیوں شرمندہ کرتے ہیں :)
 

الشفاء

لائبریرین
ہم عمدہ لکھنا چاہ رہے تھے لیکن خیال آ جاتا تھا کہ کہیں یہ سوئے ادب نہ ہو۔ کہ بڑوں کی باتیں چھوٹوں کی تعریف کی محتاج نہیں ہوتیں۔ اس لئے یہی کہتے ہیں کہ
کیا بات ہے شاہ جی کی۔۔۔:)
 
ہم عمدہ لکھنا چاہ رہے تھے لیکن خیال آ جاتا تھا کہ کہیں یہ سوئے ادب نہ ہو۔ کہ بڑوں کی باتیں چھوٹوں کی تعریف کی محتاج نہیں ہوتیں۔ اس لئے یہی کہتے ہیں کہ
کیا بات ہے شاہ جی کی۔۔۔ :)
اس محبت اور حوصلہ افزائی کے لئے ممنون ہو :)
اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے
 

شمشاد

لائبریرین
میرزا صاحب کی شادی رکوا کر آپ نے اچھا نہیں کیا۔ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہیں ان کی ہا نہ لگ جائے۔

خوبصورت تحریر شریک محفل کرنے کا شکریہ۔
 
Top