محمد شکیل خورشید
محفلین
سر ایک نثری تحریر چند ماہ پہلے ایک آن لائن میگزین میں شامل ہو چکی، کیا یہاں قابلِ قبول ہو گی؟بھائی اتنی سخت شرائط نہیں ہیں۔ آپ کی کوئی کاوش کہیں اور فیسبک وغیرہ پر پیش کر چکے ہیں تب بھی یہاں پیش کیجیے۔
سر ایک نثری تحریر چند ماہ پہلے ایک آن لائن میگزین میں شامل ہو چکی، کیا یہاں قابلِ قبول ہو گی؟بھائی اتنی سخت شرائط نہیں ہیں۔ آپ کی کوئی کاوش کہیں اور فیسبک وغیرہ پر پیش کر چکے ہیں تب بھی یہاں پیش کیجیے۔
کھنڈر کے تلفظ پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے باقی غزل لاجواب ہے۔کسی کی تسبیح سے گری ہوں میں مثلِ موتی بکھر گئی ہوں
کسی کے دل میں اُتر گئی ہوں، کسی کے دل سے اُتر گئی ہوں
ہیں زائرینِ حرم ہراساں، صنم کدوں میں صنم پریشاں
ترے جہاں سے مرے خدایا، شناسا ہوتے ہی ڈر گئی ہوں
بڑا قلق تھا بڑی خلش تھی، سنور رہی تھی میں دھیرے دھیرے
بڑا مزہ ہے بڑی عطا ہے، بڑے سکوں سے بکھر گئی ہوں
مرے شناسا تری شناسائی کیا تماشا یہ کر گئی ہے
تھی اجنبیت سی اجنبیت، کبھی جو اپنے میں گھر گئی ہوں
وہ چشمِ حیرت، لبِ تبسم، عجیب جادو سا کر گئے ہیں
کسی کی صورت میں ڈھل گئی ہوں، بدل گئی ہوں، نکھر گئی ہوں
میں ایک اُجڑے محل کے کھنڈر بڑی ہی حیرت سے تک رہی تھی
وہ میرے مانند لگ رہا تھا، میں اس کے مانند اُجڑ گئی ہوں
از قلم فائضہ خان
پیش کردیجیے حوالے کے ساتھ۔سر ایک نثری تحریر چند ماہ پہلے ایک آن لائن میگزین میں شامل ہو چکی، کیا یہاں قابلِ قبول ہو گی؟
شکریہپیش کردیجیے حوالے کے ساتھ۔
ماشاءاللہ ،میں ایک اُجڑے محل کے کھنڈر بڑی ہی حیرت سے تک رہی تھی
وہ میرے مانند لگ رہا تھا، میں اس کے مانند اُجڑ گئی ہوں
میں ایک اُجڑے محل کے کھنڈر بڑی ہی حیرت سے تک رہی تھی
وہ میرے مانند لگ رہا تھا، میں اس کے مانند اُجڑ گئی ہوں
ماشاءاللہ ،
بہت لاجواب ، زبردست شعر
شاندار غزل ہے بہنا ۔
شکستہ تھے درو دیوار، گویا اِک کھنڈر تھا یہ
اور اب عرصے سے اِن شیطاں صفت روحوں کا گھر تھا یہ
سر ہم نے تو شعر کو مفہوم کے حوالے سے داد دی ہے ۔جس شعر پر ہم نے اعتراض کی جسارت کی تھی اسے استاد صاحب نے پاس کردیا ہے ورنہ ہم نے تو کھنڈر کو اس طرح استعمال کیا ہے۔
بلی، شیر اور انسان (بچوں کی کہانی)
ایک پالتو بلی بھولی بھٹکی قریبی جنگل میں آ نکلتی ہے۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے کے بعد اس کا سامنا شیر سے ہو جاتا ہے جو اس جنگل کا سردار ہوتا ہے۔ بلی قدرے خوف سے مگر محتاط ہو کر شیر کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے تا کہ جان بچانے کے لیے کوئی پینترا اختیار کر سکے۔
شیر نے اس سے قبل کسی بلی کو نہیں دیکھا تھا چناچہ وہ دیکھ کر بہت حیران ہوتا ہے اور اس چھوٹے جانور کا بغور مشاہدہ کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ بظاہر تو میرے جیسا جانور ہی ہے مگر جسامت میں اتنا چھوٹا کیوں ہے؟ جب اسے کچھ سمجھ نہیں آتی تو بالآخر وہ بلی سے مخاطب ہوتا ہے۔ کون ہو تم؟ دیکھنے میں تو مجھ جیسے ہی ہو مگر اتنے چھوٹے کیوں ہو؟
بلی سوچتی ہے کہ اگر اس کو حقیقت بتا دی اور یہ بھوکا بھی ہوا تو کہیں مجھے کھا ہی نہ جائے سو وہ اپنے شاطر دماغ کا استمعال کرتی ہے اور کچھ ہی دیر بعد شیر سے مخاطب ہوتی ہے کہ ہاں باشاہ سلامت! ہوں تو میں آپ ہی کی نسل سے اور پہلے تھی بھی آپ ہی کی جسامت میں مگر کیا بتاؤں، قریبی شہر میں ایک بہت ہی خطرناک جانور رہتا ہے اس نے مجھ پر اتنے ظلم کیئے ہیں کہ میں اتنی سی رہ گئی ہوں۔
کیا نام ہے اس بدذات کا؟ اور کیا وہ مجھ سے زیادہ خونخوار ہے؟ شیر غصّہ سے پاگل ہوتے ہوئے گرجا۔ بلی نے مظلومانہ انداز میں بتایا کہ اس وحشی درندے کو "انسان" کہتے ہیں۔ شیر نے چونکہ ابھی جوانی میں قدم رکھا ہی تھا اور تجربہ زیادہ نہ ہونے کے باعث وہ تاحال انسان سے بھی ناآشنا تھا۔
اپنی طاقت اور جوانی کے نشے میں شرابور شیر بلی کو حکم دیتا ہے کہ جاؤ اور کسی طریقہ سے اس جانور کو جنگل تک لے آؤ پھر دیکھتا ہو کہ وہ کیا بَلا ہے۔ بلی اپنی جان بچاتے ہوئے حکم کی تعمیل کے لیے وہاں سے چل دیتی ہے اور جس گھر کے باورچی خانے پر اس کی گذر بسر ہوتی ہے اس گھر کے مالک کا انتظار کرنے لگتی ہے۔ جیسے وہ گھر لوٹتا ہے بلی اسے ورغلا کر جنگل کی اور لے نکلتی ہے اور حیلے بہانے سے یکایک شیر کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے اور باآوازِ بلند کہتی ہے حضور! یہ ہے وہ درندہ صفت جس نے آپ کی نسل پر بے تحاشا ظلم کئے ہیں۔
انسان یک دم یہ ماجرہ دیکھ کر گھبرا جاتا ہے اور دم سادھ کر کھڑا جان بچانے کا سوچنے لگتا ہے۔ شیر انسان کے گرد چکر کاٹتے ہوئے اس کا جائزہ لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ نہ اس کے دانت بڑے ہیں نہ اس کا ناخنوں والا پنجہ ہے اور نہ ہی اس کی کھال بال دار اور سخت ہے تو یہ کیسے ظلم کرتا ہے۔؟ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک دم شیر انسان کے سامنے رکتا ہے اور گرجدار آواز میں پوچھتا ہے کہ میری نسل کے جانوروں پر اس قدر ظلم کیونکر کیئے کہ وہ اتنے سے رہ گئے؟ اب اس پاداش کی سزا میں مجھ سے لڑنے اور میرے ہاتھوں مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔
انسان یہ سب دیکھنے اور سننے کے بعد اندازہ لگاتا ہے کہ بلی نے اپنی جان بچانے کے لیے اسے کوئی من گھڑت کہانی سنائی ہوگی لہٰذا انسان شیر سے اپنی جان بچانے کے لیے اپنا دماغ لڑاتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں ایک تدبیر سوچنے کے بعد شیر کو جواباً للکارتا ہے اور بلی کی طرف اشارہ کہتا ہے کہ جب یہ تمہارے جتنی تھی تو اس نے بھی ایک دن اپنی نسل کا بدلا لینے کی ٹھانی تھی تم بھی اگر اس کی غلطی دہرانا چاہتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں اور میں تم جیسے کو سبق سیکھانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہوں۔ بلی موقع دیکھتے ہی قریبی درخت پر چڑھ جاتی ہے اور یہ سب مزے سے دیکھنے لگتی ہے۔
اس سے پہلے کہ شیر حملہ کرتا انسان پھر شیر کو مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ لڑائی شروع ہو، میں ایک بہت ضروری کام کرآؤں پھر تسلی سے تمہاری مرمت کروں گا۔ شیر اپنی دھلائی کی باتوں کو مضحکہ خیز سمجھتے ہوئے سوچتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان میرا مقابلہ کر سکے اور الٹا میری دھلائی کرسکے؟ ساتھ ہی ساتھ اسے شیر ( یعنی بلی) کو چھوٹا کرنے والے تشدد کی قسم کو جاننے کا بھی تجسس تھا لہٰذا شیر کہتا ہے جتنا وقت چاہیے لے لو مگر تم لڑائی میں مجھ سے جیت نہیں سکتے۔
انسان ضروری کام چند منٹوں میں کر کے واپس آنے کا کہتا ہے اور شیر کو پابند کرتا ہے کہ وہ یہیں اس کا انتظار کرے اور اس کے آنے تک کہیں بھاگ نہ جائے۔ شیر یہ سب باتیں سن کر قہقھہ لگاتا ہے اور کہتا ہے تم بھاگ سکتے ہو میں نہیں۔ انسان بھی یہ سن کر لازمی آنے کا وعدہ کرتا ہے اور چلنے لگتا ہے۔
شیر کی نظروں سے اوجھل ہونے سے پہلے ہی انسان واپس پلٹتا ہے اور شیر سے کہتا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ میرے واپس آنے تک تم یہاں سے بھاگ جاؤ گے لہٰذا میں تسلی چاہتا ہوں۔ شیر ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں میں بھلا کیوں بھاگوں گا؟ خیر! انسان کہتا ہے کہ مجھے پھر بھی یقین نہیں ہے لہذا میں تمہیں درخت کے ساتھ باندھ کر جاؤں گا۔ شیر اپنی طاقت کے نشے میں انسان کو اجازت دیتا ہے کہ تم اپنی تسلی کرلو۔ انسان ادھر ادھر سے رسی ڈھونڈتا ہے اور شیر کو درخت سے باندھ دیتا ہے اور جانے کے لیے مڑتا ہے کہ پھر رک جاتا ہے۔ اب کیا ہے؟ شیر پوچھتا ہے۔
یہ ایک رسی تو تم بندر یا کسی جانور سے کھلوا لو گے لہٰذا میں تمہارے ہاتھ پاؤں بھی باندھ کر جاؤں گا تا کہ تم بھاگ نہ سکو۔ شیر کہتا ہے اچھا یہ شوق بھی پورا کر لو۔ انسان اس کے ہاتھ پاؤں بھی باندھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب انتظار کرو میں ضروری کام کر کے ابھی آیا۔ یہ کہہ کر انسان چلتا ہے اور کچھ ہی دور سے ایک موٹا سا ڈنڈہ پکڑتا ہے اور پھر واپس لوٹتا ہے اور مار مار کر شیر کی ہڈی پسلی ایک کر دیتا ہے۔ پھر ہاتھ جھاڑتے ہوئے شیر سے کہتا ہے کہ اب یہیں انتظار کرو میں ضروری کام کر کے آتا ہوں اور تم سے دو ہاتھ کرتا ہوں۔
شیر پہلی مار سے ہی ادھ موا ہو چکا ہوتا ہے اور درد سے کراہتا ہوا سوچتا ہے کہ ابھی اس نے میرا یہ حال کر دیا ہے تو ضروری کام کے بعد واپس آکر میرے ساتھ کیا کرے گا۔ انسان جب اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے تو درد سے نڈھال شیر قریبی درخت پر بیٹھی بلی سے پوچھتا ہے:-
سنو! جب میں تمہارے جتنا رہ جاؤں گا تو یہ مجھے چھوڑ تو دے گا نا؟
لاجواب!!《 مات 》
کھل جا سم سم۔۔۔۔۔ کھل جا سم سم ۔۔۔ کھل جا سم سم ۔۔۔ عمر بھر کے اصولوں کی چٹان کے سرکنے کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی گئی ۔۔۔۔ سوچ کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی بازگشت اسقدر قریب سنائی دینے لگی گویا کنپٹیوں کی رگیں پھول کر پھٹ جائیں گی ۔۔۔۔ اس کے بعد مکمل خاموشی ۔۔۔۔۔ گہرا سکوت ۔۔۔۔۔ ایسا جمود کہ صبر نے بھی مرثیے پڑھ ڈالے کہ یہ ظلم ہے ظلم در ظلم ۔۔۔ کہ اس مغاک خاک کو مزید اذیت نہ دی جاوے ۔۔۔۔ میرے لب خاموش ہوچکے ہیں کہ گنجفہ کے چھیانوے پتوں کی چال چلی جاچکی کہ آٹھ رنگوں میں روز و شب یوں رنگا گیا کہ تین میں تقسیم ہوتی رہی ۔۔۔۔ تلخیِ ایام کو گھونٹ گھونٹ پی کر ہر بار یہی گمان رہا کہ مسافت ختم ہونے کو ہے پر ۔۔۔۔۔ اپنی اپنی حسرتوں کے جام تھامے۔۔۔۔ سبھی مےخوار دائرے میں پاسے پھینکتے گئے ۔۔۔
میں چھیانوے بار تمہاری ہار جیت میں تقسیم کردی گئی ۔۔۔ہر پتا تم بڑے مان سے پٹختے تھے اور میں اسی مان سے ہوا میں لہراتے ہوئے خود کو زمین کی سختی پر چور چور ہوتا محسوس کرتی رہی کہ وقت آخر جیت میری ہے۔۔۔۔
بس اب تو جیت میرا مقدر ہوئی تو اب ہوئی لیکن ۔۔۔۔ آخری حد پر بھی پاسے کے پلٹتے پلٹتے پھر تین میں بٹ گئی ۔۔۔۔
شطرنج کی کھلاڑی۔۔۔۔ کالے سفید رنگ میں دنیا کھوجنے والی۔۔۔۔ اپنی ذات میں بتیس مہروں جیسی میں "شاہ زادی" ۔۔۔۔ مجھے میرا شہ بچانا تھا ۔۔۔ اس شہ کو سبھی خانوں میں آزاد رکھ کر خود کالے خانوں میں مقید رہی کیونکہ مجھے جذب کرنا تھا ۔۔۔۔ کہ ۔۔۔
سفید رنگ سے سب رنگ پهوٹتے ہیں اور کالے رنگ میں سب جذب ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ عشق سفید ہے ۔۔۔۔ عشق کالا ہے۔۔۔۔۔
یہی وعظ دیتے دیتے میرا گلا بیٹھ چکا ہے ۔۔مگر۔۔۔۔ میری ہمت کسی مرد مجاہد کی طرح چند لمحہ قبل تک جوان تھی کہ گنجفہ کے تیسرے شہ کو مات دیکر میں نے اپنا شہ بچا لیا۔۔۔۔پر ۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔ کہ عدم کی مٹی سے اپنا نصیب لکھوا بیٹھی ۔۔۔ اپنی بساط سے بڑھ کر تمہاری ہوتی گئی ۔۔۔۔ اب مجھ پر موت کی اذیت گراں نہ گزرے گی۔۔۔۔ کہ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔
آؤ سوختہ جگر ۔۔۔۔۔ آؤ مرض عشق کے اسیرو۔۔۔۔ سنو ۔۔۔ جاں نثاری کے شدید جذبے میں پوشیدہ "جبر" کی دلکشی عین اس وقت بے نقاب ہوئی جب کشتیوں کی راکھ بھی ناجائز بچے کی مانند کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی گئی ۔۔۔۔
مجھے رشک آتا تھا پروانے کی قسمت پر کہ
کتنی مدت سے وہ اس دن کا منتظر رہتا ہے جب شمع کی لو اُسے جلائے گی ۔۔۔۔ عجیب کیفیت سے دوچار۔۔۔۔۔ ایک عجیب طمانیت کے ساتھ اپنے پروں کو جلتا دیکھے گا ۔۔۔۔طواف کرتے کرتے آخر کو جاں نچاور کر دیگا ۔۔۔۔ اور شمع اپنی مدھم ہوتی لو میں سب منظر دھندلا کر اسکی خاک کو بھی بے وقعت کردے گی کہ جلنا تو پروانے کا فرض تھا۔۔۔ اب اس میں کیسی قبولیت کیسا مان؟ ۔۔۔
اسطرح تو نہ داستاں گو کا قصہ ختم ہووے ہے نہ ہی شب کی درمیانی پہر کا کسیلا پن ۔۔۔۔۔
تم عروج ٹھہرے اور میں زوال ۔۔۔۔
میں "شاہ زادی" اپنا زوال قبول کرتی ہوں کہ اس کائنات کی کوئی شے تمہیں مطمئن نہ کرسکی سوائے میرے۔۔۔۔ مگر دیکھو مجھے مات ہوئی ۔۔۔
میں قبول کرتی ہوں کہ محبت کی بنیاد کی پختگی میں جو جذبوں کا گارا استعمال ہوا وہ میرے لیے تو تھا ہی نہیں مگر محبت کے محل کی عمارت کی پختگی دیکھو اس کو بڑے بڑے طوفاں بھی نہ ہلا سکے ۔۔۔۔ مگر مجھے مات ہوئی ۔۔۔
لو قبول کیا کہ محبت سے عشق کے کٹھن زینے کو چڑھنے کے لیے مجھے آنکھوں کے بل آنا پڑا ۔۔۔۔ اور جب میں نے آخری سیڑھی پر قدم رکھا تو عشق کی کرن تمہارے دل میں ابھری یعنی لمبی مسافت تک میں تنہا تھی؟ ۔۔۔۔ تم عروج ہو میرا زوال ہوا کہ ۔۔۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔
یہ محبت میری کوکھ سے پھوٹی تھی اسکو اپنی انا کی خاتمے کا اناج کھلا کر عشق میں نے بنایا آج تم اس کے سرپرست بننا چاہتے ہو ؟ ۔۔۔۔
جبکہ تمہیں تب تو محبت ہی نہ تھی جب تم بھی اسکی تخلیق کے مراحل میں میرے ساتھ کھڑے تھے ۔۔۔ وہ تو محض تمہارا گمان تھا وہ سایہ تھا ۔۔۔۔ میں تو تنہا تھی روتی بلکتی اجڑتی بکھرتی ۔۔۔۔ آج تم فاتح ٹھہرے ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔
سنو ۔۔۔
تمہیں جیت دے کر میں نے مات قبول کی ۔۔۔۔۔ کہ یہ عشق میں تمہیں " اپنے ہوش و حواس میں سونپتی ہوں کہ تم تنہا اس کے سرپرست ٹھہرے "۔۔۔
جانتے ہو روشنی گدلے پانی سے نہیں چھنتی۔۔۔۔۔ وہ خود گدلی ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ میں نے گھوڑے کی ڈھائی گھر کی چال چل کر ۔۔۔۔ تمہیں گدلا ہونے سے بچا لیا۔۔
از قلم فائضہ خان
بےحد نوازش جناب ۔۔۔۔
لاجواب!!
ہماری لا المیٰ بٹیا جناب نہیں، خاتون ہیں!!!بےحد نوازش جناب ۔۔۔۔
زبردست، بہت گہرائی ہے موضوعاتی بھی اور ٹریٹمنٹ میں بھی《 مات 》
کھل جا سم سم۔۔۔۔۔ کھل جا سم سم ۔۔۔ کھل جا سم سم ۔۔۔ عمر بھر کے اصولوں کی چٹان کے سرکنے کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی گئی ۔۔۔۔ سوچ کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی بازگشت اسقدر قریب سنائی دینے لگی گویا کنپٹیوں کی رگیں پھول کر پھٹ جائیں گی ۔۔۔۔ اس کے بعد مکمل خاموشی ۔۔۔۔۔ گہرا سکوت ۔۔۔۔۔ ایسا جمود کہ صبر نے بھی مرثیے پڑھ ڈالے کہ یہ ظلم ہے ظلم در ظلم ۔۔۔ کہ اس مغاک خاک کو مزید اذیت نہ دی جاوے ۔۔۔۔ میرے لب خاموش ہوچکے ہیں کہ گنجفہ کے چھیانوے پتوں کی چال چلی جاچکی کہ آٹھ رنگوں میں روز و شب یوں رنگا گیا کہ تین میں تقسیم ہوتی رہی ۔۔۔۔ تلخیِ ایام کو گھونٹ گھونٹ پی کر ہر بار یہی گمان رہا کہ مسافت ختم ہونے کو ہے پر ۔۔۔۔۔ اپنی اپنی حسرتوں کے جام تھامے۔۔۔۔ سبھی مےخوار دائرے میں پاسے پھینکتے گئے ۔۔۔
میں چھیانوے بار تمہاری ہار جیت میں تقسیم کردی گئی ۔۔۔ہر پتا تم بڑے مان سے پٹختے تھے اور میں اسی مان سے ہوا میں لہراتے ہوئے خود کو زمین کی سختی پر چور چور ہوتا محسوس کرتی رہی کہ وقت آخر جیت میری ہے۔۔۔۔
بس اب تو جیت میرا مقدر ہوئی تو اب ہوئی لیکن ۔۔۔۔ آخری حد پر بھی پاسے کے پلٹتے پلٹتے پھر تین میں بٹ گئی ۔۔۔۔
شطرنج کی کھلاڑی۔۔۔۔ کالے سفید رنگ میں دنیا کھوجنے والی۔۔۔۔ اپنی ذات میں بتیس مہروں جیسی میں "شاہ زادی" ۔۔۔۔ مجھے میرا شہ بچانا تھا ۔۔۔ اس شہ کو سبھی خانوں میں آزاد رکھ کر خود کالے خانوں میں مقید رہی کیونکہ مجھے جذب کرنا تھا ۔۔۔۔ کہ ۔۔۔
سفید رنگ سے سب رنگ پهوٹتے ہیں اور کالے رنگ میں سب جذب ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ عشق سفید ہے ۔۔۔۔ عشق کالا ہے۔۔۔۔۔
یہی وعظ دیتے دیتے میرا گلا بیٹھ چکا ہے ۔۔مگر۔۔۔۔ میری ہمت کسی مرد مجاہد کی طرح چند لمحہ قبل تک جوان تھی کہ گنجفہ کے تیسرے شہ کو مات دیکر میں نے اپنا شہ بچا لیا۔۔۔۔پر ۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔ کہ عدم کی مٹی سے اپنا نصیب لکھوا بیٹھی ۔۔۔ اپنی بساط سے بڑھ کر تمہاری ہوتی گئی ۔۔۔۔ اب مجھ پر موت کی اذیت گراں نہ گزرے گی۔۔۔۔ کہ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔
آؤ سوختہ جگر ۔۔۔۔۔ آؤ مرض عشق کے اسیرو۔۔۔۔ سنو ۔۔۔ جاں نثاری کے شدید جذبے میں پوشیدہ "جبر" کی دلکشی عین اس وقت بے نقاب ہوئی جب کشتیوں کی راکھ بھی ناجائز بچے کی مانند کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی گئی ۔۔۔۔
مجھے رشک آتا تھا پروانے کی قسمت پر کہ
کتنی مدت سے وہ اس دن کا منتظر رہتا ہے جب شمع کی لو اُسے جلائے گی ۔۔۔۔ عجیب کیفیت سے دوچار۔۔۔۔۔ ایک عجیب طمانیت کے ساتھ اپنے پروں کو جلتا دیکھے گا ۔۔۔۔طواف کرتے کرتے آخر کو جاں نچاور کر دیگا ۔۔۔۔ اور شمع اپنی مدھم ہوتی لو میں سب منظر دھندلا کر اسکی خاک کو بھی بے وقعت کردے گی کہ جلنا تو پروانے کا فرض تھا۔۔۔ اب اس میں کیسی قبولیت کیسا مان؟ ۔۔۔
اسطرح تو نہ داستاں گو کا قصہ ختم ہووے ہے نہ ہی شب کی درمیانی پہر کا کسیلا پن ۔۔۔۔۔
تم عروج ٹھہرے اور میں زوال ۔۔۔۔
میں "شاہ زادی" اپنا زوال قبول کرتی ہوں کہ اس کائنات کی کوئی شے تمہیں مطمئن نہ کرسکی سوائے میرے۔۔۔۔ مگر دیکھو مجھے مات ہوئی ۔۔۔
میں قبول کرتی ہوں کہ محبت کی بنیاد کی پختگی میں جو جذبوں کا گارا استعمال ہوا وہ میرے لیے تو تھا ہی نہیں مگر محبت کے محل کی عمارت کی پختگی دیکھو اس کو بڑے بڑے طوفاں بھی نہ ہلا سکے ۔۔۔۔ مگر مجھے مات ہوئی ۔۔۔
لو قبول کیا کہ محبت سے عشق کے کٹھن زینے کو چڑھنے کے لیے مجھے آنکھوں کے بل آنا پڑا ۔۔۔۔ اور جب میں نے آخری سیڑھی پر قدم رکھا تو عشق کی کرن تمہارے دل میں ابھری یعنی لمبی مسافت تک میں تنہا تھی؟ ۔۔۔۔ تم عروج ہو میرا زوال ہوا کہ ۔۔۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔۔
یہ محبت میری کوکھ سے پھوٹی تھی اسکو اپنی انا کی خاتمے کا اناج کھلا کر عشق میں نے بنایا آج تم اس کے سرپرست بننا چاہتے ہو ؟ ۔۔۔۔
جبکہ تمہیں تب تو محبت ہی نہ تھی جب تم بھی اسکی تخلیق کے مراحل میں میرے ساتھ کھڑے تھے ۔۔۔ وہ تو محض تمہارا گمان تھا وہ سایہ تھا ۔۔۔۔ میں تو تنہا تھی روتی بلکتی اجڑتی بکھرتی ۔۔۔۔ آج تم فاتح ٹھہرے ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ مجھے مات ہوئی ۔۔۔
سنو ۔۔۔
تمہیں جیت دے کر میں نے مات قبول کی ۔۔۔۔۔ کہ یہ عشق میں تمہیں " اپنے ہوش و حواس میں سونپتی ہوں کہ تم تنہا اس کے سرپرست ٹھہرے "۔۔۔
جانتے ہو روشنی گدلے پانی سے نہیں چھنتی۔۔۔۔۔ وہ خود گدلی ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ میں نے گھوڑے کی ڈھائی گھر کی چال چل کر ۔۔۔۔ تمہیں گدلا ہونے سے بچا لیا۔۔
از قلم فائضہ خان
ھاھھاھا جی مجھے معلوم ہے ۔۔۔ ویسے مجھے لگا جناب مونث مذکر دونوں کے ساتھ لکھا جاسکتا ہے ۔۔۔۔ اسی زمرے میں جناب لکھا ۔۔۔ ورنہ صاحبہ لکھ دیتی ۔۔۔ہماری لا المیٰ بٹیا جناب نہیں، خاتون ہیں!!!
بہت شکریہ سر ۔۔۔۔زبردست، بہت گہرائی ہے موضوعاتی بھی اور ٹریٹمنٹ میں بھی