سید عمران
محفلین
اسی کو کہتے ہیں۔۔۔عدنان بھائی ! آپ مفتی صاحب پر اپنا وقت نہ لگائیں بلکہ کہیں سکون والی جگہ بیٹھ کر رسالے کے لئے اپنی تحریر لکھیے۔
آپ اپنے دام میں صیاد آگیا!!!
اسی کو کہتے ہیں۔۔۔عدنان بھائی ! آپ مفتی صاحب پر اپنا وقت نہ لگائیں بلکہ کہیں سکون والی جگہ بیٹھ کر رسالے کے لئے اپنی تحریر لکھیے۔
ماشاء اللہ!!!جی تو شروع کریں بسم اللہ کہہ کر
کہانی تو بہت دلچسپ ہے۔ لیکن میری ناقص رائے میں اسے ماضی کے صیغہ میں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ آپس کی بات چیت بھی مکالموں کی شکل میں ہو تو کہانی کو چار چاند لگ جائیں ۔بلی، شیر اور انسان (بچوں کی کہانی)
ایک پالتو بلی بھولی بھٹکی قریبی جنگل میں آ نکلتی ہے۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے کے بعد اس کا سامنا شیر سے ہو جاتا ہے جو اس جنگل کا سردار ہوتا ہے۔ بلی قدرے خوف سے مگر محتاط ہو کر شیر کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے تا کہ جان بچانے کے لیے کوئی پینترا اختیار کر سکے۔
شیر نے اس سے قبل کسی بلی کو نہیں دیکھا تھا چناچہ وہ دیکھ کر بہت حیران ہوتا ہے اور اس چھوٹے جانور کا بغور مشاہدہ کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ بظاہر تو میرے جیسا جانور ہی ہے مگر جسامت میں اتنا چھوٹا کیوں ہے؟ جب اسے کچھ سمجھ نہیں آتی تو بالآخر وہ بلی سے مخاطب ہوتا ہے۔ کون ہو تم؟ دیکھنے میں تو مجھ جیسے ہی ہو مگر اتنے چھوٹے کیوں ہو؟
بلی سوچتی ہے کہ اگر اس کو حقیقت بتا دی اور یہ بھوکا بھی ہوا تو کہیں مجھے کھا ہی نہ جائے سو وہ اپنے شاطر دماغ کا استمعال کرتی ہے اور کچھ ہی دیر بعد شیر سے مخاطب ہوتی ہے کہ ہاں باشاہ سلامت! ہوں تو میں آپ ہی کی نسل سے اور پہلے تھی بھی آپ ہی کی جسامت میں مگر کیا بتاؤں، قریبی شہر میں ایک بہت ہی خطرناک جانور رہتا ہے اس نے مجھ پر اتنے ظلم کیئے ہیں کہ میں اتنی سی رہ گئی ہوں۔
کیا نام ہے اس بدذات کا؟ اور کیا وہ مجھ سے زیادہ خونخوار ہے؟ شیر غصّہ سے پاگل ہوتے ہوئے گرجا۔ بلی نے مظلومانہ انداز میں بتایا کہ اس وحشی درندے کو "انسان" کہتے ہیں۔ شیر نے چونکہ ابھی جوانی میں قدم رکھا ہی تھا اور تجربہ زیادہ نہ ہونے کے باعث وہ تاحال انسان سے بھی ناآشنا تھا۔
اپنی طاقت اور جوانی کے نشے میں شرابور شیر بلی کو حکم دیتا ہے کہ جاؤ اور کسی طریقہ سے اس جانور کو جنگل تک لے آؤ پھر دیکھتا ہو کہ وہ کیا بَلا ہے۔ بلی اپنی جان بچاتے ہوئے حکم کی تعمیل کے لیے وہاں سے چل دیتی ہے اور جس گھر کے باورچی خانے پر اس کی گذر بسر ہوتی ہے اس گھر کے مالک کا انتظار کرنے لگتی ہے۔ جیسے وہ گھر لوٹتا ہے بلی اسے ورغلا کر جنگل کی اور لے نکلتی ہے اور حیلے بہانے سے یکایک شیر کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے اور باآوازِ بلند کہتی ہے حضور! یہ ہے وہ درندہ صفت جس نے آپ کی نسل پر بے تحاشا ظلم کئے ہیں۔
انسان یک دم یہ ماجرہ دیکھ کر گھبرا جاتا ہے اور دم سادھ کر کھڑا جان بچانے کا سوچنے لگتا ہے۔ شیر انسان کے گرد چکر کاٹتے ہوئے اس کا جائزہ لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ نہ اس کے دانت بڑے ہیں نہ اس کا ناخنوں والا پنجہ ہے اور نہ ہی اس کی کھال بال دار اور سخت ہے تو یہ کیسے ظلم کرتا ہے۔؟ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک دم شیر انسان کے سامنے رکتا ہے اور گرجدار آواز میں پوچھتا ہے کہ میری نسل کے جانوروں پر اس قدر ظلم کیونکر کیئے کہ وہ اتنے سے رہ گئے؟ اب اس پاداش کی سزا میں مجھ سے لڑنے اور میرے ہاتھوں مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔
انسان یہ سب دیکھنے اور سننے کے بعد اندازہ لگاتا ہے کہ بلی نے اپنی جان بچانے کے لیے اسے کوئی من گھڑت کہانی سنائی ہوگی لہٰذا انسان شیر سے اپنی جان بچانے کے لیے اپنا دماغ لڑاتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں ایک تدبیر سوچنے کے بعد شیر کو جواباً للکارتا ہے اور بلی کی طرف اشارہ کہتا ہے کہ جب یہ تمہارے جتنی تھی تو اس نے بھی ایک دن اپنی نسل کا بدلا لینے کی ٹھانی تھی تم بھی اگر اس کی غلطی دہرانا چاہتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں اور میں تم جیسے کو سبق سیکھانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہوں۔ بلی موقع دیکھتے ہی قریبی درخت پر چڑھ جاتی ہے اور یہ سب مزے سے دیکھنے لگتی ہے۔
اس سے پہلے کہ شیر حملہ کرتا انسان پھر شیر کو مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ لڑائی شروع ہو، میں ایک بہت ضروری کام کرآؤں پھر تسلی سے تمہاری مرمت کروں گا۔ شیر اپنی دھلائی کی باتوں کو مضحکہ خیز سمجھتے ہوئے سوچتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان میرا مقابلہ کر سکے اور الٹا میری دھلائی کرسکے؟ ساتھ ہی ساتھ اسے شیر ( یعنی بلی) کو چھوٹا کرنے والے تشدد کی قسم کو جاننے کا بھی تجسس تھا لہٰذا شیر کہتا ہے جتنا وقت چاہیے لے لو مگر تم لڑائی میں مجھ سے جیت نہیں سکتے۔
انسان ضروری کام چند منٹوں میں کر کے واپس آنے کا کہتا ہے اور شیر کو پابند کرتا ہے کہ وہ یہیں اس کا انتظار کرے اور اس کے آنے تک کہیں بھاگ نہ جائے۔ شیر یہ سب باتیں سن کر قہقھہ لگاتا ہے اور کہتا ہے تم بھاگ سکتے ہو میں نہیں۔ انسان بھی یہ سن کر لازمی آنے کا وعدہ کرتا ہے اور چلنے لگتا ہے۔
شیر کی نظروں سے اوجھل ہونے سے پہلے ہی انسان واپس پلٹتا ہے اور شیر سے کہتا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ میرے واپس آنے تک تم یہاں سے بھاگ جاؤ گے لہٰذا میں تسلی چاہتا ہوں۔ شیر ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں میں بھلا کیوں بھاگوں گا؟ خیر! انسان کہتا ہے کہ مجھے پھر بھی یقین نہیں ہے لہذا میں تمہیں درخت کے ساتھ باندھ کر جاؤں گا۔ شیر اپنی طاقت کے نشے میں انسان کو اجازت دیتا ہے کہ تم اپنی تسلی کرلو۔ انسان ادھر ادھر سے رسی ڈھونڈتا ہے اور شیر کو درخت سے باندھ دیتا ہے اور جانے کے لیے مڑتا ہے کہ پھر رک جاتا ہے۔ اب کیا ہے؟ شیر پوچھتا ہے۔
یہ ایک رسی تو تم بندر یا کسی جانور سے کھلوا لو گے لہٰذا میں تمہارے ہاتھ پاؤں بھی باندھ کر جاؤں گا تا کہ تم بھاگ نہ سکو۔ شیر کہتا ہے اچھا یہ شوق بھی پورا کر لو۔ انسان اس کے ہاتھ پاؤں بھی باندھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب انتظار کرو میں ضروری کام کر کے ابھی آیا۔ یہ کہہ کر انسان چلتا ہے اور کچھ ہی دور سے ایک موٹا سا ڈنڈہ پکڑتا ہے اور پھر واپس لوٹتا ہے اور مار مار کر شیر کی ہڈی پسلی ایک کر دیتا ہے۔ پھر ہاتھ جھاڑتے ہوئے شیر سے کہتا ہے کہ اب یہیں انتظار کرو میں ضروری کام کر کے آتا ہوں اور تم سے دو ہاتھ کرتا ہوں۔
شیر پہلی مار سے ہی ادھ موا ہو چکا ہوتا ہے اور درد سے کراہتا ہوا سوچتا ہے کہ ابھی اس نے میرا یہ حال کر دیا ہے تو ضروری کام کے بعد واپس آکر میرے ساتھ کیا کرے گا۔ انسان جب اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے تو درد سے نڈھال شیر قریبی درخت پر بیٹھی بلی سے پوچھتا ہے:-
سنو! جب میں تمہارے جتنا رہ جاؤں گا تو یہ مجھے چھوڑ تو دے گا نا؟
احمد بھائی میری رائے میں اس مجلہ کا کوئی مختلف نام ہونا چاہئے ۔ اردومحفل تو موجود ہے ہی ۔ اگر آپ چاہیں تو میں ایک دو نام تجویز کرسکتا ہوں ۔
سب لکھاری حضرات توجہ فرمائیں اور احمد بھائی کو رپورٹ کریں ۔
سید عمران ، نور وجدان ، نوید ناظم ، زیرک ، با ادب ، سحرش سحر ، ام اویس ، فائضہ خان ، محمد نعیم وڑائچ ، احمد محمد ، یاسر شاہ ، شاہد بھائی ، فلک شیر ، نیرنگ خیال ، محمداحمد ، الشفاء ، افتخاررحمانی فاخر ، منہاج علی ، نسیم زہرہ ، عبدالقیوم چوہدری ۔
بھائی اتنی سخت شرائط نہیں ہیں۔ آپ کی کوئی کاوش کہیں اور فیسبک وغیرہ پر پیش کر چکے ہیں تب بھی یہاں پیش کیجیے۔دوسرا وہ کہیں بھی پبلش نہ ہو یہاں بھی نہ ہو علاوہ ازیں فیسبک پہ بھی کیا ؟؟؟
بھائی اتنی سخت شرائط نہیں ہیں۔ آپ کی کوئی کاوش کہیں اور فیسبک وغیرہ پر پیش کر چکے ہیں تب بھی یہاں پیش کیجیے۔
ریٹنگ کی سہولت ابھی آپ کو حاصل نہیں ہے ۔یہ سہولت آپ کو 50 پوسٹ یا مراسلوں کے بعد حاصل ہوگی ۔نہ ہی لائک کے آپشن سمجھ آرہے ہیں ۔۔۔
ریٹنگ کی سہولت پچاس مراسلے مکمل ہونے کے بعد ملے گی۔نہ ہی لائک کے آپشن سمجھ آرہے ہیں ۔۔۔ اور نہ ہی یہ کہ اپنی تحاریر پر کیسے ٹیگ کروں ۔۔۔
یہ بچوں کی وہ کہانی ہے جسے بڑے بھی پڑھ سکتے ہیں، زبردستبلی، شیر اور انسان (بچوں کی کہانی)
ایک پالتو بلی بھولی بھٹکی قریبی جنگل میں آ نکلتی ہے۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے کے بعد اس کا سامنا شیر سے ہو جاتا ہے جو اس جنگل کا سردار ہوتا ہے۔ بلی قدرے خوف سے مگر محتاط ہو کر شیر کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے تا کہ جان بچانے کے لیے کوئی پینترا اختیار کر سکے۔
شیر نے اس سے قبل کسی بلی کو نہیں دیکھا تھا چناچہ وہ دیکھ کر بہت حیران ہوتا ہے اور اس چھوٹے جانور کا بغور مشاہدہ کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ بظاہر تو میرے جیسا جانور ہی ہے مگر جسامت میں اتنا چھوٹا کیوں ہے؟ جب اسے کچھ سمجھ نہیں آتی تو بالآخر وہ بلی سے مخاطب ہوتا ہے۔ کون ہو تم؟ دیکھنے میں تو مجھ جیسے ہی ہو مگر اتنے چھوٹے کیوں ہو؟
بلی سوچتی ہے کہ اگر اس کو حقیقت بتا دی اور یہ بھوکا بھی ہوا تو کہیں مجھے کھا ہی نہ جائے سو وہ اپنے شاطر دماغ کا استمعال کرتی ہے اور کچھ ہی دیر بعد شیر سے مخاطب ہوتی ہے کہ ہاں باشاہ سلامت! ہوں تو میں آپ ہی کی نسل سے اور پہلے تھی بھی آپ ہی کی جسامت میں مگر کیا بتاؤں، قریبی شہر میں ایک بہت ہی خطرناک جانور رہتا ہے اس نے مجھ پر اتنے ظلم کیئے ہیں کہ میں اتنی سی رہ گئی ہوں۔
کیا نام ہے اس بدذات کا؟ اور کیا وہ مجھ سے زیادہ خونخوار ہے؟ شیر غصّہ سے پاگل ہوتے ہوئے گرجا۔ بلی نے مظلومانہ انداز میں بتایا کہ اس وحشی درندے کو "انسان" کہتے ہیں۔ شیر نے چونکہ ابھی جوانی میں قدم رکھا ہی تھا اور تجربہ زیادہ نہ ہونے کے باعث وہ تاحال انسان سے بھی ناآشنا تھا۔
اپنی طاقت اور جوانی کے نشے میں شرابور شیر بلی کو حکم دیتا ہے کہ جاؤ اور کسی طریقہ سے اس جانور کو جنگل تک لے آؤ پھر دیکھتا ہو کہ وہ کیا بَلا ہے۔ بلی اپنی جان بچاتے ہوئے حکم کی تعمیل کے لیے وہاں سے چل دیتی ہے اور جس گھر کے باورچی خانے پر اس کی گذر بسر ہوتی ہے اس گھر کے مالک کا انتظار کرنے لگتی ہے۔ جیسے وہ گھر لوٹتا ہے بلی اسے ورغلا کر جنگل کی اور لے نکلتی ہے اور حیلے بہانے سے یکایک شیر کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے اور باآوازِ بلند کہتی ہے حضور! یہ ہے وہ درندہ صفت جس نے آپ کی نسل پر بے تحاشا ظلم کئے ہیں۔
انسان یک دم یہ ماجرہ دیکھ کر گھبرا جاتا ہے اور دم سادھ کر کھڑا جان بچانے کا سوچنے لگتا ہے۔ شیر انسان کے گرد چکر کاٹتے ہوئے اس کا جائزہ لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ نہ اس کے دانت بڑے ہیں نہ اس کا ناخنوں والا پنجہ ہے اور نہ ہی اس کی کھال بال دار اور سخت ہے تو یہ کیسے ظلم کرتا ہے۔؟ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک دم شیر انسان کے سامنے رکتا ہے اور گرجدار آواز میں پوچھتا ہے کہ میری نسل کے جانوروں پر اس قدر ظلم کیونکر کیئے کہ وہ اتنے سے رہ گئے؟ اب اس پاداش کی سزا میں مجھ سے لڑنے اور میرے ہاتھوں مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔
انسان یہ سب دیکھنے اور سننے کے بعد اندازہ لگاتا ہے کہ بلی نے اپنی جان بچانے کے لیے اسے کوئی من گھڑت کہانی سنائی ہوگی لہٰذا انسان شیر سے اپنی جان بچانے کے لیے اپنا دماغ لڑاتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں ایک تدبیر سوچنے کے بعد شیر کو جواباً للکارتا ہے اور بلی کی طرف اشارہ کہتا ہے کہ جب یہ تمہارے جتنی تھی تو اس نے بھی ایک دن اپنی نسل کا بدلا لینے کی ٹھانی تھی تم بھی اگر اس کی غلطی دہرانا چاہتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں اور میں تم جیسے کو سبق سیکھانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہوں۔ بلی موقع دیکھتے ہی قریبی درخت پر چڑھ جاتی ہے اور یہ سب مزے سے دیکھنے لگتی ہے۔
اس سے پہلے کہ شیر حملہ کرتا انسان پھر شیر کو مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ لڑائی شروع ہو، میں ایک بہت ضروری کام کرآؤں پھر تسلی سے تمہاری مرمت کروں گا۔ شیر اپنی دھلائی کی باتوں کو مضحکہ خیز سمجھتے ہوئے سوچتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان میرا مقابلہ کر سکے اور الٹا میری دھلائی کرسکے؟ ساتھ ہی ساتھ اسے شیر ( یعنی بلی) کو چھوٹا کرنے والے تشدد کی قسم کو جاننے کا بھی تجسس تھا لہٰذا شیر کہتا ہے جتنا وقت چاہیے لے لو مگر تم لڑائی میں مجھ سے جیت نہیں سکتے۔
انسان ضروری کام چند منٹوں میں کر کے واپس آنے کا کہتا ہے اور شیر کو پابند کرتا ہے کہ وہ یہیں اس کا انتظار کرے اور اس کے آنے تک کہیں بھاگ نہ جائے۔ شیر یہ سب باتیں سن کر قہقھہ لگاتا ہے اور کہتا ہے تم بھاگ سکتے ہو میں نہیں۔ انسان بھی یہ سن کر لازمی آنے کا وعدہ کرتا ہے اور چلنے لگتا ہے۔
شیر کی نظروں سے اوجھل ہونے سے پہلے ہی انسان واپس پلٹتا ہے اور شیر سے کہتا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ میرے واپس آنے تک تم یہاں سے بھاگ جاؤ گے لہٰذا میں تسلی چاہتا ہوں۔ شیر ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں میں بھلا کیوں بھاگوں گا؟ خیر! انسان کہتا ہے کہ مجھے پھر بھی یقین نہیں ہے لہذا میں تمہیں درخت کے ساتھ باندھ کر جاؤں گا۔ شیر اپنی طاقت کے نشے میں انسان کو اجازت دیتا ہے کہ تم اپنی تسلی کرلو۔ انسان ادھر ادھر سے رسی ڈھونڈتا ہے اور شیر کو درخت سے باندھ دیتا ہے اور جانے کے لیے مڑتا ہے کہ پھر رک جاتا ہے۔ اب کیا ہے؟ شیر پوچھتا ہے۔
یہ ایک رسی تو تم بندر یا کسی جانور سے کھلوا لو گے لہٰذا میں تمہارے ہاتھ پاؤں بھی باندھ کر جاؤں گا تا کہ تم بھاگ نہ سکو۔ شیر کہتا ہے اچھا یہ شوق بھی پورا کر لو۔ انسان اس کے ہاتھ پاؤں بھی باندھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب انتظار کرو میں ضروری کام کر کے ابھی آیا۔ یہ کہہ کر انسان چلتا ہے اور کچھ ہی دور سے ایک موٹا سا ڈنڈہ پکڑتا ہے اور پھر واپس لوٹتا ہے اور مار مار کر شیر کی ہڈی پسلی ایک کر دیتا ہے۔ پھر ہاتھ جھاڑتے ہوئے شیر سے کہتا ہے کہ اب یہیں انتظار کرو میں ضروری کام کر کے آتا ہوں اور تم سے دو ہاتھ کرتا ہوں۔
شیر پہلی مار سے ہی ادھ موا ہو چکا ہوتا ہے اور درد سے کراہتا ہوا سوچتا ہے کہ ابھی اس نے میرا یہ حال کر دیا ہے تو ضروری کام کے بعد واپس آکر میرے ساتھ کیا کرے گا۔ انسان جب اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے تو درد سے نڈھال شیر قریبی درخت پر بیٹھی بلی سے پوچھتا ہے:-
سنو! جب میں تمہارے جتنا رہ جاؤں گا تو یہ مجھے چھوڑ تو دے گا نا؟
بہت شکریہ سر